فیشن کا پھندا

مصنف : سید علی رضا

سلسلہ : طنز و مزاح

شمارہ : اگست 2006

            ‘‘……اور ہاں ……پائنچے چالیس انچ رکھنا !’’ نیازی نے لفظ لفظ پر زور دیا تو درزی ، جو کپڑا ناپ رہا تھا ، اچانک رک گیا ۔ ‘‘بھائی ……’’ درزی، جس کے منہ میں حلق کے کوے تک پان بھرا تھا ، منہ تھوڑا سا اوپر کر کے ٹھوڑی آگے نکال کر بولا: ‘‘شلوار اوپر سے پہنو گے یا نیچے سے ؟’’ ‘‘مطلب؟’’ نیازی درزی کو گھورتے ہوئے بولا ۔ ‘‘چالیس انچ پائنچے پہن کر اگر کسی گٹر کے اوپر سے گزرو گے ناں …… پائنچے میں ڈھکن پھنس جائے گا؟’’ درزی کی بات سن کر میری ہنسی چھوٹ گئی ۔ نیازی سوچ میں پڑ گیا ۔ ‘‘…… بیس رکھوا لو ……’’ درزی نے مشورہ دیا ۔ ‘‘نہیں بیس نہیں ……’’ نیازی اٹھلا کر بولا : ‘‘چوبیس کر دو!’’ ‘‘پائنچوں میں نیفہ بھی بنا دوں ؟’’ درزی نے سنجیدگی سے پوچھا اور نیازی اسے گھور کر رہ گیا ۔

 ٭٭٭

            قچ قچا قچ …… قچ قچ ! قینچی کی مدھم آواز دکان میں گونج رہی تھی اور نیازی شاید اس آواز کو لوری سمجھ کر اونگھنے لگا تھا…… جبکہ میں اخبار کی اوٹ سے سامنے لگے آئینے میں شکلیں بنا بنا کر دیکھ رہا تھا ۔ ‘‘او یار…… منڈی تو سیدھی کر و !’’ نائی نے بے زاری سے نیازی کی گردن ایک جانب کھینچی اور نیازی چونک گیا۔ ‘‘ارے روکو ، ہاتھ روکو !’’ نیازی بری طرح اچھلا اور قینچی اس کی گدی پر کٹ مار گئی ۔ ‘‘ہائے مار دیا ظالم!’’ نیازی نے سسکی لی ۔ ‘‘قینچی یا استرے کے نیچے پھدکنے سے یہی ہوتا ہے !’’ نائی نے بھنا کر کہا ۔ ‘‘بس ہو گیا……’’ نیازی نے چادر اپنے اوپر سے ہٹاتے ہوئے کہا اور میں اور نائی اس کی شکل دیکھنے لگے ۔ ‘‘ او بھائی …… یہ کون سا کٹ کروایا ہے …… آگے سے لمبے ، بیچ سے بالکل چھوٹے اور …… جگہ جگہ سے چھوٹے……’’ نائی حیران ہوتے ہوئے بولا ‘‘یہ شارٹ کٹ ہے !’’ نیازی گردن اکڑا کر بولا ۔ ‘‘یہ لو بیس روپے !’’ نیازی نے نائی کو نوٹ پکڑواتے ہوئے کہا ۔ ‘‘او نہ جی نا!’’ نائی نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔ ‘‘میں حرام کے کام کی اجرت نہیں رکھ سکتا !’’ ‘‘میرے بال کاٹنا حرام کیسے ہو گیا ؟’’ ‘‘آپ کے بال نہیں …… ایسا سٹائل بنانا !’’ نائی نے نیازی کے سر کو گھورا ۔ ‘‘اچھا اچھا !’’ نیازی چڑ کر بولا اور دکان سے باہر جانے لگا۔ ‘‘او رکو بھا جی!’’ نائی نے جلدی سے کہا اور نیازی رک گیا۔ ‘‘یہ لو استرا!’’ اس نے نیازی کو ایک استرا پکڑا دیا ۔ ‘‘وہ کیوں ؟’’ نیازی نائی کا چہرہ تکنے لگا ۔ ‘‘اگر واپس آتے ہوئے شرم محسوس ہو تو خود ہی اپنے سر پر پھیر لینا !’’ نائی نے دانت نکالے اور نیازی اسے غصے سے دیکھتا ہوا دکان سے باہر نکل گیا ۔

