حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ

مصنف : آباد شاہ پوری

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : دسمبر 2006

آخری قسط

            عمر بن عبدالعزیز بلاشبہ ان افراد میں سے تھے جنہیں اللہ تعالی اصلاح امت کا کام لینے کے لیے پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے جب زمام خلافت ہاتھ میں لی ، امت بڑی تیزی سے بگاڑ کی طرف جا رہی تھی ۔ عمر کو اس بگاڑ کا شدید احساس تھا ۔ یہ بگاڑ جن راہوں سے آیا تھا ان پر بھی عمر کی نظر تھی اور ایک مسلمان حکمران کو اس بگاڑ کی روک تھام اور اصلاح امت کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے تھا وہ بھی ان پر واضح تھا ، چنانچہ اپنے پہلے ہی خطبے میں انہوں نے اس بگاڑ کے سرچشمہ اور اس کی اصلاح کی تدابیر کی جانب امت کو توجہ دلائی ۔ انہوں نے کہا :

            ‘‘میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور تقوی اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں اس لیے کہ اللہ کا خوف او رتقوی ہر شے کا بدل ہے اور کوئی شے اس کا بدل نہیں ۔ پس جو عمل کرو اپنی آخرت سنوارنے کے لیے کرو ، اس لیے کہ جو شخص آخرت کے لیے عمل کرتا ہے اللہ اس کے دنیا کے کام سنوار دیتا ہے ۔ اپنے باطن کی اصلاح کرو اللہ تمہارے ظاہری احوال کو بہتر بنا دے گا او رموت کا ذکر بکثرت کیا کرو اور اس سے پہلے کہ وہ تمہیں آلے خوب اچھی طرح تیاری کر لو …… اور یہ امت اختلافات کا جو شکار ہوئی تو اس لیے نہیں کہ اس کے اندر اب اپنے رب ، اپنے نبی ﷺ یا اپنی کتاب (قرآن کریم) کے بارے میں کوئی اختلاف پیدا ہو گیا ہو بلکہ اس کے اندر درہم و دینار نے اختلافات کا فتنہ بویا اور دیکھو میں یہ بات واضح کیے دیتا ہوں کہ میں کسی شخص کو غلط طور پر کچھ نہیں دوں گا اور جس شخص کا بھی کوئی حق بنتا ہے اسے اس حق سے محروم نہیں کروں گا ۔’’

            عمر نے ایک ماہر طبیب کی طرح امت کی نباضی کی تھی ۔ فی الحقیقت اس دور میں مسلمانوں کے اندر جتنے بھی فتنہ و فساد رونما ہوئے ان کا سرچشمہ یہی تھا کہ لوگوں کے دلوں سے خوف خدا اٹھ گیا تھا ۔ آخرت کی زندگی دل و دماغ سے اوجھل ہو گئی تھی اور وہ موت سے بے پروا ہو کر دنیا کے پیچھے دوڑنے لگے تھے ۔ ان کے بنیادی عقائد او رایمانیات میں کوئی فرق نہ آیا تھا ۔ وہ اللہ تعالی کو اپنا پروردگار اور مالک و آقا ، نبی ﷺ کو اپنا ہادی و رہنما اور قرآن کریم کو ہدایت کا منبع تسلیم کرتے تھے ، خرابی پیدا ہوئی تو یہ کہ ان کے عقید ہ و ایمان اور عمل میں تضاد اور ان کے باطن و ظاہر میں دو رنگی آگئی تھی ۔ وہ درہم و دینار کے بندے بن کر رہ گئے تھے ۔ درہم و دینار کی محبت او ردنیا طلبی نے ان کے دلوں میں ایک دوسرے سے نفرت بھر دی تھی اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف معرکہ آرا کر دیا تھا۔ چنانچہ عمر نے خرابی کے اس سرچشمے کو بند کرنے اور لوگوں کی زندگی کو خدا خوفی ، آخرت کی جوابدہی کے احساس اور ایمان و عمل کی ہم آہنگی پر استوار کرنے کی جدوجہد کی ۔ انہوں نے خود اپنے ہر عمل کی بنیاد خدا کے خوف اور عذاب آخرت کے ڈر پر رکھی تھی ۔ ان کا جو عقیدہ و ایمان تھا اس کے مطابق عمل کرتے تھے او ردوسرو ں کو بھی انہی تین اصولوں کو زندگی کا دستور عمل بنانے کی تلقین فرمایا کرتے تھے ۔ ایک بار ان کی صاحبزادی نے ایک موتی ان کی خدمت میں بھیجا کہ ابا جان اس کے ساتھ کا دوسرا موتی منگوا دیجیے ۔ میں کانوں میں پہننا چاہتی ہوں ۔ عمر نے اس فرمائش کے جواب میں دو انگارے بھیج دیے اور کہلا بھیجا کہ بیٹی ! اگر تم ان انگاروں کو کانوں میں پہن سکتی ہو تو جو موتی تم نے بھیجا ہے اس کے ساتھ کا موتی بھیج دیتا ہوں ۔

            عمر اپنے خطاب کا آغاز عموماً اللہ سے خوف کھانے اور قیامت کے دن سے ڈرتے رہنے کی تلقین سے کیا کرتے ایک بار فرمایا : لوگو! اس دھوکے میں نہ رہو کہ قیامت کا دن بہت دور ہے ۔ جس شخص کو موت نے آلیا اس کی قیامت آگئی ۔ ایک مرتبہ ایک گورنر نے کام کی زیادتی اور ذمہ داری کے بوجھ سے گھبرا کر عمر کو لکھا کہ مجھے راتوں کو دیر تک جاگنا پڑتا ہے اور مشقت نے میری کمر دوہری کر دی ہے عمر نے جواب میں تحریر کیا : ‘‘میرے بھائی دوزخ میں اہل دوزخ کا جاگنا یاد کرو اور یہ بھی ذہن میں رکھو کہ وہ لوگ وہاں ہمیشہ رہیں گے ۔ تم راتیں سو کر کاٹو یا جاگ کر یاد رکھو تمہیں اپنے اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے ۔’’

