جانوروں کی عدالت

مصنف : مصطفی السباعی

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : اپریل 2006

            جانوروں پر مقدمات اور ان کو عدالت کے ذریعے مختلف سزائیں دینے کا انوکھا معاملہ قرونِ وسطیٰ کی تاریخ کے مختلف ادوار میں حتیٰ کہ انیسویں صدی میں بھی ملتا ہے۔ جانوروں پر انسان ہی کی طرح مقدمات دائر کیے جاتے تھے اور ان کو قید و بند، جلا وطنی اور موت کی سزا کا حکم سنایا جاتاتھا۔

            یہودی قوانین میں یہ تھا کہ اگر کوئی بیل کسی مرد یا عورت کو سینگ سے زخمی کر دے اور اس زخم سے اس کی موت ہو جائے تو بیل کو رجم کیا جائے گا اور اس کا گوشت حرام قرار دیا جائے گا۔ اگر یہ بیل سینگ مارنے کا عادی نہ ہو تو مالک پر کسی قسم کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی ۔اور اگر اس کی یہ خصلت بن گئی ہواور عوام نے مالک کو متنبہ کیا ہو اور اس نے لوگوں کے متنبہ کرنے پر بھی کوئی توجہ نہ دی ہو اور اسے آزاد چھوڑ دیا ہو یہاں تک کہ وہ جانور کسی مرد یا عورت کی ہلاکت کا سبب بن گیا ہو تو بیل کو رجم کیا جائے گا اور مالک کو پھانسی دی جائے گی۔

            قدیم یونانی قانون میں جانور اور وہ پتھر جو کسی انسان کی ہلاکت کاسبب بنا ہو اس کے لیے خاص عدالت تھی۔ اس کو (برتانیوں) سے موسوم کیا جاتا تھا اور یہ اس جگہ کا نام تھا جہاں عدالت لگتی تھی۔ اور جیسا کہ افلاطون نے اپنی کتاب ‘‘القوانین’’ میں ذکر کیا ہے کہ جب کوئی جانور کسی انسان کو مار ڈالے تو مقتول کے ورثا کو یہ حق ہے کہ وہ عدالت میں جانور پر دعویٰ دائر کریں اور ورثا کو انسانوں میں سے قاضی مقرر کرنے کا اختیار ہے اور جانور پر ثبو ت جرم کے بعد قصاص واجب ہو گا اور اس کے مردہ جسم کو شہر سے دور ڈلوادیا جائے گا۔ اور اس حکم سے وہ قتل مستثنیٰ ہے جو انسانوں اور حیوان کے درمیان مقابلہ آرائی سے وجود میں آیا ہو اس پر کسی قسم کا فردجرم عائد نہیں ہو گا اور جب کوئی پتھر کسی انسان کو آ لگاہو اور وہ جانبر نہ ہو سکا ہو تو قریب ترین ورثا کو یہ حق پہنچتا تھا کہ وہ اپنے پڑوسی میں سے کسی کو قاضی مقرر کریں تاکہ وہ پتھر کے خلاف فیصلہ صادر کرے کہ اسے شہر کے حدود سے باہر پھینک دیا جائے ۔ ان کے نزدیک جانوروں کی ذمہ داری قتل کے حالات تک محدود نہیں تھی بلکہ قتل سے کم تمام زیادتیوں پر بھی وہ ذمہ دار ٹھہرائے جاتے تھے۔مثال کے طور پر کوئی کتا کسی انسان کو کاٹ کھاتا تو اس وقت کتے کے مالک پر ضروری ہو جاتا کہ وہ فوراً اس کو اس کے حوالہ کر دے جسے اس نے کاٹا ہو تاکہ وہ جس طرح چاہے اپنے زخم کا بدلہ لے، خواہ قتل کرکے یا کسی دوسری سزا کے ذریعہ۔ جس جانورپر کسی جرم کے ارتکاب کے سلسلے میں جلا وطنی کا فیصلہ جاری کیا جاتا ، توآقا اور اس کے گھر والوں اور اس کے تمام جانوروں اور اس کی ساری جائیداد پر حکم لگایا جاتا جلا ڈالنے کا، منہدم کرنے کا اور قرقی و ضبطی کا۔

