عروج و زوال کا فلسفہ: عبرتناک مرقع

مصنف : خواجہ حسن نظامی ثانی

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : اپریل 2006

بہادر شاہ ظفر کے پوتے باورچی بن گئے تھے جو کام توپیں نہ کر سکیں وہ کام مغربی ثقافت نے کر دکھایا

خواجہ حسن ثانی نظامی نے بہادر شاہ ظفر کے پوتے مجّی کا خاکہ خون دل میں ڈوب کر لکھا ہے۔ اس کا شماراردو کے چند عمدہ خاکوں میں ہوتا ہے۔ اس ادبی و شخصی خاکے میں قوموں کے عروج و زوال کی پوری داستان سمو دی گئی ہے۔ یہ خاکہ زوال آمادہ خاندانوں، اور نظام تعلیم و تربیت کے فرد اور معاشرے پر پڑنے والے اثرات کی بھی نقشہ کشی کرتا ہے۔ یہ خاکہ معاشرے میں بزرگوں کی اہمیت بتاتا ہے۔ ان کا کیا کام ہے اور کیا مقام؟ کیا بزرگ اپنا وہ کردار ادا کر رہے ہیں جواُن کی ذمہ داری ہے؟ کیا نانی ،دادی رات کو بچوں کو کہانیاں سنا رہی ہیں؟ کیا مائیں لوریاں سناتی ہیں؟ معاشرے کے ہر فرد کو اپنا ثقافتی کردار کس طرح ادا کرنا چاہیے؟ یہ خاکہ ہمیں اس کا ڈھنگ سکھاتا ہے۔ یہ خاکہ بتاتا ہے کہ تلوار، تیر، بندوق اور توپ بھی وہ کام نہیں کر سکتے جو کام ثقافت انجام دیتی ہے۔ مغرب کے خلاف صف آراء اسلامی تحریکوں نے مغربی ثقافت کے مقابلے کے لیے ابھی تک کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔

            مجّی مرحوم آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفرؔ کی یادگار تھے۔ مگر کسے یقین آئے گا کہ ان کی عمر ہنڈیا ڈوئی کرتے گزری۔ لال قلعے کا ہونے والا مالک دِلّی شہر میں باورچی بن کر رہا۔ ان کے باپ مرزا ولایت شاہ ظفرؔ کے ولی عہد کے پوتے تھے۔ ولی عہد باپ کے سامنے اللہ کو پیار ے ہوگئے۔اس لیے ان کی اولاد اس نام چارے کے راج پاٹ کی امیدوار بھی نہ بن سکی جو عظیم مغلوں کا مقدر رہ گیا تھا۔ ۱۸۵۷ء میں مغل سلطنت کا ٹمٹماتا چراغ بجھا تو اس خاندان کے لیے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ یہ لوگ غدر کے بعد بستی حضرت نظام الدین اٹھ آئے تھے اور افلاس کی زندگی گزارتے تھے۔ آمدنی کے ذرائع محدود اور مرزا ولایت شاہ کو افیون کی لت۔ بزرگوں کا اثاثہ کب کا خالصے لگ چکا تھا۔ بس اللہ ہی تھا جو دن کٹ رہے تھے۔ اس حال میں ان کو ‘‘صاحب عالم’’ وہ لوگ بھی نہ کہتے تھے جو ان کے نسب سے واقف تھے۔ چنانچہ وہ جیتے جی ‘‘مرزا جی’’ ہی پکارے گئے اور ان کے لڑکے مرزا سہراب شاہ تو مرزا جی بھی نہ رہے۔ بگڑ کر مجّی بن گئے۔ کبھی کبھار کوئی وضعداری کا مارا انہیں مرزا جی کہہ کر مخاطب کرتا تو مجّی کھل اٹھتے۔

