ہمارا تعلیمی نظام اور روشن خیال اعتدال پسندی

مصنف : پروفیسر ملک محمد حسین

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : دسمبر 2006

            ‘روشن خیال اعتدال پسندی ’ موجودہ حکومت کی قدر اساسی ہے ۔ اس حکومت کی سماجی ، معاشی اور تعلیمی پالیسیاں حتی کہ خارجہ پالیسی بھی اسی قدر اساسی سے رہنمائی حاصل کرتی ہے ۔

            یہ روشن خیال اعتدال پسندی ہی کا شاخسانہ ہے کہ تعلیم کا میدان فری فار آل (free for all) کر دیا گیا ہے ۔ پاکستان غیر ملکی سکول سسٹمز اور اندرون ملک تعلیمی تاجروں کی کھلی چراگاہ بن گیا ہے ۔ اسلام اور نظریہ پاکستان کے بعض اساسی تصورات کی نفی کرنے والے نصابات اور درسی کتب بلا روک ٹوک ہماری نئی نسل کے اذہان کو منتشر ، بے راہ رو او رمسموم کر رہی ہیں اور 1976 کا ایجوکیشن ایکٹ روشن خیال اعتدال پسندی کی زنجیروں میں جکڑا بے بسی کا عبرت ناک نشان بنا ہوا ہے۔ بھارت جیسا سیکولر ملک بھی درسی کتب او رتدریسی مواد کو قومی تہذیب و تمدن او رتعلیم و تعلم کے قانونی تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے ٹیکسٹ بکس ریگولیٹری اتھارٹی قائم کر رہا ہے لیکن ہم نے روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر اپنے قومی نصاب تعلیم کی تدوین اور درسی کتب کی تیاری، جرمنی کے بین الاقوامی امدادی ادارے جی ٹی زیڈ (GTZ ) کے سایہ عاطفت میں دے دی ہے ۔

            اساتذہ کو روشن خیال اعتدال پسندی کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے انہیں گروہ در گروہ امریکا روانہ کیا جا رہا ہے تاکہ اساتذہ کی ایک موثر تعداد روشن خیال اعتدال پسندی کی مشعل ہاتھ میں پکڑے واپس آئے ، اور پورے تعلیمی نظام کو روشن خیال اعتدال پسندی کی روشنی سے مالا مال کر دے ۔ شعبہ نصابیات اور تربیت اساتذہ کے بڑے بڑے اداروں کو روشن خیال اعتدال پسندی کے فریم ورک کے مطابق اہلیت کے فروغ (Capacity building ) کے لیے کینڈین انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایجنسی (CIDA ) کے تصرف میں دے دیا گیا ہے ، نیز اندرون ملک اعلی سطح کے تربیت اساتذہ کے ادارے تباہ کر کے تربیت اساتذہ کی ذمہ داری روشن خیال اعتدال پسند این جی اوز کو سونپ دی گئی ہے جن کے پاس تجربہ کا رٹیچر ٹرینرز تو کجا مناسب تعلیم یافتہ اساتذہ بھی نہیں ہیں ۔ دو تین ماہ پہلے ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف ڈویلپمنٹ پنجاب لاہور کے مین ہال میں ایک دل چسپ صورت حال پیدا ہوئی ۔ سینئر اساتذہ اور تعلیمی منتظمین کا ایک دوران ملازمت تربیتی کورس زیر عمل تھا ۔ کورس کے شرکا میں بی ایڈ ، ایم ایڈ حتی کہ بعض ایم فل ایجوکیشن کی ڈگریوں کے حامل سینئر خواتین وحضرات شامل تھے لاہور کی دو مقامی این جی اوز کا ایک کنسورشیم کورس کنڈکٹ کرا رہا تھا۔ خاتون کورس کنوینر نے جب محسوس کیا کہ شرکا کورس ان کی ٹریننگ سے متاثر نہیں ہو رہے تو اس نے رعب جمانے کی خاطر بڑے فخر سے شرکا کو بتایا کہ دیکھیں میں نے بی اے کے ساتھ بی ایڈ بھی کیا ہوا ہے اور ہم آپ کو بہت بلند سطح کی ٹریننگ دے رہے ہیں ۔ اس پر شرکا کورس ہنسی سے پھٹ پڑے اور بڑی دیر تک ماحول غیر سنجیدہ رہا۔ یہ ہے روشن خیال اعتدال پسندی کا وہ روپ جو سرخی پاؤڈر اور غازے کے ہتھیاروں سے مسلح ترقی پسند خواتین کے ذریعے سے عام کیا جا رہا ہے ۔

