سوال ، جواب (ترتیب و تہذیب ، سید عمر فاران بخاری)

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : اگست 2006

ج: اللہ تعالی کی ذات کا کوئی تصورقائم کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا علم محدود ہے ۔ ہم صرف انہی باتوں کا تصور کر سکتے ہیں جو یا تو ہمارے حواس کی گرفت میں آچکی ہیں یا جن کا تصور قائم کر نا ہمارے لیے ممکن ہے ۔ البتہ اللہ کی صفات کا ہم ایک تصور قائم کرتے ہیں یعنی وہ حکیم ہے ، رحمان ہے ،ر حیم ہے ، وہ اس پوری کائنات کا خالق ہے ،اس کی عظمت بے پناہ ہے، اس کی قدرت پوری کائنا ت کا احاطہ کیے ہوئے ہے اس سے ہمارے سامنے ایک ایسی ہستی کاتصور آتا ہے جس کی جلالت ، جس کی شان ، جس کا مقام ، بہت بلند و بالا ہے۔ اس سے زیادہ تصور کرنے کی کوشش کریں گے تو جو بھی ہیولا بنے گا وہ ہمارا اپنا ذاتی ہیولا ہو گا اس سے زیادہ کوئی چیز نہیں ہو گی۔ کہنے کو تو آپ کوئی بھی چیز اپنے ذہن میں قائم کر سکتے ہیں یعنی ہر آدمی کا پروردگار اس کی ذہنی ساخت کے مطابق بن جائے گا۔ لیکن اس طرح کے کسی بھی تصور کو بھی خدا نہیں کہنا چاہیے۔جوخدا ہمارے احاطہ تصور میں آ گیا وہ خدا ہی کیا ہوا۔وہ تو پھر محدود ہو گیا۔ ہمارے سامنے اللہ کی صفات کا ایک بڑا تفصیلی بیان قرآن مجید میں ہے بس ان صفات سے جو ایک ہیولا ہمارے ذہن میں بنتا ہے وہ صفاتی ہو گا اسی کو سامنے رکھ کر خیال کریں کہ آپ اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہیں ۔ حضورﷺ نے اس مشکل کو حل کیا ہے کہ تم اللہ کی بندگی کرو اس طرح جیسے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور تم اسے نہیں دیکھ سکتے تو وہ توبہر حال تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔چنانچہ اس کا تصور کر لینا چاہیے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے ۔یہ بھی کافی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مطلب یہ ہے کہ اس دنیامیں کی جانے والی کوئی بھی نیکی اورکوئی بھی بدی ضائع نہیں جائے گی۔سب کاوزن ہو گا۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی کو ہر برائی کا بدلہ بھگتنا ہو گا او ر ہر نیکی اس کے لیے انفرادی جزا کا سبب بنے گی بلکہ بحیثیت مجموعی میزان میں اپنا وزن ڈالے گی ۔یعنی جب آپ نے ایک پلڑ ے میں کچھ باٹ رکھنا شروع کیے تو چھٹانک بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے اور سیر بھی۔اگر آپ پلڑے سے ایک چھٹانک اٹھالیں توکوئی تو فرق واقع ہوتا ہے نا ۔ اس کا مطلب ہے کہ اس نے وزن میں اپنا کردار ادا کر دیا۔ باقی رہی یہ بات کہ یہ میزان اور پلڑا کیا ہے یہ امور متشابہات میں سے ہے۔یہاں ہمیں بات سمجھانے کے لیے کہی گئی ہے اس کی اصل حقیقت قیامت ہی میں سامنے آئے گی۔