            میانہ قد، دوہرا بدن، کالا بھٹ رنگ، موٹی ناک ، لال لال آنکھیں، پھیلا ہوا دہانہ، جھکی ہوئی مغلئی مونچھوں کے سوا وہ اپنے چہرے مہرے سے مغل بالکل نہ لگتے تھے مگر ان کے حسب نسب پر شبہ کبھی نہیں کیا گیا۔ کِیا بھی کیسے جاتا۔ دنیا جانتی تھی کہ محل سرا میں خیر سے کوہ قاف کی پریاں بھی تھیں اور افریقہ کی حبشنیں بھی۔ پھر کیا عجب تھا کہ اوپر کی کسی پشت میں مجّی کا ننھیالی رشتہ حبشہ سے رہا ہو اور اس نے رنگ اب دکھایا ہو۔

            مجّی کو اپنے بزرگوں سے اور کوئی ورثہ ملا ہو یا نہ ملا ہو۔ زندگی کی اچھی چیزوں کی قدر کرنا اور ان سے لطف اٹھانا انہیں خوب آتا تھا۔ شعر و سخن سے بڑی دلچسپی تھی۔ افسوس ان کا کوئی شعر محفوظ نہیں رہ سکا۔ پڑھے لکھے نام کو نہ تھے۔ مگر شعر پڑھنے اور اس سے زیادہ شعر سننے اور داد دینے کا شوق تھا۔ لو گ ان کی غزلوں کو لے پالک بتایاکرتے تھے۔ لیکن مجّی نے کبھی اس پر ملال کا اظہار نہیں کیا۔ ناچ گانے کے بھی بڑے رسیا تھے۔ نا ممکن تھا کہ پاس پڑوس میں کہیں مجرا ہو، سانگ ہو اور مجّی صاف ستھرا کرتا پاجامہ واسکٹ پہنے اور دِلّی والوں کی گول ٹوپی لیے وہاں موجود نہ ہوں۔ سینما آیا تو اس کی خاطر وہ دس میل پیدل سفرکرنے لگے کہ اس زمانے میں رات کے وقت بستی حضرت نظام الدین اور دہلی شہر کے درمیان کوئی عام سواری نہ ملتی تھی۔

اس عہد کی معاشرت

            مجّی نے مزاج لڑکپن سے عاشقانہ پایا تھا۔ ابھی ان کی پہاڑداکھیلنے کی عمر تھی اور مسیں بھی پوری طرح نہ بھیگی تھیں کہ انہوں نے فقیر خاندان کی نوجوان بیوہ سے پینگیں بڑھانی شروع کیں۔ دور وہ تھا کہ بستی اور محلے کے بڑے متفقہ اور مشترکہ طور پر سب کے بڑے سمجھے جاتے تھے۔ ان کے دل میں سب کا درد ہوتا تھا اوروہ سب کی خیر خبر رکھتے تھے۔ چنانچہ مجّی کا کورٹ شپ بھی زیادہ دن تک ان کی عقابی نظروں سے اوجھل نہ رہ سکا۔ اور بستی کے چند بزرگوں نے کسی سہانے وقت انہیں محبوبہ سمیت پکڑ بلوایا۔ زنانے مکان میں محبوبہ پر کیا بیتی یہ تو کم لوگوں کو معلوم ہوا۔ البتہ مردانے میں مجّی کو مرغا بننے کا تماشا بہت سے لوگوں نے دیکھا۔مجّی کی قسمت اچھی تھی کہ ادھر سے حضرت خواجہ حسن نظامیؒ کا گزر ہوگیا۔ انہوں نے ۱۸۵۷ء پہ کتابیں ہی نہیں لکھی تھیں۔ مصیبت زدہ شاہی خاندان کی امداد میں بھی پیش پیش رہے تھے۔ خواجہ صاحب نے پہچان لیا کہ جس لڑکے کو مرغا بنایا گیا ہے وہ مرزا ولایت شاہ کا بیٹا اور حضرت بہادر شاہ ظفر کا پوتا ہے۔ انہوں نے مجّی کے مقدمے میں فوری مداخلت کی اور زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ مجّی اپنی محبوبہ سکینہ کو نکاحتاً بیوی بنائے حیران پریشان کھڑے تھے کہ اس نیک بخت کو کہاں لے جا کر رکھوں اور کس گھر سے کھلاؤں۔ یہ افتاد اور مشکل بھی خواجہ صاحب ہی نے آسان کی اور اپنے گھر کی ایک کوٹھڑی کو دل پھینک شہزادے کا حجلہ عروسی بنوا دیا۔دونوں وقت کھانا بھی دولہا دلہن کے لیے جانے لگا۔ رفتہ رفتہ مجّی نے گھر کا سودا سلف لانے کا کام سنبھال لیاجس کا معاوضہ ان کو اپنے حق سے زیادہ ملتا تھا۔ مگریہ مجّی کی سعادت مندی تھی کہ انہوں نے بیوی سے روٹی سالن پکانا سیکھ لیا اور معمولی گھریلو ملازم سے ایک درجہ ترقی کر کے باورچی اور خانساماں بن گئے۔ اس سے زیادہ کی ان کو ہوس بھی نہ تھی۔ چنانچہ باقی زندگی کھانا پکاتے، میز سجاتے گزار دی۔