            عمر نے اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگی کی آسائشیں دوسروں کی زندگی بنانے پر قربان کر دی تھیں ۔ ان کی رہائش گاہ پر نہ کوئی دربان تھا اور نہ نوکر چاکر ، لوگ بے روک ٹوک جا کر ملتے اور ان کا سادہ معیار زندگی دیکھ کر حیران رہ جاتے ۔ ایک مرتبہ ایک حاجت مند عورت عراق سے آئی اور دروازہ پر دربان نہ پاکر سیدھی اندر چلی گئی ۔ اس عہد کی خاتون اول فاطمہ بنت عبدالملک نے اسے خوش آمدید کہا ۔ وہ سلام کر کے بیٹھ گئی ، پھر اس نے نظریں گھما کر چاروں طرف دیکھا ۔ گھر میں کوئی قابل ذکر چیز نہ تھی ۔ وہ حیرت کے عالم میں بے اختیار پکار اٹھی ، اس ویرانے سے تو میرا گھر کہیں زیادہ آباد ہے ۔ ’’ فاطمہ بولیں: ‘‘ہاں یہ گھر اس لیے ویران ہو گیا ہے کہ تم لوگوں کے گھر آباد ہوں۔’’

 ٭٭٭

            عمر بن عبدالعزیز نے مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوتے ہی انداز حکمرانی ہی کو نہیں بدلا بلکہ ہاتھ بھی بدل ڈالے ۔ جو لوگ فساد و خرابی پھیلانے میں معاون و مددگار اور کج رو حکمرانوں کا دماغ اور ہاتھ پاؤں رہے ہوں وہ اصلاح و تطہیر اور نیکی کی بنیادوں پر اجتماعی زندگی کی تعمیر نو کی مہم میں کبھی کام نہیں آسکتے ، چنانچہ عمر نے تمام بڑے بڑے گورنروں ، اعلی حکام ، مشیروں اور وزیروں کو برطرف کر دیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خود یا ان کے باپ دادا نے بنو امیہ کے اقتدار کو قائم کرنے اور اسے استحکام بخشنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اموی حکومت و سلطنت کے مضبوط و مستحکم ستون سمجھے جاتے تھے ۔ عمر جانتے تھے کہ یہ لوگ عبدالملک ، ولید اورسلیمان اور انہی جیسے اور حکمرانوں کے لیے مفید ہو سکتے ہیں ، لیکن جو تغیر وہ لانا چاہتے ہیں اس کے لیے بالکل مختلف ذہن و دماغ اور سیرت و کردار کے لوگ درکار ہیں ۔ اس سلسلے میں ان کا جو نقطہ نظر تھا اس کا اندازہ اس گفتگو سے ہو سکتا ہے جو ایک معزول گورنر کے ساتھ ان کی ہوئی ۔ اسے جب نئی پالیسی کے تحت معزو ل کیا گیا تو وہ عمر کی خدمت میں حاضر ہوا او رعرض کی : ‘‘امیرالمومنین ! میں نے حجاج کے تحت تو صرف چند روز کام کیا تھا ۔’’ آپ نے فرمایا : ‘‘شر کی صحبت ایک دن کی ہو یا چند گھنٹوں کی ، معزولی کے لیے کافی ہے ۔’’ گویا عمر بن عبدالعزیز کے نزدیک شر کا تھوڑی سی دیر کا ساتھ دینے والے بھی ناقابل اعتماد تھے اور اس بات کے نااہل کہ ان پر نیکی اور خیر کی کسی مہم میں انحصار کیا جائے ۔ کسی شخص کے شر کو جانتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیے بھی اس کا ساتھ دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کا کردار ناپختہ ہے اور نیکی اور خیر کے ساتھ کشمکش میں وہ کسی وقت بھی شر کی صفوں میں جا کھڑا ہو سکتا ہے ۔ چنانچہ عمر نے ان کی جگہ ایسے لوگوں کو متعین کیا جن کا کردار بے داغ تھا اور جو ایک صحیح اسلامی حکومت کو چلانے کے لیے موزوں ترین ہو سکتے تھے ۔

            عمر کسی شخص کو کسی بھی سرکای منصب پر فائز کرنے سے پہلے اس کے بارے میں اچھی طرح چھان بین کرتے۔ اس کی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ سیرت و کردار پر بھی نظر رکھتے ۔ اسلامی مملکت میں قضاۃ (ججوں ) کی ذمہ داری سب سے اہم ذمہ داری ہوتی ہے ۔ اس لیے ان کا تقرر خصوصی اہتمام سے کرتے ۔ ان کے اندر پانچ اوصاف کا ہونا ضروری تھا ۔ علم اور اس پر عبور ، بردباری ، پاکدامنی اور اصابت رائے ۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ عہد عمر کے قضاۃ ورع و تقوی اور علم و حلم اور سیرت و کردار میں ضرب المثل بن گئے تھے ۔ گورنروں او راعلی حکام کا معیار تقرر بھی اتنا ہی بلند تھا۔ ان کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ ان کا تعلق جس علاقے سے ہو وہاں کے رہنے والوں کے بارے میں وہ گہری واقفیت رکھتے ہوں ۔ پھر عمر محض ان لوگوں کے زہد و ورع ، نیکی اور حسن کردار ہی پر مطمئن ہو کر نہ رہ جاتے بلکہ ان پر کڑی نظر رکھتے ، اپنے آدمی بھیجتے کہ لوگوں کے اندر جائیں اور پتا کریں کہ گورنر، جج اور انتظامیہ کے دوسرے حکام ان کی رائے میں کس قسم کے لوگ ہیں ، وہ ان کی کارکردگی او رکردار سے مطمئن ہیں یا غیر مطمئن جس شخص کے بارے میں تسلی بخش رپورٹ نہ ملتی یا اس سے کوئی کوتاہی سرزد ہو جاتی اس کا فوراً احتساب کرتے اور اگر وہ انہیں مطمئن نہ کر پاتا تو اسے برطرف کر دیتے ۔ کوفہ کے گورنر عدی بن ارطاۃ ایک مرتبہ کسی کوتاہی کے مرتکب ہوئے ، عمر نے انہیں فوراً فرمان بھیجا : ‘‘میں تمہارے کالے عمامے ، قاریوں کی مجالس میں تمہاری حاضری اور عمامے کا پلو پشت پر ڈالنے (یعنی تمہاری وضع قطع اور طور و اطوار ) سے دھوکا کھا گیا ۔ میں سمجھا یہ سب تمہاری نیکو کاری کا اظہار ہیں ۔ اس حسن ظن کی بنا پر میں نے تمہیں اس منصب پر فائز کیا ، لیکن لوگ جو کچھ چھپاتے ہیں ، اللہ اسے ظاہر کر کے رہتا ہے ’’ …… اور اس کے ساتھ ہی ان کو معزول کر دیا ۔

