بحر ہند کے ایک جزیرے میں

مصنف : صاحبزادہ ڈاکٹر انوار احمد بُگوی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : جنوری2015

سفر نامہ قسط ۔دوم
بحر ہند کے ایک جزیرے میں
صاحبزادہ انوار احمد بگوی

کولمبو کا قومی چڑیا گھر 
دیہی والہ نیشنل زولاجیکل گارڈنز، کولمبو کا چڑیا گھر ہے۔ باہر سے عمارت نمایاں نہیں ہے تاہم اندر چڑیا گھر نے وسیع رقبہ گھیرا ہوا ہے۔ تمام کارکن یونی فارم میں نظر آتے ہیں۔ صبح کے وقت ٹکٹ گھر پر زیادہ رش نہ تھا۔ مقامی باشندوں کے لیے نرخ اور تھے اور بیرونی سیاحوں کے لیے اور یعنی Rs.2500 فی کس۔ سار ک کے رکن ملک کی شہری ہونے کی وجہ سے ہمیں زیادہ رعایت تھی۔ بڑے فرد کا کرایہ 700 روپے تھا جس میں 12 فیصد VAT بھی شامل تھا۔ داخل ہوتے ہی ایک پرچہ معلومات ملا جس پر انگریزی اور سنہالی میں لکھا ہوا تھا۔ چڑیا گھر کے نقشے میں جانوروں کے مختلف جنگلوں کے نمبر اور نام درج تھے اور جانوروں پرندوں کی تصویریں بھی۔ گیٹ کے بائیں جانب چڑیا گھر میں گھومنے جانے کا نشان اور پہلے جنگلے کا نمبر لکھا ہوا تھا۔ اس ترتیب کے ساتھ تمام جنگلوں اور جگہوں پر باآسانی جایا جاسکتا ہے۔ نہ کوئی جگہ باقی رہ جاتی ہے اور نہ تلاش میں کوئی مشکل پیش آتی ہے ۔ تمام چڑیا گھر بہت ترتیب سے آراستہ اکثر جانوروں کا ماحول ان کے مزاج کے مطابق صاف ستھرا۔ گرد اور غل غپاڑے سے پاک۔ جانوروں اور پرندوں کی تعداد اور اقسام خاصی ہیں۔ غیر معمولی طور پر فضا میں ناگوار بد بو نہیں تھی شاید ہم اس وقت گھوم رہے تھے جب صبح کی صفائی ہوچکی تھی۔ تماشائی جن میں خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ تھی خاصے مہذب اور جانوروں کو نہ تنگ کرنے والے تھے۔ یہاں بھی انگریزی کے ساتھ ساتھ سنہالی کا راج تھا۔ 
بعد دوپہر چڑیا گھر میں سدھائے ہوئے بعض جانوروں کے کرتب دکھائے جاتے ہیں۔ ان میں دریائی بچھڑا (Seal) اور چار نو عمر ہاتھی شامل ہیں ۔ بچے ٹٹوکی سواری سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سیل اور ہاتھی شو میں پنڈال جو ایک جانب اینٹوں کی سیڑھیوں پر مشتمل ہے خوب بھرا ہوا ہوتا ہے۔ دونوں جگہوں پر تمام کمنٹری اور جانوروں کو ہدایات قومی زبان سنہالی میں دی جاتی ہیں۔ دیکھنے والوں میں ایک بڑی تعداد گورے سیاحوں کی ہوتی ہے۔ ہاتھی اور سیل بہت سدھائے ہوئے تھے ۔ اپنے کوچ کی سیٹی او رحکم کی خوب تعمیل کرتے تھے۔ چڑیا گھر کے عملے کے اکثر لوگ پاؤں سے ننگے تھے اور بظاہر ان کا حال درجہ چہارم کے ملازموں جیسا نظر آتا تھا۔ جانوروں کی اطاعت سے خیال گزرا کہ یہی ڈسپلن اور اطاعت اس حیوان ناطق میں بھی آسکتی ہے جسے انسان کہا جاتا ہے۔
