عورت کی قربانی؟

مصنف : رانا محمد ارشد وڈالوی

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : اپریل 2006

            سا ل 2005 خواتین پر تشدد کے حوالے سے کوئی اچھی یادیں چھوڑ کر نہیں گیا ۔ اس سال بھی ہزاروں خواتین ونی ، سورہ ، کاروکاری ،غیرت کے نام پر قتل اور قرآن سے شادی کے نام پر قربان ہوگئیں ۔ اس سال صرف جنوبی پنجاب میں 137 خواتین کو قتل ، 361 کو جبری اغوا کیا گیااور 200 خواتین پر بری طرح تشدد کیا گیا ۔ دو درجن سے زائد خواتین کو نام نہاد پنچایت کے حکم پر بھائیوں کے گناہ کی پاداش میں اجتماعی جنسی تشدد ( گینگ ریپ ) کا نشانہ بنا گیا ۔ 201 خواتین نے حالات سے تنگ آکر خود کشی کر لی ۔ 52 کمسن بچیوں کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا ۔ 17 خواتین پر تیزاب پھینکنے کی وارداتیں ہوئیں ۔ جنوبی پنجاب کے علاقہ میلسی میں ‘‘ جلہ جیم ’’ کے مقام پر شوہر نے بیوی کو ستون سے باندھ کر کلہاڑی سے اس کی ایک ٹانگ کاٹ دی جبکہ دوسرے واقعے میں شوہر نے بیوی کی زبان کاٹ دی ۔ یہ اعدادوشمار جنوبی پنجاب کے محدود علاقہ کے ہیں ۔ اسی سال صوبہ سندھ کے وسطی علاقہ میں 300 خواتین کو اور خانپورہ میں تو پہلی رات کی دلہن کو کاروکاری کا الزام لگا کر قتل کر دیا گیا ۔ پنجاب کے علاقہ میانوالی او رگرد و نواح میں ونی کی رسم صدیوں سے جاری ہے ۔ جس کا نشانہ بھی عورت کو بنایا جاتا ہے ۔ صوبہ سرحد میں ‘‘سورہ’’ اور وسطی پنجاب میں وٹہ اور بازو کی واپسی جیسی فرسودہ اور نفرت انگیز رسومات کا شکار بھی بیچاری عورت ہے ۔ سندھ اور جنوبی پنجاب کے جاگیردار گھرانوں میں اپنی بیٹیوں یا بہنوں کی شادی قرآن سے کرنے کا ڈھونگ رچا کر خواتین کو نہ صرف یہ کہ ان کی موروثی جائیداد سے محروم رکھا جاتا ہے بلکہ ان کی زندگی زندہ قبر بنا دی جاتی ہے۔

             اخبارات کی وساطت سے ان میں سے بعض باتیں ہم تک پہنچتی ہیں تو اکثر ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کیا ہے ۔؟چنانچہ ان سطور کا مقصد ان وحشیانہ اور فرسودہ رسوم کا تعارف کرواناہی ہے۔

(1) ونی :

             ونی ایک تکلیف دہ رسم ہے جس سے مراد کسی ایک فریق کی جانب سے دوسرے فریق کے ساتھ کی گئی زیادتی ہے ۔ خواہ جسمانی ضرر پہنچانے کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں۔ اس زیادتی کے ازالہ کے طور پر ذمہ دار فریق کی طرف سے متاثرہ فریق کو ایک یا ایک سے زائد عورتوں کو ہمیشہ کے لیے ان کے حوالے کرنا پڑتا ہے جبکہ کسی بھی نقصان کی ذمہ دارونی شدہ عورت نہیں ہوتی بلکہ عورت کے خاندان کے مرد ہوتے ہیں ۔ جن کو عموماً فوجداری کارروائی ، سزائے قید اور سزائے موت وغیرہ سے بچانے کے لیے عورت یا عورتوں کو مدعی فریق کے حوالہ کر دیا جاتا ہے ۔ اس میں عورت کی عمر کی کوئی حد نہیں ہوتی ۔ اس میں دودھ پیتی بچی سے لیکر شادی شدہ عورت تک شامل ہو سکتی ہے ۔ بعض واقعات میں شادی شدہ عورتیں بھی ایک مخصوص مدت کے لیے ‘‘ ونی ’’ کی گئی ہیں ۔ ان تمام واقعات میں تمام فیصلے مرد کرتے ہیں عورت کا فرض محض ان فیصلوں کی تعمیل ہوتا ہے ۔ ‘‘ ونی’’ شدہ عورتیں اپنے باپ یا بھائی کو سزا سے بچانے کے لیے چپ چاپ اپنی ساری زندگی ونی کی صلیب پر گزار دیتی ہیں ۔

