عرفان ایم صدیقی

مصنف : عرفان احمد صدیقی

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : اپریل 2006

ترجمہ ، ابو العین

            مجرموں کی ایک بالکل مختصر سی تعداد جیلوں میں رہتی ہے۔ عیار ، ماہر اور طاقتور مجرم بڑی تعداد میں آزاد دندناتے پھرتے ہیں۔ دھوکہ دہی، حقائق مسخ کرنا، حیلہ بازی، غیر قانونی کاروبار اور اعتماد سازی کے ذریعے نقصان پہنچانا سفید کالر جرائم کی چند شکلیں ہیں۔ یہ جرم دن کی روشنی میں ہوتے ہیں۔ تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد ان جرائم کا ارتکاب کرتے پائے جاتے ہیں۔ زیادہ تر بڑے طبقات میں یہ جرائم زیادہ ہیں۔ بڑے کاروباری اداروں کے سربراہ، سیاست دان، بیوروکریٹس، وزرا، کاروباری شخصیات، ڈاکٹرز، بینکرز، کھیلوں کے حکام اور خود کھلاڑی ان جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ ماہرین تعلیم اور سائنس دان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔

            1956ء میں دو سائنس دانوں نے امیر ہونے کا ایک فارمولا دریافت کیا۔ ان میں سے ایک اپنے وقت کا ماہر ریاضیات کلاڈشنین تھا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اپنے عہد کا سب سے بہترین ماہر ریاضیات تھا۔ اس کی ذہانت کو آئن سٹائن کی ذہانت کے ہم پلہ تسلیم کیا جاتا تھا ۔ دوسرا سائنس دان ٹیکساس کا ماہرِ طبیعات جان ایل کیلی جونئیر تھا۔ انہوں نے امیر ہونے کا ایک ایسا طریقہ ایجاد کیاجس کے ذریعہ انہوں نے لاس ویگاس کے شراب خانوں کے بارے میں منصوبہ بندی کی۔ ان کا نشانہ ان شراب خانوں میں جوئے کا میز تھا۔ ان کا فارمولا بہت کامیاب رہا ۔ ان سائنس دانوں کو جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ وہ اپنی اس کامیابی کو سٹاک مارکیٹ میں بھی کیش کرا سکتے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ میں بیک وقت فروخت کے عمل میں انہوں نے واضح کامیابی کو حقیقت بنتے دیکھا۔ وہ مختلف مارکیٹوں سے مختلف اشیا کے بارے میں خریدوفروخت کے مذاکرات کرتے۔ ان میں سے گلاڈ شنین اس قدر امیر ہوگیا کہ اس نے سائنس کی دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔ سفید کالر جرائم ہر معاشرے اور ہر طبقے میں ہیں تاہم ان کی نوعیت اور شدت ہر جگہ مختلف ہے۔

            جس طرح کسی اچھائی کی کوئی حدمتعین نہیں کی جاسکتی، اسی طرح سے جرم کی بھی کوئی حد نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ہر طرح کے سفید کالر جرائم پر سزا دی جاسکتی ہے۔ عدالت ہر جرم کو قابل سزا قرار نہیں دے سکتی۔ ان میں سے بہت سے جرائم کا تعلق معاشرے کے اخلاقی اور معاشرتی رویوں اور رواج سے ہوتاہے۔ جرائم کے بارے میں مختلف معاشروں کا رد عمل بھی یکساں نہیں ہوتا۔ بعض معاشرے منشیات کی نقل و حرکت اور ان کے استعمال کو جرم قرار نہیں دیتے اور اسے برداشت کرتے ہیں لیکن ساری دنیا ایسا نہیں کرتی۔ پاکستان سفید کالر جرائم کرنے والوں کی جنت سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ایسے مجرموں کو عزت دی جاتی ہے، ان سے نفرت نہیں کی جاتی ، ان کا مذاق نہیں اڑایا جاتا۔ وہ آسانی سے انتخابات جیت جاتے ہیں۔ وہ بیوروکریٹ کی حیثیت سے آسانی سے ترقی حاصل کر لیتے ہیں۔ ان کو حکومتیں اعلیٰ عہدوں پر لگاتی ہیں اور وہ کبھی سربراہ ریاست بھی بن جاتے ہیں۔

