جدید مغرب اور میرے آباؤاجداد

مصنف : اوریا مقبول جان

سلسلہ : منتخب کالم

شمارہ : جولائی 2006

            آپ کو اپنے اردگرد ایسے بہت سے لوگ مل جائیں گے جنہیں اپنے باپ کے کپڑوں سے بو آتی ہوگی، جنہیں اپنی ماں کی باتوں سے جہالت، پسماندگی اور غربت کی باس محسوس ہوتی ہوگی، جو اپنا رشتہ ایسے لوگوں سے جوڑتے پھرتے ہوں گے جو مہذب ، روشن خیال، ترقی یافتہ اور طاقتور ہوں۔ ایسے قصے اور کہانیاں بھی عام ہیں کہ اگر کبھی کسی نے ان کے آباؤ اجداد کا ذکر ان کے سامنے چھیڑا تو اول تو صاف مکر گئے اور اگر ممکن نہ ہوسکا تو جی بھر کر انہیں برا بھلا کہا اور پھر یہ دستور بنا لیا کہ جہاں بیٹھے اپنے اجداد کو گنوار، جاہل ، اجڈ، بے کار، غیر مہذب اور پسماندہ ثابت کرتے پھرے اور اپنے نام و نسب کی ایک دوسری پہچان بنانے لگے۔

            ایسے لوگ والدین کو گھر کا نوکر تک کہنے سے باز نہیں آتے۔ انہیں مہمان گھر میں آنے پر کمرے میں بند کردیتے ہیں یا پھر ان سے دور گھر جابساتے ہیں اور انہیں دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کی تصویریں تک اپنے بچوں کو نہیں دکھاتے۔

             کچھ عرصہ پہلے تک آباؤ اجداد سے نفرت یا بیزاری شرمساری کا باعث تھی۔ مگر میری حیرت کی انتہا اس وقت ہوئی جب ٹیلی ویژن کے مباحثوں میں علمیت کا لبادہ اوڑھے یہ لوگ اپنے نام و نسب اور شجرہ پر لعنت بھیجتے ہوئے اپنے رشتے آج کے دور کے روشن خیال، ترقی یافتہ اور مہذب گروہ سے جوڑتے نظر آئے۔

            ایک چھوٹی سی کتاب جو گزشتہ سال کی تخلیق ہے اس کا حوالہ دے کر اپنے سارے ماضی اور سب آباؤ اجداد کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ تحریر ایسی کہ جیسے دنیا میں صرف یہ ایک کتاب لکھی گئی ہے کہ اسے پڑھ کر میرے آباؤ اجداد کی خصلت کو پہچان لو۔ مگر میرا المیہ اور دکھ بڑا کربناک ہے۔ میرا المیہ یہ ہے کہ ایسے دانشوروں اور کالم نویسوں کے آباؤ اجداد اور میرے آباؤ اجداد ایک تھے اور مجھے اپنے ماں باپ کے کپڑوں سے بو نہیں آتی۔ مجھے ان پر فخر ہے اور میں روشن خیال حکمرانوں اور مہذب قوموں کی خصلت سے واقف ہوں اور ان کے جرم جانتا ہوں اس لیے مجھے ان سے نفرت ہے۔

            میرے آباؤ اجداد کو سائنس اورعلم کا دشمن کہا گیا۔ انہیں ترقی کا منکر گردانا گیا۔ لیکن میں کیا کروں کہ میں تاریخ کے صفحات الٹتا ہوں تو مجھے مسلمانوں میں کہیں بھی سقراط کو زہر کا پیالہ دینے والا نظر نہیں آتا۔ گلیلیو کو جیل کی کوٹھڑی میں اذیت دے کر مارتا ہوا، حکمران نہیں ملتا۔میرے آباؤ اجداد نے کبھی بھی لندن کے آکسفورڈ کے سامنے آگ کا الاؤ روشن کر کے لاتمیر اور ریڈلے کو اس میں نہیں پھینکا۔ ہمارے کہاں کبھی بھی ارشمیدس کو توپ کے گولے کے سامنے رکھ کر نہیں اڑایا گیا۔ لیونارڈڈی ونچی جیسے مصور اور سائنس دان کو قتل نہیں کیا گیا۔ سروئیسی اور برونو جیسے عظیم فلسفیوں کو آگ کے الاؤ میں نہیں جلایا گیا۔ہم اُس تاریخ کے بھی امین نہیں جب ہر چند ماہ بعد ایک ہزار کے قریب سائنس دانوں کو اکٹھا کیا جاتا اور پھر بڑے سے پنڈال میں آگ لگائی جاتی اور انہیں لوگوں کے سامنے زندہ جلا دیا جاتا۔ فرانس سے لے کر سپین تک کونسا ایسا ملک ہے جس کے دامن پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں سائنس دانوں ، عالموں اور فلسفیوں کو قتل کرنے اور زندہ جلانے کے دھبے نہ ہوں۔

            مجھے اپنے آبا ؤ اجداد کا ذکر نہیں کرنا کہ ان کے نام سے میرے ان دانشوروں کو شرم آتی ہے۔ ورنہ شاید اگر وہ یورپ میں کسی بھی علم کی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں تو انہیں آغاز میں میرے آباؤ اجداد ہی کا نام ملے گا۔ فزکس ، کیمسٹری، الجبرا، طب ، نفسیات،فلکیات…… لیکن کیا کروں یہ لوگ آج کے جمہوریت پسند اور روشن خیال ماحول سے اتنے مرعوب ہیں کہ کہتے پھرتے ہیں اب مغرب بدل گیا ہے۔ اب وہ عالموں اورسائنس دانوں کا احترام کرنے لگا ہے۔ اسی لیے ترقی کر گیا ہے۔ لیکن میرے ان شرمندہ اور مرعوب دوستوں کو علم نہیں کہ جتنے سائنس دان آج کے دور میں مغرب اورامریکہ میں قتل ہورہے ہیں اتنے اس سے پہلے شاید ہی کبھی ہوئے تھے۔ بس طریقہ واردات بدل گیا ہے۔ اب حکومتیں نہیں ، ایجنسیاں قتل کرتی ہیں اور مقصد پورا ہوجاتا ہے۔