            حضرت خواجہ نے مجّی کو آگے بڑھانے کی بہت کوشش کی۔ مگر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کے نامور اجداد اپنی اولاد کی ترقی کاحصہ بھی پیشگی وصول کر چکے تھے اور اب مجّی کی قسمت میں کچھ بھی نہ تھا جسے وہ حاصل کرتے۔ خواجہ صاحب انہیں حیدرآباد لے گئے۔ مہاراجہ سرکشن پرشاد نے خواجہ صاحب کی دعوت کی اور حیدرآباد کے سارے اکابر اور امرا کو جمع کیا تو خواجہ صاحب نے مجّی کو میز پر اپنے برابر بٹھایا۔ حیدرآباد کے نوابی ماحول میں یہ منظر قیامت سے کم نہ تھا۔ مہاراجہ ضبط نہ کر سکے اور پوچھ ہی بیٹھے کہ آپ کے برابر جو شخص بیٹھا ہے کیا آپ کا ملازم ہے؟ خواجہ صاحب نے مختصر سا جواب دیا کہ جی ہاں میرا باورچی ہے۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے پھر کہا کہ اس کو پاس بٹھانے میں کوئی مصلحت ہوگی۔ خواجہ صاحب اس دفعہ بھی ایک فقرے کا جواب دے کر چپکے ہو گئے کہ ‘‘جی ہاں ! مصلحت ہے۔’’تیسری دفعہ جب مہاراجہ نے اس مصلحت کی تفصیل پوچھی تو خواجہ صاحب کھڑے ہوگئے اور میز پر بیٹھنے والے امرا و ر رؤوسا کو مہاراج سے اپنی گفتگوکا حال سنایا اور کہا کہ اپنے باورچی کو پاس بٹھانے کی مصلحت سے میں صرف اپنے میزبان ہی کو نہیں آپ سب کو بھی آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ یہ وہ شخص ہے کہ اگر اس کا اچھا وقت ہوتا تو یہ لال قلعہ دہلی کے تخت کو زینت بخشتا اور مہاراجہ بہادر تو خیر ایک وزیر ہیں۔ ان کے ولئی نعمت اعلا حضرت نظام دکن دہلی جاتے تو اس کے ایک صوبیدار کی حیثیت ہی سے جاتے اور اس کی مرضی تھی کہ انہیں شرف بازیابی بخشتا یا نہ بخشتا۔ لیکن آج زمانے کے انقلاب نے اسے ایک معمولی نوکر فلاں جنگ اور فلاں دولہ کے پاس کیوں بٹھایا گیا۔

