مکاتیب

مصنف : محمد عبداللہ بخاری

سلسلہ : آرا و تاثرات

شمارہ : اپریل 2006

مدیر مکرم ! السلام علیکم

             امید ہے مزاج گرامی بخیر ہونگے ۔ ماشا ء اللہ سوئے حرم ظاہری و معنوی اعتبار سے منازل ترقی تیزی سے طے کرتا جا رہا ہے ۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ سوئے حرم جو کہ اصلاً ایک مشن اور تحریک ہے ہمیشہ جاوداں اور کامراں رہے ۔ ماہ فروری کے پرچہ میں محترم پرویز ہاشمی صاحب کا انٹرویو پڑھ کر ان کی علمی پیاس اور جستجو و لگن نے بے حدمتاثر کیا۔ بالخصوص حیات اخروی کے حوالے سے ان کی تڑپ اور سمجھنے کے بعد اسے سمجھانے کا منفرد اسلوب بہت اچھا لگا۔

            جناب جاوید غامدی کے ساتھ ان کی پندرہ سالہ علمی وابستگی کے باوجود ان کے بار ے میں ان کا انداز گفتگو صحت فکرو علم کا منہ بولتا ثبوت ہے اور جہاں تک جاوید صاحب کا تعلق ہے ان کی نیت کے اوپر بھی اعتبار کیا جاسکتا ہے اور ان کے علم کے اوپر بھی مگر ‘‘ آنکھیں نہیں بند کی جا سکتیں آنکھیں کھول کر مانیں گے جو مانیں گے ’’ نیز ‘‘ اگر غامدی صاحب نے اپنے آپ کو ایسے ہی اوپن رکھا ہوا ہے کہ ہر آدمی ان کے اوپر تنقید کر سکے اور یہ بتا سکے کہ کہاں کیا غلطی ہوئی ہے تو پھر تو مسئلہ ٹھیک رہے گا ’’ نیز ‘‘ جب دوست یہ بیان کرتے ہیں کہ جی بس جاوید صاحب کی رائے ہے تو میں ان سے کہتا ہوں کہ تمہارے پاس اس کے کیا دلائل ہیں ؟ صرف جاوید صاحب کے نام سے مان لیا ہے یا دلائل بھی ہیں لیکن سچی بات ہے کہ اکثر دوست صرف نام ہی سے مان لیتے ہیں ،دلائل سے محروم ہوتے ہیں ’’ نیز ‘‘ اگر کوئی صاحب علم پیدا ہو گیا ہے تو اس کے اردگرد جو بھی شخص موجود ہوں ، آپ ہوں ، میں ہوں ، ہماری ڈیوٹی بن جاتی ہے کہ ہم ایسا رویہ رکھیں کہ جس میں اس شخص کو تھوڑا سا اندیشہ ہو کہ مجھ پر تنقید بھی ہو گی ۔ آنکھیں کھلی رکھنا انتہائی ضروری ہے ورنہ معاملات بگڑ جاتے ہیں ۔’’

            بلاشبہ اپنے ممدوح کے بار ے میں ایسا طرز فکر اور انداز بیان ہارے ہاں ناپید ہے اور بلاشبہ جناب پرویز ہاشمی ہمارے جیسے جامد تقلیدی معاشر ے میں روشنی کی کرن ہیں ۔ لیکن جناب ہاشمی کے ہاتھ سے دامن توازن و عدل اس مقام پر چھوٹتا دکھائی دیتا ہے جہاں انہوں نے اپنے علمی سفر کے ابتدائی مرحلے میں جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے بارے میں اپنی رائے پیش کی ہے ۔

             ڈاکٹرصاحب کی فکر اور آرا سے اتفاق بھی کیا جاسکتا ہے اور اختلاف بھی لیکن دونوں میں دلائل ہی کو بنیاد ہونا چاہیے چونکہ علمی رویہ اسی کا نام ہے کہ دلیل کے ساتھ اپنی بات کو شائستگی اور وقار سے بیان کر کے سامع و قاری کو آزاد چھوڑ دیا جائے ۔ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں جناب ہاشمی کے یہ الفاظ کسی طرح بھی ان کے مجموعی طرز عمل سے میل نہیں کھاتے : ‘‘…… جو آدمی دین کے حوالے سے فراڈ کر سکتا ہے اس سے آپ کیا ہدایت لیں گے ’’ نیز یہ الفاظ تو حدود علمی سے باہر نکلنے کے مترادف ہیں فرماتے ہیں ‘‘ جہاں تک ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا تعلق ہے ان کی نہ نیت پر اعتبار کیا جاسکتا ہے نہ ہی ان کے علم پر……’’

