عیدالاضحی اور دیگر عبادات کے اوقات کی حکمت اور اسرار

مصنف : سید داؤد غزنویؒ

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : دسمبر 2006

اسرارِ اوقات

جس طرح کسی قوم کی ملّی سیاست اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کے تمام انتظامی اُمور کے لیے اوقات مخصوص اور معین نہ کردیے جائیں۔ اسی طرح سیاستِ شرعیہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کی عبادات اور اطاعات کے لیے اوقات و ایام مخصوص نہ کرلیے جائیں۔ جیساکہ شریعتِ اسلامیہ میں رات دن میں کئی بار’ پھر ہفتہ میں ایک بار اور دوسال میں دو چار اور ایسے ہی اور کئی ایک اوقات ہیں جن کو بزبانِ رسالتؐ مخصوص کردیا گیا ہے۔ اس کے مصالح و حکم مکمل طور پر تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے’ لیکن جہاں تک کتاب و سنت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کے تین اُصول ہیں:

اصل اوّل

 متعدد آیات و احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات میں اپنے بندوں کو قرب فرماتا ہے اور بعض اوقاتِ مخصوصہ میں بندوں کے اعمال اس پر پیش کیے جاتے ہیں۔ ایک حدیث میں آپؐ نے فرمایا کہ ‘‘جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے’’۔ (صحیح مسلم: ۷۵۸)ایک اور روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ‘‘افضل نماز نصف رات کی ہے’ لیکن اس وقت میں پڑھنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ (مسند احمد: ۵؍۱۸۹)اور آپؐ سے دریافت کیا گیا کہ کون سی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: ‘‘آدھی رات گزر جانے کے بعد’’۔ (ترمذی: ۳۷۴۶)جمعہ کے دن کے متعلق آپؐ نے فرمایا اس میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس میں جو کوئی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا ہے’ اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرماتا ہے۔ (ابوداؤد: ۱۰۴۸)سورج ڈھل جانے پر آپؐ نے فرمایا کہ یہ ایک ایسی ساعت ہے کہ اس میں آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ میں پسند کرتا ہوں کہ اس ساعت میں میرا کوئی عمل صالح بارگاہِ الٰہی میں پیش کیا جائے ۔شام کی نماز کے وقت دن کے فرشتے چلے جاتے ہیں اور رات کے فرشتے آجاتے ہیں۔ اور اسی کے متعلق طرف قرآن میں ارشاد ہے: فَسُبْحٰنَ اللّٰہِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْنَ ، وَلَہُ الْحَمْدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْارْضِ وَعَشِیًّا وَّحِیْنَ تُظْہِرُوْنَ (الروم: ۱۷’ ۱۸) ‘‘صبح و شام خدا کی پاکی بیان کرو اور اسی طرح تیسرے پہر (عشا) اور جس وقت دوپہر کرو کیونکہ تمام آسمانوں اور زمین میں اسی کے لیے حمد و ثنا ہے’’۔

غرض ایسی بہت سی نصوص ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے بعض اوقات کو عبادت’ ذکرالٰہی اور دعا کے لیے مخصوص کر دیا ہے اور ان اوقات میں تجلیاتِ انوارِ الٰہیہ اور فیوضاتِ ربانیہ کا زمین پر اس طرح انتشار اور پھیلاؤ ہوتا ہے کہ تھوڑی سی توجہ اور ادنیٰ کوشش سے قلب پر ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملاءِ اعلیٰ سے انوار و فیوضات کا ایک بہت بڑا دروازہ کھل گیا ہے۔ انسان کے جسم پر خشوع و خضوع کی ایک عجیب کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ قلب کی طہارت اور پاکیزگی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ انسان محسوس کرتا ہے کہ میں بارگاہِ الٰہی میں پہنچا ہوا ہوں اور اس کے لطف و کرم عنایات کا ایک بحر ہے جو قلب کی تمام ظلمتوں اور کدورتوں کو پاک و صاف کیے ہوئے’ بہائے لیے چلا جا رہا ہے۔اس وقت جب کہ قلب حاضر’ روح بیدار اور جسم خاشع اور متواضع ہوتا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور لطف و عنایات کا دروازہ کھلا ہوا ہوتا ہے تو کیوں نہ عبادات مقبول اور دعائیں مستجاب ہوں……!!