 کمپیوٹر کی ایجاد نے سمجھا دیا ہے کہ ایک ذرے کا وزن بھی کیا جاسکتاہے تو اللہ کے پاس کتنے حساس کمپیوٹر ہیں اس کااندازہ کون کر سکتا ہے ؟کسی بھی نیکی اورگناہ کوہلکا نہ سمجھا جائے یہ سب پلڑے کو جھکانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میرے نزدیک اسلامی قانون کی رو سے مسلمانوں پر زکوۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا۔ البتہ بعض علما ٹیکسوں کے نفاذکو جائز قرار دیتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ کوئی لازمی بات نہیں ہے۔ اس بات کو پسندیدہ قرار دیا گیا تھا کیونکہ حضورﷺ کے زمانے میں سادہ نظام تھا اور حکومت کے لیے بھی بہت بڑے پیمانے پر جس طرح آج ہوتا ہے پلاننگ کرنا ممکن بھی نہ تھا تو اس میں یہ چیز روا رکھی گئی یا اس کو زیادہ قابل ترجیح سمجھا گیا کہ جہاں کی زکوۃ ہے وہیں پر خرچ کی جائے۔ یہ کوئی قانونی بات نہیں ۔اب حکومت مجموعی صورت حال کو سامنے رکھ کر پلاننگ کر سکتی ہے۔ مثلاً اگر بلوچستان کی زکوۃ صرف بلو چستا ن میں اورپنجاب کی زکوۃ صرف پنجاب میں خرچ کی جائے تو کتنا عدم توازن پیدا ہو جائے گا اس لیے مجموعی نظام کو سامنے رکھ کر ہی پلاننگ کرنی چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہمارے معاشرے کے حوالے سے یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے اگر اتنی سادہ بات ہوتی تو میں جواب دیتا کہ تحریراً یا زبانی کہہ دینے کے بعد حق واپس لینااحمقانہ بات ہے۔ہمارے ہاں توایسے حالات پیدا کر دیے جاتے ہیں کہ جس میں عورتیں اپنا حق دینے کے لیے نفسیاتی طور پر مجبور کر دی جاتی ہیں۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ اچھے بھلے مذہبی گھرانوں میں بھی خواتین کا میراث میں سے حصہ لینا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ وہ اگر اس کے بارے میں کوئی ذکر کر دیں تو اس کو محبت اور مودت کے جذبات کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور ان پر ایسا ذہنی اور نفسیاتی دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ جس میں بعض اوقات وہ بیچاری اس طرح کی تحریریں بھی لکھ دیتی ہیں اور تقریریں بھی کہہ دیتی ہیں۔ حقیقت میں بات ایسے نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں تو بیویوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے یعنی شوہر دوسرے تیسرے دن ہی اپنا مہر معاف کروا لیتے ہیں ۔اس حوالے سے میرے نزدیک ان اہل علم کی رائے بالکل ٹھیک ہے کہ ہمارے معاشرے میں اگر کوئی خاتون یہ کہتی ہے کہ میں نے وہ معافی واپس لے لی ہے تو اس کا مہر ادا کیا جاناچاہیے۔ یہی معاملہ میراث کا بھی ہے اگرکوئی خاتون وہ مخصوص حالات گزرنے کے بعد اپنے حق کی واپسی کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے حق دیا جانا چاہیے۔ یہ باتیں میں نے اصولی کہی ہیں۔