            اس نگرانی اور کڑے احتساب کا نتیجہ یہ تھا کہ جن مناصب کے لیے لوگ کبھی دوڑ لگایا کرتے تھے اور جنہیں وہ عظمت و وقار کا نشان سمجھتے تھے اب انہیں قبول کرنے سے گریز کرتے اور جو قبول کر لیتے وہ تمنا کرتے کہ اس کانٹوں بھری عظمت سے چھٹکارا مل جائے ۔ میمون بن مہران الجزیرہ کے عامل خراج اور قاضی تھے ۔ منصب کی ذمہ داریاں ناقابل برداشت ہو گئیں تو عمر کو لکھا کہ مجھے اس خدمت سے معاف کیا جائے ۔ عمر نے ان کی معذرت قبول کرنے سے انکار کر دیا او رلکھا کہ جو چیز مشقت میں ڈال دے اس کی میں تمہیں تکلیف نہیں دیتا ۔ پاک صاف پھل چنو ، اپنی صوابدید سے حق کے مطابق فیصلے کرو اور کسی معاملے میں التباس پیدا ہو جائے تو اس کو میرے پاس بھیج دو ۔ اگر لوگوں پر ذمہ داریاں بوجھ بن جائیں اور وہ ان سے دستبردار ہونے لگیں تو اس طرح نہ دین قائم ہو سکتا ہے اور نہ دنیا کے کام چل سکتے ہیں ۔

             عمر احکام کے نفاذ میں کسی قسم کی تاخیر گوارا نہ کرتے اور نہ یہ پسند فرماتے کہ ان کے عمال ایسا کریں ۔ ایک بار ان کے عامل عبدالحمید بن عبدالرحمان نے لوگوں کے اموال مغصوبہ کی واپسی اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داد رسی کے سلسلے میں کچھ وضاحتیں چاہیں ۔ دارالخلافت سے جو وضاحتیں جاتیں ان پر مزید سوال پہنچ جاتے ۔ آخر عمر بن عبدالعزیز نے انہیں لکھا : ‘‘تم عجب آدمی ہو ، میں تمہیں لکھتا ہوں کہ فلاں شخص کو ایک بھیڑ دے دو تو تم لکھ بھیجتے ہو کہ بھیڑ نر ہو یا مادہ ۔ میں اس کے بارے میں ہدایت کرتا ہوں تو تم پوچھتے ہو چھوٹی یا بڑی ، میں اس کی تصریح کرتا ہوں تو تم سوال کرتے ہو وہ بھیڑ دبلی ہو یا موٹی ۔ دیکھ میں جو حکم بھیجوں اسے فوراً نافذ ہونا چاہیے ، میرے پاس واپس نہیں آنا چاہیے ۔ ’’

 (6)

            انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے ۔ کسی حکمران کی شناخت ان لوگوں سے ہوتی ہے جنہیں اس نے اپنے اردگرد جمع کر رکھا ہوتا ہے ، جن سے وہ مشورے لیتا ہے اور جنہیں وہ حکومت کے اہم مناصب پر فائز کرتا ہے ۔ یہ لوگ اس کی آنکھیں اور اس کے کان اور ہاتھ پاؤں ہوتے ہیں ۔ کوئی حکمران خود کتنا ہی بیدار مغز ، راست رو اور نیک نیت اور نیک سیرت ہو ، اگر اس کے گردو پیش کے لوگ فکر و ذہن او رکردار و عمل کے اعتبار سے برعکس کینڈے کے ہونگے تو اس حکمران کی ساری صلاحیتیں ، نیک ارادے اور خواہشیں دھری کی دھری رہ جائیں گی ۔ ملک میں دور دورہ انہی لوگوں کے فکر و ذہن اور سیرت و کردار کا ہو گا جن پر وہ امور مملکت میں اعتماد و انحصار کرتا ہے ۔ عمر بن عبدالعزیز اس نکتے سے باخبر تھے ۔ انہوں نے مملکت کے گورنر اور حکام ہی نئے دور کے تقاضوں کے مطابق مقرر نہیں کیے ، مشورے کے لیے بھی ایسے اصحاب کی طرف رجوع کیا جن کی سوچیں ان کی سوچ سے ہم آہنگ تھیں اور جو ان کے عزائم اور پروگرام سے دل و جاں سے اتفاق رکھتے تھے اسے اپنے ایمان کا تقاضا اور امت کی اصلاح و فلاح کا واحد راستہ تصور کرتے تھے ۔

            عمر نے اپنے ساتھیوں اور مشیروں کا ایک معیار مقرر کر رکھا تھا ۔ عبدالرحمان بن عمر اوزاعی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے اپنے ہم نشینوں سے کہا تھا کہ تم میں سے جو شخص میرے ساتھ رہنا چاہتا ہے اس میں پانچ اوصاف لازماً ہونے چاہیےں ۔ عدل و انصاف کے جن امور کی گہرائیوں تک میری رسائی نہیں ہو پاتی ، ان میں میری رہنمائی کرے ، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں میرا مددگار ہو ، لوگوں کے جو معاملات مجھ تک نہیں پہنچ پاتے انہیں پہنچائے ، غیر متعلق اور لغو باتیں میری مجلس میں نہ کرے ۔ میرے اور لوگوں کے درمیان جو امانت ہے اسے دیانتداری سے ادا کرے ۔ اس معیار کے مطابق انہوں نے جن مشیروں کو چنا وہ اعلی علمی و عملی صلاحیتوں کے حامل بھی تھے اور اپنے وقت کے زاہد و تقوی شعار بھی ۔