اصل دوم

نصوصِ کتاب و سنت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف متوجہ ہونے کے لیے اور اس کی عبادت میں مصروف ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان تمام تشویشاتِ طبعیہ سے خالی ہو’ مثلاً حد سے بڑھی ہوئی بھوک اور اسی طرح بہت زیادہ سیری یا نیند کا غلبہ’ تھکان کی شدت وغیرہ اور اسی طرح تمام تشویشاتِ خیالیہ سے بھی اس وقت پاک ہو مثلاً کان شوروغل سے’ آنکھیں ایسے نقوش و صور اور مناظر سے جو اس کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے والے ہوں وغیرہ…… جو اختلاف عادات اور اختلاف احوال و ظروف سے بدلتی رہتی ہیں۔

غرض انسان’ ضعیف الخلقت انسان’ اردگرد کے حالات سے بہت جلد متاثر ہوجانے والا انسان’ دنیا کے کاروبار میں مبتلا انسان اور معاصی و خطاؤں میں اُلجھے ہوئے انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زنگ آلود قلب کی طہارت و پاکیزگی اور انجلا کے لیے ذکر و عبادتِ الٰہی میں مصروف ہو’ کیونکہ الا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ‘‘خبردار! دلوں کو اطمینان اللہ کے ذکر سے حاصل ہوتا ہے’’۔ پس توجہ الی اللہ کے لیے ضروری ہے کہ تمام طبعی اور خیالی تشویش انگیزیوں سے پاک ہو اور رات دن میں پانچ نمازوں کے لیے اوقاتِ مخصوصہ کی تعیین بھی انھی اُمور کی بنا پر ہے۔ واللّٰہ أعلم وعلمہ أتم۔

اصل سوم

بعض ایام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے اس لیے مخصوص و معین کردیا کہ اُمت مسلمہ کی تاریخی روایات کا ان کے ساتھ گہرا تعلق تھا اور ان ایام میں اللہ تعالیٰ نے اُمتِ مسلمہ پر کوئی بہت بڑا انعام کیا تھا۔ پس ان تاریخی روایات کو زندہ رکھنے ’ ان احساناتِ الٰہی اور انعاماتِ ربانی کی یاد تازہ کرنے اور ان کے لیے شکر بجا لانے کے لیے ضروری ہوا کہ ان ایام و اوقاتِ مخصوصہ کو عبادت کے لیے مقرر کر دیا جائے۔ جیساکہ احادیثِ نبویہؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ عاشورا کے دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی نصرت و اعانت فرمائی اور ان کو اور ان کی قوم کو اس دن فرعون پر فتح و غلبہ عطا فرمایا اور اس کی غلامی سے نجات دلائی تو یہ موسٰی ؑ اور ان کی قوم کا ‘یومِ نجات’ تھا۔ پس سلسلہ انبیاء کرام میں سے ایک اولوا لعزم نبی اور اُمت ِ مسلمہ (جس کا ظہور نوح علیہ السلام کے وقت سے ہوا اور جس کا عہدِ کمال محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عہدمبارک تھا) کی اس عظیم الشان کامیابی اور حق کے اس غلبہ عظیمہ اور طاغوتی طاقتوں کی شکست و ہزیمت کی یاد زندہ رکھنے اور اللہ تعالیٰ کا اس پر شکریہ ادا کرنے کے لیے آپؐ نے یومِ عاشورا کا روزہ رکھا اور صحابہ کرامؓ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کو فرمایا۔

رمضان المبارک

رمضان المبارک کا سارا مہینہ عبادت کے لیے مخصوص کر دیا…… کیوں؟اس لیے کہ سعادتِ انسانی کا وہ مبارک پیغام جس کی تبلیغ صادق و مصدوق محمد عربی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد ہوئی۔ وحی الٰہی کا وہ دروازہ جو غارِحرا کے گوشہ نشین پر کھلا’ خدا کا وہ مقدس کلام جو نبی اُمی لقب پر نازل ہو’ سب سے پہلے جس رات میں اس کا ظہور ہوا’ وہ لیلۃ القدر تھی۔ اور لیلۃ القدر جس مہینہ میں آئی’ وہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا جو فی الحقیقت اس سعادتِ انسانیہ اور ہدایت ِ اقوام و ملل کے ظہور کی یادگار ہے جس کا دروازہ قرآن حکیم کے نزول سے دنیا پر کھلا:شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فِیہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرقَانِ (البقرہ: ۱۸۵) ‘‘رمضان کا مہینہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن حکیم نازل ہوا۔ جو انسانوں کے لیے موجب ِ ہدایت اور جس کی تعلیم میں ہدایت و ضلالت اور حق و باطل کی تمیز کے لیے کھلے نشان موجود ہیں’’۔

پس وہ مہینا جو خدا کی سب سے بڑی رحمت و برکت کے نزول کا ذریعہ بنا اور وہ مہینہ جو اپنے ساتھ خدا کی رحمتوں کی ایک ایسی بارش لایا جس نے دنیا کی وہ سب سے بڑی خشک سالی دُور کر دی جو صدیوں سے بنی نوع انسان کے روح و قلب پر چھائی ہوئی تھی اور وہ مبارک ایام جو تعلیماتِ الٰہیہ کے مظہر بنے’ ان ایام کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے اپنی برکتوں اور رحمتوں کے نزول کے لیے ایک ممتاز خصوصیت عطا فرمائی تاکہ نزولِ قرآن کی یادگار دنیا میں زندہ رہے اور اُمت ِ مسلمہ کو حکم دیا کہ اس عظیم الشان انعام کے صلہ میں شکریہ بجا لائیں ۔اور دن رات اس کی عبادت میں مصروف و مشغول رہیں’ دن بھر روزہ رکھیں’ ذکرِالٰہی اور تلاوتِ قرآن ہو اور راتوں کو جاگیں’ نوافل اذکار ہوں اور خشوع و خضوع کے ساتھ بارگاہ ربّ العزت میں دعائیں کی جائیں۔