اگر کوئی خاص نوعیت کا معاملہ ہے تو اسے اس کی انفرادی نوعیت کے لحاظ دیکھا جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قضائے عمری کوئی چیز نہیں ہے البتہ یہ بات ٹھیک ہے کہ اگر کسی آدمی کی بہت زیادہ نمازیں قضا ہو گئی ہوں اور اب اسے شعور آیا ہو تو اسے نمازیں قضاکرنی چاہیے۔ اب وہ نمازیں قضا کیسے کرے اس کے بارے میں اہل علم کے تین موقف ہیں ۔تین موقف کیوں ہیں اس لیے کہ اس میں اللہ اور اس کے پیغمبر نے کوئی بات نہیں کہی ۔ نہیں کہی تو ظاہر ہے کہ اجتہاد کیا جائے گا ۔ اجتہاد کیا تو اجتہاد کرنے والوں کی تین آرا ہو گئیں۔ ایک یہ ہے کہ آپ باقاعدہ ترتیب کے ساتھ وہ نمازیں پڑھیں گے یعنی یہ نیت کر کے پڑھیں گے کہ میں آج 19 جنوری 1901 کی نماز پڑھ رہا ہوں ۔ دوسرا نقطہ نظر جو امام ابن تیمیہ کا ہے وہ یہ ہے کہ آپ جو نوافل پڑھتے ہیں ان کی جگہ آپ فرض نماز کی نیت کرلیاکریں۔اللہ تعالی وہ بھی قبول کرے گااور نفل کا اجر بھی دے دے گا ۔ تیسرا نقطہ نظر امام ابن حزم کا ہے وہ یہ کہتے ہیں چونکہ اس میں کوئی قانون سازی اللہ اور اس کے رسول نے نہیں کی تو ہمارے لیے اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ اللہ تعالی سے معافی مانگیں ۔ تلافی کی کوئی صورت نہیں ہے ۔ آپ کو جو بات معقول لگے اس کو اختیار کر لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پہلی بات تو یہ ہے کہ زکوۃ صرف اڑھائی فیصد نہیں ہے ، زکوۃ مال میں اڑھائی فیصد ہے ، پیداوار میں پانچ فیصد ، دس فیصداور بیس فیصد ہے۔ پیداوار کی موجودہ زمانے میں ایسی قسمیں وجود میں آگئی ہیں جو قدیم زمانے میں نہیں تھیں ۔ زرعی پیداوار بھی پیداوار ہے اور صنعتی پیداوار بھی پیداوار ہے ، ڈاکٹر کی فیس بھی پیداوار ہے ، یہ کالجوں کی فیسیں بھی پیداوار ہے۔ پیداوار کے ذرائع لامحدود ہو گئے ہیں۔ زکوۃ مال میں اڑھائی فیصد ہے ۔ اسلام میں زکوۃ حکومت کا ٹیکس ہے جو اس نے بالجبر لے لینا ہے ۔ اسلام کااصل حکم انفاق ہے او رانفاق کے بارے میں اللہ تعالی کے مطالبہ جو کچھ ضرورت سے زیاد ہ ہے وہاں تک ہے۔ یعنی آپ کی ذاتی کاروباری ضرورتوں سے جو کچھ زیادہ آپ کے پاس موجود ہے، یہ اصلاً معاشرے کاحق ہے اور آپ کے ذمے ہے کہ معاشرے کویہ حق لوٹائیں۔ آپ کے پاس مال پڑا ہوا ہے تو امانت ہے ۔جیسے ہی انفاق کا کوئی موقع آپ کے سامنے آجائے آپ فراخدلی کے ساتھ اللہ کی راہ میں خرچ کیجیے اورقرآن یہ کہتا ہے کہ جو آدمی انفاق کا موقع پیدا ہونے کے بعد بھی اپنی ضروریات سے زائدمال اللہ کی راہ میں نہیں دیتا وہ جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور اسکی سزا قرآن نے یہ بیان کی ہے کہ اس کاوہ مال آگ میں تپایا جائے گااور اس سے اس کی پیٹھ کو اور اس کی پیشانی کو قیامت میں داغ دیا جائے گا ۔ اس لیے صرف یہ خیال نہ کریں کہ قرآن نے صرف اڑھائی فیصد زکوۃ عائد کی ہے ، زکوۃ بھی اڑھائی فیصد ، پانچ فیصد، دس فیصد اور بیس فیصد ہے اور یہ تو ایک لازمی ٹیکس ہے جو حکومت قانون کی قوت سے لے لے گی ۔ اصل حکم انفاق کاہے اور انفاق ہی پر قرآن نے تمام درجات کی بنیاد رکھی ہے اور جب لوگوں نے پوچھا کہ اس کی آخری حد کیا ہے تو کہا یسئلونک ما ذا ینفقون قل العفو کہ سارے مطالبات ہمارے اس زائد مال میں ہیں جو تمہاری ضرورتوں سے فاضل تمہارے پاس ہے ۔ ضرورتیں کیا ہوتی ہیں وہ ذاتی بھی ہوسکتی ہیں ، کاروباری بھی ہو سکتی ہیں ، حال اور مستقبل کی بھی ہو سکتی ہیں۔ ان کے علاوہ جوبھی مال ہے وہ آپ کے پاس اصل میں معاشرے کی امانت ہے ۔مال کے بارے میں اسلام کا قاعد ہ قانون یہ ہے کہ وہ حلال ذرائع سے کمایا گیا ہو۔ اس میں کسی پر ظلم یازیادتی نہیں ہونی چاہیے ۔اور دوسری چیز بتا دی ہے کہ جو کچھ بھی آپ نے کمالیا ہے تو اپنی ذات پر خرچ کرنے میں بھی آپ کو اسراف کا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے یعنی فضول خرچی نہیں ہونی چاہیے اور تیسری بات یہ کہی ہے کہ جو ضرورتوں سے زیادہ ہے وہ معاشرے کا حق ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حج الگ چیز ہے ، عمرہ الگ چیز ہے ۔ آپ کو اللہ تعالی نے سہولت عطا فرمائی آپ نے عمرہ کر لیا ۔ اللہ توفیق دے گا تو آپ حج بھی کر لیں ۔ حج کے لیے استطاعت شرط ہے اس طرح کی کوئی شرط نہیں ہے کہ پہلے عمرہ کر لیں تو حج فرض ہو جائے گا ۔ قرآن نے یہ کہا ہے کہ من استطاع الیہ سبیلا آدمی کے پاس اگرجسمانی ، مالی استطاعت ہے تو اس کو حج کرنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کا انحصار آپ کے حالات پر ہے بعض اوقات ایساہوتا ہے کہ عمرے ہی کے پیسے ہیں اوراتنا ہی وقت ہے۔ایسے میں انسان عمرے کی سعادت سے کیوں محروم رہے ۔اور اگر حج کے لیے آپ کے پاس ذرائع موجود ہیں تو پھر ضرور حج کریں حج فرض ہے اور عمرہ تو ایک نفل عبادت ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: فرض نماز تو جمعہ کے دن دورکعت ہی ہے وہ آپ نے پڑھ لی تو آپ مواخذہ سے بچ گئے اور ذمہ داری اد ا ہو گئی۔ اس کے بعد نفل نمازہے جمعہ سے پہلے حضورﷺ نے کوئی نفل نہیں پڑھے سوائے تحیۃ المسجد کی دو رکعتوں کے۔ جمعے کے بعد کبھی آپ دو رکعتیں پڑھتے تھے اور کبھی چار رکعت۔اب بعد کے لوگوں نے کہاکہ کبھی دو بھی پڑھ لیتے تھے اور کبھی چار بھی تو دو بھی پڑھ لیتے ہیں اور چار بھی تو انہوں نے چھ بنا دیں۔ نفل نماز ہے کوئی پڑھنا چاہتا ہے تو بڑی اچھی بات ہے پڑھ لے لیکن حضور سے اتنا ہی ثابت ہے ۔ یہ بات کہ جمعہ حکومت کے بغیر نہیں ہوتا اصول میں بالکل ٹھیک ہے ۔ جب کوئی عمل آپ خواہ تیمم کے طریقے پر ہی کر لیں تو پھر اس میں احتیاطاً کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔یعنی آپ نے تیمم کیا اور آپ کو اطمینان تھا کہ اس وقت پانی نہیں ہے تو تیمم کر کے آپ نے نماز پڑھ لی اور پھر پانی میسر ہو گیا تو احتیاطا ًنماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس وجہ سے احتیاطی ظہر جس کو کہاجاتا ہے یہ کوئی چیز نہیں ہے ۔ لوگوں کو خواہ مخواہ مشقت میں ڈالا جاتا ہے۔جب امت اس بات پر متفق ہو گئی ہے کہ حکمران جب تک اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے ہم جمعہ پڑھتے رہتے ہیں تو یہ جمعہ ہی ہے ۔جمعہ ہی پڑھیے آپ کی ذمہ داری پوری ہو گئی ۔باقی کام حکمرانوں کاہے جب اللہ ان کو توفیق دے گا وہ مسجدوں میں جمعہ پڑھائیں گے تو اس وقت دیکھا جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کوئی صحیح روایت اس بارے میں نہیں ہے۔ لوگوں میں بس یہ بات مشہور ہو گئی ہے اور عام طور پر وہ یسین پڑھتے ہیں ۔البتہ میں نے سورہ یسین کو بہت غور سے پڑھا ہے لیکن اس میں مجھے کوئی بات مردوں سے متعلق نظر نہیں آئی۔ ساری باتیں زندوں سے متعلق ہیں تو اس وجہ سے میرا خیال یہ ہے کہ کبھی زندوں کو بٹھا کر یہ سورۃ سنانی چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن میں زیادہ تر تعلیما ت ایسی ہیں جو قیامت تک کے لیے واجب الاتباع ہیں جبکہ کچھ وقتی نوعیت کے احکام بھی ہیں۔یہ بات قرآن سے واضح ہو جاتی ہے کہ یہ حکم صرف نبی ﷺ کے لیے ہے یا صرف آپ کی ازواج کے لیے ہے یا صرف اس دور کے مسلمانوں کے لیے ہے۔ باقی تعلیمات اوراحکام قیامت تک کے لیے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ کا بندہ بن کر رہنا ، قرآن نے اس کو بیان کر دیا ہے وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔

(جاوید احمد غامدی)

 ج: والدین کے ساتھ ہر حال میں حسن سلوک کیا جائے گا اور دنیا میں ان کی اطاعت کا جو دستور ہے اسے اختیارکیا جائے گاسوائے اس کے کہ وہ دین کے بار ے میں کوئی ایسی بات منوانا چاہیں جو غلط ہو ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ مشکل اس وقت بہت سے لوگوں کو پیش آرہی ہے اور اس کی وجہ ہمارے ہاں تربیت کا انتہائی ناقص ہونا ہے ۔تربیت کا جو نظام خاندانی ماحول میں موجود تھا وہ بھی ختم ہو گیا ۔ تربیت کے جو مواقع اساتذہ کی جانب سے ملتے تھے وہ بھی تعلیم کے کاروبار بن جانے کے بعد ختم ہو گئے۔ یہی معاملہ بحیثیت مجموعی پوری سوسائٹی کا بھی ہے ۔اگرچہ اللہ نے والدین کا بڑا حق قائم کیا ہے اور اپنے بعد سب سے بڑا حق انہی کاقرار دیا ہے لیکن بعض اوقات والدین بھی واقعتا نہایت غلط رویے اختیار کرتے ہیں۔ایسی صورت میں کیارویہ اختیار کیا جائے یہ ایک مشکل امر ہے۔میرے خیال میں اس کو اپنے لیے امتحان سمجھنا چاہیے۔ یہ خیال کیجیے کہ اللہ نے آپ کو اسی آزمائش میں مبتلا کیا ہے۔اور یہ کہ کسی انسان کے لیے امتحان اور آزمائش کا کون سا میدان ہوگا اس کا انتخاب اللہ خود ہی کرتے ہیں ۔