دوپٹے کی اوٹ سے

مصنف : ذکیہ بلگرامی

سلسلہ : طنز و مزاح

شمارہ : مئی 2006

            جو خواتین باقاعدگی سے دوپٹہ اوڑھیں وہ جانتی ہیں کہ یہ آڑے وقتوں میں کیسے کام آتا ہے ۔ دوپٹے کا استعمال باورچی خانے میں بہت زیادہ ہوتا ہے مثلا اچانک ہانڈی اتارنی پڑ جائے اور صافی دستیاب نہ ہو ، تو جھٹ دوپٹے کا پلو پکڑا اور ہنڈیا اتار لی ۔ پیاز کاٹتے ہوئے اگر آنسو بہنے لگیں تو یہی دوپٹہ کا م آتا ہے ، پلو پکڑا اور آنسو پونچھ ڈالے ۔ اگر ہاتھ دھوئے تو خشک کرنے کے لیے یہی بے چارہ دوپٹہ !

گرمی میں پسینہ بہت آتا ہے ۔ پسینہ خشک کرنے کے لیے دوپٹے سے بہتر کوئی شے نہیں ۔ یہ دوپٹے کے چند استعمال تھے ، غور کیا جائے تو دوپٹہ بہت سی مشکلات میں ساتھ دیتا ہے ۔ اب دیکھیے آپ کے گھر اگر کوئی فربہ خاتون آئیں اور بدقسمتی سے ا ن کا پاؤں پھسل جائے ، آپ فورا دوپٹہ منہ میں ٹھونس کر ہنسی ضبط کر کے خاتون کو اٹھانے میں مددگار بنتی ہیں ۔

            بعض کاہل اور نکمی خواتین شوہر کی توجہ حاصل کرنے کے لیے دوپٹہ بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں ۔ شوہر بے چارہ صبح کا گیا شام کو تھکا ہارا گھر لوٹتا ہے ، اس تصور کے ساتھ کہ بیوی سولہ سنگھار کیے منتظر بیٹھی ہو گی اور بھاگ کر گرم گرم چائے بنا کر لائے گی مگر جب وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو تو گھر میں عجیب افراتفری کا سماں ہوتا ہے ۔ سنک میں چھوٹے برتنوں کا ڈھیر اور لاؤنج میں بکھری ہوئی اشیا ۔ وہ حیران وپریشان خواب گاہ میں داخل ہوتا ہے تو چہیتی لاڈلی بیگم سر پر دوپٹہ باندھے بے سدھ پڑی ہیں ۔ شوہر نامدار فورا گھبرا کر پوچھتے ہیں ‘‘کیا ہوا جان؟’’

            ‘‘سر درد سے پھٹا جا رہا ہے ، ایک پیالی چائے دینا والا بھی کوئی نہیں ۔’’ وہ کراہتی ہوئے کہتی ہے ۔ شوہر نامدار بے دام کے غلام بنے اپنی تھکن بھول جاتے اور فورا چائے بنا کر بیگم کے حضور پیش کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے ان حالات میں نند اور ان کے بچے جو رات کو آنے والے تھے ، ان کا دورہ منسوخ کروانا پڑتا ہے ۔

            گئے وقتوں کے عاشق صادق اپنی عاشقی کا زمانہ یاد کرتے ہیں تو ان کی محبوبہ شرماتی لجاتی دوپٹے میں منہ چھپائے ان کی نظروں کے سامنے آجاتی ہے ۔ مگر یہ سب پرانے وقتوں کی باتیں ہیں ، اب نہ وہ عشاق رہے اور نہ وہ شرمیلی محبوبائیں اب کہاں وہ زندگی جس کا محبت نام ہے۔

             بات ہو رہی ہے پرانے زمانے کی تو اس وقت خواتین دوپٹے سے عجیب وغریب کام لیتی تھیں پڑوسن سے جب جھگڑا ہوتا تو مات کھانے کی صورت میں دوپٹہ پھیلا کر آسمان کی طرف دیکھتیں اور جی بھر کر کوستیں ، پھر بھی بس نہ چلتا ، تو دوپٹے میں منہ چھپا کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتیں ۔

            ہماری بھابھی بہت سیدھی ہیں ۔ اکثر ان کے دوپٹے کے کونے میں ایک گرہ لگی ہوتی ہے ۔ وجہ پوچھی تو بولیں کہ کچھ یاد رکھنا ہو تو دوپٹے میں گرہ باندھ لیتی ہوں ۔گرہ دیکھ کر کام یاد آجاتا ہے ۔ ایک بار میں نے ان کے دوپٹے میں خلاف معمول دوگرہیں دیکھیں ۔ وجہ پوچھی ، ٹھنڈی سانس بھر کر کہنے لگیں ‘‘پچھلی دفعہ گرہ دیکھ کر یاد ہی نہ آیا کہ گرہ کس لیے لگائی تھی ۔ اب دو گرہیں لگاتی ہوں تاکہ یاد رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ۔’’

            خیر صاحب آمدم برسر مطلب ، اب آخری بات بھی لکھ دوں …… ہوسکتا ہے یہ مضمون پڑھ کر دوپٹہ نہ اوڑھنی والی بہت سی خواتین اوڑھنے لگ جائیں اور ٹاکی ، رومال ، ٹشو وغیرہ کے اضافی اخراجات سے بچ سکیں ۔ جناب صائب رائے دینا ہمارا کام تھا ، اب آپ کی مرضی ، مانیں یا نہ مانیں ۔