چڑیا اور ہاتھی

مصنف : مہدی آذیزدی

سلسلہ : کہانی

شمارہ : جون 2006

 ترجمہ ڈاکٹر تحسین فراقی

ایک ایرانی کہانی

            ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی صحرا میں چڑیوں کا ایک خاندان رہتا تھا۔ انہوں نے گھاس پھونس میں انڈے دیے تھے جن سے بچے نکل آئے تھے۔ایک ہاتھی کا بھی اسی صحرا میں بسیرا تھا۔ ایک دن ہاتھی اپنی پیاس بجھانے کے لیے دریا کی طرف جارہا تھا کہ گھاس سے گزرتے ہوئے وہ چڑیوں کے چند بچوں کو کچل کر آگے نکل گیا۔جب چڑیوں کو اس سانحے کا علم ہوا، انہیں شدید صدمہ پہنچااور ہر ایک نے اس سانحے پر اپنے اپنے انداز میں تبصرہ کرنا شروع کیا۔ ایک بولی:‘‘قسمت میں یہ ہی لکھا تھا۔’’ دوسری بولی:‘‘ کوئی چارہ نہیں، سوائے اس کے کہ نباہ کریں۔’’ تیسری بولی:‘‘ دنیا ہمیشہ سے بد بختی کا گھر ہے۔’’ ایک چڑیا جو ان سب سے مختلف تھی اور بڑی بہادر تھی اور جس کا نام کاکلی تھا، بولی: ‘‘ مجھے آپ لوگوں کے ایک حرف سے بھی اتفاق نہیں ۔ صحرا زندگی گزارنے کا ایک مقام ہے اور بہت عمدہ ہے۔ لیکن زندگی کے لیے حساب اور احتساب بھی لازمی ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ کوئی ہاتھی آیا اور چڑیا کے بچوں کو پاؤں تلے روندتا ہوا یہ جا وہ جا۔’’چڑیاں بیک زبان بولیں:‘‘واقعی اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے، لیکن فی الحال وہ ایسا ہی کر رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم یہاں سے ایسی جگہ کوچ کر جائیں جہاں ہاتھی نہ ہو۔’’

کاکلی بولی:‘‘ یہ نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جس کسی کا کہیں دشمن ہو ، وہ وہاں سے راہ فرار اختیار کر کے کہیں اور چلا جائے؟ یہ درست نہیں ۔ ہمیں اپنے حق کا دفاع کرنا چاہیے۔ یہ جگہ ہمارا وطن ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم دشمن کے شر سے اسے بچائیں۔ ہم اپنی جگہ کیوں چھوڑیں ، ہاتھی کوئی دوسرا راستہ کیوں اختیار نہیں کرلیتا؟’’چڑیاں بولیں:‘‘ بات تو درست ہے لیکن یہ بات ہاتھی سے کہے کون؟’’کاکلی بولی:‘‘ ہم کہیں گے، کیا ہمیں زندگی گزارنے کا حق نہیں؟ چلیں ہم ہاتھی کو متنبہ کرتے ہیں کہ اسے ہماری حدود میں آنے کا کوئی حق حاصل نہیں ۔’’چڑیاں بولیں: ‘‘ اگر ہاتھی نے ہماری بات نہ مانی اور اس نے کڑوی کسیلی شروع کی اور لڑائی بھڑائی پر اتر آیا تو پھر؟’’کاکلی گویا ہوئی : ‘‘اگر ہاتھی نے اس سیدھی اور صحیح بات کے ماننے سے انکار کیا تو میں اسے ایسا مزا چکھاؤں گی کہ لوگ اس کی کہانیاں کریں گے۔ ہمارا موقف بالکل درست ہے اور یقینا ساری خلقت ہماری حمایت کرے گی۔’’چڑیاں یہ سن کر ہنسنے لگیں۔ پھر بولیں: ‘‘تو ایسے بڑے بول کیوں بول رہی ہے؟ کیا ہم ہاتھی سے الجھنے کی سکت رکھتی ہیں؟’’کاکلی بولی:‘‘ کیوں نہیں۔ اگر ہم یکجان ہوجائیں تو یہ ممکن ہے ہاتھی کی تو اوقات ہی کیا ہے، اگر کوئی ہاتھی سے زیادہ بڑا جانور بھی ہم پر ظلم کرنا چاہے اور ہم اسے سہنے پر تیار نہ ہوں تو اس کا کوئی زور ہم پر نہیں چل سکتا۔’’چڑیاں بولیں: ‘‘ ہم حاضر ہیں۔ بتا ہمارے لائق کیا خدمت ہے؟’’کاکلی بولی: ‘‘ذرا رکیں، پہلے تو میں حجت پوری کروں گی اوراپنے نقطہ نظر سے ہاتھی کو آگاہ کروں گی۔ اگر اس نے میری بات مان لی تو ہمارا اس سے کوئی جھگڑا نہیں۔ اگر نہ مانی تو میں اسے یاد دلا دوں گی کہ جب مچھر عاجز آجائے تو ہاتھی کو لے بیٹھتا ہے۔’’