کیا انسان کو سدھانے کے لیے ویسا ہی نصاب اور طریقے کی ضرورت ہونی چاہیے جو بے زبان جاندار کو سکھانے کے لیے کامیاب ہے؟ 
کینڈی (Kandy)
ایک صحت افزا اور 6000 فٹ کی بلندی پر واقع خوبصورت شہر ہے۔ موسم معتدل اور خوشگوار۔ اس کی وجہ شہرت میں بلندی نہیں بلکہ بدھ مذہب کا ایک مقدس اور تاریخی مندر اور وہاں کا وسیع و قدیم نباتاتی باغ ہے۔ کینڈی جانے کے لیے سڑک اور ریل دونوں راستے موجود ہیں تاہم ہم نے ریل کو ترجیح دی۔ ایڈوانس بکنگ ریلوے سٹیشن سے ہوتی ہے۔ سٹیشن کی عمارت تھی پرانی مگر ستھری دھلی اور سنبھالی ہوئی (Well kept) ۔ سڑک کنارے کثرت سے معمر اور بیمار بھکاری نظر آئے۔ ٹرین کا درجہ اول بہت مہنگا، درجہ دوم کم قیمت اور درجہ سوم سستا ہے۔ ویک اینڈ کے باعث پیشگی بکنگ ہوچکی تھی اس لیے کسی ایکسپریس ٹرین پر جگہ نہ تھی ۔ سوموار کی صبح 7 بجے درجہ دوم کی بکنگ ملی۔ Rs.280 فی کس، واپسی کے لیے اسی روز 3 بجے کی ٹرین ملی۔ 5 بجے والی ٹرین مکمل طور پر بُک تھی۔ 
روانگی کا وقت چونکہ صبح کا تھا اس لیے شہر سے باہر کام پر جانے والوں کا بھی رش تھا اور ٹرینوں کی آمد و رفت بھی کثرت سے تھی۔ عملہ حاضر باش اور مستعد ۔ بیٹھنے کے لیے سٹیشن پر بہت تعداد میں پلاسٹک کی کرسیاں دھری تھی۔ لکڑی اور لوہے کے پرانے بنچ بھی تھے۔ بعض لوگ سنہالی اخبار پڑھ رہے تھے۔ پلیٹ فارم پر ایک نوجوان لڑکی اخبار بیچ رہی تھی۔ مین گیٹ پر انگریزی سنہالی میں گاڑیوں کی آمدو رفت اور پلیٹ فارم نمبر کا ڈیجیٹل اعلان ہورہا تھا۔ کولمبو کے اس اسٹیشن کا سرکاری نام کولمبو فورٹ ہے۔ گاڑی کا انجن ڈیزل اور ریل پٹڑی بڑے سائز کی ہے۔ غربت تو ہر چیز میں دکھائی دیتی ہے مگرDignity کے ساتھ۔ حیران کن حد تک کہیں پان کی پیک (Spitting)نظر نہیں آتی۔ 
گاڑی وقت پر روانہ ہوئی۔ گاڑی میں کوئی مسافر اضافی نہ تھا جو بغیر سیٹ کے کھڑا ہو۔ ریلوے لائن کے ساتھ دونوں طرف کچی آبادیاں تھیں۔ ہر گھر ایک کمرہ پر مشتمل ، چھت ٹین کی، صحن پودوں او ر جھاڑیوں سے گھرا ہوا۔ راستے میں جگہ جگہ چھوٹے بڑے بدھا کے سفید مجسمے دکھائی دیئے جہاں گزرنے والے سلام بھرتے ہیں۔ مجسمے تنہا اور ایستادہ مگر زمین سے اونچے چبوترے پر بنے ہوئے تھے۔ ریل روڈ کے دونوں طرف گھنا سبزہ، قسم قسم کے درخت ، آم، ناریل کے پیڑ ، کیلے، جھاڑیاں، پودے، دھان کے کھیت۔ ریل پٹڑی کے دونوں جانب تاحد نگاہ سبزہ ہی سبزہ ۔ کوئی جگہ ایسی دکھائی نہ دی جو سبزہ سے محروم ہو۔ جگہ جگہ گنبد نما زیارت گاہیں۔ جہاں جہاں کچی آبادیاں تھیں وہاں سرکاری نلکے تھے جہاں سے لوگ پانی حاصل کرتے تھے۔سری لنکا ریلوے کے پاس نئی اور پرانی دونوں قسم کی ریل کے ڈبے ہیں۔ گاڑی کے ڈبے آپس میں راہداری کے ذریعے جڑے ہوئے۔ ہمارے ڈبے کے ساتھ اگلی بوگی کا جڑاؤ اتنا شورمچاتا جیسے کہ اب ٹوٹا۔ ڈبے کی ہر چیز بوسیدہ، چھت کے پنکھے ایسے جو 60 کی دہائی میں پاکستان کی PWR کے ڈبوں میں لگے ہوتے تھے مگر یہاں پنکھے چلتے تھے۔ گاڑی دھلی ہوئی تھی۔ راستے میں ایک ٹکٹ چیکر بھی آیا۔ اس کے پاس جاری شدہ ٹکٹوں کی فہرست تھی اور مسافروں کے ٹکٹ اس کے ساتھ ملا کر چیک کررہا تھا ۔ گاڑی کی رفتار تیز تھی او ردھکے عام جاتے ہوئے ہمارے ساتھ ایک مسلم فیملی بھی سفر کر رہی تھی۔ خواتین برقعے اور نقاب کے ساتھ ۔ مرد ریش اور پینٹ شرٹ میں۔ ریل کی پٹڑی دو طرفہ تھی اس لیے کسی جنکشن پر انتظار کی زحمت نہ اٹھانا پڑی۔ راستے کے سٹیشن بھی سادہ اور صاف نظر آئے۔ بوجہ ایکسپریس، گاڑی نے صرف تین جگہوں پر پڑاؤ کیا۔ چلتی گاڑی او رپلیٹ فارم پر نوجوان اور بدھ بھکشو بھی لیپ ٹاپ استعمال کرتے دکھائی دیے۔ اب یہ اللہ جانے کہ یہ طلبِ علم ہے یا وقت گزاری کا طریقہ۔جیسے دورانِ سفر انسان کا مطالعہ اور فطرت کا نظارہ اتنا ضروری نہیں رہا۔ نومبر کے مہینے میں دھان کی پنیری بیچی جارہی تھی۔ ایش اور مرن جی ایک لڑکا اور ایک لڑکی MSc میڈیکل ٹیکنالوجی کے طالب علم تھے اور کینڈی دیکھنے جارہے تھے۔ ان سے معلوم ہوا کہ سری لنکا میں چاول کی دو فصلیں سال میں کاشت ہوتی ہیں ۔ یہ گرم مرطوب موسم کا ثمر ہے۔ گول گنبد کے معبد Stupa ہیں۔ سری لنکا میں Civil Marriage کا رواج ہے یعنی کسی مولوی ملا ، پنڈت پادری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لڑکا لڑکی باہمی رضا مندی سے افسر کے پاس جاکر قبول کر لیتے ہیں۔ 
ٹرین جس پابندئ وقت کے روانہ ہوئی تھی اسی پابندی اور ذمہ داری کے ساتھ منزل مقصود پر پہنچی۔ یوں احساس ہوتا تھا جیسے لوگ گاڑی کی آمد و رفت سے اپنی گھڑیاں درست کرتے ہوں گے۔ ساری گاڑی سیٹ بائی سیٹ بھری ہوئی تھی۔ کوئی مسافر کھڑا نہ تھا۔ شروع میں ایک وینڈر آیا لیکن پھر سارا راستہ کوئی وینڈر آیا اور نہ کسی بھکاری نے بدھا کے نام کی صدا بلند کی۔
رائل نباتاتی باغ