 ٭٭٭

            ‘‘آخر تم بننا کیا چاہ رہے ہو !’’ میں نے الجھ کر نیازی سے پوچھا جو آئینے کے آگے کھڑا اپنا سراپا ، سر تاپا دیکھ رہا تھا۔ ‘‘ہا ہا …… !’’ نیازی ہنسا ۔ ‘‘ماڈرن!’’ ‘‘ماڈرن سے یاد آیا …… تم اس وقت سچ مچ ڈارون کی تھیوری کی منہ بولتی تصویر لگ رہے ہو ……’’ میں نے ہنس کر کہا اور نیازی نے منہ بنا کر دوبارہ آئینے میں جھانکا ۔ ‘‘تمہارے ابا یہ سب دیکھ کر کیا کہیں گے ؟’’ میں نے اسے ڈرانے کی کوشش کی ‘‘ابا کے آنے سے صرف ایک گھنٹہ پہلے …… ہاں صرف ایک گھنٹے پہلے اپنا حلیہ پہلے جیسا کر لوں گا !’’ وہ آئینے کو ڈراتے ہوئے بولا ۔ ‘‘ہم م م م !’’ میں نے ٹھنڈا سانس بھرا ۔

 ٭٭٭

            میں اس وقت ایک کلینک میں بیٹھا اپنی باری آنے کا انتظار کر رہا تھا …… نیازی بھی میرے ساتھ چپکا بیٹھا تھا اور مجھے رہ رہ کر اس پر غصہ آرہا تھا …… دیگر تمام لوگ اسے تعجب سے دیکھ رہے تھے ۔

            ‘‘تمہیں دیکھ رہے ہیں سب !’’ میں نے سر گوشی کی ۔

            ‘‘مجھے کوئی معزز شخصیت سمجھ رہے ہیں ناں !’’ وہ بھی آہستہ سے بولا او رمیں ہنس پڑا ۔ ‘‘یہ بے بات کی ہنسی؟’’ ‘‘تم …… شخصیت …… اور وہ بھی معزز …… واہ !’’ میں نے ہنسی روکتے ہوئے کہا او رنیازی کا منہ کالا ہو گیا ۔ (غصے سے !) ‘‘ویسے انجکشن تو صرف مجھے لگوانا ہے …… تم کیوں میرے ساتھ جراثیم کی طرح چپکے ہوئے ہو ؟’’ میں نے پوچھا ۔ ‘‘میں دیکھوں گا کہ تم روتے کیسے ہو !’’ وہ میرے کان میں بولا ۔ اسی وقت ہم سے پہلے والا مریض فارغ ہوا اور ہم دونوں آگے بڑھ گئے ۔

