نماز میں مزاح

مصنف : طارق عزیز

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : اکتوبر 2006

             میں چند روز قبل ایک دوست کے آفس گیا ۔ وہ کمپیوٹر پر کام کر رہا تھا ۔ اچانک اسے کچھ یاد آیا ، اس نے کہا تمہیں ایک چیز دکھاتا ہوں اسکے ‘‘ڈیسک ٹاپ’’ پر ‘‘امام’’ کے نام کی ایک مختصر ویڈیو پڑی تھی ۔ یہ سعودی عرب کے کسی علاقے کی تھی ۔ منظر میں نظر آرہا تھا کہ ایک بڑی بلڈنگ کے پیچھے ایک اور بلڈنگ کے لیے کھدائی کی ہوئی جگہ پر چند سعودی لڑکے نماز پڑھ رہے ہیں ۔ ایک لڑکا امامت کروا رہا ہے اور پانچ چھ لوگ اس کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں۔ امام رکوع کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ میں چلا گیا ، نمازی بھی سجدہ میں چلے گئے ۔ امامت کروانے والا لڑکا خاموشی سے اٹھا اور اپنے آگے سے جوتے اٹھا کر دبے پاؤں بھاگ گیا ۔ اب نمازی امام صاحب کی آواز کے منتظر سجدے میں پڑے ہیں کہ کب اللہ اکبر کی آواز آئے اور ہم سجدے سے اٹھیں مگر امام ہو تو آواز آئے ۔ پھر ایک نمازی نے سر اٹھا کر دیکھا کہ امام صاحب تو ہے ہی نہیں تو اس نے باقی نمازیوں کو بھی ہلا کر اٹھا دیا ۔ پھر سب قہقہے لگانے لگے۔

             یہ تو خیر جان بوجھ کر کی ہوئی شرارت ہے مگرنماز میں بعض اوقات بے اختیار بھی ایسی بات ہو جاتی ہے کہ جس کا تعلق نماز سے نہیں ہوتا مگر اس بات کے رونما ہونے سے مزاح کی کیفیت بن جاتی ہے اور نمازیوں کا اپنی ہنسی روکنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ اپنے ساتھ پیش آنے والے چند ایسے ہی واقعات قارئین کی نذر کرتا ہوں ۔

            دس بارہ سال پہلے کا واقعہ ہے ، میں مقامی مسجد میں جمعہ کی نماز میں شریک تھا اور مسجد کے اندرونی ہال کمرے میں داخلی دروازے کے بالکل ساتھ کھڑا تھا۔ میرے بائیں جانب دو بچے کھڑے تھے ۔ میرے بالکل ساتھ والے بچے کی عمر کوئی چار پانچ سال ہو گی ۔ جب جماعت تشہد میں بیٹھی تو میرے ساتھ والے بچے نے جھک کر میرے ہاتھ پر بندھی گھڑی کو دیکھنا شروع کر دیا ۔ لامحالہ میرا دھیان بھی اس طرف چلا گیا ۔ بچے نے میرے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ‘‘انکل ٹائم کیا ہوا ہے ’’ میں نے اپنی توجہ نماز ہی میں مرکوز رکھی ۔ وہ سمجھا کہ شاید میں نے سنا نہیں ، اس نے کہنی مارتے ہوئے اپنا سوال دہرایا ‘‘انکل ٹائم کیا ہوا ہے ؟’’ اتنے میں ، میں نے اشھد ان لا الہ اللہ اللہ …… پڑھتے ہوئے شہادت کی انگلی کھڑی کی ۔ وہ بچہ میری انگلی کو دیکھتے ہوئے بولا ۔ ‘‘اوہ اچھا ایک بج گیا ہے ’’ بس پھر کیا تھا میں اور ساتھ والے نمازی بمشکل اپنی ہنسی ضبط کر پائے ۔

             میں سعودیہ میں ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھا ۔ ایک روز جمعہ کی نماز کے بعد میں نوافل میں مصروف تھا۔ میرے بالکل ساتھ دائیں جانب ایک اور نوجوان نماز پڑھ رہا تھا ۔ ہم دونوں تقریبا ایک ساتھ ہی سجدہ کر کے تشہد میں بیٹھ گئے ابھی دعا کے آخری الفاظ میرے لبوں پر ہی تھے کہ اس نے السلام علیکم ورحمتہ اللہ ہلکی سی آواز میں کہہ کر دائیں جانب سلام پھیر دیا ۔ جتنی دیر میں وہ بائیں جانب سلام کے لیے چہرہ گھماتا میں دائیں طرف سلام پھیرنے کے لیے اسکی طرف منہ گھما چکا تھا، اب اس کا چہرہ میرے چہرے کے سامنے تھا ۔ اس نے دوسری بار السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہا تو بے اختیاری میرے منہ سے وعلیکم السلام نکل گیا ۔ یہ کہتے ہی مجھے فوراً اپنی غلطی کا احساس ہواا ور میں نے اس کی نظروں کو دیکھا جو کہ مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ رہی تھیں۔ جیسے ہی میں نے دوسری طرف سلام پھیرا ، وہ نوجوان ہنستا ہوا باہر نکل گیا ۔

            سعودیہ ہی کا واقعہ ہے کہ میں مغرب کی نماز کے لیے محلے کی مسجد میں گیا توپہلی صف میں ستون کے ساتھ جگہ ملی ۔میں یہ سوچ کر ستون کے آگے کھڑا ہو گیا کہ پہلی صف میں نماز کا زیادہ ثواب ہوتا ہے اس لیے رکوع میں جاتے وقت ذرا سا آگے کھسک کر رکوع کر لوں گا مگر ‘‘من اپنا پرانا پاپی ہے ’’ والی بات کہ جب امام صاحب تلاوت کر رہے تھے تو میرا ذہن ادھر ادھر کے خیالات میں بھٹک گیا اور جیسے ہی امام صاحب اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں گئے ، میں بھی فوراً رکوع کے لیے جھک گیا مگر یہ بھول گیا کہ میں ستون کے آگے کھڑا ہوں ۔ بس پھر کیا تھا سارے نمازی رکوع میں اور میں پشت پر ستون سے دھکا کھا کر سیدھا زمین پر پہنچ گیا ۔ پھر کیا عالم ہو گا آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں ۔؟؟؟

            کہ یہ تمہیں ناکامیوں سے ہمکنار کریں گی۔ دیانتداری ، شکر ،قناعت اور صلہ رحمی کے ثمر آور نتائج سے انسان کا ہی بھلا ہوتا ہے اللہ تعالی کو کچھ نہیں ملتا ۔

            معالجین نے کامیاب اور پر مسرت زندگی کے یہ تین 3 اصول بھی بتائے ہیں۔ فکرو غم سے گریز ، کھلی فضا میں ورزش اور تھکاوٹ کے بعد آرام ۔ خوراک کاخاص خیال رکھیں ۔ جب تھوڑی سی بھوک ہو تو خوراک سے ہاتھ کھینچ لیں ۔

             جو لوگ حوصلہ مند زندگی گزارتے ہیں۔ کبھی شکوہ نہیں کرتے ،راضی برضا رہتے ہیں اور سکون کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں جا بجا ارشاد ہے کہ غم اور خوف کا احساس نہ کرو کیونکہ افسردگی اور یاسیت سے انسان حوصلہ ہار جاتا ہے ۔ کامرانیاں انہیں حاصل ہوتی ہیں جو مسلسل کاوش اور جدوجہد کرتے ر ہیں ۔

 خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

 نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا