گناہوں سے نیکی کی طرف

مصنف : محمد یوسف ملک

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : فروری2015

من الظلمت الی النور
گناہوں سے نیکی کی طرف
محمد یوسف ملک

میرا نام محمد یوسف ملک ہے، سرینگر کے بتہ مالو علاقے کا رہنے والا ہوں اور آج کل ایک ٹور اینڈ ٹریول ایجنسی چلا رہا ہوں۔ ایمان و ہدایت کی طرف واپسی کی میری حقیقی کہانی بڑی دلچسپ ہے، شاید کچھ لوگوں کے لیے باعثِ عبرت ہو، اسی لیے قارئین کے ساتھ share کرنا چاہتا ہوں۔
میں ۱۹۷۵میں سرینگر میں پیدا ہوا۔ ۱۹۹۷ میں ایس پی کالج سے گریجویشن کی۔ اس سے چند سال قبل ہی ایکٹنگ (اداکاری) کے ساتھ میری دلچسپی بڑھ گئی تھی اور میں کچھ مقامی سیریلزاورڈراموں میں کام کرچکا تھا۔ گریجویشن کے بعد فلم نگری کی چکاچوند نے مجھے بیٹھنے نہ دیا اور میں پیشہ ورانہ مہارت اور ڈگری حاصل کرنے کے لیے نوئیڈا میں قائم’ ایشین اکیڈیمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن پہنچ گیا، جہاں میں نے ایکٹنگ کے ڈگری کورس میں داخلہ لیا۔ یہاں میرا تربیتی کورس ابھی جاری تھا کہ ممبئی کی فلم نگری اور ٹیلی ویژن پروڈکشن کمپنیوں کی طرف سے مجھے offer ملنے شروع ہوگئے۔ چنانچہ میں نے کئی ٹیلی سیریلز ad فلموں اور فیچر فلموں کا کام ہاتھ میں لے لیا۔ ان میں سے بالی ووڈ کی دو فلمیں قابل ذکر ہیں، جن کے نام LoC اور Tum Bin ہیں۔ ٹی وی سیریلوں میں’ سفر، کسم، سانس اور جذبہ‘ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ماڈلنگ کا کام بھی مجھے آسانی سے مل گیا۔ دن رات اور کبھی کبھی ۲۴ گھنٹے مسلسل شوٹنگ کا کام کرتے رہنے سے پیسہ خوب آنے لگا، شہرت میں بھی اضافہ ہونے لگا اور زندگی بھی Lavishly بسر ہونے لگی لیکن جو چیز چھن گئی اور جس نے میرا جینا دوبھر کردیا، وہ سکونِ قلب تھا۔ ہر مادی چیز میسر ہونے کے باوجود ہر دن بے چینی، بے قراری اور بے سکونی کے تیر و نشترمیری روح کو چبھنے لگے۔ بے حد مصروفیات کے ایسے ہی شب و روز میں زندگی کو جوں توں گزارنا میرا معمول بن گیا۔ شراب، شباب اور کباب کے اس ماحول میں کبھی کبھی جب اذان کی آواز میرے کانوں میں پڑتی تو یک لحظہ میرا خفتہ ایمان بیدار ہونے لگتا اور پیدائشی مسلمان ہونے کا احساس تھوڑی دیر کے لیے مجھے جھنجوڑ کے رکھ دیتا لیکن چند ہی لمحوں کے بعد پھر یہ سب کچھ ذہن سے محو ہو جاتا۔
انہی حالات میں سال ۲۰۰۲ میں ایک دن مجھے فلم ’’تْم بن‘‘ کے مہورت کے فنکشن میں شمولیت کا دعوت نامہ ملا۔ میں نے سوچا کہ بالی ووڈ کے مشہور ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور ایکٹر آرہے ہیں تو کیوں نہ میں بھی شریک ہو جاؤں اور اسی بہانے سے ان لوگوں کو قریب سے دیکھنے اور ان کے ساتھ بعد میں کام کرنے کا موقع ملے گا۔ چنانچہ ہوٹل تاج میں یہ فنکشن رات کو شروع ہوا اور میں نے دیکھا کہ بالی ووڈ کی اداکارائیں اور اداکار نہایت قیمتی گاڑیوں میں زرق برق لباس پہنے ہوٹل میں داخل ہو رہے ہیں اور وہاں موجود لوگ اْن کو نہایت شوق سے دیکھ رہے ہیں کہ کیسی lavish life ہے ان لوگوں کی۔ میں ایک طرف کھڑا یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ اسی موقع پر ایک بڑی کمپنی کو ایک خاص پروڈکٹ لانچ (Launch) کرنا تھا، جس کے لیے مختلف ممالک سے ۵۲ سے زائد مشہور ماڈلزاورحسیناؤں کوبلایا گیا تھا،جن کو وہاں پر ماڈلنگ کرنی تھی۔ ایک بڑے ائیرکنڈیشنڈ ہال میں یہ فنکشن ہو رہا تھا۔ سب مدعوئین کی عمدہ ڈِنر سے خاطر تواضع کی گئی۔ رات گزرنے کے ساتھ ساتھ رقص و موسیقی، اختلاط مرد و زن، فحش مناظر اور نیم عریاں خاتون ماڈلز کی حیاسوز حرکتیں بھی بڑھتی گئیں۔میں ان مناظر کو دیکھنے میں مگن تھا کہ اچانک مجھے گجرات کے زلزلہ والے علاقے ’’کچھ‘‘ کی یاد آگئی، جہاں کچھ ہی عرصہ قبل دو لاکھ سے زائد لوگ شدید بھونچال سے آئی تباہی میں لقمہ اجل بن چکے تھے۔ نہ جانے کیسے بار بار میرے ذہن میں خیال آیا کہ اس ہوٹل میں جو کچھ ہو رہا ہے اور بے شمار مرد وزن جس بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ اللہ کے احکامات کی دھجیاں اْڑا رہے ہیں، اْس کی پاداش میں کہیں شدید بھونچال آتے ہی اِس فلک بوس ہوٹل (تاج) کی تباہی کے ملبے تلے میں بھی دب نہ جاؤں۔ یہ احساس گہرا ہوتے ہی میں نے اپنے آپ کو تسلی دی کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے، حالانکہ اصل میں اللہ کو اپنے اِس بندے کی (ایمان کی طرف) واپسی مطلوب تھی۔ اسی اثناء4 میں میری آنکھوں نے یہ عبرتناک منظر بھی دیکھا کہ فنکشن میں جو ماڈل گرلز اور دیگر حسینائیں ہاتھوں میں جام لیکر اپنے عریاں بدن کی نمائش کرتے ہوئے شیطانی میوزک کی تال پر تھرک تھرک کر مردوں کو مزید گمراہ کر رہی تھیں، وہ شراب کے جام انڈیلنے کے بعد نشے کی حالت ہی میں ایک ایک کرکے دھڑام سے نیچے گر کر بے ہوش ہوگئیں، اس حالت میں کہ اْن کے عریاں بدن بے حس و حرکت پڑگئے ۔ اْن کے خوبصورت بال فرش پر بکھر گئے اور وہ vomit کر گئیں۔ اسی حالت میں ڈسکو ڈانس کرنے والے مرد و خواتین اپنے جوتوں جوتیوں سمیت ان حسیناؤں کی بکھری زلفوں کو اپنے جوتوں سے بْری طرح روندنے لگے، حالانکہ کچھ ہی دیر قبل لوگ ان خوبصورت لڑکیوں کی طرف دیکھ دیکھ کر ان کی بظاہر نظر آنے والی خوشحال زندگی پر رشک کر رہے تھے۔ اب فرش پر ان کی vomiting سے پھیلی گندگی اور غیروں کی جوتیوں سے پامال شدہ ان کے بکھرے بال ان کی زندگی کے ایک الگ ہی عبرتناک منظر کو پیش کر رہے تھے۔ اپنی تمام تر رعنائیوں اور خوبصورتیوں کے باوجود یہ حسینائیں بے ہوشی کی حالت میں غلاظت ، بے بسی و بے کسی کی تصویر بنی ہوئی تھیں۔ یہ اصل میں ان کی زندگی کی اصلیت تھی، جو رات کی اِن تاریک ساعتوں میں سامنے آتی ہے اور میرے سامنے بھی آگئی، حالانکہ دن کی روشنی میں لوگ ان کو رشک بھری نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں۔ اب مجھے ہوٹل تاج کے اس AC ہال میں نظر آنے والی اس غلاظت بھری زندگی سے نفرت ہونے لگی اور میں نے دیکھا کہ ACہال میں ہوکر بھی میرے پسینے چھوٹ رہے ہیں۔ مجھے گھٹن ہونے لگی اور میں نے جلدی سے exit تلاش کرکے برق رفتاری سے باہر چھلانگ ماری اور برامدے میں موجود پانی کا پورا جگ غٹاغٹ پی لیا۔ ا سکے بعد جب میں ہوٹل کے کمپاؤنڈ سے باہر آکر اْس کی طرف نظر اْٹھاکر دیکھنے لگا تو میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اگر اب یہ ہوٹل گر بھی جائے گا تو کم سے کم میں اس کے ملبے تلے آنے سے بچ جاؤں گا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے محسوس کیا کہ جیسے چٹان سا بھاری پتھر میرے سینے سے اْتر کر میرا بوجھ ہلکا ہوگیا ہے۔ میں اپنے فلیٹ پر آکر لیٹ گیا اور پہلی بار مزے کی نیند سوگیا۔ یہ گویا ایک غیبی الہام تھا۔ اسی دن سے الحمد للہ میں نے مسجد کا رْخ کیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ اْسی دن شام کو شب برات کے موقع پر مسجد میں ایک بزرگ آئے ہوئے تھے، جنہوں نے عشا کے بعد اپنا بیان اس قدر متاثر کن انداز میں دیا کہ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح مجھے بھی لگا کہ واعظ موصوف ساری باتیں میرے ہی لیے بیان فرمارہے ہیں۔ دس ہزار کا مجمع اْن کے سامنے تھا اور موضوعِ سخن اْن کا آخرت تھا۔ میں بے حد متاثر ہوا، میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپکنے لگے اور میں اپنی پچھلی زندگی بالخصوص فلمی دنیا میں چار سال تک گزرے ہوئے شب و روز پر بے حد شرمندہ ہوا، جو اللہ کی نافرمانی اور معصیت میں ضائع ہوگئے تھے۔
اس انقلاب سے عارضی طور پر میرے روزگار کے وسائل بظاہر ختم ہوگئے لیکن اللہ نے اپنے خاص کرم سے نوازا۔ تاج ہوٹل کے فحش فنکشن سے بھاگ کر نکل جانے کے دوسرے دن میری جیب میں صرف دس روپے تھے۔ میں ممبئی میں تھا اور سرینگر میں اپنے گھر سے پیسے منگوانے کے لیے فون کال کرنی تھی لیکن میرے پاس فون کرنے کے لیے بھی رقم نہ تھی۔ پھر میں نے اللہ سے التجا کی کہ کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہ کرنا پڑے، اسی دن میں باہر نکلا توکیا دیکھتا ہوں کہ تین اجنبی آدمی میرا پتہ معلوم کررہے ہیں۔وہ مجھ سے ملے اور اپنے کاروبار میں بغیر سرمایہ لگائے مجھے شمولیت کی دعوت دی۔ پھر مجھ سے رخصت ہوئے تو تھوڑی دور جانے کے بعد ان میں سے ایک آدمی واپس آیا اوریہ کہہ کر کہ’یہ پیسہ آپ کا ہی ہے،رکھ لیجیے‘ مجھے دس ہزار روپے کا نوٹوں کا پیکٹ ہاتھ میں تھمادیا۔میں اپنے مولائے کریم کی اِس غیبی مدد پر حیران ہوا۔ یہ میرے اللہ کا پہلا کرشمہ تھا، اس کے بعد تھوڑے ہی عرصے میں میرا ٹور اینڈ ٹریول کا اپنا کاروبار شروع ہوگیا، حالانکہ میں اس میدان سے قطعی ناواقف تھا۔