گنجے

مصنف : وسعت اللہ خان

سلسلہ : طنز و مزاح

شمارہ : مئی 2006

            ہاں میں گنجا ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے۔گنج وہ خزانہ ہے جو ہر کسی کے ہاتھ نہیں آسکتا۔جو نادان گنجے اسے کوئی عیب سمجھ کر احساس کمتر ی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اورپھروگ ، گرافٹنگ یا طرح طرح کی بال اگاؤادویات استعمال کرکے خود فریبی کا شکار بنتے ہیں،وہ کیا جانیں کہ اس ایلیٹ کلب میں کیسے کیسے لوگ شامل ہیں۔وہ بے خبرہیں اس راز سے کہ تاریخ کے ہر سنگ میل پر ایک گنجا موجودہے ۔جارج واشنگٹن ، لینن، اتاترک، چرچل،اور گاندھی جیسے مشاہیر ۔ ظاہرشاہ، نہرو ، پٹیل ،لیاقت علی خان، آئزن ہاور،گورباچوف،فرانسوامتراں،انورسادات،مینہم بیگن، شاہ حسین ، یاسر عرفات،ذوالفقارعلی بھٹو، غلام اسحاق خان سے لے کر نوابزادہ نصراللہ خان تک،پرنس کریم آغا خان سے لے کر گل جی اور عبدالستار ایدھی تک،فیص احمد فیض سے لے کر امجد اسلام امجد تک،اداکار محمد علی سے لے کر رفیع خاور ننھا تک،کون سا ایسا گنجاہے جوسیاست ، سماجی خدمت، فنون لطیفہ، ادب اور صحافت سمیت کسی بھی شعبے کے لیے باعث شرمندگی ہو۔اگر آپ یہ کہیں کہ گنجا ہونا اتنا ہی اچھا ہے تو نواز شریف اور شہباز شریف نے پوری دنیا پر اظہر من الشمس گنج چھپانے کے لیے ٹرانسپلانٹیشن کا سہارا کیوں لیا۔میرے پاس اس ممکنہ سوال کا کوئی جواب نہیں کیونکہ داتا گنج بخش کی نگری کے ان دونوں باسیوں نے ایسا کو ن سا غلط فیصلہ ہے جسے درست وقت پر کرنے میں کبھی دیر کی ہو۔

مقدور ہو توخاک سے پوچھوں اے لئیم

تونے وہ ‘‘گنج ہائے گرانمایہ ’’کیا کیے