            کاکلی اڑی اور ہاتھی کے مقابل آکر بولی:‘‘ میاں ہاتھی! آج جس وقت تم پانی پینے نکلے اور گھاس کے قطعے سے آگے بڑھے تو ہمارے کئی بچے تم نے اپنے پاؤں تلے روند ڈالے۔ کیا تمہیں اس کا علم ہے یا نہیں؟’’ہاتھی بولا:‘‘میرے جاننے نہ جاننے سے کیا فرق پڑتا ہے؟’’کاکلی بولی:‘‘ فرق یوں پڑتا ہے کہ اگر تم سے غلطی بے جانے بوجھے ہوئی تو آج کے بعد جان لو کہ ہمارے حق میں ظلم ہوا اور اگر تم جانتے اور سمجھتے ہو تو پھر دوسری بات ہے۔’’ہاتھی بولا:‘‘ اہا، آخر ہوا کیا؟ قیامت تو نہیں ٹوٹ پڑی!’’کاکلی بولی: ‘‘قیامت تو نہیں ٹوٹ پڑی لیکن اگر سب لوگ اسی طرح ظلم اور بدی کا ارتکاب کرنے لگیں گے تو قیامت آجائے گی۔ تم خود بھی جانتے اور سمجھتے ہو۔ میں اس لیے آئی ہوں کہ تم سے دوبارہ اپنی طرف نہ آنے کی درخواست کروں ۔ کیوں کہ وہ جگہ ہماری جائے زندگی ہے!’’ہاتھی بولا:‘‘ پانی پینے کے لیے جاتے ہوئے وہی میری گزرگاہ ہے۔’’کاکلی بولی:‘‘ دنیا بہت بڑی ہے میاں ہاتھی! کسی ایسی جگہ سے گزرا کرو کہ دوسروں کے بچے نہ پامال ہوں۔’’ہاتھی ہنکارا:‘‘پامال بھی ہوجائیں تو کیا برائی ہے؟ سو چڑیاں ایک ہاتھی کی قدرو قیمت نہیں رکھتیں۔ ہاتھی ہاتھی ہے!’کاکلی نے کہا :‘‘یقینا ہاتھی بڑا ہے لیکن ہمارے لیے ہماری جان بھی بڑی عزیز اور پیاری ہے اور اگر تمہاری سوچ صحیح نہج پر ہو اور تم انصاف سے کام لوتو تمہیں ایسی باتیں کہنے کا کوئی حق نہیں۔ جس طرح تمہارا دل چاہتا ہے کہ تم اور تمہارے بچے آرام سے زندگی بسر کریں، ہم بھی چین سے زندگی گزارنے کی آرزو مند ہیں۔ کیا تمہیں اچھا لگے گا کہ کوئی آئے ، تمھارے گھر کو اجاڑ دے اور تمہارے بچوں کو دربدر کر ڈالے؟’’ہاتھی بولا:‘‘ کسی میں مجھ ایسی طاقت نہیں۔ میں ہاتھی ہوں، جو میرے جی میں آئے، کرتا ہوں۔’’کاکلی بولی:‘‘کسی بھول میں نہ رہو کیوں کہ اگر نا انصافی ہونے لگے تو پھر ہر کسی کا زور ہر کسی پر چلنے لگتا ہے۔ اپنے اس جسم پر مت پھولو! زندگی صرف عدل اور دوستی سے حلاوت پاتی ہے۔ ہم بھی چاہیں تو تمہیں اذیت دے سکتے ہیں۔ کسی شاعر کا قول ہے:‘‘دشمن کو حقیر اور بے چارہ نہ جان!’’ہاتھی نے کہا:‘‘ لو مجھے دیکھو کہ تجھ نادان چڑیا کا جواب دینے بیٹھ گیا، اری یہ بے جا مداخلت ختم کر، گھاس کا قطعہ میری ملکیت ہے!’’کاکلی بولی:‘‘ میاں ہاتھی، مخالفت اور عناد سے باز آؤ۔ میں نے صاف اور سیدھی بات کی ہے، سب جانتے ہیں، خود تم بھی جانتے ہو۔ میں یہاں آئی، تم سے ایک درخواست کی۔ ہم پر اور خود اپنے آپ پر رحم کرو اور کوئی دوسرا راستہ اختیار کرو ورنہ خود نقصان اٹھاؤ گے اور ہم تمہیں ایسا مزہ چکھائیں گی کہ اس کی داستانیں بنیں گی۔’’ہاتھی نے کہا: ‘‘ مجھے جو کہنا تھا ، کہہ چکا، تمہیں جو کرنا ہے کر لو۔’’کاکلی بولی:‘‘ بہت اچھا، اب جب کہ تم اپنے اس عظیم جثے کے باوجود چڑیوں کو اذیت دے کر شرمندہ نہیں، ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں کیا قدم اٹھانا ہے۔’’کاکلی چڑیوں کے پاس لوٹ آئی اور انہیں سب رام کہانی سنائی۔ پھر بولی:‘‘ اب ہمیں چاہیے کہ تیاری کریں اور ہاتھی کا قصہ پاک کریں۔’’چڑیا بولیں: ‘‘ ہاں ہاں ہم ہاتھی کو زچ کر دیں گی، اس کی کھال کھینچ لیں گی، لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارا ہاتھی سے کیا مقابلہ!’’