            حیدر آباد کے نوابوں کو تو اس واقعے سے یقینا عبرت ہوئی ہوگی۔ مگر مجّی ہر عبرت اور آج اور کل کے ہر قصے سے بے نیاز تھے۔ انہیں بالکل یاد نہیں آتا تھا کہ وہ کیا تھے اور کیا ہوگئے۔ ایک دوسرا واقعہ ہے کہ مشہور انگریز مصنف ایسٹ براؤن دہلی آیا تو خواجہ حسن نظامی صاحب سے بھی ملا اور ان سے ۱۸۵۷ء کی کوئی ایسی کہانی سننے کی فرمائش کی جو چھپی نہ ہو اور جس کو وہ انگریزی میں لکھ سکے۔ خواجہ صاحب نے اس انگریز مصنف سے کہا کہ آپ کہانی صرف سننا چاہیں گے یا اس کو بھی دیکھنا بھی پسند کریں گے؟ وہ سراپا اشتیاق بن کر بولا کہ کیا آپ کہانی دکھا بھی سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہوا تو میں اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھوں گا۔ خواجہ صاحب نے فوراً مجّی سے کہا کہ صاحب کو سلام کرو اور صاحب سے تعارف کرایا۔ یہ میرا باورچی ہے!صاحب نے حیرت سے پوچھا کہ آپ نے تو کہانی دکھانے کو کہا تھا۔ آپ مجھے اپنے باورچی سے کیوں ملاتے ہیں؟ میں کچھ سمجھا نہیں۔ خواجہ صاحب نے کہا ذرا صبر کیجیے۔ ابھی سمجھ میں آجائے گا۔ یہ باورچی ہی کہانی ہے۔ یہ بہادر شاہ ظفر کا پوتا ہے۔ میں اس کو اس کے دادا کی قبر پر رنگون لے گیا۔ میں وہاں کھڑا روتا رہا۔ مگر اس نے نہ فاتحہ پڑھی نہ اس کی آنکھوں میں مَیں نے نمی دیکھی۔ جب مجھے وہاں روتے روتے بہت دیر ہوگئی تو یہ میرے قریب آیا اور رازداری سے کہنے لگا میاں! میں نے سینما کا ٹکٹ لے لیا تھا۔شو کا وقت جارہا ہے۔ اگر اجازت ہو تو میں واپس چلا جاؤں! تو جناب مجھے یہ ہی کہانی آپ کو دکھانی تھی کہ جو کام آپ کی توپیں اور بندوقیں اور سنگینیں نہ کر سکیں وہ آپ کے سینما نے کر دکھایا۔ اس شخص کو اپنی عظمت رفتہ کا احساس ہونا چاہیے تھا۔ اس کی واپسی کے لیے اسے جدو جہد کرنی چاہیے تھی مگر اسے کچھ یاد نہیں رہا ہے۔ اس نے خود کو آپ کے سینما میں گم کر دیا ہے۔

            انگریز مصنف کا تاثر جو کچھ بھی رہا ہو۔ لیکن حیرت اس پر ہوتی تھی کہ بار بار جتائے جانے کے باوجود مجی کو یاد نہ آتا تھا کہ وہ کیا ہیں؟ ان کا چھوٹا لڑکا مرزا حیدر شاہ میرا ہم عمر تھا۔ ہم ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ بچے اپنے اطراف میں ہونے والے واقعات کی نقل بھی کھیل کھیل میں کیا کرتے ۔ دفتر قائم کرتے، جھوٹ موٹ اخبار نکالتے، کتابیں چھاپتے، ممکن ہے خواجہ صاحب نے اپنے کسی اخبار نویس دوست کی مشکل آسان کرانے کے لیے اسی زمانے میں دہلی کے انگریز ڈپٹی کمشنر کی دعوت کی ہو۔ ہم لوگ اس کی نقل کر رہے تھے، کوئی بچہ خواجہ حسن نظامی بنا تھاتو کوئی عزیز حسن بقائی، علی ہذا القیاس مجی کے لڑکے مرزا حیدر شاہ کے حصے میں ڈپٹی کمشنر بننا آیا تھا اور وہ میز کے صدر مقام پر بڑی تمکنت سے بیٹھا تھے۔پارٹی زورو شور سے جاری تھی کہ مجی خدا معلوم کہاں سے آٹپکے۔ کچھ کہے سنے بغیر انہوں نے اپنے لڑکے حیدر کا کان پکڑا اور اتنے زور سے اسے اوپر اٹھایا کہ وہ بے چارہ ایک آنکھ بند کیے دوسری میں اپنے سارے کرب کو سمیٹے اسپرنگ کی طرح کرسی سے اٹھتا چلا گیا۔ سب بچے کورس میں چیخے ، مجی مجی کیا کرتے ہو،ان کا کان نہ پکڑو، یہ تو ڈپٹی کمشنر ہیں، مگرمجی نے ایک نہ سنی اور اس بے چارے کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔ بچوں نے خواجہ صاحب سے فریاد کی۔ مجی کی طلبی ہوئی مگر انہوں نے بہت کھسیا کر اور کسی قدر گلوگیر ہو کر اپنی صفائی میں بس یہ کہا کہ میاں! مجھے اچھا نہیں لگا کہ نوکر کا بچہ آقازادوں کا صدر بن بیٹھے۔