            شروع میں ونی کی رسم جوابی قتل کی قطاروں کو روکنے کے لیے بنائی گئی ہو گی ۔ قتل کے جواب میں رشتہ دے کر رشتہ جوڑنے کا جواز پیدا کیا جاتا تھا ۔ بیٹی یا بہن کا رشتہ دے کر دشمنی کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہو گا ۔ لیکن آجکل کے حالات میں خواتین کا ونی کرنا انہیں زندہ درگور کرنا ہے ۔ بعض اوقات معاشرہ کے ڈر سے ونی شدہ خواتین کے نکاح کا راستہ بھی اختیار کیا جاتا ہے ۔ لیکن نکاح کے باوجود ونی شدہ عورت کی حیثیت ایک کنیز یا لونڈی سے زیادہ نہیں ہوتی ونی شدہ عورت جس کے حوالے کی جاتی ہے وہ عورت کے کسی حق حتی کہ انسان ہونے کو بھی تسلیم نہیں کرتا ۔ دشمنی کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں عورت کو نام نہاد دلہن بناکر انتقام کی آگ سے لبریز صحن اور زہر اگلتے گھر میں بھیج دیا جاتا ہے لیکن نکاحی خاتون کا درجہ کبھی نہیں ملتا ۔ باپ یا بھائیوں کی جان پر قربان ہونے والی عورت دن بھر اپنے سسرالی خواتین کے طعنے ، نفرت انگیز نگاہیں اور طنزیہ جملے سن کر بھی جہاں اپنی ساس اور نندوں کے پاؤں دوپہر کو دباتی ہے وہاں رات کو مقتول خاندان کے مردوں کی ہوس کا نشانہ بھی بنتی ہے ۔ پھر یہ بھی مقام حیرت ہے کہ دشمن سسرالی خاندان کی عورتیں اس انتقامی کاروائی میں پیش پیش ہوتی ہیں اورایک عورت کو ذلیل کروا کر بہت خوش ہوتی ہیں ۔

            سرحد کے پہاڑی علاقوں میں سورہ ، سندھ اور پنجاب کے سرائیکی علاقہ میں ونی اور وسطی پنجاب میں وٹہ اور بازو عورت کے لین دین کی ایک جیسی قسمیں ہیں ۔

(2) کاروکاری :

             صوبہ سندھ کے اکثر علاقوں میں خواتین کو اکثر واقعات میں ‘‘کاروکاری’’ کا مجرم قرار دیکر قتل کر دیا جاتا ہے ۔ رسم کاروکاری دراصل بدکار عورتوں کو سزا دینے کا جواز پیدا کرنے کے لیے بنائی گئی ہو گی تاکہ معاشرے میں بدکاری کو روکا جا سکے ۔ یہ رسم بھی اسلامی تعلیم کے بالکل منافی ہے ۔اسلامی معاشرے میں سزادینے کا اختیارصرف اورصرف عدالتوں کو ہے اور وہ بھی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بعد ۔ کس فرد ، خاندان یا گروپ کو یہ اختیار کبھی حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ کاروکاری کی قبیح رسم کو ہمارے یہاں ایک قسم کا قانونی تحفظ بھی حاصل ہے ۔ عام طور پر قتل کے جرم میں قاتل کو سزائے موت کا مستحق سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن غیرت کے نام پر کیے گئے قتل کے مجرم کو دو تین سال سزا دیکر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ ان حالات جہاں بیٹی یا بہن کو جائیداد سے محروم کرنا مقصود ہوتا ہے یا کسی دشمن سے بدلہ لینا مطلوب ہوتا ہے وہاں ایسا بھی ہوتا ہے کہ قاتل اپنے دشمن کو کسی طرح قتل کر کے اس کی لاش کو اپنے گھر لا کر اپنی بے گناہ بہن ، بیٹی ، ماں یا بیوی جو بھی اس موقعہ پر آجائے اسکو قتل کر کے کہتا ہے کہ ناجائز تعلقات کی بنا پر مقتول او راپنی خواتین کو قتل کیا ہے۔ اس طرح وہ اپنے دشمن کو بھی قتل کر دیتا ہے اور غیرت کے نام پر قانون سے بھی رعایت حاصل کر لیتا ہے۔ بعض اوقات اس کے برعکس اپنی بہن یا بیٹی جو قرآن سے شادی پر رضا مند نہیں ہوتی اس پر کاروکاری کا الزام لگا کر اس کو اورکسی بے گناہ غریب مرد کو قتل کر کے اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے ۔