کینڈی شہر کے مضافات میں Peradeniya نام سے ایک بستی ہے جہاں ملک کا سب سے بڑا نباتاتی باغ ہے ۔سری لنکا یوں تو سبزہ و گل کی سر زمین ہے جو قدرت کی سرسبزیوں، شجر کاریوں اور گل ریزیوں کا سدا بہار شاہکار ہے۔ فطرت کی پس قدمی (Following) میں انسان پیچھے نہیں رہا۔ چنانچہ ساحل سے جزیرہ کے اندرونی علاقہ میں کینڈی نام کا شہر آباد ہے۔ بلندی اور ہریالی کے اعتبار سے اسے مری قرار دیا جاسکتا ہے تاہم یہاں کی سطح زیادہ ہموار ہے اور ہریالی کہیں زیادہ۔ 
اس جگہ 300ایکڑ کے وسیع رقبے پر ایک جنت ارضی بسائی گئی ہے جسے Botanical Garden کہتے ہیں۔ سبز گھاس کا بہت وسیع رقبہ اور اس میں اونچے نیچے قطعے ، جھاڑیوں سے لے کر بہت قد آو ردرختوں تک پھولوں، بیلوں اور پودوں کی سینکڑوں اقسام ، تنوع، ترتیب، حسن اورنظم کا شاندار نمونہ۔ گرم مسالوں ، دوا دار (Herbal spicy) پُھلدار اور پھولدار نباتات کے الگ الگ قطعات ۔ خاص پودوں اور پھولوں کے لیے الگ الگ چھتے ہوئے کمرے، حد نگاہ تک سبز گھاس کے تختے ، پر سکون ،پرسکوت ، چار سو فطرت و قدرت کی گلکاری، گلوں کے خاص چمن زار۔ 
نباتاتی باغ کے ایک طرف گہرائی میں ایک دریا بہتا ہے جہاں سے پانی پمپوں کے ذریعے Liftکیا جاتا ہے اور باغ کو سیراب کرتا ہے۔ باغ کے اندر آمد و رفت کے لیے بہت اچھی سڑکیں بنی ہوئی ہیں ۔باغ کے پر سکون ماحول اور اس کی خوبصورتی سے لطف اندوز کے لیے کم از کم ایک دن درکار ہے۔ 
بعض حصوں میں منتخب پودوں اور درختوں کے ذخیرے بنائے گئے ہیں جن میں پام، بانس ، گرم مسالے ، پھول دار کیکٹس، انجیر اور انناس اور کئی دیگر نادر اقسام شامل ہیں۔ گو اس باغ کا آغاز کسی قدیم بادشاہ کو دیا جاتا ہے لیکن اس کی موجودہ ہیئت یقیناًسفید فام انگریزوں کی مرہون منت ہے جو کشور کشائی کے ساتھ مقامی ورثے کو بھی محفوظ کرتے رہے ۔ 
مقدس دانت مند ر (SCRED TOOTH TEMPLE)
کینڈی کی وجہ شہرت میں سے ایک گوتم بدھ کے دانت کا مندر ہے۔ مندر عام سطح سے قدرے اونچائی پر واقع ہے۔ عمارت سے باہر ایک بڑی سی جھیل ہے جس کے گرد چار دیواری ہے۔ ایک طرف اونچی سی پہاڑی پر سبزہ بھی ہے اور رہائشی مکان بھی۔ جھیل میں کشتیاں بھی کھڑی تھیں۔ مندر کے اندر جانے کا راستہ کافی لمبا اور کسی سائے کے بغیر تھا۔ دھوپ میں زائر اور سیاح صدردروازے کی طرف پیدل رواں تھے۔ مرد ، عورتیں، سکولوں کے بچے، بوڑھے، چھڑیوں کے ساتھ، وہیل چیئرز پر ۔ بعض زائر دبے دبے کلمات کا ورد کرتے جارہے تھے۔ اکثر معتقد ننگے پاؤں تھے۔ ہاتھوں میں سفید اور ارغوانی پھولوں کے گلدستے سجائے ہوئے ۔ مندر میں جانے والی سیڑھیاں چڑھنے سے پہلے غیر ملکیوں کو اپنے جوتے ایک چبوترے پر رکھنے ہوتے ہیں۔ جوتے رکھنے کی کوئی فیس نہیں ہوتی۔ گورے زائرین کے لیے سفید لباس بھی موجود تھے جو بعض بدل کر اشنان کرنے جارہے تھے ۔ مندر کے صدر دروازے میں کچھ کارکن ارغوانی پھولوں کے غنچے کھول رہے اور انہیں ڈسپوزایبل پلیٹوں میں سجا رہے تھے ۔ داخلے کے وقت کارکنوں کی تلقین ہوتی ہے کہ خواتین زائر اپنے سر سے پلو اتار دیں۔ مرد تو ویسے ہی سارے کے سارے ننگے سر تھے۔ مندر کے اندر فراخی کا اظہار نہ تھا جیسے بند جگہ ہو اور جگہ جگہ نقش و نگار اور بیل بوٹوں سے فضا بوجھل ہو۔ ہر طرف لکڑی او رپتھر کا استعمال۔ بلندی کی طرف بڑھتے تیسری سیڑھی یا تیسری بار سیڑھیوں پر چڑھے۔ پہلے تو سیڑھی کے اوپر ایک قطار میں کھڑے ہوگئے جو دھیرے دھیرے اوپر کھسک رہی تھی۔ اس قطار میں وہ مرد و زن کھڑے تھے جن کے ہاتھوں میں خاص رنگ کے پھول تھے جو انہوں نے دندان مبارک کے حضور پیش کرنے تھے۔ یہ معلوم ہوتے ہی قطار چھوڑدی۔ مجتبیٰ کے ساتھ بے رُکے اوپر چڑھ گئے۔ اس منزل پر ایک تنگ سا صحن یا برآمدہ تھا جس کا فرش ، ستون سب کچھ لکڑی کا تھا۔ کچھ زائر یہاں کھڑے اور سر نہوڑائے مناجات کررہے تھے۔ کچھ فرش پر آلتی پالتی مارے آنکھیں بند کیے گیان دھیان اور دعائیں کر رہے تھے۔ بعض کتاب سے پڑھ رہے تھے۔ ایک طرف ٹی وی سکرین پر مندر کے زائرین کے مناظر نظر آرہے تھے ۔ کچھ زائرین لمبی قطار میں چلتے ہوئے سامنے کھڑکی میں سے دندان مبارک کے تابوت یا ڈبّے کو دونوں ہاتھ جوڑ کر اور سر جھکا کر پرنام کر رہے تھے۔ سیل فون سے بعض زائرین دھڑا دھڑ فوٹو گرافی کر رہے تھے۔ زائرین کی جو لمبی قطار دو منزلوں کی سیڑھیوں سے آہستہ آہستہ اوپر سرک رہی تھی وہ چکر کاٹ کر دندان مبارک کی شبیہ کے سامنے گزرتے تھے۔ یہ اصل میں بالائی منزل پر مندر کے دو کمرے تھے۔ ایک عقبی فانوس یا لیمپ نما شیشے کا مرتبان جس میں غالباً بدھ صاحب کا دانت تھا۔ اس سے اگلا کمرہ خالی تھا۔ اس کمرہ کی کھڑکی سے زیارت ہورہی تھی۔ کھڑکی کے اندر ایک بھکشو کھڑا تھا جو زائرین سے ان کے پھولوں کے نذرانے وصول کررہا تھا۔ اس جھروکے کے پاس ہی وہ صندوق تھا جہاں زائرین اپنے نذرانے ڈال رہے تھے۔ یہ قطار بڑے آرام سے چل رہی تھی۔ جھروکے اور راہداری کے درمیان ایک چوکور جگہ تھی جہاں بعض زائرین فرش پر چوکڑی لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ عمارت میں جگہ جگہ لکڑی کے کھدے ہوئے اور تراشے ہوئے پائے عام تھے جیسے پنجاب میں چارپائیوں کے منقش پائے ہوتے ہیں۔ اس تمام مصروفیت اور زیارت میں بدھ مونک (بھکشو) نظر نہیں آئے۔ کوئی زائر روتا یا کرلاتا بھی دکھائی نہیں دیا۔ غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ مقامی گائڈ تھے جو مسلسل بولے جارہے تھے۔ غیر ملکی گوریاں بھکشو بنی اور کچھ ویسے ہی حیرت اور عقیدت کا مجسمہ بنے ہجوم میں چل رہے تھے۔