            مجی اپنی نوکری میں بڑے مگن رہتے تھے۔ ان کی ساری صلاحیتیں ایک اچھا نوکر بننے میں صرف ہو گئیں۔ کھانے پینے کے ذوق اور عادتوں کے سلسلوں میں انہوں نے گھر کے ہر فرد اور روز مرہ کے مہمانوں کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ مثلاً انہیں معلوم تھا کہ کون کتنا پیتا ہے، اس مناسبت سے وہ پانی کا کٹورہ یا گلاس سامنے رکھتے۔مگر اس سلسلے میں کبھی کبھی ان کی ظرافت کا اظہار بھی ہوتا۔ ایک دفعہ علامہ اقبال اورایک اور معزز پنجابی مہمان دسترخوان پر تھے اور ان کے برابر ایک دھان پان لکھنوی تشریف فرما تھے۔ مجی نے گھر کا سب سے بڑا تانبے کا کٹورہ پانی سے لبالب بھر کر لکھنوی مہمان کے سامنے رکھا اور ایک چھوٹا سا بازک بلوری گلاس بقدربادہ پنجابی مہمان کو پیش کیا۔ دونوں مہمانوں نے اس مذاق سے لطف کیا اور مجی کو داد دی۔ مگر مجی اس طرح کا مذاق ہر ایک سے نہیں کرتے تھے۔ حفظ مراتب اور رکھ رکھاؤ ان کے مزاج کا حصہ بن گئے تھے۔ مذاق مجی اسی سے کرتے جس کو بے تکلف جانتے۔ خواجہ صاحب کے ایک ایسے ہی دوست ولی محمد مومن سابق چیف منسٹر ریاست جونا گڑھ تھے۔ مجی کو معلوم تھا کہ وہ شیعہ ہیں۔ ان کو مجی نے اس طرح چھیڑا کہ میزبان اور مہمان دنوں کی پلیٹوں میں روٹی کو چار چار ٹکڑے کر کے رکھا۔ مومن صاحب بڑے مزے کے آدمی تھے۔ فوراً سمجھ گئے اور خواجہ صاحب کی پلیٹ میں سے روٹی کاایک ٹکڑا اٹھا کر اپنی پلیٹ میں رکھا اور مجی کی طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھ کر بولے مرزا جی میرے تو پانچ پورے ہیں اب آپ اپنے تین ادھوروں کو لیے بیٹھے رہیے۔

            لال قلعے میں بیکاری کے مشغلے طرح طرح کے تھے ۔ ان ہی میں ایسے فقروں کی ایجاد بھی ایک مشغلہ تھا جو خاص خاص موقعوں پر بولے جاتے تھے۔ بعض دفعہ، فقرے با معنی اور بلیغ ہوا کرتے تھے اور بعض دفعہ بسمل، لال قلعے کی جھلکیاں دکھانے والوں نے ان کا تذکرہ کیا ہے۔مجی کی زبان پر بھی اس طرح کے فقرے اکثر آتے۔ خدا معلوم یہ انہوں نے اپنے بزرگوں سے سن رکھے تھے یا خود ایجاد کیے تھے۔ مثلاً ان سے پانی مانگا جاتا تو جواب میں جی اچھا، بہت اچھا یا ابھی لاتا ہوں کہنے کے بجائے کہا کرتے‘‘آنکھوں میں ’’ اب اللہ جانے اس کا مطلب نین کٹورے ہوتا تھا یا یہ بسروچشم کا ایجاد بندہ قسم کا ترجمہ تھا۔ میری سمجھ اس وقت ایسی نہیں تھی کہ جرح کر کے اس کا اور بعض دوسرے فقروں کا مطلب ان سے پوچھتا ۔