            ان میں سے ایک مشیر عمر کے اپنے صاحبزادے عبدالملک تھے ۔ وہ تھے تو سترہ اٹھارہ برس کے نوجوان مگر اس نوجوانی میں بھی ان کے اندر وہ اوصاف پائے جاتے تھے جو ان کے جدبزرگوار عمر بن خطابؓ کی سیرت کا حسن اور جوہر تھے ۔ قوی الایمان ، خدا ترس ، عبادت گزار اور علمی اعتبار سے صف اول کے فقیہ ۔ انہیں نے اپنے والد کو رد مظالم کے پروگرام پر فوری عمل کا مشورہ دیا تھا ۔ عمر خلیفہ بننے کے بعد ساری رات قصر حکومت او راس کے ماحول کو اپنے پیشروؤں کی سئیات سے پاک کرنے میں مصروف رہے تھے ۔ تھک کر چور ہو چکے تھے ، دن کے وقت کچھ دیر سونے کا ارادہ کیا ۔ اتنے میں عبدالملک آپہنچے ۔ بولے : ‘‘امیر المومنین ! اب کیا پروگرام ہے ؟’’ فرمایا : ‘‘ساری رات جاگتا رہا ہوں ، ذرا آنکھ لگا لوں ، پھر رد مظالم کی طرف توجہ دوں گا ۔’’ عبدالملک نے کہا : ‘‘امیر المومنین ! کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ اتنا عرصہ زندہ بھی رہیں گے ۔’’ عبدالملک کے ان الفاظ نے عمر کو جیسے جھنجھوڑ ڈالا ۔ موت اور آخرت کی باز پرس کے بارے میں انتہائی حساس ہونے کے باوجود اس طرف ان کادھیان نہیں گیا تھا کہ ان کو جو فرض بھی ادا کرنا ہے اسے آنے والی ساعتوں پر اٹھا رکھنے کے بجائے فوراً ادا کر ڈالنا چاہیے ۔ ممکن ہے وہ ساعتیں ان پر کبھی طلوع نہ ہوں اور زندگی موت کے گہرے غار میں اتر جائے ۔ دل و نگاہ سے اوجھل اس حقیقت کی بازگشت سے امڈتی ہوئی نیند آنکھوں سے کافور ہو گئی ۔ اور پھر رد مظالم کا سلسلہ جو شروع ہوا تو زندگی کے آخری لمحات تک جاری رہا ۔

            عبدالملک کی اصابت رائے اور حق پرستی کے عمر ہی قائل نہ تھے ، ان کی ان خوبیوں کے وہ ارباب حق و خیر اور اصحاب علم و ورع بھی مداح تھے جن کی طرف عمر بڑ ے اہم معاملات میں مشورہ کے لیے رجوع کیا کرتے تھے ۔ عمر ردمظالم کے بعض پہلوؤں کے بارے میں غیر مطمئن تھے۔ انہوں نے میمون بن مہران ، مکحول اور ابن قلابہ کو بلا بھیجا ، تینوں اصحاب تشریف لائے تو ان سے کہا : ‘‘جو اموال لوگوں سے ظلم و جور سے حاصل کر لیے گئے تھے ، ان کے متعلق آپ حضرات کی کیا رائے ہے ؟’’ ‘‘میری رائے میں آپ کو اپنے سفر کا آغاز ماضی سے کٹ کر کرنا چاہیے ۔’’ مکحول نے جوا ب دیا ۔ عمر کے چہرے پر ناگواری کی پرچھائیاں نمودار ہوئیں ۔ وہ شاید مکحول سے کسی اور جواب کے منتظر تھے ۔ پھر میمون کی طرف دیکھا جیسے انہیں مدد کے لیے پکاررہے ہوں۔ ‘‘امیر المومنین اپنے صاحبزادے کو بلائیے اور ان کے آگے اس مسئلہ کو رکھیے ۔ میں نے ان جیسا صائب الرائے نوجوان نہیں دیکھا۔ صاحبزادے آئے تو عمر نے کہا : ‘‘عبدالملک ! ان اموال کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے جنہیں لوگوں سے ظالمانہ طریقے سے چھین لیا گیا تھا ۔ وہ آج مجھ سے ان کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ہم سے بہتر صورت احوال سے کون باخبر ہے؟’’ عبدالملک نے کسی تامل کے بغیر جواب دیا : میری رائے میں یہ اموال انہیں واپس کر دینے چاہیےں ، اگر نہیں کریں گے تو آپ بھی ان غاصبین کے زمرے میں شمار کیے جائیں گے ۔’’ عبدالملک اپنے والد کو نصیحت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے ۔ ایک روز عمر کسی بات پر انتہائی غضبناک ہو گئے ۔ غصہ ٹھنڈا ہوا تو عبدالملک نے کہا : ‘‘امیرالمومنین! اللہ تعالی نے جو مقام آپ کو عطا فرمایا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لیں ، کسی بھی بات پر بھڑک اٹھنا آپ کے شایان شان نہیں ۔’’

            عبدالملک نے زندگی کی صرف انیس بہاریں دیکھیں۔ عمر کے بار خلافت اٹھانے کے بعد وہ ڈیڑھ سال زندہ رہے ، لیکن اس عرصے میں ہر اہم معاملے میں اپنے والد گرامی کو حق و صواب کے مطابق مشورہ دیتے رہے ۔ عبدالملک معاشرے اور حکومت میں تیز رفتاری سے تبدیلیاں لانے کے حق میں تھے ، تاہم عمر تدریج کے قائل تھے ۔ عبدالملک جب بھی عجلت پر زور دیتے ، عمر فرماتے : ‘‘بیٹے جلدی مت کرو ۔ اللہ نے قرآن میں شراب کی دو مرتبہ مذمت کی اور تیسری بار اسے حرام قرار دیا ۔ مجھے ڈر ہے کہ لوگوں پر حق پورے کا پورا ایک ہی بار نافذ کر دیا گیا تو وہ اس بوجھ کو سہار نہ سکیں گے ۔ ان کے اندر فوری رد عمل پیدا ہو گا اور وہ فتنے کا شکار ہو جائیں گے ۔’’ عمر کے بھائی سہیل اور غلام مزاحم بھی ان قریب ترین لوگوں میں سے تھے جن کی رائے او رعلم و کردار پر وہ اعتماد کرتے تھے ۔ ورع و تقوی اور حق کے راستے میں عمر کی معاونت ان دونوں کی زندگی کا روشن پہلو تھا ، تاہم یہ بھی عمر کی زندگی ہی میں دنیائے فانی سے رحلت کر گئے ۔ اس طرح حق و صدق پر قائم و عامل ان کا قریب ترین حلقہ سمٹتا او رمختصر ہوتا گیا ۔