 ٭٭٭

            ‘‘جی فرمائیے…… ’’ ڈاکٹر صاحب نے ناک سے بولتے ہوئے کہا ۔ ‘‘کیاں بیماری ہے آنپ کو ؟’’ انہوں نے مشکوک نظروں سے نیازی کو اوپر سے نیچے اور پھر نیچے سے اوپر تک دیکھا ۔ ‘‘جی مجھے انجکشن لگوانا ہے !’’ میں نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا ۔ ‘‘انچھا انچھا …… ہیپا ٹائٹس کا !’’ ‘‘جی نہیں …… ہیپا ٹائٹس بی سے بچاؤ کا !’’ میں نے تصحیح کی۔ ‘‘پہلا ہے ؟’’ ڈاکٹر صاحب نے دراز سے سرنج نکالتے ہوئے پوچھا ۔ ‘‘جی نہیں دوسرا !’’ میں جلدی سے بولا ۔ ‘‘ویسے ڈاکٹر صاحب …… یہ تیسرا انجکشن سنا ہے کہ دوسرے کے پانچ مہینے بعد لگتا ہے !’’ ‘‘جیں …… آں نہیں ، وہ پہلے کے چھ مہینے بعد !’’ ڈاکٹر صاحب نے ناک کھجاتے ہوئے کہا اور نیازی ‘‘بلبلا’’ کر ہنسا ۔ ‘‘ڈاکٹر صاحب وہی بات تو ہو گئی۔’’ وہ بولا اور ڈاکٹر صاحب کھسیانے ہوگئے ۔ ‘‘انچھا دیکھیے، میں چھوٹی سے سوئی لگا رہا ہوں …… بڑی سے بہت درد ہوتا ہے !’’ ڈاکٹر صاحب بولے ۔ ‘‘اب نکلیں گی چیخیں!’’ نیازی نے سفاکی سے دانت نکالے ۔ ‘‘نہیں نکلیں گی …… نکلیں گی تو میں تیسرا ابھی لگوا لوں گا!’’ میں نے بچوں کی طرح مچل کر کہا اور نیازی ایک بار پھر بلبلا کر ہنسا ۔ ‘‘ان کی آواز خاصی مردانہ ہے !’’ ڈاکٹر صاحب نے ایک بار پھر نیازی کو اوپر سے نیچے دیکھتے ہوئے کہا اور نیازی کا منہ دوبارہ ‘‘کالا’’ ہو گیا ۔