            ابتدائی تربیت اساتذہ کے علاوہ روشن خیال اعتدال پسندی کی ترویج مزید دو سطحوں پر بھی کی جا رہی ہے ۔ ایک سطح بچپن کی تعلیم ہے اور دوسری سطح ہائر ایجوکیشن کے ادارے ہیں ۔ ابتدائی تعلیم کے لیے ارلی چائلڈ ہڈ ایجوکیشن (Early childhood education ) یا ECE کے نام سے منصوبوں کو زیر عمل لایا جا رہا ہے اس سطح پر اور اداروں کے علاوہ سب سے زیادہ متحرک اور پرجوش ادارہ امریکا کا چلڈرن ریسورس انٹرنیشنل CRI ہے ۔ اس ادارے نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے اسکولوں سے آغاز کیا اور اب صوبوں تک رسائی حاصل کر رہا ہے ۔ ہائر ایجوکیشن تو سراسر روشن خیال اعتدال پسندی کی شمع فروزاں کیے ہوئے ہے ۔ کیا سرکاری یونیورسٹیاں اور کیا غیر سر کاری یونیورسٹیاں اور انسٹی ٹیوٹس ، کیا نظریاتی حضرات کے زیر اہتمام چلنے والے اور کیا سیکولر لوگوں کے سایہ عاطفت میں فروغ پانے والے ادارے ، سبھی مغربی تعلیم ، مغربی تہذیب اور مغربی تصور علم و تحقیق کو فروغ دے رہے ہیں ۔ روشن خیال اعتدال پسندی کے یہ مراکز مغربی علمیات (western epistemology ) کی اساس پر مغربی معاشیات ، مغربی سماجیات ، مغربی نفسیات اور مغربی انسانیات کی تعلیم کے ذریعے طوعاً کرہاً روشن خیال اعتدال پسندی کے ایجنڈے کی ہی تکمیل کر رہے ہیں ۔

            نظام تدریس و تعلیم کو کنٹرول کرنے کا سب سے موثر ہتھیار امتحان ہے ۔ امتحانی سوالوں کی نوعیت ، پرچوں کی ترتیب ، طلبہ کے جوابی پرچوں کی مارکنگ اسکیم اور امتحانی پرچوں میں سوالوں کے لیے مختلف مضامین کے درسی مواد کا انتخاب ، وہ عناصر ہیں جو امتحانات کو پورے نظام تعلیم پر حاوی کر دیتے ہیں ۔ روشن خیال اعتدال پسندی کے ذہین مویدین نے اس امر کو سمجھا ہے ۔ آغا خان یونیورسٹی امتحانی بورڈ اسی سوچ کا نتیجہ ہے ۔ نظام تعلیم میں روشن خیال اعتدال پسندی کے موثر نفوذ اور نفاذ کے لیے شاید ہی اس سے بہتر تدبیر ممکن ہو ۔ آغا خان یونیورسٹی امتحانی بورڈ اگر چلتا ہے ( اور بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ چلے گا اور خوب چلے گا ) تو کم از کم میٹرک اور انٹر کی سطح پر لبرل اور سیکولر عناصر کی روشن خیال اعتدال پسندی بتدریج جڑ پکڑتی جائے گی اور نظریاتی تعلیمی ادراے بھی طوعاًو کرہاً یہ راستہ اپنائیں گے جس طرح کہ اس وقت وہ او لیول اور اے لیول کے بر طانوی امتحانات کا نظام اپنا چکے ہیں۔ یہ امر قابل غور ہے کہ آغا خان امتحانی بورڈ کو تو شاید ہم کچھ وقت تک اور کسی حد تک دباؤ میں رکھ سکیں لیکن کیمبرج یونیورسٹی اور ایڈیکسل کے برطانوی امتحانات تو بالکل ہمارے کنٹرول میں نہیں اور نہ ان کے نصاب اور کتب پر ہمارا کوئی زورہی چلتا ہے ۔