            عمر کے اہم ترین مشیر اور خلافت میں ان کے دست راست رجاء بن حیوۃ تھے ۔ اہل شام کے سردار لوگ انہیں ان تین اصحاب ابرار میں شمار کرتے تھے ، جن کی عالم اسلام میں مثال نہ تھی ۔ عراق میں ابن سیرین، حجاز میں قاسم ابن محمد اور شام میں رجاء بن حیوۃ ۔ عمر نے خلافت کی ذمہ داری اٹھائی تو رجاء نے ایک مشہور ارشاد رسولﷺ کی روشنی میں حکمرانی کے ایک اہم ترین اصول پر عمل پیرا ہونے کی نہایت خوبصورت پیرایے میں تلقین کی ۔ انہوں نے کہا : ‘‘امیر المومنین! اگر آپ کل اللہ کے عذاب سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو مسلمانوں کے لیے وہی کچھ پسند فرمائیے جو آپ اپنے لیے پسند کرتے ہیں اور جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں وہ ان کے لیے بھی نا پسند کیجیے ۔ پھر جب چاہے موت آپ کو آلے ، فکر کی کوئی بات نہیں ۔’’ انہی مشیروں میں عبیداللہ بن عبداللہ ابن عقبہ تھے ۔ یہ بھی عمر کی زندگی ہی میں فوت ہو گئے تھے ۔ ان کے ورع و تقوی او رفکری و ذہنی صلاحیتوں کا یہ عالم تھا کہ عمر کہا کرتے تھے کہ عبیداللہ کی ایک مجلس مجھے دنیا اور اس کی ساری متاع سے زیادہ محبوب ہے ۔ بخدا اگر ایسا ممکن ہوتا تو میں عبیداللہ کی ایک رات بیت المال کے ایک ہزار دینار سے خرید لیتا ۔ کہنے والوں نے کہا : ‘‘امیرالمومنین! یہ آپ فرما رہے ہیں ؟ آپ تو بیت المال کی ایک ایک پائی کی حفاظت بڑی سختی سے کرتے ہیں ۔’’ فرمایا : ‘‘بخدا میں ان کی رائے ، ان کی نصیحت او ران کے مشورے پر مسلمانوں کے بیت المال کے ہزاروں روپے بھی صرف کردیتا تو کم تھا ۔’’ پھر محمد بن کعب القرظی تھے ، علم و صلاح سے مزین کردار کے حامل ، حق کے معاملے میں انتہائی حساس ۔ جس زمانے میں عمر مدینہ کے گورنر تھے ، محمد بن کعب ان کے اصحاب میں شامل تھے ۔ پھر عمر کے بعض اقدامات پر انہوں نے ان کو ٹوکا اور نصیحت کی تو عمر بگڑ گئے اور ان دونوں کے درمیان دوری پیدا ہو گئی ۔ محمد بن کعب کے ساتھ عمر کے کڑے رویے نے اس خلیج کو اور وسیع کر دیا ۔ عمر خلیفہ بنے اور زندگی کا نہج بدلا تو ابن کعب کو بلوا بھیجا وہ آئے تو ان سے ماضی کی زیادتیوں پر معذرت کی اور فرمایا: میرے لیے مغفرت کی دعا کیجیے ۔ ابن کعب نے کہا : ‘‘امیرالمومنین! اللہ تعالی آپ کو معاف فرمائے اور آپ کی لغزشوں سے درگزر کرے ۔’’ ابن کعب نے کئی برس کے بعد عمر کو دیکھا تھا اور ان کی نگاہیں بار بار ان کے سراپا پر دوڑ رہی تھیں ۔ ‘‘ابن کعب یہ بار بار مجھ میں کیا دیکھ رہے ہو؟’’ عمر نے پوچھا ۔ ‘‘میں دیکھ رہا ہوں اور حیران ہوں کہ وہ سرخ سنہرا رنگ ، وہ خوبصورت بال ، وہ تروتازہ بدن کیا ہوا ؟’’ ابن کعب نے جواب دیا ۔ ‘‘مجھے دفن ہونے کے تین دن بعد دیکھو تو بالکل ہی پہچان نہ پاؤ گے ۔’’ عمر نے جواب دیا ۔