            جناب پرویز ہاشمی جیسے طالبعلمانہ سوچ رکھنے والے صاحب فکر سے یہ بات کیسے اوجھل ہو گئی کہ نیت کی جانچ کا محل و مقام دنیا نہیں بلکہ عالم آخرت ہے نیز یہ فرد کا دائرہ اختیار نہیں بلکہ اللہ تعالی کا ہے جو کہ علیم بذات الصدور ہے ۔ فرد کے دائرہ عمل کی ابتدا بھی واضح دلائل سے ہوتی ہے اور اس کی انتہا بھی دلائل ہی پر ہوتی ہے ۔ ظن و گمان اور نیت کی ٹوہ کا واسطہ علمی مزاج سے کبھی بھی نہیں رہا ۔ میری ناچیز رائے میں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور ڈاکٹر اسرار صاحب کے بارے میں جناب ہاشمی صاحب کے غیر متوازن الفاظ سوچی سمجھی رائے نہیں ہو گی بلکہ گفتگو کی رو میں غیر محتاط ہو جانے کا اتفاقی نتیجہ معلوم ہوگا ۔ چونکہ بحیثیت مجموعی جناب ہاشمی کا جو Image سامنے آیا ہے اسطرح کے اجنبی انداز کا جوڑ اس سے بظاہر لگایا نہیں جاسکتا ۔ اللہ کریم ان کے اس سہو کو معاف فرمائے اور آخرت کے بار ے میں ان کی سنجیدگی اور حساسیت میں مزید پختگی اور دوام عطا فرمائے۔

            اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہر مسلمان کو ایسا صحت مند اور متوازن طرز فکر اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ جس اہل علم کوبھی اپنا علمی رہنما مانے ،دلیل کی بنیاد پر آنکھیں کھول کر مانے نہ کہ عقیدت میں گم ہو کر دلیل و عدم دلیل کی پہچان بھول جائے ۔نیز اپنے ممدوح کے علاوہ دیگر اہل علم کے مقام و مرتبہ کا احترام اس کے مزاج کا جزو ِلازم ہو ۔ ان کی رائے کی غلطی بیان کرتے ہوئے اپنی کم مائیگی اور ان کے تفوق ِعلم کا اظہار اس کا وصف بن جائے ۔ چونکہ یہی طرز عمل ہمارے جلیل القدر اسلاف کا ورثہ اور پہچان ہے ۔

            برداشت کا یہی رویہ سوئے حرم کا پیغام بھی ہے اور انشا ء اللہ سوئے حرم کا ہر قاری اس شمع علم ومحبت کی لو کو تیز کرنے کا باعث بنتا رہے گا ۔

 والسلام

 طالب دعا ،محمد عارف حسین ۔ ماڈل ٹاؤن ھمک اسلام آباد

 

برادر عزیز محمد صدیق بخاری صاحب! السلام علیکم

             اللہ کا احسان ہے بخیریت ہوں امید ہے آپ بھی خیریت سے ہونگے ۔ فروری کے رسالے میں آپ کی آواز دوست متاثر کن رہی ۔ دیگر مضامین بھی اپنی اپنی جگہ خو ب ہیں البتہ ایک تو امام ابن تیمیہ کے بار ے ڈرامہ اپنے سولہ منظروں میں کوئی معقول بات واضح نہ کرسکا ۔ وہ کون سی بدعات تھیں جنہیں ابن تیمیہ وقت کے سلطان کی خواہش کے باوجود ختم نہیں کرا سکے یہاں تک کہ خود ختم ہو گئے اور اس بے مصرف تگ و دو میں رسالے کے بارہ صفحات ضائع ہو گئے جبکہ یہاں کم از کم چھ اکابرین کے بارے ضروری معلومات فراہم کی جا سکتی تھیں ۔ دوسرے پرویز ہاشمی صاحب کا علمی و دینی سفر …… جہاں ودیعت شدہ خیر وشر کے انسانی شعور کو اجاگر کرنے کی ضرورت اور Common sense کی اہمیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے وہاں کچھ محترم شخصیات پر منہ پھٹ قسم کا تبصرہ ( جو سوئے حرم کی پالیسی سے بھی مطابقت نہیں رکھتا ) بہت گراں گزرا ۔ سوئے حرم جیسے رسالوں کا بنیادی مقصد تبلیغ واصلاح ہے ۔ اس قسم کی تحریروں سے قابل اصلاح لوگوں سے تعلق منقطع ہو جانے کا خدشہ ہے۔

 والسلام

 اطہر عزیز