سوچتا ہوں!

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : اپریل 2006

            یہ لاہور ہے ۔ ماہ فروری رخصت ہوا چاہتا ہے اور فروری کے ساتھ ہی موسم سرما بھی اپنے انجام کو پہنچ جائے گا ۔ دن کو دھوپ کی تمازت اب اتنی ہوگئی ہے کہ انسان کو سائے کی تلاش ہوتی ہے ۔ آج کی صبح کا آغاز بھی حسب معمول گرمی سے ہوتا ہے ۔ میں کلاس روم میں داخل ہوتا ہوں تو اندر کافی گرمی محسوس ہوتی ہے گھنٹہ بعد جب کلاس ختم ہوتی ہے تو باہر کیا دیکھتا ہوں کہ ایک کالی گھٹا چلی آتی ہے اور آن کی آن میں سورج کی تمازت انتہائی خوشگوار ٹھنڈک میں تبدیل ہوجاتی ہے۔سوچتا ہوں کہ ایک ہی لمحے میں کائنات کا یہ رنگ کیسے بدل گیااورکون ایسا کرنے کی طاقت رکھتا ہے!

 ٭٭٭

            پچھلے سال ‘‘جامن’’ کی فصل کم ہوئی اور ‘‘جامن ’’ اتنا لذیذ بھی نہ تھا جیسا کہ عمومی طور پر ہوتا ہے اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ اس سال فصل کودھوپ کم لگی۔سوچتا ہوں کہ آخر دھوپ کا ‘‘جامن’’ کی مٹھاس اور لذت سے کیا تعلق ……؟

٭٭٭

             8 اکتوبر کے اندوہناک زلزلے کو گزرے ابھی اتنا عرصہ نہیں بیتا کہ لوگوں کے ذہنوں سے اس کی اندوہناک یادیں محو ہو جائیں ۔ تباہی کا یہ عالم تھا کہ دیکھنے والوں نے دیکھااور لکھنے والوں نے لکھا کہ اب بالاکوٹ ایک شہر نہیں بلکہ ایک بڑی سی قبر ہے ۔ وہاں کوئی عمارت ، کوئی بازار ، کوئی مسجد کچھ بھی نہ بچ سکا لیکن سوچتا ہوں کہ سید احمد شہیدؒ کا مزار کیسے سلامت رہ گیا؟ اور بازار کے بیچوں بیچ ایک مارکیٹ کیسے کھڑی رہ گئی؟

٭٭٭

            انسان جب اپنے رب کے حضور حاضر پیش ہوتا ہے تو اس کاجسم مٹی کے سپرد کر دیا جاتا ہے ۔ اور پھر یہ پانچ چھ فٹ کا جسم چند ہی مہینوں میں غائب ہو جاتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ اتنا بڑا جسم آخر کہاں چلا جاتا ہے او رکس کے حکم سے چلا جاتا ہے؟

             دنیا میں ان گنت مخلوقات ہیں اور ہرجان کے اوپر لازم ہے کہ موت کا مزہ چکھے اور ایسا ہی ہوتا ہے موت وحیات کی اس کشمکش سے کسی ذی روح کو مفر نہیں روزانہ کتنے جانورمر جاتے ہیں سوچتا ہوں کہ ان کی لاشیں کہاں جاتی ہیں؟سوچتا ہوں کہ اگر ان لاشوں کے ٹھکانے لگنے کا غیبی بندوبست نہ ہوتا تو آج زمین مردہ خانہ ہوتی اور زندہ جانوں کو رہنے کو جگہ تک نہ ملتی۔

            سوچتا ہوں اور سوچتا ہوں مگرسوچ کے اس سفر میں سوائے اندھیرے کے کچھ نہیں حاصل نہیں ہو پاتا جب تک کہ یہ سوچ خدا کے نور سے روشنی نہ پالے ۔ اللہ نور السموات والارض