            ابن کعب ، عمر سے کہا کرتے : ‘‘آپ میں عقل و دانش بھی ہے او رجہالت بھی ۔ ان دونوں کا علاج ایک دوسرے سے کیجیے ۔ ایسے بھائیوں سے اخوت کا رشتہ استوار کیجیے جو دین میں بلند مقام رکھتے ہیں اور حق کے بارے میں مخلص ہیں ۔ ان لوگوں کو اپنا بھائی نہ بنائیے جو آپ سے صرف اپنے مفادات کی آبیاری چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کا مفاد جب پورا ہو جاتا ہے تو پھر یہ کسی سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں رکھتے ۔ نیکی کا جو پودا بھی لگائیے اس کی اچھی طرح پرورش کیجیے ۔’’ ایک بار فرمایا : ‘‘امیر المومنین! اگر آپ اللہ کے عذاب سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو مسلمانوں میں جو بڑی عمر کے ہیں ان کے ساتھ اپنے بزرگوں کے سے عزت و احترام سے پیش آئیے ، جو اوسط عمر کے ہیں انہیں اپنا بھائی سمجھیے اور ان کا احترم کیجیے اور جو چھوٹے ہیں ان پر اپنے بیٹوں کی مانند شفقت فرمائیے ۔’’ عمر کے ایک اور مشیر زیاد ابن ابی زیاد تھے ، جن کا شمار اپنے وقت کے زہاد میں ہوتا تھا ۔ ایک روز عمر نے ان سے کہا : ‘‘اے زیاد ! میں جس کام میں کھپ گیا ہوں ، مجھے اللہ سے بڑا ڈر لگتا ہے ۔’’ زیاد نے کہا : ‘‘مجھے آپ کے بارے میں اس کام سے خوف نہیں جس کا آپ نے ذکر کیا (یعنی آپ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں) ڈر ہے تو اس بات کا کہ کہیں آپ اللہ سے ڈرنا نہ چھوڑ دیں ۔’’ ایک مرتبہ عمر نے فرمایا : ‘‘زیاد! آپ نہیں دیکھتے کہ میں کس عذاب میں ڈال دیا گیا ہوں ۔’’ ‘‘امیرالمومنین ! آپ اس آزمائش کی سختیوں کی تصویر کشی میں اپنی جا ن نہ کھپائیے بلکہ اس سے عہدہ برآہونے کی کوشش کیجیے ۔’’ زیاد نے جواب دیا ۔ پھر کچھ دیر چپ رہنے کے بعد بولے : ‘‘اے امیرالمومنین! مجھے ایسے شخص کے بارے میں بتائیے جس کا مخالف مدعی بڑا ہی جھگڑالو ہے ، ایسے شخص کا حال کیا ہوگا؟ ’’ ‘‘برا حال ہو گا۔’’ عمر نے کہا ۔ ‘‘اور اگر دو جھگڑالو مدعی ہوں تو ……؟’’ زیاد نے پوچھا۔ ‘‘بڑا ہی برا۔’’ عمر نے جواب دیا ۔ ‘‘اور اگر تین ہوں تو ……؟’’ زیاد نے سوال کیا ۔ ‘‘تو اس کی زندگی تلخ ہو کر رہ جائے گی ۔’’ عمر نے کہا ۔ ‘‘تو اے امیرالمومنین! خدا کی قسم ، محمد ﷺ کی امت کا ایک ایک فرد قیامت کے روز آپ کے خلاف دعویدار ہو گا۔’’ عمر رو پڑے اور اتنا روئے کہ زیاد کف افسوس ملنے لگے کہ میں نے یہ بات ان سے کیوں کہی ۔

            یہ تو عمر کے قریب ترین لوگوں میں سے چند اصحاب تھے ۔ اسلامی مملکت میں جہاں کہیں اہل حق وصدق موجود تھے عمر مراسلت کے ذریعے ان سے استفادہ کرتے ۔ ایک مرتبہ شام کے ایک بزرگ کو خط لکھا کہ اللہ نے بہت بڑی آزمائش مجھ پر ڈال دی ہے اور نیکی کے معاملے میں میری مدد کرنے والے لوگ بہت کم ہیں ۔ زیادہ تر مجھ سے گریز کرتے ہیں ، اپنے مشورے سے مجھے نوازیے ۔ ان بزرگ نے جواب میں لکھا : ‘‘امیر المومنین! آپ کا مکتوب ملا ، مسلمانوں کے معاملات کے سلسلے میں آپ پر جو آزمائش آپڑی ہے ، اس کا ذکر آپ نے کیا ہے اور شکایت کی ہے کہ خیر و فلاح کے اس کام میں آپ کو بہت تھوڑے معاون میسر ہیں اور مجھ سے آپ معاونت چاہتے ہیں۔ امیر المومنین یہ بات جان لیجیے کہ آپ نے ایسے عالم میں امام خلافت ہاتھ میں لی ہے جبکہ حق گوئی جرم قرار دے دی گئی تھی اور اہل علم خوف کے مارے خاموش رہتے تھے ۔ رہے جاہل تو وہ اپنی جہالت میں مگن تھے اور کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہ کرتے تھے ۔ اللہ نے مجھ پر جو انعام فرمایا ہے اس کی بنا پر آپ نے مجھ سے تعاون چاہا ہے ۔ میں صرف ایک بات کہوں گا اور وہ یہ کہ آپ مجرموں کے پشت پناہ نہ بنیے ۔ ’’ انہی اہل حق میں عمر کے ماموں سالم بن عبیداللہ بن عمرؓ بن خطاب تھے ۔ ان سے عمر کی مراسلت اکثر رہتی تھی۔ ایک بار انہوں نے سالم کو لکھا کہ عمر ؓ بن الخطاب نے مسلمانوں اور اہل ذمہ کے مابین جو فیصلے کیے تھے ، وہ مجھے لکھ بھیجیے سالم نے جواب میں مطلوبہ امور لکھ کر بھیج دیے اور آخر میں تحریر فرمایا : ‘‘عمر ؓ ایک ایسے زمانے میں تھے جو آپ کے زمانے سے بالکل مختلف تھا ۔ مجھے امید ہے کہ آپ نے اگر وہ کام کیے جو عمرؓ نے کیے تھے تو اللہ کے نزدیک آپ کا مرتبہ ان سے افضل ہو گا ۔’’ ایک مرتبہ لکھا : ‘‘عمر! ان بادشاہوں کو یاد کرو جن کی وہ آنکھیں بے نور ہو گئیں جو لذت نظر سے کبھی سیراب نہ ہوتی تھیں ، وہ پیٹ پھٹ گئے جو الوان نعمت سے کبھی بھر نہ پاتے تھے ۔ آج وہ زمین کے تودوں تلے مردہ پڑے ہیں اور اس حالت میں ہیں کہ اگر وہ آبادی کے قریب ہوتے تو ان کی بدبو سے ہماری ناک پھٹ جاتی ۔ ’’

 (7)

            عمر امت مسلمہ کے اصل سرچشمہ قوت سے پوری طرح باخبر تھے اور اپنے حکام کو تلقین کیا کرتے تھے کہ وہ اس سرچشمہ قوت کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔ خلافت کی باگ دوڑ ہاتھ میں لیتے ہی اسلامی مملکت کے سپہ سالاروں کے نام ایک فرمان جاری کیا جس میں فرمایا :