مین ہال کے عقب میں ایک میوزیم تھا جہاں دوسری منزل پر لکڑی کی سیڑھیوں سے چڑھ کر پہنچے ۔ سکے، ظروف، آلات حرب و موسیقی، پتھروں میں کندہ مجسمے۔ دھات کے بدھا ، ایک اور ہال میں پتھر کا سامان تھا۔ ایک حصہ راجہ نامہ ہاتھی کے لیے مخصوص تھا جو لگ بھگ 40 سال تک زندہ رہا اور خدمت سر انجام دیتا رہا۔ یوں لگتا تھا کہ ہر پرانی چیز کو جہاں سے ملی اسے میوزیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ بظاہر ایک اچھے ہاتھی کا بدھ صاحب کے دانت سے کیا تعلق؟ 
روشن دیئے 
ایشیا کے قدیم مشرکانہ مذاہب میں آگ کو بڑا تقدس حاصل ہے۔ شاید اس لیے کہ انسان نے خطرات میں جب آسمانی بجلی کو کڑکڑاتے اور گرتے دیکھا تو اس کی ہیبت سے دم بخود رہ گیا۔ آگ کو تمام اہم مذہبی اور سماجی تقریبات میں روشن کیا جاتا ہے۔ اس کی روشنی سے برکت لی جاتی ہے اور اچھے مستقبل کی امید رکھی جاتی ہے ۔ ہمسائیگی کے زیر اثر مسلمان بھی آگ کو اپنی تقریبات میں لے آئے۔ چنانچہ مسلمانوں کے مزاروں پر دیئے جلائے جاتے ہیں ورنہ چراغوں کا قبر اور موت سے کیا رشتہ؟ کوئی بزرگ جتنا پرانا ہوتا ہے اس کی قبر پر اہتمام سے زیادہ دیئے روشن کیے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے قبر پر ایک جگہ مخصوص کر دی جاتی ہے جہاں زائر اہتمام سے دیئے جلاتے ہیں۔ 
کینڈی کی زیارت گاہ میں دیئے جلانے کا زیادہ ترقی یافتہ نظام دیکھنے میں آیا، ہمارے وطن کے شائقین اس جدت سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ مندر کی بڑی عمارت کے ساتھ ایک شیشہ گھر بنایا گیا ہے جس کے در و دیوار، چھت سب شیشے کے ہیں۔ چھت کے درمیان دھواں نکلنے کا دود کش ہے۔ کمرے کے اندر شیشے کے شیلف بنے ہوئے ہیں جو آپس میں جڑے ہوئے ہیں زائرمندر کے باہر سے جلانے کا شفاف تیل اور بتیاں خرید کر لاتے اور شیشے کے دیوں میں جلاتے اور طاق پر رکھ دیتے ہیں۔ پھر ہاتھ جوڑ کر اور سر جھکا کر مناجات اور دعائیں کرتے ہیں ۔ شیشہ گھر میں سخت گھٹن اور گرمی تھی وہاں چند لمحے رکنا بھی محال تھا۔ بڑی عمارت کے ایک جانب ہال میں بدھ مذہب کے حوالے سے پتھروں کی تراشیدہ چیزیں یکجا کر دی گئی ہیں۔ 