 ٭٭٭

            ڈاکٹر صاحب کو انجکشن اور فیس کے پیسے دینے کے بعد ہم باہر نکل آئے ۔ میرا موڈ نیازی کی وجہ سے شدید خراب تھا اور میں اس سے ذرا دور دور چل رہا تھا۔ ‘‘اے …… اتنی دور کیوں چل رہے ہو …… قریب آؤ ناں!’’ وہ جل کر بولا ۔ ‘‘میں کسی ایسے لڑکے کے ساتھ چلنا پسند نہیں کرتا جس کے سر پر بال ایسے ہوں جیسے کراچی کی سڑکوں پر گڑھے …… اور جس نے گہرے گلابی رنگ کے سلک کا شلوار قمیص پہنا ہو…… جس کی شلوار کے پائنچے چوبیس انچ ہوں اور جس کی قمیص پر بڑے بڑے سرخ رنگ کے گلاب کے پھول بنے ہوں …… جس کے دونوں کانوں میں بڑے بڑے جھمکے ہوں…… جس کے گلے میں سونے کی چین اور پیر میں چمک دار سنہری رنگ کی زنانہ سینڈل ہو …… نہ بابا نہ ……’’ میں نے کانوں کو ہاتھ لگائے ۔ ‘‘واؤ …… بھؤ بھؤ …… بھؤ …… وؤ !’’ نیازی نے میری بات کا جواب دینے کے لیے منہ کھولا اور یہ آواز سنائی دی۔ ‘‘اور جو بھونکتا بھی ہو !’’ میں نے پھر کہا ۔ ‘‘بھؤ وؤ …… ارررف …… رف وؤ ……بھؤ!’’ اس بار کافی نزدیک سے آواز سنائی دی ۔ ہم نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا پھر دائیں بائیں گردن گھمائی ۔ ایک کتے کی قسم کا جانور ہم دونوں کی جانب بڑھ رہا تھا ۔ ہم دونوں نے احمقوں کی طرح ایک دوسرے کو دیکھا ۔ ‘‘کت …… تا آآآ!’’ ہم دونوں چلائے ۔ ‘‘بھاگو او او !’’ میں نے چیخ ماری اورنیازی کا انتظار کیے بغیر سرپٹ دوڑنے لگا ۔ ‘‘ارے رکو مجھے بھی ساتھ لے لو !’’ نیازی نے فریاد کی مگر میں ہر رکاوٹ کو پھلانگتا گیا ۔ ‘‘بھؤ وؤ …… وؤ وؤ وؤ !’’ کتے نے نیازی کو مقابلے کے لیے للکارا ۔ نیازی اپنی جگہ کھڑا ہانپ رہا تھا …… میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا او رمجھے ہنسی آگئی ۔ صورت حال کچھ یوں تھی کہ میں سب سے آگے تھا …… اور میرے پیچھے دو کتے …… اوہ میرا مطلب ہے میرے پیچھے نیازی اور اس کے پیچھے کتا…… اور کتے سے زیادہ نیازی بھونکے جا رہا تھا ‘‘باگو علی باگی!’’ نیازی نے بھاگتے بھاگتے چلا کر مجھے جوش دلایا اور مجھے ہنسی آگئی ‘‘بھؤ وؤ وؤ بھؤ بھؤ !’’ کتے نے نیازی کو جوش دلایا ۔ ‘‘تم تیز کیوں نہیں بھاگتے ؟’’ میں نے چیخ کر کہا ۔ ‘‘یہ سینڈل اور پائنچے !’’ ‘‘ اوہ ہو ، سینڈل اتار کر ہاتھ میں لے لو !’’ میں نے جھنجھلا کر کہا ۔ ‘‘بھؤ !’’ کتے نے چپکے سے کہا ‘‘باگو علی باگو !’’ نیازی نے چلا کر کہا ۔ ‘‘پیچھے میں ہوں یا تم ؟’’ میں بھنا گیا ۔ کچھ ہی دیر میں نیازی بھی میرے برابر آگیا …… ہم دونوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور ہمارے اوسان خطا ہوکر پھر واپس آگئے ۔ کتے نے بھی اپنے ایکسیلیٹر پر پورا زور ڈال دیا تھا اور اب درمیانی فاصلہ بہت کم ہو گیا تھا ۔ کتے نے اچانک نیازی پر چھلانگ لگائی …… نیازی نے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے مجھے کھینچ کر کتے کے سامنے کر دیا اور خود بھاگتا گیا …… خود میں نے پھرتی سے جست لگا کر اپنے آپ کو کتے سے بچا لیا ورنہ وہ مجھے کاٹ چکا ہوتا۔ ‘‘اگر یہ مجھے کاٹ لیتا تو کیا تمہارے پیٹ میں چودہ انجکشن لگتے ؟’’ میں نے چیخ کر کہا ۔ ‘‘نہیں …… کتے کے !’’ وہ بولا اور میرا منہ کالا ہو گیا ۔ ‘‘بھؤ وؤ وؤ !’’ کتے نے ایک نعرہ لگا کر دوبارہ نیازی پر چھلانگ لگائی ۔ اس سے پہلے کہ نیازی پھر مجھے کھینچ کر کتے کے سامنے کر دیتا …… میں نے نیازی کو زور سے کتے کی سمت دھکا دے دیا ۔ نیازی اور کتا ٹکرائے اور دور جا گرے ۔ مگر اس سے پہلے کہ نیازی زمین چاٹ کر اٹھتا…… کتا نیازی کو چاٹنے کے لیے اٹھ گیا ۔ ‘‘علی …… بچ …… چاؤ !’’ نیازی کانپتے ہوئے بولا ۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا مگر خلاف توقع کوئی پتھر وغیرہ نظر نہیں آیا ۔ ‘‘ہے …… یا …… ہو ہو !’’ میں کتے کو ڈرانے لگا مگر اس نے مجھے کوئی اہمیت نہیں دی ۔ کتا نیازی کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا اور اس کی گرم گرم رال نیازی کے ننگے پیر پر گر رہی تھی کہ اچانک ہی قریب کوئی مرغا بولا اور کتا خوفزدہ ہو کر رک گیا ۔ ‘‘ککڑوں کوں!’’ مرغے نے نعرہ لگایا اور دور کھڑی ایک مرغی پر جھپٹا ۔ یقینا مرغ صاحب کی نظر کمزور تھی جو انہوں نے کتے کی کوئی پرواہ نہ کی اور اس کے اوپر سے اڑ کر مرغی کے پاس پہنچا مگر کتا اس سے خوف زدہ ہو گیا تھا وہ چیاؤں پیاؤں کرتا ہوا دور بھاگ گیا ۔ ‘‘لعنت ہے ہم پر لعنت……’’ میں نے نیازی کو اپنے دونوں ہاتھ دکھائے ۔ ‘‘ایک مرغے نے کتے کو بھگا دیا جبکہ ہم ایک مرغے سے بھی بدتر نکلے ۔’’ نیازی اٹھ کر کپڑے جھاڑنے لگا۔ ‘‘اب چلو گھر بہت ہو گیا!’’ میں نے اکتا کر کہا اور ہم دونوں نے نیازی کے گھر کا رخ کیا ۔

