عید اور یادیں۔۔۔!

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : اکتوبر 2006

            گورے رنگ ،ستواں ناک، چوڑی پیشانی ،مخروطی انگلیوں،اورغزال چشم والے ننھے فرشتے کی عمر ابھی بارہ گھنٹے سے زائد نہ تھی اور میں اسے اپنے بازؤوں پہ اٹھائے تیزی سے سروسز ہسپتال( لاہور) کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے مجھے یوں محسوس ہو اجیسے وہ جھرجھری سی لے رہا ہو اور پھر یوں احساس ہوا کہ جیسے اسے چھینک آئی ہو۔مجھے کچھ اطمینا ن سا ہوا کہ ابھی وقت ہے ۔لیکن جب ڈاکٹر نے کہا کہ بہت دیر کر دی تو اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ جسے میں جھر جھر ی سمجھا تھا وہ تو اس دنیا میں اس کی آخری انگڑائی تھی اور جسے میں چھینک سمجھا تھا وہ اس دنیا میں اس کا آخری سانس تھا۔وقت تہجد وہ اس دنیا میں آیا تھا، شام ہوتے ہوتے وہ میرے ہاتھوں میں دم توڑ چکا تھا اور نماز تراویح کے بعد قبر میں اتر چکا تھا۔اُس سال عید الفطر میں ابھی ایک دن باقی تھا اور دل چاہتا تھا کہ عید نہ ہی آئے تو اچھا ہے مگر کسی کے روکے وقت کب رکا ہے، عید نے آنا تھا آ کر رہی مگر اس سال جس کیفیت میں عید گزری اس کی یاد اب بھی ہر رمضان اور ہر عید پہ دل دکھانے آ جا تی ہے گو بیس برس بیت چکے مگر مجھے اپنا وہ بیٹا آج بھی نہیں بھولا۔ سوچتا ہوں کہ وہ جو میرے پاس صرف چند گھنٹے رہا، اور جس کا میرے ساتھ اتنا ہی تعلق پیدا ہوا کہ میں نے اسے نہلایا، کفن پہنایا اور قبر میں اتار دیا،وہ مجھے نہیں بھول پاتا تو وہ جنہیں ان کی ماؤں نے پالا پوسا ، کھلایا ، پڑھایا،جوان کیا،وہ جن کے باپوں نے انہیں اپنے کندھوں پر بٹھایا، جی بھر کر پیار کیا ، ساتھ سلایا ، ہر روز سکول چھوڑا اور واپس لایا،وہ انہیں کیسے بھولیں گے ؟ وہ جن کی خوشبو تک گھر کے درودیوار میں رچ بس گئی تھی وہ جن کی آواز سے فضائیں بھی مانو س ہو گئی تھیں اوروہ جن کے قدموں کی چاپ راہیں بھی پہچانتی تھیں وہ رہ رہ کر کیوں یاد نہ آتے ہوں گے ؟یوں تو ہر خاندان میں کہیں نہ کہیں ، کبھی نہ کبھی ایسا سانحہ گزرا ہوتا ہے مگر پچھلے برس رمضان میں جو سانحہ وطن عزیز کے جنت نظیر پہلو یعنی بالاکوٹ اور کشمیر پر گزرا او ر جس میں ہزاروں لخت جگر منوں مٹی اور پتھروں تلے اتر گئے ان کی یادتو نا ممکن ہے کہ عید پہ خون کے آنسو نہ رلاتی ہو ۔عید نے تو ہر سال آنا ہے آیا کرے گی مگر وہ جانے والے کب آئیں گے یہ سوال ہر ماں ، ہر باپ، ہر بھائی ، ہر بہن، ہر بیوی اور ہر خاوند کو کچوکے لگاتا ہو گامگر وہ پھر خود کو یہ کہہ کر اطمینان دلانے کی کوشش کرتے ہو ں گے کہ وہا ں جا کر کون واپس آتا ہے ؟ ہاں جا کے کون واپس آیا کرتا ہے مگر یادوں پہ کس کا بس ہے ؟یہ یادیں تو راتوں کی تنہائیوں میں دل کے دریچوں میں اسیطرح چھن چھن کر آتی رہتی ہیں جس طرح روزن دیوار سے چاندنی، مگر جب اپنوں سے ملنے کا موسم یعنی عید ہو تو پھر تو ان کی یادوں کا سیلاب انسان کو بے بس کر دیا کرتا ہے ۔ اور سیلاب میں بہتے انسان کو بچانے کے لیے مضبوط ہاتھوں اور بانہوں کی ضرورت ہوا کر تی ہے ۔ پچھلے برس تو پورے ملک کے ہاتھ اور بانہیں ان بہتے انسانوں کا سہار ا بن گئی تھیں مگر اس برس ۔۔۔۔؟ ابھی زخم ہر ے ہیں، گھاؤ ابھی بھرے نہیں، سیلاب کا ریلاا بھی موجود ہے، مگر موجود نہیں تو ہم نہیں۔ہم وطنو۔۔! اس برس بھی اپنے گھروں سے نکلو او ران بے بس انسانوں کے ساتھ عید مناؤ کہ شاید کچھ تو مداوا ہو ۔۔۔ہے کوئی جو ہمارے ساتھ چلے ۔۔۔۔!