انہی دِنوں ممبئی سے میں آندھرا ایک جماعت میں چار مہینے کے لیے گیا، جہاں سے الحمد للہ ایمان و اعمالِ صالحہ کی سوغات لیکر آگیا۔ دنیا کی محبت کا جو زنگ دل پر چڑھا ہوا تھا، الحمد للہ وہ کافور ہوگیا اور اللہ و رسول کی محبت دل میں گھر کر گئی۔ اللہ کا کرم ہے کہ دین میں بھی ترقی ہوئی اور دنیا بھی اللہ نے نہیں بگاڑی، بلکہ اور زیادہ دْنیوی جاہ و حشمت اور مال و دولت سے سرفراز فرمایا۔ اس سے قبل ایکٹنگ میں رات دن (اور کبھی کبھار ۲۴ گھنٹے) کام کرنا پڑتا تھا اور تب جاکر دس یا پندرہ ہزار کی کمائی ہوتی تھی لیکن اللہ کا کرم دیکھئے کہ ہدایت یاب ہونے کے بعد پہلے ہی مہینے مجھے پچاس ہزار روپے کا منافع ہوا اور یہ سلسلہ اللہ کے کرم سے آگے بڑھتا رہا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد میں سرینگر آگیا اور یہاں الحمد للہ شرعی طریقے پر مسجد میں میرا نکاح ہوا اور رفتہ رفتہ میرا پورا گھرانہ، الحمد للہ (جس میں میرے والدین اور برادر اصغر شامل ہیں) دینی رنگ میں رنگ گیا۔
میرا پیغام: میری عاجزانہ درخواست ہے ایسے نوجوان بھائیوں سے اور بہنوں سے، جو فلم نگری کی چکاچوند سے یا lavish life گزارنے کے خواب سے پریشان رہتے ہیں کہ وہ میری عبرتناک کہانی (جو اصل میں کھلی حقیقت ہے اور جس میں افسانہ کچھ بھی نہیں) کو سامنے رکھیں اور دنیا کی دھوکہ و فریب بھری زندگی کے پیچھے اپنے ایمان کو داؤ پر نہ لگائیں، کیونکہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے اور جو بھی محنت کرنی ہے، وہ اْسی کے لیے کریں۔ دنیا تو اللہ نے رکھی ہے، جتنی مقدر میں ہوگی مل جائے گی لیکن آخرت محنت پر منحصر ہے، لیکن آج ہم اس کا الٹا کر رہے ہیں۔ حالانکہ اگر ہم ساری محنت دین و آخرت کے لیے کریں تو اللہ دنیا کو لاکر ہمارے قدموں میں ڈال دیں گے۔ اللہ نے خود فرمایا کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے کے بعد میں سمایا تو ایک مومن کے دل میں سمایا۔ حقیقی محبت اللہ کی محبت ہے، باقی سب محبتیں فنا ہونے والی ہیں۔ آج ہم نے اپنی فانی محبتوں کو دل میں بٹھالیا ہے۔ آج عجیب حالت یہ ہے کہ نماز و روزہ کے پابند دیندار مسلمان بھی اللہ سے اپنی دعاؤں میں اکثر و بیشتر دنیا اور دْنیوی عیش و آرام ہی طلب کرتے ہیں، تہجد گذار مسلمان بھی دْعا میں مکان، دکان، نوکری، تجارت، گاڑی اور دنیوی عیش و عشرت کی چیزیں مانگا کرتے ہیں۔ قارئین ذرا غور فرمائیں کہ کیا ہم کبھی اپنی دعاؤں میں اللہ سے اللہ کو مانگتے ہیں؟ کیا ہم اللہ کی محبت اللہ سے طلب کرتے ہیں؟ اگر ہم اللہ کے ہو جائیں تو ساری دنیا ہماری ہے اور اگر ساری دنیا ہماری ہو جائے لیکن اللہ ہمارا نہیں تو جانیے کہ ہمارا کچھ بھی نہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کا ایمان پر خاتمہ فرمائیں اور سننے سے زیادہ عمل کی توفیق عطا
فرمائیں۔(ماہنامہ الحیات، سری نگر ، جموں کشمیر، فروری ۲۰۰۹)