            روشن خیال اعتدال پسندی کے فروغ کے لیے سہ طرفہ حکمت علمی (Three prong strategy ) اپنائی گئی ہے ۔ تعلیم ایک شعبہ ہے ، قانونی تبدیلیاں دوسرا شعبہ ہے اور میڈیا کی مادر پدر آزادی تیسرا شعبہ ہے ۔ زیر نظر مضمون میں تعلیم کے ذریعے روشن خیال اعتدال پسندی کا فروغ ہمارا موضوع ہے ۔ اس شعبے میں اب ایک نیا شاخسانہ اقبال انٹرنیشل انسٹی ٹیوٹ برائے تحقیق ، تعلیم اور مکالمہ کا قیام ہے ۔اس ادارے کے بارے میں ابتدائی غور و فکر 2003 میں اسلام آباد میں کیا گیا ۔ 2004 میں اس سلسلے میں پیش رفت ہوئی او رحکومت کے زیر اہتمام 19 تا 21 نومبر 2004 ، مسلم اسکالرز کی ایک بین الاقوامی مشاورت منعقد ہوئی جس کے متعلق دعوی کیا گیا کہ پچھلے 200 سال میں پہلی مرتبہ 14 ملکوں سے 45 اسکالرز اس مشاورت میں اکٹھے ہوئے ۔ اس مشاورت میں روشن خیال اعتدال پسندی کو فروغ دینے والا ایک ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور روشن خیال اعتدال پسندی کا یہ کام امریکا میں 34 سال سے درس وتدریس میں مشغول ڈاکٹر رفعت حسن کے ذمے لگایا گیا ۔ آخر کار اس ادارے کا قیام غالباً ستمبر 2005 میں عمل میں آیا ۔ اس ادارے کا صدر دفتر لاہور کینٹ میں ہے اور اسے صدر صاحب نے 50 کروڑ روپے کی خطیر رقم ابتدائی اخرجات کے لیے مہیا کی ہے ۔ ادارے کے سربراہ نے دعوی کیا ہے کہ انہیں کوئی بیرونی پشت پناہی حاصل نہیں ہے اور ساری کی ساری مالی پشت پناہی حکومت پاکستان کی طرف سے ہے۔ ادارے کے ایک تعارفی کتابچے میں اس ادارے کا بنیادی مقصد ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : ‘‘مغل بادشاہ اکبر اعظم نے لاہور کو صوبائی سطح سے بلند کر کے آگرہ اور دہلی کی طرح دارالحکومت کا مقام دیا لاہور تخت شاہی کی ایک متبادل سیٹ تھی ۔ اکبر دوسرے تمام مذاہب کی طرف روادارانہ رویہ رکھتا تھا ۔ اس نے یہاں لاہور میں دوسرے مذاہب کے علما و فضلا کے ساتھ بحث و مباحثہ کی مجلسیں منعقد کیں ’’۔ ان مباحثوں سے جس میں مسلمان ، ہندو ، سکھ ، عیسائی اور ملحد بے دین ، سب شریک ہوتے تھے ، روادارانہ مکالمے کی فضا نے نشوونما پائی ۔ آج یہ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ بھی اسی مقصد کے لیے کوشاں ہے تاکہ اعلی سطح کے بہترین اہل علم کے درمیان آج کی دنیا میں روشن خیال مسلم معاشرے کے لیے ان کے وژن پر بحث و مباحثے کی گنجائش پیدا ہو ۔

            ادارے کے تعارفی کتابچے سے لیا گیا یہ اقتباس ، مذکورہ ادارے کے کارپردازان کا ذہن پوری طرح واضح کر دیتا ہے ۔ گویا مغل باشاہ اکبر کی روشن خیال اعتدال پسندی (جس کا مظہر اس کا دین الہی تھا) ان خواتین وحضرات کا راہنما نظریہ ہے ۔ اقبال انسٹی ٹیوٹ کے کارپردازوں نے حکومت کی سرپرستی میں بند دروازوں کے پیچھے یکم تا تین جولائی 2006 لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں بڑی رازداری سے ایک کانفرنس منعقد کی جسے ایک روشن خیا ل مسلم معاشرے کی تکمیل نو میں پیغام اقبال کی معنویت پر جنوبی ایشیا کے اسکالرز کی لاہور مشاورت کا نام دیا گیا ۔ بھلا ہو روزنامہ ‘نوائے وقت’ کا جس نے 8 جولائی کے تعلیمی ایڈیشن میں اس سازش کو طشت از بام کر دیا۔ کانفرنس کے شرکا میں پاکستان کے علاوہ ، بھارت ، بنگلہ دیش ، کینیڈا ، امریکا اور مصر سے خواتین و حضرات شامل تھے ۔ جو خواتین و حضرات بھی اس مشاورت میں شریک تھے وہ سب کے سب کلام اقبال او رپیغام اقبال کے حوالے سے مجہول لوگ ہیں ۔ پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش سے اقبالیات کے نامور محققین اور اقبال شناس خواتین و حضرات سے کوئی ایک شخص بھی ساؤتھ ایشین مسلم اسکالرز کے اس مشاورتی اجلاس میں شرکت کے قابل نہیں سمجھا گیا حتی کہ فرزند اقبال ، ڈاکٹر جاوید اقبال کو بھی (ماشااللہ وہ بھی روشن خیال اعتدال پسندی کے اعلی ترین مقام پر فائز ہیں ) اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ وہ مذکورہ مشاورت میں جلوہ افروز ہوں ۔ گویا مذکورہ مشاورتی اجلاس کی روشن خیال اعتدال پسندی کے حوالے سے سطح کچھ زیادہ ہی بلند تھی علامہ اقبال کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے 50 کروڑ روپے کی خطیر رقم فراہم کرنے کا معاملہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے محب وطن اراکین کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ اس رقم کا ذکر پچھلے بجٹ میں ہے اور نہ حالیہ بجٹ میں ۔

            اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کا ہدف نئی نسل ، تعلیم اور اساتذہ ہیں ۔ گویا گراس روٹ لیول سے روشن خیال اعتدال پسندی کو پھیلانے کا پروگرام بنایا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے علامہ اقبال کے نام پر ابہام اور انتشار پیدا کرنے کی ٹھانی گئی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ ایک امریکن ڈاکٹر فریڈ میڈنک نے جو ٹیچرز ود آؤٹ بارڈرز (Teachers without borders) نامی کسی تنظیم کے بانی ہیں ، بتایا کہ انہوں نے اساتذہ کے لیے اسلام کو عام فہم بنانے کے لیے اور اساتذہ کی تربیت کے لیے کہ وہ اسلام کو تدریس کے ساتھ مربوط کرسکیں ، ایک ہینڈ بک تیار کی ہے جس کا عنوان ہے : Modern teaching and islamic tradition ۔ راقم الحروف نے اس نام نہاد ہینڈ بک کا کچھ حصہ مذکورہ انسٹی ٹیوٹ کے تعارفی کتابچے میں دیکھا ہے ۔ وہ واقعی سیکولر لبرل عناصر کی روشن خیال اعتدال پسندی کا شاہکار ہے ۔ اسلام سے نابلد ایک جاہل امریکی سے اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے ۔ ڈاکٹر فریڈ میڈنک نے جو مستقلًا اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کے صدر دفتر میں متعین ہیں ، اس سال اپنی اس ہینڈ بک کے ذریعے 150 اساتذہ کی تربیت کا ہدف مقرر کیا ہے ۔

            اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ نے اس سال 40 سے 50 لاکھ طلبہ تک رسائی حاصل کرنے کا پروگرام بھی بنایا ہے تاکہ انہیں روشن خیال اعتدال پسندی کے اسباق دیے جائیں ۔ طلبہ تک رسائی کی ابتدا ہمارے روشن خیال اعتدال پسند گورنر پنجاب جناب عزت مآب خالد مقبول کے ہاتھوں ہوئی کہ موصوف نے مشاورتی اجلاس کے آخری دن مندوبین کو گورنر ہاؤس میں کھانا دیا جس کے دوران پنجاب کی مختلف یونیورسٹیوں سے 40 منتخب طلبہ و طالبات کو ساؤتھ ایشیا کے ان نام نہاد مسلم اسکالرز سے ملاقات کا شرف بخشا گیا ۔ ساؤتھ ایشیا مسلم اسکالرز کی اس لاہور مشاورت کی خفیہ کارروائی سے جو کچھ میڈیا میں سامنے آیا اس کے مطابق پاکستان میں اسلامیات کے نصاب کو ہدف تنقید بنایا گیا ۔ دینی مدارس کی تعلیم اور نصاب کو بدلنے کی سفارش کی گئی۔ اے لیول اور او لیول پاس کرنے والے طلبہ و طالبات میں مطلوبہ سطح کی روشن خیال اعتدال پسندی کے فقدان کا رونا رویا گیا ابتدا ہی سے روشن خیال اعتدال پسندی کی ترویج کے لیے پہلی جماعت سے انگریزی کی تدریس لازمی مضمون کے طور پر جاری کرنے کی سفارش کی گئی ۔ علامہ اقبال ، نذرالاسلام اور رابندر ناتھ ٹیگور کی تعلیمات پر مبنی ریسرچ پراجیکٹس شروع کرنے اور انکی تعلیمات نئی نسل تک پہنچانے کے لیے منصوبہ بنایا گیا ۔ یاد رہے کہ نذرالاسلام اور رابندر ناتھ ٹیگور دونوں بنگالی شاعر اور ادیب ہیں ۔ نذرالاسلام مرتے دم تک کلکتہ میں رہا اور زندگی بھر سابق مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہیں گیا ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ علامہ اقبال ، نذرالاسلام اور ٹیگور میں کیا قدر مشترک ہے کہ ان پر ریسرچ کر کے اور ان کی تعلیمات سے روشن خیال اعتدال پسندی برآمد کر کے نئی نسل تک پہنچانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے ساؤتھ ایشیا میں اعتماد سازی اور افہام و تفہیم کو فروغ ملے گا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گلوبلائزیشن کے تحت عالمی سطح پر جو چار وسیع البنیاد مقاصد تعلیم وضع کیے گئے ہیں ، ان میں سے ایک ، یعنی مل جل کر رہنا سیکھنے (Learning to live together ) کی تکمیل کا ایجنڈا پیش نظر ہے۔ اس کے تحت ضروری قرار دیا گیا ہے کہ پوری دنیا کے بچوں اور جوانوں کے ہیرو مشترک ہوں تاکہ وہ ہیرو جو قوموں میں باہمی نفرت اور افتراق کا باعث بنتے ہیں ، انہی تعلیمی نصابات سے خارج کر دیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا ، بھارت اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ ہمار ے ہم وطن ترقی پسند ، روشن خیا ل اور لبرل سیکولر عناصر بھی ہمارے اردو ، معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان کے نصابات پر معترض ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ محمد بن قاسم ، محمود غزنوی اور شہاب الدین محمد غوری تو ہندستان پر حملہ آور ہوئے ۔ وہ جارح اور لٹیرے تھے ۔ اگر ہم انہیں اپنے نصاب میں اپنے ہیرو بنا کر نئی نسل کو پڑھائیں گے تو ہم ہندوؤں کے ساتھ مل کر کیسے رہ سکتے ہیں ۔ یہ لوگ قدیم ہندو راجاؤں کے ساتھ مغل بادشاہ اکبر جیسے نام نہاد ہیرو کو نصاب کا حصہ بنانا چاہتے ہیں ۔ اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کے تحت منعقد ہونے والے لاہور مشاورت برائے ساؤتھ ایشین مسلم اسکالرز کی سہ روزہ میٹنگ کے بعد آواری ہوٹل میں 4 تا 5 جولائی ٹیچرز ٹریننگ گروپ کا اجلاس بھی ہوا جس میں یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے نمائندے کے علاوہ ادارہ تعلیم و تحقیق پنجاب یونیورسٹی کے ڈائریکٹر اور بعض دیگر خواتین و حضرات کو بھی مدعو کیا گیا تھا ۔ اس دو روزہ اجلاس میں ٹیچرز ٹریننگ اور طلبہ میں نفوذکی راہیں سوچی گئیں اور آئندہ کے پروگرام بنائے گئے ۔

            محب وطن حلقوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ کس طرح ہمارے ہی مشاہیر کا نام استعمال کر کے روشن خیال اعتدال پسندی کی اصطلاح کو پھیلایا جا رہا ہے ۔ اگرچہ کچھ حلقے خیال کرتے ہیں کہ اس طرح کی اوچھی حرکتوں سے کچھ نہیں ہو گا ، اور وہ شتر مرغ کی طرح منہ ریت میں دیکر سمجھتے ہیں کہ وہ عافیت میں ہیں تو ، یہ ان کی خام خیالی ہیے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ریاستی قوت ، میڈیا کا جانب دارانہ استعمال اور مسلسل پروپیگنڈا عقائد و نظریات کو کمزور کرنے اور آخرکار مکمل طور پر استیصال کا سبب بن سکتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم امہ عموما اور ملت پاکستان خصوصاً پوری قوت او رذہنی بیداری کے ساتھ اٹھ کھڑی ہو اور ‘روشن خیال اعتدال پسندی’ کے نام پر ہونے والی غیر مناسب حرکات کا ہر محاذ پر مقابلہ کرے ۔ اس جدوجہد میں سب سے اہم محاذ تعلیم کا ہے ، لہذا اساتذہ کرام کو ہراول دستے کا کردار انجام دینا ہو گا ۔

(بشکریہ ، ماہنامہ ترجمان القرآن ، لاہور)