عیدالفطر

رمضان المبارک کے ختم ہوجانے پر اس سے اگلے دن کو مسلمانوں کے لیے اس لیے ‘یوم عید’ اور خوشی کا دن قرار دیا اور حکم دیا کہ اس دن سب مسلمان غسل کریں۔ حسب ِ استطاعت اچھے سے اچھا کپڑا پہنیں۔ خوشبو لگائیں’ صدقہ الفطر ادا کریں کہ اس دن کوئی مسلمان بھوکا اور عید کے روز غم منانے والا نہ رہے اور خوب تزک و احتشام اور ٹھاٹھ کے ساتھ سارے شہر کے مسلمان’ گلی کوچوں اور بازاروں کے شوروغل سے دور کھلے میدان میں خدا کی تہلیل و تکبیر اور تسبیح و تمجید سے فضائے آسمانی میں گونج پیدا کردیں اور اس کی بارگاہ میں ہاتھ باندھ کر کھڑے رہنے’ جھکنے اور بالآخر زمین پر سر اور پیشانی کے رکھ دینے سے ان نعماء الٰہیہ کا شکریہ ادا کریں جو رمضان میں ان پر نازل ہوئیں اور ان طاعات و عبادات کی تکمیل پر مسرت و شادمانی کا اظہار کریں جو رمضان المبارک میں فرض کی گئی تھیں۔

عیدالاضحی

اسی طرح ‘عیدالاضحی’ بھی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی ایک نہایت مخلصانہ عبادت کی یادگار ہے۔ یہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام کے اعمالِ حیات اور وقائع زندگی کو ایک خا ص عظمت و شرف اور اہمیت دی گئی ہے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی دعوت کو ملتِ ابراہیمی اور دین حنیفی کے مترادف قرار دیا ہے: ملۃ أبِیکم ابراھیم ‘‘یہ ملت تمھارے باپ ابراہیم ہی کی ہے’’۔ اور دوسری جگہ فرمایا: قُل انَّنِیْ ھَدَانِی رَبِّی اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ، دِیْنًا قِیَمًا مِلَّۃَ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا (الانعام:۱۶۱) ‘‘کہہ دیجیے کہ مجھ کو میرے ربّ نے سیدھا راستہ دکھایا ہے کہ وہی ٹھیک دین ہے یعنی ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ کہ وہ ایک ہی خدا کے ہو رہے تھے’’۔ اسی لیے حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کو ‘اُسوۂ حسنہ’ کے طور پر قرآن کریم میں پیش کیا تاکہ ان کے اعمالِ حیات ہمیشہ کے لیے محفوظ رہیں اور اُمت مسلمہ ان کی اقتدا کرتی رہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو بے آب و گیاہ سرزمین پر لاکر بسایا کہ خدا کی تحمید و تقدیس اور اس کی عبادت بجا لائیں۔ خدا نے حضرت ابراہیم ؑسے ان کے عزیز فرزند کی قربانی طلب کی۔ باپ بیٹا دونوں نے اس قربانی کو خدا کے حضور پیش کیا۔ خداوند قدوس کو اپنے پیارے بندوں کی یہ مخلصانہ ادائیں کچھ اس طرح بھا گئیں کہ اس موقع کی ہر حرکت کو ہمیشہ کے لیے قائم کر دیا اور اس کو ہمیشہ دنیا میں زندہ رکھنے کے لیے تمام پیروانِ دین حنیف پر فرض کر دیا کہ ہر سال حج کریں تاکہ لاکھوں انسانوں کے اندر سے اُسوۂ ابراہیمی جلوہ نما ہو اور ان میں سے ہر متنفس وہ سب کچھ کرے جو آج سے کئی ہزار برس پہلے خدا کے دومخلص بندوں نے وہاں کیا تھا۔ اور جو اس ‘وادئ غیرذی زرع’ میں نہ پہنچ سکیں’ وہ اپنی اپنی جگہوں پر اس دن کو ‘یومِ عید’ منائیں اور نمازِ عید پڑھ کر سنت ابراہیمی ‘قربانی’ کو زندہ رکھنے کے لیے اچھی سے اچھی قربانیاں اللہ کے سامنے پیش کریں تاکہ جہاں کہیں بھی اُمت ِ مسلمہ موجود ہو’ وہاں اُسوۂ براہیمی ؑزندہ رہے اور ارشاد الٰہی صادق ہو کہ وَوَہَبْنَا لَہُمْ مِنْ رَّحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَہُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا (مریم:۵)

‘‘ہم نے حضرت ابراہیم ؑاور ان کی اولاد کو اپنی رحمت میں سے بڑا حصہ دیا اور ان کے لیے اعلیٰ و اشرف ذکر خیر دنیا میں باقی رکھا’’۔

( ہفت روزہ ‘توحید’ امرتسر: ۲۱ مارچ ۱۹۲۸ء)