سوال ، جواب

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : ستمبر 2006

ج: یہ دنیا انصاف کے اصول پر نہیں بلکہ امتحان کے اصول پر قائم کی گئی ہے ۔ انصاف کے اصول پر قائم ہونے والی دنیا قیامت کے بعدظہور پذیر ہو گی۔ اللہ تعالی نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اس دنیا میں ظلم بھی ہو گا اور کسی کو عبرت بھی بنایا جائے گا ۔ اس دنیا کو امتحان سمجھ کر زندگی بسر کیجیے ،اگر آپ اس میں کامیاب ہو گئے تو اُس دنیا میں انصاف آپ کا منتظر ہو گا ۔ جن کو عبرت کانمونہ بنایا گیاہے آخرت میں ان کی تلافی کی جائے گی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نظم قرآن کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں تمام سورتیں ایک خاص ترتیب کے ساتھ رکھی گئی ہیں ۔ ہر سورہ اپنا ایک خاص موضوع رکھتی ہے اور اس موضوع کے مطالب ایک خاص ترتیب کے ساتھ بیان ہوتے ہیں ۔ ہر سورۃ کی ایک تمہید ہوتی ہے اور ایک خاتمہ ہوتا ہے ۔ اس طرح ہر آیت اپنا ایک سیاق وسباق رکھتی ہے ۔ اس وجہ سے قرآن مجید ایک منظم ، مرتب اور مربوط کتاب کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے ۔ اس کی نوعیت اقوال کے کسی ایسے مجموعے کی نہیں ہے جس کے قول کے مختلف مطالب اخذ کیے جا سکتے ہوں بلکہ اس کی نوعیت ایک ایسی منظم کتاب کی ہے جس کا ہر جملہ اپنا ایک متعین مفہوم اور طے شدہ پیغام رکھتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اقامت دین کا مفہوم ہے دین کوپوری طرح اختیار کرنا، اس کی روح اور قالب سمیت ۔ ‘‘اقامت دین’’ کے اس لفظ کے وہی معنی ہیں جو ‘‘اقامت صلوۃ’’ میں لفظ اقامت کے ہیں ۔ تاریخ اسلام کے جید علما نے ہر زمانے میں ان الفاظ کے یہی معنی بیان کیے ہیں ۔ موجودہ زمانے میں بعض اہل علم نے ان الفاظ سے مختلف معنی اخذ کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ محض غلط فہمی پر مبنی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یتیم پوتے کی وراثت کے بارے میں قرآن وسنت بالکل خاموش ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ کے ارشادات میں بھی اس کے متعلق کوئی بات وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کی گئی ۔ اس سلسلے میں ہمارے علما نے قرآن مجید کے اصولوں کو سامنے رکھ کر اجتہاد کیا ہے ۔ اس وجہ سے اگر اس میں کوئی اختلاف رائے ہو تو اس سے گھبرانا نہیں چاہیے اور اسے قرآن وسنت کی تردید یا تقلید کا مسئلہ بھی نہیں بنانا چاہیے ۔ جس رائے پر اطمینان ہو اس کو اختیار کر لینا چاہیے۔ جہاں تک میری رائے کا تعلق ہے تو میں میراث میں یتیم پوتے کا حق مانتا ہوں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نبی کریم ﷺ سے منسوب دعائیں بلاشبہ بہت پاکیزہ دعائیں ہیں ۔لیکن یہ واضح رہے کہ ان کی حیثیت بھی اللہ کے حضور میں درخواست ہی کی ہے ۔ البتہ یہ دعائیں جن روایات میں نقل ہوئی ہیں ان میں چونکہ زیادہ تر آپ ہی کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں اس لیے اس پہلو سے یہ دعائیں بے پناہ اہمیت کی حامل ہیں کہ ان میں حضور کی زبان سے نکلے الفاظ بعینہ محفوظ ہیں۔ مزید یہ کہ ان میں چونکہ اللہ سے مانگنے کے صحیح طریقے کی رہنمائی اور توحید کا صحیح شعور ہے ، اس لیے سیکھنے سکھانے میں انہیں ترجیح حاصل ہے۔اور اسی حوالے سے یہ بچوں کو یاد کرانی چاہیں۔البتہ اگر ہم یہ سمجھیں کہ عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے یہ جلد قبول ہو جائیں گی تو ایسا نہیں ہے بلکہ دعاؤں کی قبولیت کا اللہ کے ہاں ایک ضابطہ ہے ، اس کی حکمت کے تحت ہی دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین کا مقصود تزکیہ نفس ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کی فکر اورانفرادی اور اجتماعی زندگی کو آلائشوں سے پاک کر کے ان کے عمل کو صحیح سمت میں نشوونما دی جائے ۔ اللہ نے اپنے پیغمبر اسی مقصد کے لیے بھیجے ۔ اللہ نے یہ دنیا اس اصول پر بنائی ہے کہ یہاں پر انسان پیغمبروں کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے نفس کی آلائشوں کو دور کرنے کی سعی کرے اور اپنے نفس کی تربیت کرے تا کہ جنت میں آباد ہونے کے قابل ہو جائے ۔ جنت میں آباد ہونے کے لیے بنیادی شرط ہی تزکیہ نفس ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے قد افلح من تزکی