نوجوان گورے اور گوریاں مندر کی تمام رسومات میں شریک ہورہے تھے۔ بعض مرد سر منڈائے بھکشو لباس میں نظر آئے۔ ممکن ہے یہ بدھ مذہب قبول کر چکے ہوں یا شوقیہ چند روز کے تفرد (Novelty) کے لیے یہ دلچسپ (FASCINATING) سوانگ بھرے ہوئے ہوں۔ یہ بات البتہ واضح ہے کہ جدید گورا اپنے معاشرے سے نالاں ہے اور اسے شکتی اور نروان کی تلاش ہے۔ اس کا اپنا مذہب اور سسٹم اس کی بے چینی دور نہیں کر سکا۔ 
الشیخ عثمان بن عبدالرحمن الصدیقی کا مزار اور مسجد 
شہر کے درمیان میں مسجد اور مزار ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ دونوں کا راستہ ایک ہے مگر مقصد جدا جدا۔ مزار کے اوپرسبز رنگ کا قبہ ہے۔ مزار سطح زمین سے زیادہ اونچا نہیں ہے۔ قبر کے دونوں طرف دو چھوٹے چھوٹے مینا ر ہیں۔ قبر پر سبز چادر بچھی ہوئی ہے ۔ چادر پر پنج تن کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ آیت الکرسی اور صحابہ اربعہؓ کے نام بھی۔قبر کے سرہانے جلنے والے دو لیمپ دھرے ہوئے تھے جن میں شفاف تیل تھا۔ ویسا ہی جیسا کینڈی کے مندر کے دیئے خانے میں استعمال ہورہا تھا۔ ان کے پاس قرآن کے نسخے اور وظائف کی کتابیں پڑی تھیں۔ مزار چند کمروں میں بٹا ہوا تھا دفتر، مردانہ حصہ، زنانہ حصہ، تعویذ خانہ، انتظار گاہ۔ دائیں جانب لحد مزار اور ساتھ بیٹھنے والوں کے لیے بڑا سا کمرہ۔ ایک کمرے میں مزار کے نگران صندوقچی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ کمرے میں عورتوں کے لیے جگہ مخصوص تھی۔ وہاں جانے کے لیے راستہ بھی الگ تھا۔ عورتیں اس کمرے سے نکل کر مزار کے بائیں طرف سے پہنچتی تھیں۔ عورتوں کے کمرے میں ایک صاحب دم اور تعویز دھاگے کے کام پر مامور تھے۔ عورتوں کے داخلے کے راستے میں ایک دھاتی کینڈل سٹینڈ (Candle stand) موجود تھا جس پر بیک وقت کئی بتیاں جلائی جاسکتی تھیں۔ آنے والی خواتین اپنے حصہ کی بتی جلاکر لگا سکتی تھیں۔ اس سٹینڈ کے ساتھ بھی سبز اور سفید رنگ کی پٹیاں(دھجیاں ) بندھی ہوئی تھیں جن کا تعلق مانگنے والے کی منت اور حاجت سے تھا۔ ایک صاحب آئے اور انہوں نے مزار پر سبز رنگ کی چادر چڑھائی اور فاتحہ پڑھی۔ مزار کے داخلہ دروازے کے ساتھ نذرانوں کا آ ہنی صندوق اور جوتا سٹینڈ تھا جہاں سے جوتا ٹوکن ملتا تھا۔ مزار کے دروازے پر ٹوپیاں پہنے حاجی محمد امین اور حاجی محمد سلیم دو بھائی ملے۔ ان کے عزیز کراچی اور ہندوستان میں ہیں اور وہ خود کولمبو میں کاروبار کرتے ہیں۔ دربار صاحب کی جاروب کشی ان کا دھرم ہے۔ ان کے مطابق شیخ عثمان کچھ عرصہ پہلے یہاں آئے اور تبلیغ کا کام کرتے رہے۔ محمد امین صاحب صاف اردو میں بات کررہے تھے ۔ انہوں نے مدعو کیا کہ اسی شام ان کے گھر پر کوئی تقریب ہے مگر معذرت کردی۔ صاحب مزار کے بارے میں کوئی تحریری معلومات دستیاب نہ تھی۔ 
