سورج کا سوال

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : اگست 2006

             پچھلے انسٹھ برسوں کی طرح حالیہ یوم آزادی کا سورج بھی یہی سوال لے کر طلوع ہو رہا ہے کہ وہ کون سی صبح تھی جس کی امید میں چلتے، ہمارے بوڑھے ، ہمارے بچے تیرہ وتار شب میں کھو گئے ۔ وہ کون سی سرزمین تھی جس کے لیے لاکھوں لاشے گمنام قبروں ، اندھے کنوؤں ، ظالم نہروں اور گنگا جمنا کی لہروں کے سپرد ہو گئے ۔ وہ کون سی روشنی تھی جسے پانے کے لیے ہزاروں عصمتیں کالی دیوی کے چرنوں کی تاریکی میں گم ہو گئیں ۔ وہ کون سا صحن چمن تھا کہ جس میں لہلہانے کی تمنا لیے ہزاروں شگوفے بن کھلے مرجھا گئے ۔ وہ کون سی خوشبو تھی جسے دامن میں بسانے کے لیے ہزاروں کڑیل جوان کرپان کی نذر ہو گئے وہ کون سی عمارت تھی جس کی بنیادوں میں 20 لاکھ مسلمانوں کا گرم خون بہادیا گیا اور وہ کون سی مجبوری تھی جس کے لیے دوشیزگان اسلام کے بطن سکھ نسل کی آغوش بن گئے ؟

             انسٹھ برس سے مسلسل، ہر 14 اگست کی صبح سورج یہی صدا لگاتا ہے مگر جواب میں قبرستان سی خاموشی چھا جاتی ہے ۔ کسے اتنی فر صت کہ سورج کی ان بے کار باتوں کا جواب دے ۔ ان باتوں کا جواب نہ تو پہلے کسی نے دیا اور نہ ہی آیند ہ ایسی توقع ہے۔ البتہ کچھ دیوانے پہلے بھی شہر غفلت میں اذان فجر کہتے رہتے تھے اور اب بھی کہتے رہتے ہیں۔مناسب معلوم ہوتاہے کہ سورج کو بھی ماضی کی ایک اذان سنا دی جائے کہ شاید اس سے اس کی کچھ تسلی ہو جائے ۔اور یہ اذان وہ اذان ہے جو26 اپریل 1946 کو اردو پارک دہلی میں کہی گئی تھی ۔ اس اذان میں سید نے کہا تھا کہ لوگو ‘‘مجھے پاکستان بن جانے کا اتنا ہی یقین ہے جتنا اس بات پر کہ صبح کو سورج مشرق ہی سے طلوع ہو گا لیکن یہ پاکستان وہ پاکستان نہیں ہو گا جو دس کروڑ مسلمانوں کے ذہنوں میں موجود ہے اور جس کے لیے بڑے خلوص سے آپ کوشاں ہیں ، ان مخلص نوجوانوں کو کیا معلوم کہ کل ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔ اگر مجھے کوئی اس بات کا یقین دلا دے کہ ہندستان کے کسی قصبہ کی کسی گلی میں ، کسی شہر کے کسی گوشہ میں ، حکومت الہیہ کا قیام اور شریعت کا نفاذ ہونے والا ہے تو رب کعبہ کی قسم! آج ہی میں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہوں۔ لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ جو لوگ اپنے جسم پر اسلامی قوانین نافذ نہیں کر سکتے وہ دس کروڑ افراد کے وطن میں کس طرح اسلامی قانون نافذ کر سکتے ہیں ؟ پاکستان میں چند خاندانوں کی حکومت ہو گی اور یہ خاندان زمین داروں ، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے خاندان ہونگے جو اپنی من مانی کارروائی سے ہر محب وطن اور غریب عوام کو پریشان کر کے رکھ دیں گے ۔ غریب کی زندگی اجیرن ہو جائے گی ۔ ان کی لوٹ کھسوٹ سے پاکستان کے کسان اور مزدور نان شبینہ کو ترس جائیں گے ۔ امیر روز بروز امیر تر اور غریب روز بروز غریب تر ہوتے چلے جائیں گے ’’ اور اس سے بھی پہلے 1942 میں ایک فرزانے نے کہا تھا

 پاکستان میں کیاکیاہو گا

 زرداروں کی عزت ہو گی ۔ہر مفلس کی درگت ہو گی

 پیکر عصمت ، زینت خانہ ۔بازاروں کی زینت ہو گی

 اسلام کے نام پر عیاشی ہو گی ۔اسلام کے نام پر بدمعاشی ہو گی

 اسلام ہی یہاں رسوا ہو گا ۔پاکستان میں کیا کیا ہو گا

             ان لوگوں کی اذانیں ماضی میں بھی قبرستان کی اذانیں بن کے رہ گئیں اور آج بھی ان کامقدر یہی ہے کیونکہ وہ لوگ جو سوئے پاکستان، ہردم جواں، رواں دواں قافلہ کے دست وبازو تھے ، ان کے بال وپرکاٹ دیے گئے ، لب پہ تالے اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ قلم کاروں کے ہاتھ قلم اور سر اونچا رکھنے والوں کے سر ، دار کی زینت بنا دیے گئے۔ ایسے میں وطن عزیز میں وہ صبح کہاں سے طلوع ہو گی ۔ وہ روشنی کیسے پھیلے گی اور وہ خوشبو کب مہکے گی جس کی آس سورج لگائے بیٹھا ہے ۔سورج کو اپنی یہ آس پوری ہونے کی امید تو نہیں لیکن اس کے باوجود بھی گمان یہی ہے کہ ۱۴، اگست کی شام رخصت ہوتے ہوئے سورج ہمیشہ کی طرح اس بار بھی یہ ضرور کہہ کرجائے گا کہ لوگو! دیکھ لو میرا کا م روشنی پھیلانا ہے جس کے لیے میں ازل سے رواں دواں ہوں تاکہ تاریک راہوں کو روشنی اور مردہ دلوں کو حرارت مل جائے۔ میں نے کبھی اس فرض میں کوتاہی کی؟ تمہاری منزل تو مجھ سے بھی اونچی اور تمہارا مقصد تو مجھ سے بھی بلند تھا ۔ تمہارے ارادے تو پہاڑوں سے مضبوط اور سمندروں سے فراخ تھے ۔ پھر تم کس لیے بیٹھ گئے ؟ کیا بیٹھنے والے بھی منزل پر پہنچا کرتے ہیں ؟ کیا سونے والوں کو بھی راہیں ملاکرتی ہیں اور کیا صرف سوچنے سے سارے مقصد پورے ہوجایا کرتے ہیں ؟اور کیا انسٹھ برس کی مہلت کافی نہیں ؟ مگر جب جاتے ہوئے سورج کی اس بات کو بھی کوئی نہ سنے گاتو حسب معمول وہ یہ کہہ کر چپکے سے ڈوب جائے گاکہ ہر حال میں آواز لگاتے رہو ازہر

 صحرا میں بھی اذانوں کا تسلسل نہیں ٹوٹے