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس معاملے کا تعلق دین یاشریعت سے نہیں بلکہ ملکی قانون سے ہے ۔ اگر ملکی قانون میں اس کی گنجائش ہے تو آپ یہ طریقہ اختیار کر سکتے ہیں اگر ملکی قوانین اس کی اجازت نہیں دیتے تو پھر یہ طریقہ ہر گز اختیار نہیں کرنا چاہیے ۔ ملکی قانون کی خلاف ورزی جس طرح نظم ریاست میں جرم ہے اسی طرح شریعت میں بھی جرم ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلامی شریعت کے مطابق کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا حتی کہ کوئی اسلامی ریاست بھی کسی کی تکفیر کا حق نہیں رکھتی وہ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی ہے کہ اسلام سے واضح انحراف کی صورت میں کسی شخص یا گروہ کو غیر مسلم قرار دے دے ۔ دین کی اصطلاح میں کافر قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص پر اللہ کی حجت پوری ہو گئی ہے اور یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اس نے ضد ، عناد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر دین کا انکار کیا ہے ۔ دین کی کامل وضاحت جس میں کسی غلطی کا کوئی شائبہ نہ ہو صرف اللہ کے پیغمبر اور ان کے تربیت یافتہ صحابہ ہی کر سکتے تھے ۔ اس وجہ سے اتمام حجت کے بعد تکفیر کا حق دین نے صرف انہی کو دیا ہے ۔ ان کے بعد دین کی کامل وضاحت چونکہ کسی فرد یا جماعت کے بس میں نہیں ہے اس لیے اب تکفیر کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے ہم لوگوں کو اب اس کی جسارت نہیں کرنی چاہیے اگر ہم کسی کے عقیدے کو باطل سمجھتے ہیں تو ہمیں پوری درد مندی ، دلائل اور حکمت کے ساتھ اسے نصیحت کرنی چاہیے، اوراس کی غلطی اس پر واضح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اس سے زیادہ ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: موجودہ زمانے میں لوگوں کو اس پر تعجب کا اظہار نہیں کرنا چاہیے ۔ مادی علوم پر کچھ دسترس حاصل کرنے کے بعد ہم ہزاروں میل دور ہونے والے عمل کو اسی وقت اپنے سامنے دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ کسی شخص کی تصویر ، گفتگو اور حرکات وسکنات بغیر کسی وقفے کے براہ راست ہم تک پہنچ رہی ہوتی ہیں ۔ کمپیوٹر کی ایجاد جو معجزے دکھا رہی ہے چند سال پہلے ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ موجودہ زمانے میں جس طرح مادی علوم حیرت انگیز کارنامے انجام دے رہے ہیں ، قدیم زمانے میں اسی طرح کے کارنامے نفسی علوم کے ذریعے سے انجام دیے جاتے تھے ۔ جس طرح مادی علوم کا دین سے کوئی تعلق نہیں اسی طرح نفسی علوم کا بھی دین سے کوئی تعلق نہیں ہے جو صاحب ملکہ سبا کا تخت لے کر آئے ، ان کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے کہ ‘‘ان کے پاس قانون خداوندی کا ایک علم تھا۔’’ ہو سکتا ہے کہ دور جدید کے مادی علوم بھی کبھی اس مقام پر پہنچ جائیں کہ ہمارے سامنے پڑی ہوئی چیز چشم زدن میں امریکہ اور آسٹریلیا پہنچ جائے ۔ ان صاحب کے کارنامے کی نوعیت ایسی ہی ہے جیسی ہمارے زمانے میں کسی موجد یا سائنسدان کے کسی کارنامے کی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس بارے میں مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے یہ ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نبی تھے ۔ اس رائے کا اظہار انہوں نے ‘‘تدبر قرآن’’ میں سورہ کہف کی تفسیر میں کیا ہے ۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی رائے یہ ہے کہ وہ فرشتہ تھے ۔ اس معاملے میں ، میں اپنے جلیل القدر استاد کی رائے کے بجائے مولانا مودودی صاحب کی رائے کو صحیح سمجھتا ہوں ۔ وہ میرے نزدیک کارکنان قضا وقدر ہی میں سے تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: احادیث کی تدوین صحابہ کرام کے زمانے ہی میں شروع ہو گئی تھی ۔ بعض اصحاب نے اپنے چھوٹے چھوٹے مجموعے بھی مرتب کر لیے تھے آہستہ آہستہ یہ کام ایک باقاعدہ فن کی صورت اختیار کر گیا اور تقریبا اڑھائی تین سو سال میں یہ کام منظم مجموعوں کی شکل میں مرتب ہو گیا ۔ جہاں تک اس کام کے محرکات کا تعلق ہے تو یہ بات ہم سب پر واضح ہے کہ پیغمبر ﷺ کوئی معمولی ہستی نہیں تھے ۔ جس ہستی کے جسم اطہر سے چھو کر ٹپکنے والے پانی کے قطروں کولوگ زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے ، اس کی زبان سے نکلنے والے لافانی الفاظ سے وہ کیونکر صرف نظر کر سکتے تھے ۔ لوگ تو ہم آپ جیسوں کی باتوں کو محفوظ کرنے میں لگ جاتے ہیں ۔ وہ ہستی تو پیغمبر کی ہستی تھی ۔ ہم جیسے تو ان کی خاک پا کے برابر بھی نہیں ہیں جو لوگ ان کے زمانے میں موجود تھے ، انہوں نے بالکل فطری طور پر آپ کے علم وعمل کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ۔ بلاشبہ انسانیت پر یہ ان کا عظیم احسان ہے ۔ آپ کے علم وعمل کی روایات کو آگے بیان کرنے میں بعض لوگ البتہ ، بے حد احتیاط کا طریقہ اختیار کرتے تھے ۔ مثال کے طور پر سیدنا ابو بکر صدیق ؓ اور سیدنا عمر فاروق ؓ اس معاملے میں حد درجہ محتاط تھے یہی وجہ ہے کہ ان سے بہت کم روایات بیان ہوئی ہیں

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کا انحصار آپ کی اپنی صلاحیت اور آپ کے حالات پر ہے ۔ اگر آپ یہ کام انفرادی طور پر کرنا چاہتے ہیں تو اس میں حرج کی کوئی بات نہیں ہے ۔ ہماری تاریخ میں امت کے اکابرین نے زیادہ تر انفرادی سطح پر ہی کام کیا ہے ۔ اگر آپ موجودہ جمہوری نظام میں کوئی تنظیم قائم کر کے یہ کام کرنا چاہتے ہیں تو یہ بھی بالکل جائز ہے ۔ ان میں سے کوئی طریقہ نہ واجب ہے نہ فرض ہے ۔ آپ کا فیصلہ اپنی صلاحیت ، اپنے حالات اور اپنے تمدن کے لحاظ سے ہونا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین میں اس کے متعلق کوئی مثبت یا منفی بات بیان نہیں ہوئی ۔ اس کے ناجائز ہونے کے بارے میں بعض علما نے جو دلائل دیے ہیں ، ان میں ، میرے نزدیک کوئی دلیل بھی ایسی نہیں ہیے جس کی بنیاد پر اسے ممنوع قرار دیا جائے ۔ اس لیے اس معاملے میں خاموشی اختیار کرنی چاہیے ۔ جو شخص اس کو جائز سمجھتا ہے وہ اپنے اعضا کے عطیے کی وصیت کر سکتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ کوئی ثابت شدہ روایت نہیں ہے ۔ ایسی بہت سی روایات فضائل کے باب میں بیان کی جاتی ہیں ۔ اور بسا اوقات اس طرح بیان ہوتی ہیں کہ دین کی اساسات کو متاثر کر دیتی ہیں اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قیامت میں فیصلہ اصلاً ایمان وعمل کی بنیاد پر ہو گا۔ یہ دیکھا جائے گا کہ ایمان انسان کے اندر کتنا جاگزیں ہے اور اس نے اس کے تقاضوں کو کس حد تک پورا کیا ہے۔ فیصلے کی اصل بنیاد یہی ہے ۔ باقی سب چیزیں موثر ہو سکتی ہیں لیکن اس کے بعد۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: خود کشی کے عمل میں اللہ تعالی کی مرضی شامل نہیں ہوتی البتہ اس کا اذن شامل ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی نے دنیا میں آزمائش کے لیے انسانوں کو اس بات کی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے برائی یا ظلم کا ارتکاب کر لیتے ہیں ۔ اگر اللہ تعالی یہ اجازت نہ دیتے تو آزمائش ناممکن تھی۔ ہر انسان کو اللہ تعالی نے برائی اور بھلائی کا شعور دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اللہ تعالی کسی شخص پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے اس صورت حال میں جب کوئی شخص خود کشی کا اقدام کرتا ہے تو وہ درحقیقت اپنے عمل سے اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ تعالی کا مجھے دنیا میں بھیجنے کا فیصلہ غلط تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک بڑا سنگین جرم ہے ، اس میں خدا کی رضا کیسے شامل ہو سکتی ہے ؟