(3) قرآن سے شادی :

             اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے جاگیردار گھرانوں میں زرعی زمین کی تقسیم کو روکنے کے لیے اپنی خواتین کو قرآن سے شادی کی ترغیب دی جاتی ہے یا پھر جبری طور پر ان کی شادی قرآن سے کر دی جاتی ہے ۔ یہ رسم زمانہ جاہلیت کی ایک نادر مثال ہے ۔ اس طرح ایک طرف تو ان گھرانوں کی خواتین کی زندگی میں کسی مرد کا عمل دخل نہیں ہو سکتااوردوسری طرف ان کی زرعی زمین کسی غیر گھرانے میں منتقلی سے محفوظ رہتی ہے ۔

 (4) سورہ :

             افغانستان اور پاکستان کے سرحدی صوبہ میں ایک معقول رقم کے عوض لڑکی کا نکاح عمر کا حساب رکھے بغیر کر دیا جاتا ہے ۔ یہ بے جوڑ شادی عورت کی زندگی میں تلخیاں بھر دیتی ہے ۔ اس رسم کے وجود پر صوبہ سرحد میں اپنے قیام کے دوران راقم نے جب اعتراض کیا تو پڑھے لکھے چند احباب نے بھی اس رسم کا عجیب و غریب جواز پیدا کیا ۔ ان کے کہنے کے مطابق پنجاب میں لڑکی کی پیدائش پر افسوس اور غم کا اظہار کیا جاتا ہے ، لڑکی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے ۔ پنجابی مسلمانوں کو ہندو کی اتباع میں اپنی طاقت سے بڑھ کر جہیز دینے کے باوجود طلاق کا دھڑکا لگا رہتا ہے جبکہ صوبہ سرحد میں طلاق کے اعداد و شمار نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ جبکہ پنجاب میں لڑکے والے جہیز لینے کے باوجود ذرا ذرا سی بات پر طلاق کی دھمکی دیتے ہیں لیکن صوبہ سرحد میں دلہن کے لیے اس کے والدین کو اچھی خاصی رقم ادا کرنا پڑتی ہے ۔ لہذ۱ جہاں وہ طلاق کا لفظ کہنا اور سننا بھی پسند نہیں کرتے وہاں اگر بیوی بیمار پڑ جائے تو اس کے علاج معالجہ کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ۔ چونکہ بیوی کی وفات کے بعد نہ تو ان کے پاس اتنی رقم ہو گی اور نہ ہی وہ نئی شادی کا اہتمام کر سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبہ سرحد میں دوسری بیوی کا تصور بھی بہت کم ہے ۔ لیکن سورہ میں ایک بہت بڑی برائی بھی ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے تو اس کو نہ چاہنے کے باوجود اپنے شوہر کے بڑے یا چھوٹے بھائی سے شادی کرنا ہوتی ہے ۔ چونکہ اس کی قیمت ادا کی جا چکی ہوتی ہے ۔ یہ قباحت عورت کے حقوق کے منافی ہے ۔

(5) وٹہ اور بازو کی واپسی :

             وسطی پنجاب اور پرانے جانگلی علاقہ میں ابھی تک وٹہ کی رسم اپنی تمام تر برائیوں کے ساتھ موجود ہے ۔ اس رسم میں یک طرفہ شادی کا تصور مفقود ہے ۔ایک عورت کی شادی اس کے بھائی کی شادی کے عوض کی جاتی ہے ۔ جس میں بعض اوقات چھوٹی بچیوں کی شادی بوڑھے آدمی کے ساتھ یا پھر جوان عورت کی شادی بچے کے ساتھ کر دی جاتی ہے ، جو کئی قباحتوں کو جنم دیتی ہے ۔ علاوہ ازیں اگر ایک جوڑے کے درمیان اختلافات پیدا ہو کر علیحدگی تک نوبت پہنچ جائے تو دوسرے جوڑے کو خوامخواہ علیحدگی اختیار کرناہوتی ہے ۔ اس طرح ناکردہ گناہ کی سزا دوسری عورت او راس کے بچوں کو بھگتنا ہوتی ہے ۔ دوسری عورت کی واپسی کو بازو کی واپسی سے موسوم کیا جاتا ہے ۔

            اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب پاکستانی عورت کا مقدر ہے ؟