آپ کے لیے امتحان کا یہ میدان ہی اللہ کی مشیت ہو گی ۔اگر کسی شخص کو والدین کی طرف سے یہ معاملہ پیش آ گیا ہے تواس کو بہت سلیقے کے ساتھ یہ عزم کر لینا چاہیے کہ مجھے اس میں کامیاب ہونا ہے ۔ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ آپ بہت صبر سے کام لیں ۔ جتنی بات کرنی ضروری ہو اتنی بات کریں ، بے جا بحث سے گریز کریں ۔ جو بات نہیں ماننے کی اس کے بارے میں شائستگی سے بتا دیں کہ یہ ممکن نہیں ہے اور بس خاموشی اختیار کر لیں ۔ خاموشی پر اگر کوئی رد عمل ہوتا ہے تو ا سکو بھی خاموشی سے برداشت کر لیں اور اپنی طرف سے کوئی زیادتی ،کوئی بے ادبی، کوئی بدتمیزی ہر گز نہ کریں۔ اس لیے کہ آپ ایک بڑے امتحان سے گزر رہے ہیں اور اس میں اللہ سے دعا بھی کرتے رہیں کہ وہ آپ کو کامیابی عطا کرے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: انسان کے اندر اگر مذہب نے اخلاقی تبدیلی پیدا نہیں کی تو کچھ نہیں کیا۔اخلاقی اصلاح کے بغیر نمازیں ، روزے ، حج ، زکوۃ یہ سب کچھ ضائع ہو جائے گا۔اصل امتحان یہی ہے جس میں آپ کو ڈالا گیا ہے اور اس امتحان کا سب سے بڑا میدان آپ کا گھر ہے ۔اس لیے کہ وہاں توانسان بالکل ‘‘برہنہ ’’ ہوتا ہے۔ آپ دوسروں کے سامنے تو اپنے اوپر خول چڑھا سکتے ہیں ، ان کوفریب دے سکتے ہیں مگر گھر میں یہ نہیں کر سکتے ۔بیوی بچوں کے ساتھ انسان اخلاقیات کے کس مقام پر کھڑا ہے اسی سے اس کے اخلاق کا تعین ہو گا۔اچھوں کے ساتھ اچھا ہونا کون سا اخلاق ہے اور اس میں آپ کاکیا کمال ہے۔کمال تو یہی ہے کہ بروں کے ساتھ اچھے بن کر دکھائیے ۔ قرآن نے کہاہے کہ ادفع بالتی ھی احسن یعنی آپ برائی کا جواب بھی بھلائی سے دیں ۔ آپ کو اللہ نے اگر باپ کے مقام پر رکھا ہے تو اپنے مرتبے کو پہچانیے ۔ قرآن ایسے موقعوں پر کہتاہے کہ لا تنسو الفضل بینکم یعنی اپنی اس فضیلت کو مت بھولو جو اللہ نے تم کو دی ہے ۔باپ کی جگہ پر رکھاہے تو باپ تو سراپا شفقت ہستی ہوتی ہے ۔سراپا محبت ہستی ہوتی ہے ۔ آپ کو ایک دن اپنے مالک کے حضور پیش ہونا ہے اور وہاں جو سب سے بڑا امتحان ہے جس کا نتیجہ نکلنا ہے وہ آپ کے اخلاقی وجود کا امتحان ہے ۔ اس میں کامیابی کو اصل ہدف بنائیے باقی چیزوں میں کوئی کمزوری بھی رہ گئی تو امیدہے اللہ معاف کر دیں گے لیکن یہ معاملات انسانی حقوق کے ہیں اور انسانی حقوق کے معاملات کے بارے میں ایک دوسرا آدمی بھی اللہ کے سوا آپ کا گریبان پکڑنے والا موجود ہو گا ۔ کیا کریں گے وہاں جب وہ گریبان پکڑے گا اور یہ کہے گا کہ میرا حق ادا نہیں ہوا ۔ وہاں پھرآپ کو کوئی بچانے والا نہیں ہو گا ۔ ہر آدمی اپنے اعمال کردار کا جائزہ لے اور کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ میں جو اخلاقی بدتمیزیاں کرتا ہوں اس کا ازالہ یہ ہے کہ دو نفل اور پڑھ لوں گا یا دوروپے خیرات اور کر دوں گا ۔ ایسے نوافل اور ایسی خیرات اللہ منہ پر ماردیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کا فیصلہ کر دیا تھا جب اس بی بی کے بارے میں پوچھا گیا کہ ہمسائے اس کے اخلاق سے تنگ ہیں لیکن نمازیں بہت پڑھتی ہے ، بڑی تہجد گزار ہے ، تو آپ نے فرمایا کہ جہنم میں جائے گی ۔تو اس وجہ سے یہ سمجھ لیجیے کہ اصل امتحان کیا ہے ، اصل امتحان یہ ہے کہ آپ نے اپنی اخلاقی پاکیزگی کا کتنا اہتمام کیاہے اور اخلاقی پاکیزگی کے لیے باہر مت جائیے اس لیے کہ باہر تو آدمی بڑا مودب، بہت شائستہ، بڑی عمدہ باتیں کرتا ہے ۔لیکن جیسے ہی گھر کے دروازے میں داخل ہو گا تو سارا لبادہ اتر جائے گا۔ اس سے بڑی کوئی منافقت نہیں ہے اس لیے سب سے پہلے اپنے گھر میں اعلی انسان بننے کی کوشش کی جائے ، آپ وہاں کامیاب ہو گئے تو سمجھیے کہ سارے میدانوں میں کامیاب ہو گئے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالی نے جو جانور پیدا کیے ہیں ان میں کچھ جانوردرندے کہلاتے ہیں جیسے شیر اور چیتا وغیرہ اور انسان کی فطر ت یہ ہے کہ انسان انہیں نہیں کھاتا۔یہ درندے گوشت خور ہیں۔ بعض جانور ایسے ہیں جنہیں انسان کھاتا ہے مثلاً بکری گا ئے وغیرہ یہ جانور سبزی خور ہیں۔ چنانچہ جو جانور انسان کے کھانے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں وہ سبزی خور جانورہیں ۔گوشت خور جانور انسان کے کھانے کے لیے نہیں۔سور واحد جانور ہے جو بکری کی Specie (نسل) سے ہے ۔ لیکن گوشت کھاتا ہے اور سبزی بھی اس وجہ سے ا س کا معاملہ مشتبہ تھا کہ آیا یہ کھانے کا ہو گا یا نہیں۔یعنی اسے درندہ قرار دیا جائے کہ نہیں۔ اللہ نے اس کا فیصلہ کر دیا کہ یہ درندوں میں شمار ہو گا اس لیے اس کا کھانا ممنوع ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: تبلیغی جماعت کے کام کو میں بڑی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور میں انہیں اللہ کے دین کے مخلص خادم سمجھتا ہوں ۔ان کے بارے میں میری رائے بری نہیں ہے۔ البتہ مجھے ان کی کچھ چیزوں کے ساتھ اختلاف ہے۔ وہ اختلاف میں ادب کے ساتھ ان کی خدمت میں عرض کرتا رہتا ہوں۔ میری ایک درخواست ان سے یہ ہے کہ تبلیغ اور دعوت کی جوذمہ داری اللہ تعالی نے انسان پر ڈالی ہے وہ اپنے ماحول میں ڈالی ہے ۔اپنے مورچے کو چھوڑ کر دوسری جگہ جانے کی کوئی ذمہ داری عام آدمی پر نہیں ڈالی گئی۔دوسری چیز یہ ہے کہ دعوت کی بنیاد قرآن مجید ہے یہ بات خود قرآن نے واضح کر دی ہے کہ ذکر بالقرآن من یخاف وعید یعنی جو آدمی بھی خدا کی وعید سے بچنا چاہتا ہے اس کو قرآن کے ذریعے سے نصیحت کیجیے ۔اور دعوت کے لیے بھی فرمایا کہ وجاھد بہ جھادا کبیرا یعنی اس قرآن کے ذریعے سے جہاد کرو آپ کے ہاتھ میں قرآن ہونا چاہے، قرآن پڑھائیں ، قرآن سکھائیں ، یہی دین کی دعوت ہے ۔ فضائل کی کتابوں کے اندر موجود جھوٹی روایتوں ، قصے کہانیوں کو ایک طرف رکھ دیں اور اللہ کی کتاب کو ہاتھ میں پکڑیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ لوگوں کوپورا دین سکھانے کی کوشش کریں یہ تو ٹھیک ہے کہ تبلیغ میں تدریج ہوتی ہے لیکن جولوگ آپ کے قریب آجاتے ہیں وہ پھر جماعت کے چلوں ہی میں نہ پڑے رہیں ، ان کو پورا دین سکھانے کا اہتمام ہونا چاہیے۔بس میری یہی گزارشات ہیں وہ میں ان کے علما سے بھی عرض کرتا رہتا ہوں اور عام آدمی سے بھی۔باقی اچھے لوگ ہیں۔موجود زمانے میں اخلاص کی بہترین تصویر ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اعمال صالحہ کے بارے میں ہم کو رسول اللہ ﷺ نے بتا دیا ہے اور قرآن نے بھی بتا دیا ہے کہ وہ کیا ہیں ۔قرآن نے تو مختلف مقامات پرخاص موضوع بنا کر بتا دیا ہے کہ کیا چیزیں اعمال صالحہ ہیں۔ ان میں جو بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ اللہ پر ایمان لائیں ، اللہ کے فرشتوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائیں ، اس کی کتابوں پر ایمان لائیں ، اللہ کی راہ میں انفاق کریں ، رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ صلہ رحمی کا تعلق رکھیں ، اپنے عہد اور معاہدے پورے کریں ، جب کوئی مشکل مرحلہ آئے تو اس میں صبر کے ساتھ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے زندگی بسر کریں ۔ حدود الہی کی پیروی کریں ،نماز کا اہتمام کریں ، زکوۃ ادا کریں ، روزہ رکھیں ، حج کریں یہ اعمال صالح ہیں جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں اور ان کے علاوہ بھی آپ قرآن سے دیکھ سکتے ہیں۔ ان سب میں داڑھی نہیں ہے ۔ اسی طرح رسول اللہﷺ نے بھی جب کسی صحابی کوجنت میں جانے والے اعمال بتائے تو ان میں داڑھی کاذکر نہیں کیا۔ لوگ آکر پوچھتے ہیں کہ حضور ہم جنت میں کیسے جائیں گے تو آپ چند چیزوں کا ذکر کرتے ہیں کہ انہیں اختیار کر لوجنت میں چلے جاؤ گے ۔وہ کہتے ہیں کہ جہنم سے کیسے بچیں گے ، آپ نے فرمایا یہ چند چیزیں ہیں ان کو اختیار کر لو جہنم سے بچ جاؤ گے ۔ جس چیز کو پیغمبر نے وہ اہمیت نہیں دی تو ہم اور آپ کون ہوتے ہیں اسے ایسی اہمیت دینے والے۔اگر اس کی یہی اہمیت تھی تو جب اونٹنی والے نے حضور کی اونٹنی پکڑ کر پوچھا تھا کہ مجھے وہ راستہ بتادیجیے جس سے میں جنت میں چلا جاؤں تو آپ کو سب سے پہلے یہ کہنا چاہیے تھا کہ داڑھی رکھ لینا ۔امتوں کا المیہ یہ ہے کہ دین کی حقیقت غائب ہونا شروع ہو جاتی ہے اور اس طرح کی چیزیں بڑی اہمیت اختیار کرجاتی ہیں۔ عبادات کے بعد انسان جس اصل امتحان میں ڈالا گیا ہے وہ اس کے اخلاقی وجود کا امتحان ہے ۔ آپ کے گھر میں ، رشتہ داروں سے ، کاروبار میں کیا معاملات ہیں ، آپ کتنے سچے ، کتنے دیانتدار ہیں فیصلہ اس پر ہونا ہے نہ کہ داڑھی کے سائز پر ۔

(جاوید احمد غامدی)