کاکلی بولی:‘‘ کیوں نہیں، ہم آہستہ آہستہ ، قدم بہ قدم اپنے مقصد کی طرف بڑھیں گی اور منزل کو پالیں گی۔ پہلا قدم تو خود ہمیں اٹھانا ہوگا، دوسرے مرحلے پر ہم مینڈکوں سے مدد لیں گی۔’’چڑیاں ہنسیں اور کہنے لگیں:‘‘ یہ تم نے مینڈکوں کی مدد کی بھی خوب کہی، آہ! بے چارے مینڈک جو خود سینکڑوں کی تعداد میں ہاتھی کے پاؤں تلے تکہ تکہ ، ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں!’’کاکلی بولی:‘‘ میں نے ہاتھی کے بارے میں خوب سوچ بچار کی ہے۔ ہم یقینا اس سے لڑنے کی سکت نہیں رکھتیں۔ ایک ہزار چڑیوں کی طاقت بھی ایک ہاتھی کے مقابلے میں کم ہے لیکن ہاتھی اڑ نہیں سکتا اور ہوا میں ہمیں کچلنے سے عاجز ہے۔ ہم سب کو مل کر اڑنا اور پھر اچانک جتھے کی صورت میں ہاتھی کے سر پر پل پڑناچاہیے۔ ہم اس پر دائیں بائیں، آگے پیچھے ہر جانب سے حملہ کریں اور جس سے جتنا بن پڑے، ہاتھی کی آنکھوں میں چونچ مار مار کر انہیں زخمی کرے۔ جونہی ہاتھی اندھا ہوا، باقی کام آسان ہے۔ جب تک یہ کام انجام نہ پاجائے کسی کو آرام کا حق نہیں۔ آؤ اللہ کا نام لے کر شروع کریں۔’’چڑیوں کا حملہ شروع ہوا۔ وہ ہاتھی کے اردگرد منڈلانے لگیں اور اس سے پہلے کہ ہاتھی حرکت میں آتا، چڑیاں اس کی آنکھیں نکال چکی تھیں۔ اب ہاتھی کو کچھ سجھائی نہ دیتا تھا!’’چڑیا اکٹھی ہوئیں اور بولیں: ‘‘ یہ تو بہت برا ہوا۔ اب ہاتھی غضبناک ہو کر سار ے گھاس کے میدان کو پامال کر دے گا۔’’کاکلی نے کہا:‘‘نہیں نہیں ہاتھی کو اب کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ پیاسا بھی ہے۔ اب مینڈکوں سے مددلینے کا وقت آگیا ہے۔ کاکلی نے مینڈکوں کو آواز دی اور ہاتھی کے ظلم کی تفصیل سے انہیں آگاہ کیا۔ مینڈک بولے: ‘‘ ہمیں خوب معلوم ہے، ہم ہاتھی کے ہاتھوں خود عذاب میں ہیں۔’’کاکلی بولی:‘‘ تو پھر ہماری مدد کریں۔ آدھا کام ہم کر چکیں، باقی آدھا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ میری تجویز پر عمل کرو۔ کاکلی نے مینڈکوں کو یکجا ہونے کا حکم دیا۔ مینڈک ہاتھی کے سامنے جمع ہوئے اور انہوں ٹرانا شروع کر دیا۔ ہاتھی پیاسا تھا۔ اس نے دل میں کہا:‘‘جہاں مینڈک ہے وہاں ضرور پانی ہے۔’’ چوں کہ وہ اندھا ہوچکا تھا، اس نے بنا سوچے سمجھے آگے بڑھنا شروع کر دیا۔ مینڈکوں نے مسلسل قور قور کرنا شروع کر دیا اور چلتے گئے چلتے گئے حتی کہ ایک وسیع گڑھے تک پہنچ گئے جو بہت گہرا تھا اور اس میں بارش کا کچھ پانی بھی جمع ہوگیا تھا۔ مینڈک گڑھے کے دونوں جانب چل رہے اور ٹرا رہے تھے۔ ہاتھی بھی پانی کی تڑپ میں آگے بڑھ رہا تھا حتی کہ وہ گڑھے کے بالکل کنارے پر پہنچ گیا اور سیدھا اس میں جاگرا۔ اب اس میں گڑھے سے باہر نکلنے کی سکت نہ تھی۔ چڑیوں اور مینڈکوں نے سکھ کا سانس لیا۔اس وقت کاکلی، ہاتھی سے مخاطب ہوئی:‘‘ یہ اس شخص کی سزا ہے جس میں انصاف نہیں، جو لوگوں کی جان پر رحم نہیں کھاتا اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے۔ اب تیرا یہ ہی ٹھکانا ہے اور میں چلتی ہوں اور جیسا میں نے کہا تھا میں چڑیا اور ہاتھی کا قصہ لوگوں کو سناتی ہوں تا کہ لوگ اسے داستانوں میں جگہ دیں۔ (بشکریہ :ماہنامہ خطیب،لاہور)