            اورجب ایسا ہوجائے تو پھر نہ صرف یہ کہ سوچ کے یہ اندھیرے روشن ہوجاتے ہیں بلکہ ہر سوال بھی اپناجواب پا جاتا ہے ۔ اور پھر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اللہ ہی ہے جو جھلسانے والی ہواؤں کوایک لمحے میں برف سی ٹھنڈی ہوا میں بدل دیتا ہے ۔ یہ اللہ ہی ہے جس کے حکم سے سورج کی شعاعیں پھلوں اورسبزیوں میں مٹھاس پیدا کرنے کا کام بھی کردیتی ہیں ۔ یہ اللہ ہی ہے جو زلزلے میں سب کچھ ملیامیٹ کرنے کے باوجود بھی جس کو چاہتاہے جیسے چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے بچا لیتا ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جس کے حکم سے مٹی او ربیکٹیریا ، انسانوں اور جانوروں کی لاشوں کو کھا جاتے ہیں ۔

            سوچ کے اس گرداب سے نکالنے کی طاقت اگر کسی میں ہے تو وہ بھی خود اللہ کے کلام ہی میں ہے۔ جو کتنی وضاحت سے یہ بیان کرتا ہے کہ

            نحن خلقنکم فلولا تصدقون۔أ فرء یتم ما تمنون۔ء أنتم تخلقونہ ام نحن الخلقون۔ أفر ء یتم ما تحرثون۔ ء أنتم تزر عونہ ام نحن الزرعون۔ لو نشاء لجعلنہ حطاما فظلتم تفکھون۔ انا لمغرمون۔ بل نحن محرومون۔ أ فرء یتم الماء الذی تشربون۔ ء أ نتم أنزلتموہ من المزن ام نحن المنزلون۔ لو نشاء جعلنہ اجاجا فلولا تشکرون۔ أ فر ء یتم النا رالتی تورون۔ ء أنتم أنشاتم شجرتھا ام نحن المنشؤن۔ نحن جعلنھا تذکرۃ و متعا للمقوین۔

            ترجمہ : کائنات کی ہر شے کا وجود خود پکار پکار کر اس کا اعلان کر رہا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ومالک ہے اور وہ اللہ ہے ۔ قرآن کہہ رہا ہے کہ

            ‘‘ بلاشبہ آسمانوں کے اور زمین کے بنانے میں اور یکے بعد دیگرے رات اور دن کے آنے میں اور جہازوں میں جوکہ سمندروں میں چلتے ہیں آدمیوں کے نفع کی چیزیں (اور اسباب ) لے کر اور (بارش کے ) پانی میں جس کو اللہ نے آسمان سے برسایا ۔ پھر اس سے زمین کو تروتازہ کیا اس کے خشک ہوئے پیچھے اور ہر قسم کے حیوانات اس میں پھیلا دیے اور ہواؤں کے بدلنے میں اور ابر میں جو زمین و آسمان کے درمیان مقید ( اور معلق) رہتا ہے دلائل ( توحید کے موجود) ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل (سلیم) رکھتے ہیں ۔ ’’ البقرۃ:164

             ‘ ( اللہ وہ ہے ) جس نے بنایا تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت اور برسایا آسمان سے پانی پھر ( پردہ عدم سے) نکالا بذریعہ اس (پانی) کے پھلوں سے غذا کو تم لوگوں کے واسطے اب تو مت ٹھہراؤ اللہ پاک کے مقابل اور تم جانتے بوجھتے ہو ۔’’ (البقرۃ:22 )

جب اللہ ہے ، اور اس کائنات کی ہر ہر شے اس کے ہونے کا پتا دے رہی ہے تو یہ پھر اس کے ہونے کا منطقی تقاضا ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس سے ڈرا جائے ۔ ‘‘ اے لوگو! عبادت اختیار کرو اپنے (اس) پروردگار کی جس نے تم کو پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے گذر چکے ہیں عجب نہیں کہ تم دوزخ سے بچ جاؤ ۔ ’’ (البقرۃ:21 )