            میں صرف چند ایک کا ذکر کروں گا کہ یہ لسٹ اتنی طویل ہے کہ اس کے لیے پورا انسائیکلوپیڈیا درکار ہے۔ وہ قتل جو سی آئی اے نے پوری دنیا میں کروائے، ان میں سائنس دانوں اور مفکروں کی تعداد پچاس فیصد سے زیادہ ہے۔ چند عالمی سائنس دان جو مختلف جگہوں پر DNA Specification کا کام کر رہے تھے اور ایسا Pathogen ایجاد کرنا چاہتے تھے جن سے بھوری آنکھوں اور بالوں والے لوگوں کی نفسیات اور جرم کا اندازہ ہوسکتا ہو۔ انہیں کیسے چن چن کر مارا گیا۔ ۱۶ نومبر ۲۰۰۱ء ڈاکٹر ڈون سی ولر کو لیمفس میں اغوا کر کے قتل کیا گیا۔ ۱۰ دسمبر ۲۰۰۱ء کو ڈیوڈ شواز گر کو گھر میں ، لندن میں قتل کیا گیا۔ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۱ء ڈاکٹر بنٹو کیو کو اپنی لیبارٹری میں ڈنڈے مارکر مارا گیا۔ ۱۴ دسمبر ۲۰۰۱ء کو سیٹوان نگین کو آسٹریلیا کے شہر نیگین میں بڑے فریج میں بند کر کے مار دیاگیا۔ ۲۳ دسمبر ۲۰۰۱ء کو دلادیمر پالنگ کو لندن کے گھر میں قتل کر دیاگیا۔ یہ سب ایک ایسے پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے۔ جو دنیا کے اندر انسانی نسل پر احسان کر سکتا تھا۔   

            ان عالمی شہرت یافتہ سائنس دانوں کے علاوہ جان بیڈوے کو ۲۱ جولائی ۲۰۰۱ء میں بوسٹن میں اس لیے ماردیا گیا کہ وہ ماحولیاتی آلودگی پر امریکی کمپنیوں کے اثرات کی تحقیق کر رہا تھا۔ صرف چند ماہ پہلے سان فرانسسکو میں امریکہ کے بڑے ایٹمی سائنس دان رابروٹ جے لل کو غنڈوں سے مروادیاگیا کیونکہ وہ تمام ملکوں کو ایٹمی توانائی دینے پر بحث کرنے لگا تھا۔ فروری ۲۰۰۳ء میں دنیا بھر سے

(بقیہ ص پر)

دس بڑے مائیکرو بیالوجسٹ اسرائیل گئے اور ان کے کیمیائی ہتھیاروں پر کام کر کے واپس آرہے تھے کہ ان کے جہاز کو میزائل سے اڑا دیاگیا۔ اس لیے کہ ان کے سینوں میں راز آگئے تھے ۔ یہ لوگ تو اپنے محسن سائنس دانوں کوبھی نہیں بخشتے۔ فرینک اولسن سی آئی اے کا ملازم تھا۔ اس نے ایک مچھر مار زہر ایجاد کیا اور ۱۹۵۱ء میں پولینڈ کی فوج پر استعمال کروایا۔ ایک ٹوتھ پیسٹ بنائی اور بلغاریہ بھجوائی، جس سے آبادی معذور ہوجاتی تھی۔ اس نے شنگلابیکٹریم ایجاد کیا جس سے لوگوں کو قے آتی اور آتی رہتی اور اسی حالت میں وہ مرجاتے۔اسے پولینڈ اور دیگر ممالک میں پھیلایا۔ لیکن جیسے ہی اس نے ایک دفعہ اپنی ایجادات کو سی آئی اے کے سیف ہاؤس میں معصوم لوگوں پر استعمال ہوتے دیکھا تو غصے میں لال پیلا ہوگیا اور پھر اسے نیو یارک کے ہوٹ کی دسویں منزل سے گرادیا گیا۔

            صرف پانچ سالوں میں قتل ہونے والے سائنس دانوں کی تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔ اس میں عراق میں امریکیوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے بارہ سو سائنس دان اور عالم شامل نہیں۔

            ایسے جرم نہ میرے آبا ؤ اجداد نے کیے تھے اور نہ ہم کر رہے ہیں۔

            مگر میں کیا کروں کہ جب بھی ٹی وی کھولتا ہوں ایسے دانشور ہمیں ظالم، جاہل اور گنوار کہتے ہیں اور قاتلوں، ظالموں اور بھیڑیوں کو روشن خیال، مہذب، ترقی پسند کہتے پھرتے ہیں، مضمون تحریر کرتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں۔

            میرادکھ اورالمیہ یہ ہی ہے کہ میرے اور ان کے آباؤ اجداد ایک تھے اور مجھے ان پر کوئی شرمندگی نہیں۔ مجھے اپنے ماں باپ کے کپڑوں سے بو نہیں آتی۔ میں انہیں لوگوں کے سامنے گھر کا نوکر نہیں بتا سکتا۔