            قدیم رومیوں کے قانون کی ایک دفعہ تھی جس کے ذریعہ بیل اور اس کے مالک کو جلا وطن کرنے کا حکم نافذ کیا جاتااگر بیل ہل جوتتے ہوئے کھیت کی منڈیر پار کر جاتا۔ روم میں اس کتے کی یہ سزا مقرر کی گئی تھی جو کسی انسان کو کاٹ کھائے کہ کتے کا آقا اپنے کتے کو زخم خوردہ شخص کے حوالے کر دے اور وہ جس طرح چاہے اس کتے کے ساتھ معاملہ کرے اسی طرح ایک دفعہ اس جانور کے لیے بھی تھی جو اپنے مالک کے علاوہ کسی اور کے علاقے کی گھاس چر جائے۔

            اور بالکل اسی طرح کے قوانین جانوروں کی سزا کے سلسلہ میں قدیم جرمنی اور یونان میں بھی تھے۔

            قدیم فارس کے نزدیک معاملہ اس سے بھی زیادہ انوکھا اور نرالا تھاوہ یہ کہ وہ کتا جو ایک دوسرے سے لڑ کر زخمی ہو گیا ہو وہ کسی بکری کو کاٹ کھائے اور بعد کو وہ بکری مر گئی یا اس نے انسان کو زخمی کر دیا تو اس صورت میں اس کا دایاں کان کاٹاجائے گا اور تیسری حرکت میں دایاں پیر کاٹا جائے گا اور چوتھی حرکت میں بایاں پیر کاٹا جائے گا اور پانچویں مرتبہ اگر اس سرکش سے اس طرح کی حرکت صادر ہوئی تو اس کی دم کو جڑ سے کاٹ دیا جائے گا۔

            یورپ میں جانوروں کا مقدمہ عدالت کی طرح سے دعوے پر قائم ہوتا تھا، پھر مجرم کی طرف سے ایڈووکیٹ دفاع کرتے ، اور عدالت جانور کو احتیاطاً حراست میں رکھے رہتی پھر جج حکم صادر کرتا اور یہ حکم عوام کی موجودگی میں نافذ ہوتا جس طرح انسانوں کے بارے میں فرمان جاری ہوتے ہیں، اور کبھی جانور کو سنگسار کرکے ختم کرنے کا فرمان جاری ہوتا اور کبھی سر قلم کرنے کااور کبھی بعض اعضاء کو کاٹنے کا ۔یہ فیصلہ صرف تفریح طبع کے لیے نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ قطعی اور حتمی ہوتا۔ اور دلیل کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا۔ جادو کی مرتکب بلیوں کو آگ میں جلانے کی سزا دی جاتی تھی ۔بڑے لطف کی بات یہ ہے کہ اس موقع پر ایک عظیم الشان تقریب منعقد کی جاتی اور ایک بڑے مجمع کے سامنے حکم صادر کیا جاتا۔ جلاد لکڑی کے ایک گٹھر کے ساتھ آتا اور اسے وہ ایک میدان کے بیچوں بیچ رکھ دیتا اور وہ بلیاں حاضرکی جاتیں جن کے ذریعے جادوکیا گیاہو۔ ہر بلی لوہے کے ایک مضبوط پنجرے میں ہوتی اور جب حکم جاری کرنے کا وقت قریب ہوتا، اس وقت بعض پادری آتے اور ان کے ساتھ بعض سرکاری افسران بھی ہوتے چنانچہ ان میں سے ایک آگے بڑھتا اس کے دونوں ہاتھوں میں آگ کا انگارہ ہوتا لکڑی کو سلگانے کے لیے پھر ایک افسر بلیوں کو آگ میں ڈالنے کا حکم جاری کرتا ہے یہاں تک کہ ساری بلیاں خاکستر ہو جائیں۔