 ٭٭٭

            گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے پر جو چیز اندر سے نکلی اسے دیکھ کر نیازی کے اوسان پھر خطا ہو گئے نیازی کے ابا نے پہلے مجھے دیکھا اور پھر نیازی کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگے ۔ ‘‘ابا …… جان …… پخ پخ …… پخاور سے آگئے ؟’’ نیازی کانپتے ہوئے بولا اور اس کے ابا چونک گئے ۔ ‘‘ابے …… نیازی …… زنخے !’’ وہ چلائے اور میں نے منہ دوسری طرف کر کے بمشکل اپنی ہنسی ضبط کی ۔ ‘‘یہ کیا …… یہ کیا ہوا ؟’’ انہوں نے نیازی کے بال نوچے۔ ‘‘کہاں سے کٹوائے ؟’’ وہ چیخ کر بولے ۔ ‘‘نا…… نانا…… نا……’’ نیازی ہکلانے لگا ۔ ‘‘کس کے نانا سے ؟’’ وہ چیخ کر بولے ۔ ‘‘نن …… نن نن نائی سے !’’ نیازی نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔ ‘‘ابے تو کیا نائی نے اپنے دانتوں سے بال کاٹے تھے ؟ اور یہ کپڑے کس کے پہنے ہوئے ہیں ؟’’ وہ شدید غصے میں تھے ۔ ‘‘ابا …… یہ فف فف…… فیشن ہے !’’ نیازی ہمت کر کے بولا ۔

            ‘‘ کیسا فیشن ہے یہ …… جس نے تجھے انسان سے السیشن بنا دیا ’’ وہ پھر چلائے ۔ ‘‘ادھر آ تیرا فیشن اب آؤٹ آف فیشن کرتا ہوں !’’ وہ نیازی کو کان سے پکڑ کر اندر لے آئے ۔ ‘‘بیگم …… بیگم …… ذرا قینچی دینا !’’ انہوں نے منہ باورچی خانے کی طرف کر کے کہا ۔ ‘‘فیشن ہے یہ ……ابے یہ تیرا دوست علی بھی تو ہے ۔ فیشن کرتا ہے کیا …… ہے تویہ بھی لڑکا مگر اس کا حلیہ دیکھ …… سولجر کٹ بال …… شریفانہ آڑی مانگ …… پہنتا تو پینٹ شرٹ ہی ہے مگر شریفانہ طریقے سے …… کتنا معقول اور ‘‘ڈیسنٹ ’’ لگتا ہے۔’’ ‘‘بیگم قینچی پر دھار لگانے لگیں کیا؟’’ اور وہ بیگم پر چیخے۔ ‘‘چچا جان آپ یہ لے لیجیے !’’ میں نے جھٹ اپنی جیب سے چھوٹی قینچی نکال کر انہیں پکڑا دی ‘‘ہاں بھئی، اب تیار ہو جا!’’ وہ قینچی چلاتے ہوئے بولے۔

 ٭٭٭

            تھوڑی ہی دیر بعد میں اور نیازی پھر اسی نائی کی دکان پر بیٹھے تھے …… نیازی کے ابا نے نیازی کے بال ایسے کاٹے تھے کہ اب سوائے استرے کے اور کوئی چارہ نہ تھا۔ ‘‘زک زک……’’ نیازی کے بال تیزی سے اترتے جا رہے تھے …… وہ منہ بسورے نیچے گھور رہا تھا ۔ جبکہ نائی اپنی مسکراہٹ چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا…… اور میں…… میں نے ایک بار پھر اخبار چہر ے کے آگے پھیلایا ہوا تھا …… مگر اس بار میں شکلیں نہیں بنا رہا تھا …… بلکہ نظریں اخبار پر گاڑے نیازی کی حالت پر خوب ہنس رہا تھا ۔

 ٭٭٭