ِ         ‘‘اللہ تعالی سے ہر حالت میں ڈرتے رہو کہ اللہ کا خوف اور تقوی ہم مسلمانوں کا اصلی سازو سامان ، موثر تدبیر اور حقیقی قوت ہے ۔ دشمن سے زیادہ اللہ کی نافرمانی سے ڈرو۔ گناہ دشمن کی تدبیروں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں ۔ ہم اپنے دشمنوں پر اس لیے غالب آجاتے ہیں کہ وہ گناہوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ورنہ ہم نہ تو سازوسامان میں ان کے برابر ہیں اور نہ افرادی قوت میں۔ فتح و شکست کا دارومدار اگر سازوسامان اور تعداد پر ہو توہم ان کا مقابلہ نہ کر سکتے ۔ پھر اگر معصیت اور اللہ سے سرکشی میں ہمارے اور انکے درمیان کوئی فرق نہ رہے تو قوت اور تعداد میں کہیں برتر ہونے کی وجہ سے ہم انہیں شکست نہیں دے سکتے ۔ ہم ان پر صرف حق کی بدولت ہی فتحیاب ہو سکتے ہیں ، اپنی قوت کے بل پر نہیں ۔ دشمنوں سے کہیں زیادہ اپنے گناہوں سے چوکس رہو اور ان سے اجتناب کرو ، اللہ کی نافرمانی سے بچو ، خصوصاً ایسی حالت میں کہ تمہارا دعوی ہے کہ تم راہ خدا میں نکلے ہوئے ہو ۔ اس غلط فہمی کو دل و دماغ سے جھٹک دو کہ ہمارے دشمن گئے گزرے ہیں ، ایسی بہت سی قومیں تھیں جن پر ان کے گناہوں کی وجہ سے بدترین لوگوں کو مسلط کر دیا گیا پس جس طرح تم دشمن کے مقابلے میں اللہ کی مدد چاہتے ہو اسی طرح اپنے نفس کے مقابلے میں اللہ کی مدد طلب کرو۔’’ اسی طرح اپنے مقرر کردہ گورنروں کے نام ایک تاکیدی عمومی فرمان میں لکھا :

            ‘‘میں نے تمہیں حکومت کا جو کام سونپا اور جو اختیارات تفویض کیے ہیں ان کو پوری خدا خوفی کے ساتھ انجام دو ، اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرو ، اوامر الہی کا اتباع کرو اورنواہی سے اجتناب۔ اپنے اوپر نظر رکھو ۔ اپنے عمل کا احتساب کرتے رہو ۔ جو باتیں انسان کو اپنے رب تک پہنچاتی ہیں ان کا التزام کرو ، جو امور تمہارے اور رعیت سے تعلق رکھتے ہیں انہیں ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھو ۔ تم خوب جانتے ہو کہ حفظ و نجات کا انحصار اللہ تعالی کی اطاعت پر ہے ۔ یہی وہ راستہ ہے جو منزل مقصود تک پہنچاتا ہے ۔ قیامت کے دن کے لیے تیاری کرتے رہو اور وہی کام کرو جو اللہ کے ہاں کام آنے والے ہیں ۔ عبرت کے واقعات ، وعظ و نصیحت سے کہیں زیادہ موثر ہوتے ہیں ، ایسے واقعات تم نے دیکھے ہونگے ، ان سے عبرت پکڑو اور اس عبرت کی روشنی میں اپنا طرز عمل متعین کرو۔’’

             سلطنت کے ایک اعلی عہدیدار کے نام ایک فرمان سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کی نگاہ کس قدر عمیق اور راست تھی ۔ انہوں نے لکھا :

            ‘‘اللہ تعالی نے تمہیں جو کچھ دیا ہے اسلام کے طفیل دیا ہے۔ تم اپنے دشمنوں پر فتح پاتے ہو تو اس کے بل بوتے پر۔ اسلام کو چھوڑ کر تمہارے لیے دنیا اور آخرت میں نہ کوئی راہ نجات ہے اور نہ کوئی طاقت ہے او رنہ کوئی عزت و وقار۔ قرآن پر عمل نہ کرنے کے نتائج بد تمہارے سامنے ہیں ۔ امت قرآن کے احکام پر عمل نہ کر کے ہی خونزیری تباہی اور انتشار و افتراق سے دوچار ہوئی ہے ۔ اتحاد اور حلف کی بنیاد قرآن و سنت کو بنانے کے بجائے ذلت و خواری کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے ۔ کچھ لوگ زمانہ جاہلیت کے طرز پر حلف و اتحاد کی دعوت دے رہے ہیں حالانکہ رسول اللہﷺ نے غیر مشروط حمایت کے عہدو پیمان سے منع فرمایا ہے اور صاف صاف فرما دیا ہے کہ لا حلف فی الاسلام اسلام میں ظلم اور فسق و فجور کی بنیاد پر معاہدوں ، دوستیوں ، اتحاد اور جتھہ بندیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ تمہیں اسلام ہی کو اپنا قلعہ بنانا چاہیے ۔ اور اللہ اور رسول اور اہل ایمان کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا دوست نہیں بنانا چاہیے۔’’

             اپنے عمال کے نام ایک اور فرمان میں تحریر فرمایا کہ مسلمانوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے کسی معاملے کو غیر مسلموں کے سپرد نہ کرو کہ وہ انہیں ذلیل و خوار کریں اور اپنے مکرو فریب کا نشانہ بنائیں ۔ اللہ تعالی کے اس ارشاد کو ہمیشہ دلیل عمل بناؤ: یاایھا الذین امنو لا تتخذوا بطانۃ من دونکم لا یالونکم خبالا ودوا ما عنتم اے ایمان والو اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسرے لوگوں کو اپنا رازدار نہ بناؤ وہ (تمہارے اندر) فتنہ و فساد پھیلانے اور خرابی پیدا کرنے کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے اس کو پسند کرتے ہیں۔ نیز فرمایا : لا تتخذو الیھود والنصاری اولیاء بعضھم اولیاء بعض ۔ یہود اور نصاری کو اپنا دوست مت بناؤ۔

 (8)