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین کے بارے میں جو مسالک ، مکاتب فکر یا نقطہ ہائے نظر اس وقت موجود ہیں انہیں انسانوں ہی نے اپنے فہم کی روشنی میں قائم کیا ہے ۔ ضروری نہیں کہ ہر مکتبہ فکر کی ہر بات صحیح ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر بات غلط ہو ۔ علم وفکر کے اعتبار سے کسی بھی انسانی کاوش کو بالکل صحیح نہیں کہا جا سکتا میں جودین آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ، اس کے بارے میں یہ دعوی ہر گز نہیں کر سکتا کہ یہ سارے کا سارا لازماً صحیح ہو گا ۔ میں نے اپنی قائم کی ہوئی بہت سی آرا سے رجوع کیا ہے ۔ اب سے پہلے کسی رائے کو میں اپنے علم وعقل کے مطابق صحیح سمجھتا تھا اور پورے یقین کے ساتھ اس کو بیان کرتا تھا ، آج میں اپنے علم وعقل کی روشنی میں اس رائے کو غلط سمجھتا ہوں ۔ میرے ایمان ویقین کا معاملہ اصل میں میرے فہم کے ساتھ وابستہ ہے ۔ اس معاملے میں صحیح رویہ یہی ہے کہ ہمیں ہر وقت اپنے دل ودماغ کو کھلا رکھنا چاہیے اور اپنی رائے کے تعصب میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ مکاتب فکر کے بارے میں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ فلاں مکتبہ فکر حقیقت کے زیاد ہ قریب ہے ، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں مکتبہ فکر حق ہے ۔ حق کی حتمی حجت صرف اور صرف اللہ کے پیغمبر کی بات کو حاصل ہے ۔ اس کو معیار بنا کر آپ کسی بات کے رد یا قبول کا فیصلہ کر سکتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حضور ﷺ نے جو نماز مسلمانوں کو سکھائی ، اس میں دو طرح کے امور ہیں ۔ ایک وہ امور ہیں جنہیں آپ نے سنت(لازم) کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے ۔ یہ نماز کے لازمی اجزا ہیں اور ان میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر نمازوں کی تعداد ، ان کے اوقات ، اذان کے الفاظ، نمازوں کی رکعتیں ، قیام میں سورہ فاتحہ اور قرآن کے کچھ حصے کی تلاوت ، رکوع کا طریقہ ، سجدے کا طریقہ اور تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانا وغیرہ ۔ دوسرے امور وہ ہیں جنہیں آپ نے سنت کی حیثیت سے جاری نہیں فرمایا، بلکہ کچھ اصولی ہدایات دے کر انہیں لوگوں کے اختیار پر چھوڑ دیا ہے ۔ مثال کے طور پر ثنا ، قعدے میں پڑھی جانے والی دعائیں ، درود ، قیام کی صورت میں ہاتھ باندھنا ، سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعدآمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو بلند یا پست رکھنا اور تکبیریں کہتے ہوئے ہاتھ اٹھانا وغیرہ ۔ پہلی نوعیت کے امور میں امت میں ہمیشہ اتفاق رہا ہے اور یہی وہ معاملات ہیں جن پر اصرار کرنا چاہیے ۔ جہاں تک دوسری نوعیت کے امور کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں ہم اپنے ذوق کے مطابق کوئی چیز اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ وہ امور ہیں جن میں علما کی آرا مختلف رہی ہیں ۔ ان اختلافات سے نماز کی اصل ہیئت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا ۔ ان معاملات کو لوگوں کے اختیار پر چھوڑ دیا ہے ۔ چونکہ خود پیغمبرﷺ نے ان میں سے کسی چیز پر اصرار نہیں کیا ، اس لیے ہمیں بھی اصرار نہیں کرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)