            مجی کو بے شمار کہانیاں یاد تھیں۔ شام ہوتے ہی گھر کے اور پڑوس کے بچے ان کے پاس باورچی خانے میں جمع ہوجاتے اور مجی کی داستان گوئی کا آغاز ہوتا۔ بیڑی کے کش پر کش لیتے جاتے اور اگلے وقتوں کے بادشاہ زادوں اور بادشاہ زادیوں کی کہانیاں سناتے رہتے۔ ایک ایک کہانی کئی کئی نشستوں میں پوری ہوتی۔ جزیات بڑی تفصیل سے بیان کی جاتیں، کھانے، زیور اور لباس تو فہرست بنانے کے لائق ہوتے۔ مگر عجیب بات یہ تھی کہ انہوں نے مغل دربار،غدر اور لال قلعے کا اپنی کہانیوں میں کبھی تذکرہ نہیں کیا۔ نہ کبھی ہم نے ان سے بہادر شاہ ظفر کا نام سنا حالانکہ یہ داستان بھی ان تک بزرگوں سے ضرور پہنچی ہوگی۔ شاید اس ذکر سے انہیں تکلیف ہوتی ہو اور وہ اس آشیانے کا ذکر پسند نہ کرتے ہوں جس پر ابھی کل ہی بجلی گری تھی۔ ساری خود فراموشیوں کے باوجود یہ احساس عجیب احساس تھا اور اس سے عجیب تر احساس یہ تھا کہ آزادی کی جدو جہد اپنے عروج کو پہنچی اور اس کے فوراً بعد پاکستان کی تحریک شروع ہوئی تو مجی گویا اپنے Hibernative اور ایک طویل نیندسے یکایک جاگ اٹھے۔

            ہمارے ہاں اہم لوگوں کا میلا لگا رہتا تھا۔ مجی ان سب سے اس موضوع پر گفتگو کرتے ۔ انہیں اس وقت کے سیاسی رحجانات سے سخت تشویش تھی۔ اس کا اظہار وہ اکثرکرتے۔ شاید ان کی چھٹی حس ان کو بتا رہی ہو کہ پاکستان بن گیا تو انہیں بھی وہاں جانا پڑے گا۔ دلی پیاری کو چھوڑنا ہوگا۔ دلی کے میلے ٹھیلے ان کو ایسے عزیز تھے کہ ان کی خاطر وہ کئی دفعہ نوکری تک چھوڑنے کو تیار ہوگئے تھے۔ مہاراجہ کشن پر شاد والی دعوت نے انہیں حیدرآباد کے ایک وظیفہ سے نواز دیاتھا جوانہیں ریاست کے زمانے تک ملتا رہا۔

            ۱۹۴۸ء میں ا پنی بیوی کے مجبور کرنے سے وہ پاکستان چلے گئے وہاں ان کے دونوں لڑکوں مرزا سکندر شاہ اور مرزا حیدرشاہ کو غالباً چپڑاسی کی نوکریاں مل گئی تھیں لیکن اپنے بچوں کی کمائی سے وہ اپنے آپ کو خوش اور مطمئن نہ رکھ سکے۔ ۱۹۵۹ء میں کراچی کے سفر کے وقت میں ان سے ملا تو خوب روئے۔ کہتے تھے مجھے دہلی لے چلو۔ میں دلی جاکر مرنا چاہتا ہوں، بچوں کے پاس مجھے ہر طرح کا آرام ہے مگر چین اور راحت مجھے ایک لمحے کو بھی میسر نہیں آئے ہیں۔ دلی کی جدائی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

            مجی کومیں اپنے ساتھ دلی لے آتا۔ لیکن پاسپورٹ کی پابندی رکاوٹ بن گئی۔ ان کی مٹی کراچی ہی کی تھی۔ اپنے پردادا حضرت بہادر شاہ ظفر کی طرح مجی کو بھی کوئے یار میں دو گز زمین نہ مل سکی۔ ۱۹۶۱ء میں ان کی موت کی اطلاع پہنچی بھی تو تین مہینے بعد دلی پہنچی اور کوشش کے باوجود تاریخ انتقال معلوم نہ ہوسکی۔

سدا رہے نام اللہ کا