            عمر بن عبدالعزیز کی فکر راست تھی اور ان کا منہاج عمل اس راست فکر کے سانچے میں ڈھل گیا تھا ۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جس کی اصلاح وتطہیر کے لیے عمر بن عبدالعزیز نے صحیح سمت میں اقدامات نہ کیے ہوں ۔ ان ا قدامات کے اثرات مسلم امہ کی اخلاقی اور سماجی زندگی اور حکومت و سلطنت پر مرتب بھی ہوئے لیکن جہاں اول الذکر دائرے میں یہ اثرات گہرے اور دور رس تھے اور مسلمانوں کی دینی و فکری زندگی ایک مدت تک ان روشن کرنوں سے تابناک رہی ، وہاں یہ اثرات حکومت و مملکت کے دائرے میں نقش بر آب ثابت ہوئے ۔ عمر کی آنکھیں بند ہوتے ہی سیاسی زندگی اور نظم حکومت کا دھارا پرانے رخ پر بہنے لگا ۔ ان کے جانشین نے تخت سلطنت پر بیٹھتے ہی انہیں ایک فریب خوردہ شخص کی پالیسیاں قرار دے کر بدل ڈالا اور ماضی کے شب و روز کسی مزاحمت اور رکاوٹ کے بغیر پلٹ آئے ۔ عمر بن عبدالعزیز کی وفات کا سانحہ اندوہناک تھا ہی ، گردش زمانہ کی یہ الٹی زقند اس سے بھی شدید تر سانحہ تھی۔

            یہ حادثہ کیونکر رونماہوا ؟ عمر بن عبدالعزیز کی جانکاہ کاوشیں کیوں کر طاق نسیاں ہو کر رہ گئیں ؟ تاریخ کا یہ وہ سوال ہے جس پر آج ہمارے دور میں غور کرنے کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح کہ پچھلے دور میں تھی ۔

 ٭٭٭

            عمر بن عبدالعزیز کی رحلت کے سانحہ نے اس وقت کی پوری دنیائے اسلام کو ہلا ڈالا ۔ جس نے بھی سنا دم بخودہو کر رہ گیا ۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ ان کے پیشروؤں میں کوئی بھی حکمران اجل کا شکار ہوا تو اس کے سایہ حکومت میں پسنے والے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ۔ عمر بن عبدالعزیز پہلے اموی حکمران تھے جن کے انتقال پر پوری امت تڑپ اٹھی ۔ وہ خلافت ہاتھ میں لینے کے بعد صرف اڑھائی برس زندہ رہے ۔ انہوں نے ان ڈھائی برسوں کا ایک ایک لمحہ امت کی بھلائی کے کاموں میں گزارا ۔ انہیں جب بھی خیال آتا کہ ایک عظیم ذمہ داری ان کے کندھوں پر آپڑی ہے جس کے بارے میں روز حساب ان سے پوچھا جائے گا ،ان کی حالت غیر ہو جاتی او روہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگتے ۔ ان کی وفات پر امت کے صلحا وعلما اور فقہا محدثین کا ایک وفد غمزدہ امت کی طرف سے پیغام تعزیت لیکر عمر کی بیوی فاطمہ بنت عبدالملک کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ مسلمانوں کے دلوں پر گزر جانے والی قیامت کا ذکر کیا اور کہا : ‘‘ہمیں انکے بارے میں کچھ بتائیے ، شریک حیات سے بڑھ کر کسی شخص سے اور کون واقف ہو سکتاہے ۔’’ فاطمہ کی آنکھیں بھر آئیں پھر حسرت و اندوہ میں غلطاں گہری ٹھنڈی سانس لی اور بولیں :

            ‘‘بخدا عمر نماز اور روزے میں آپ لوگوں سے بڑھ کر نہ تھے ، لیکن میں نے خوف خدا میں ان سے بڑھ کر کسی انسان کو نہیں پایا ۔ اللہ کی رحمت ان پر سایہ فگن ہو ، انہوں نے اپنے جسم وجاں کی ساری قوتیں عامتہ الناس کے لیے وقف کر دی تھیں ۔ عوام کے معاملات دن بھر بیٹھے نبٹاتے رہتے حتی کہ سورج ڈوب جاتا ، پھر بھی بسا اوقات کرنے کے کچھ نہ کچھ کام رہ جاتے جن کی تکمیل میں رات گئے تک مصروف رہتے ۔ ایک روز لوگوں کے کاموں سے سرشام ہی فارغ ہوگئے تو وہ چراغ طلب کیا جو آپ ذاتی خرچ سے جلایا کرتے تھے ۔ دو رکعت نماز پڑھی اور پھر اپنی ہتھیلی پر ٹھوڑی ٹیک کر بیٹھ گئے ، سپیدہ سحر نمودار ہونے تک اسی عالم استغراق میں بیٹھے رہے ۔ صبح ہوئی تو روزے سے تھے میں نے پوچھا : ‘‘آج رات کوئی خاص بات تھی کہ اس عالم میں دیکھ رہی ہوں ؟’’ فرمایا : ‘‘ہاں مجھے خیال آگیا کہ میں اس امت کے چھوٹے بڑے کی قسمت اور سپید و سیاہ کا مالک ہوں ، پھر زمین کے مختلف خطوں میں پھیلے ہوئے غریب الوطن ، خستہ حال بھکاری ، محتاج ، مفلس لوگ ، مجبور و مظلوم قیدی اور اسی طرح کے دوسرے انسان میری نگاہوں میں پھر گئے اور پھر اس احساس نے آلیا کہ اللہ ان سب کے بارے میں مجھ سے باز پرس کرے گا اور نبی ﷺ ان کے معاملے میں مجھ پر دعوی کریں گے اس وقت اللہ کے آگے نہ تو میرا کوئی عذر چلے گا اور نہ رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں میری کوئی دلیل کام آئے گی اس احساس سے میری روح لرز اٹھی اور مجھ پر خوف طاری ہو گیا …… خدا کی قسم عمر میرے پاس ہوتے اچانک انہیں اللہ کا کوئی کام یاد آجاتا اور وہ اس طرح تڑپنے لگتے جس طرح کوئی چڑیا پانی میں گر کر تڑپنے لگتی ہے ، پھر زور زور سے رونے لگتے۔’’ پھر فاطمہ نے لمبی سانس بھری اور کہنے لگیں : ‘‘بخدا میری دلی تمناتھی کاش ہمارے اور اس خلافت کے درمیان مشرق و مغرب کے فاصلے حائل ہوتے ۔’’

 ٭٭٭