            اگر ایسا نہیں ہے تو ہم کیوں عورتوں کو پامال کر رہے ہیں ۔ زنا یا حدود کے قصوں میں بھی عورت کو ہی تختہ مشق بننا پڑتا ہے ۔ معاشرتی عذاب بھی عورتوں کے لیے ہے ۔ مطلقہ عورت کی دوسری شادی مصیبت بن جاتی ہے۔ بیٹی کی شادی بھی مسئلہ ہوتی ہے بے گناہ عورت پر اگر کوئی تہمت لگا دے تو اس کی ساری زندگی اجیرن ہو کر رہ جاتی ہے ۔ مغربی ممالک کی تیار کردہ این جی اوز ان جرائم کا تعلق مذہب سے جوڑتی ہیں ۔ مظلوم عورتوں پر ظلم کے واقعات کو میڈیا کے ذریعے اچھال کر جہاں وہ مغربی ممالک سے رقم بٹورتی ہیں ۔ وہاں وہ اسلام اور ملک وقوم کے لیے بھی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں ۔ پاکستان کی مختار مائی کو مختار مائیوں کے دیس میں بلوا کر پاکستان کو نشانہ تضحیک بنایاجاتا ہے

            یورپ اور مغربی ممالک بنیادی انسانی حقوق کا بہت شور مچاتے ہیں ۔ اور بنیادی انسانی حقوق کو اپنے مخالفین اور بالخصوص اسلامی ممالک کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر کے مذہب اسلام سے متنفر کیا جاتا ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اہل مغرب نے عورتوں کے حقوق کی آڑ میں عورت کو منڈی کی چیز بنا دیا ہے ۔ عورت کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ عورت کو آزادی نسواں کے نام پر گمراہ کر کے اس کی عزت و عصمت کو بازار میں برائے فروخت رکھ دیا ہے ۔ جبکہ اسلام نے عورت کو بلند ترین مقام عطا کیا ہے ۔ اسلام وہ واحد دین ہے جو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے ۔ اسلام نے عورت کو وراثت میں بھی حصہ دار بنایا ہے جبکہ کسی اور مذہب میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ انسان تو انسان اسلام تو کسی جانور پر ظلم برداشت نہیں کرتا ۔ اسلام نے تو جنت بھی عورت یعنی ماں کے قدموں میں رکھ دی ہے ۔

            اللہ رب العزت نے عورت کو خاندانی نظام میں ایک مرکزی اور معاشرہ میں ایک کلیدی حیثیت عطا فرمائی ہے ۔ عورت اور مرد کے دائرہ کار اور حقوق و فرائض متعین کیے ہیں ۔ او رنکاح جیسے مقدس رشتہ پر اسلامی معاشرہ کی بنیاد رکھی ہے ۔ اس رشتہ کو اللہ نے ایک بہت مختصر اور جامع آیت میں بیان کر کے اس میں سمندر جیسی وسعت عطا کر دی ہے ۔ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لبا س ہو (البقرۃ) لباس انسان کو عزت بخشنے والا او رجسمانی عیوب کو ڈھانپنے والا اور زینت بخشنے والا ہوتاہے ۔ یہ خالق حقیقی کا کمال ہے کہ اس نے اتنی فصاحت و بلاغت کے ساتھ اس رشتہ کے تقدس کو بیان فرمایا ہے ۔ او رپھر اس رشتہ کو قائم رکھنے کے لیے کئی اصول و ضوابط اور قوانین عطا فرمائے تاکہ انسان خاص کر عورت کے حقوق کا اہتمام ہو سکے ۔ لہذا تمام تر کوشش کے باوجود مغربی ممالک او ران کی تیار کردہ این جی اوز اپنے مذموم ارادہ میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ وہ نوجوان نسل کو مذہب اسلام سے برگشتہ کر سکیں۔

            معاشرہ میں سدھار کے لیے ضروری ہے کہ جہاں پارلیمنٹ تحفظ حقوق نسواں کے لیے قوانین بنائے اور اس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد بھی کروائے ۔ وہیں عورتوں میں خصوصا اور معاشرے میں عموما تعلیم کو عام کیا جائے۔تاکہ خواتین پڑھ لکھ کر اپنے حقوق کو جان سکیں اور ان کی حفاظت بھی کر سکیں ۔ اس طرح آئندہ آنے والی نسلیں نکھرتی اور سنورتی چلی جائیں گی اور معاشرہ میں آئے روز ہونے والے بے رحم اور ظالمانہ واقعات کا تدارک بھی ہو سکے گا ۔