مزار اور مسجد کے درمیان تھوڑی سی جگہ ہے جہاں جنگلے کے اندر ڈھیروں رنگا رنگ کبوتر دانہ چُگ رہے تھے۔ اس جگہ میں ایک آ ہنی پول پر سبز جھنڈا لہرا رہا تھا۔ مزار پر آنے والوں میں مسلم او رغیر مسلم دونوں قسم کے زائر تھے۔ زیارت کے لیے آنے والی عورتوں میں پینٹ شرٹ کا پہناوا تھا جو سری لنکا کی عورتوں میں مقبول لباس ہے۔ غالباًسر ننگے تھے۔ عورتیں تعویزوں اور دم کے لیے آرہی تھیں ۔ مزار پر جانے والی کوئی عورت نہ تھی۔ گویا مزار سے ملحق تعویذ بازی کا کام ایک اہم سرگرمی اور سوشل سروس ہے۔ 
مزار جہاں مسلم عوام کے اسلام کا نمائندہ تھا وہاں اس کے ساتھ ایک ہی چاردیواری میں ایک مسجد بھی موجود تھی جس کا تعلق شافعی مکتب فکر کے اسلام سے تھا۔ مسجد اندر سے کشادہ اور سادہ سی تھی۔ اذان کی آواز مسجد کے اندر تک محدود رہی۔ اذان مقامی وقت کے مطابق 12:20 پر ہوئی او رتھوڑی دیر کے بعد جماعت کھڑی ہوگئی۔ امام صاحب کی داڑھی مختصرسی تھی۔ لنگی کے ساتھ سر پر ٹوپی اور عمامہ تھا۔ مولوی صاحب انگریزی اور اردو سے نابلد تھے اس لیے بات نہ ہوسکی۔ نمازیوں کی آٹھ دس صفیں تھیں۔ نماز خاموشی اور رفع یدین کے ساتھ ادا ہوئی۔ فرض نماز ادا کرکے کافی تعداد میں لوگ چلے گئے۔ جماعت کے بعد کچھ توقف سے مولوی صاحب نے دعا بھی مانگی۔ مسجد کے اندر لکڑی پر عربی کی آیات خوبصورت انداز میں کندہ تھیں۔ تلاوت کے لیے قرآن حکیم کے نسخے بھی موجود تھے۔ مسلمان دکاندار اور رکشے والوں میں بعض گول سفید ٹوپی پہنتے ہیں۔ جہاں ان کے ساتھ معاملہ در پیش آئے تو پہلے سلام دیتے ہیں جیسے مسلمان خواتین کی اوڑھنی اور دیسی لباس انہیں اُن کی قومیت یا مذہب کا پتہ دے دیتے ہیں۔ 
مزار اور مسجد کا ایسا پر سکون جوڑ (Combination) ویسے پاکستان میں تو عام ہے جہاں پہلے قبر پھر مزار اور بعد میں مسجد کا اضافہ ہوجاتا ہے مدرسے کی باری کہیں کہیں آتی ہے کیونکہ ان سب کا تعلق عقیدت، چندے اور فرقے سے ہوتا ہے۔ سری لنکن میں یہ جوڑ اس لیے حیران کن تھا کہ مسجد شافعی مسلک کی تھی اور مزار عوامی اسلام کا مظہر جہا ں بدھ مذہب اور تہذیب کے اثرات بھی موجود تھے۔ دونوں امن اور شانتی کے ساتھ ایک دوسرے کے ہمسائے تھے۔ بظاہر کوئی مقابلہ یا جنگ نظر نہیں آتی تھی۔ یہ رواداری اور برداشت بھی ملک کی تہذیب اور تمدن کا اثر ہے اور شاید ریاستی قانون بھی۔ گویا سری لنکا میں اسلام لاؤڈ سپیکر کے بغیر بھی موجود ہے اور امن سے ہے!(جاری ہے)