            ہمارے معاشرے کے تقریباً ہر طبقے، ہرکلاس اورہر گروہ میں ان سفید کالر مجرموں کی بڑی تعداد مل جاتی ہے۔ یہ روزانہ طاقت پاتے ہیں ۔ ماہرنفسیات معالج حمیر ہاشمی ایسے مجرموں کی شخصیت اور فطرت پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ مجرم ہر وقت سر گرم رہتے ہیں۔ ان کو خطرے میں لطف آتا ہے وہ ذاتی ضروریات کے لیے جرم نہیں کرتے۔ ان مجرموں کو نفسیات کی زبان میں سنسنی کے متلاشی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک نارمل امر نہیں ہے اور اسے سائنسی طور پر بھی پرکھا جاسکتا ہے۔ یہ دراصل کامیابیوں اور فتوحات کے عادی لوگ ہوتے ہیں اور یہ بہت بڑے خطرے بھی مول لینے سے ہر گز نہیں چوکتے۔ عام آدمی ایسا قدم اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا جیسے قدم یہ اٹھا لیتے ہیں۔یہ جرأت کے ساتھ جوا کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کلینکل سائیکالوجی میں اس رحجان کو ایک مخصوص نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایک طرح کی اعصابی بے قاعدگی ہے۔ ایسے لوگ خارجی تحریک پر زبردست رد عمل دیتے ہیں۔ اپنی غیر معمولی جرأت کی وجہ سے ہی یہ لوگ انتہائی غیر اخلاقی اور غیر قانونی کام بہت آسانی سے کر گزرتے ہیں۔ حمیر ہاشمی نے مزید کہا کہ پاکستان میں ایسے جرائم پیشہ افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ انہیں برداشت کر جاتا ہے۔ یہ جرائم پیشہ افراد اعلیٰ معاشرتی حلقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا باہمی نیٹ ورک بہت گہرا ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں ان جرائم کی شرح ہمارے ہاں کی شرح سے بہت کم ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان معاشروں میں ایسے افراد کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ ایسے نفسیاتی لوگ یقین رکھتے ہیں کہ دو اور دو ہمیشہ پانچ ہوتے ہیں اور وہ اس پر ہمیشہ زور دیتے ہیں۔ ایک نارمل آدمی سمجھتا ہے کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں اور وہ اس کے بارے میں شدید فکرمند بھی رہتا ہے۔

            سفید کالر کی اصطلاح در اصل ایسے وکلا کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو سفید کالر اور سیاہ کوٹ پہنتے ہیں۔ آج کل یہ اصطلاح مینول ورکرز کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ جب ایسے لوگ انتہائی ذہانت سے کسی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں تو انہیں سفید کالر مجرم کہا جاتا ہے۔ تقریباً ہر شعبہ ہائے زندگی کے افراد ان میں شامل ہوتے ہیں۔

            سیاست دانوں کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ سفید کالر مجرموں میں ان کا اولین نمبر آتا ہے۔ وہ شہری زندگی میں سب سے زیادہ غلبے والی شخصیات ہوتے ہیں۔ وہ جرم کرتے ہیں اور سزا نہیں پاتے اور یہ ہی ان کی وجہ شہرت یا بدنامی کہلاتی ہے۔ ایک امریکی اصطلاح ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ میری ماں کو کبھی مت بتانا کہ میں ایک سیاست دان ہوں اسے یہ ہی علم ہے کہ میں ایک قحبہ خانے میں پیانو بجاتا ہوں۔ لاس اینجلس میں ایک پریس کانفرنس میں ایک مرتبہ رونالڈو ریگن نے کہا تھا کہ سیاست کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہ دوسرا قدیم ترین پیشہ ہے۔ میں اب یہ سمجھتا ہوں کہ یہ پہلے پیشے کے بہت قریب ترین ہے۔ جرمن سیاست دان لڈوِگ ارحاد کا کہنا ہے کہ سیاست ایک فن ہے جس میں ہر کوئی سمجھتا ہے کہ کاٹے گئے کیک کا سب سے بڑا حصہ اسے ہی ملا ہے۔ بہت سے سیاست دان انتخابی وعدوں کو فراموش کردیتے ہیں۔

            ہمارے معاشرے میں عجیب چکر ہوا ہے۔ ایک غلط کام دوسرے غلط کام کی وجہ بن جاتا ہے۔ ہمارے کاروباری طبقے اور صنعتی حلقے کی بڑی تعداد پر الزام ہے کہ وہ ٹیکس چور ہیں۔ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کو رشوت ستانی کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ دونوں اطراف کے افراد سفید کالر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ بہت سے صنعت کار حکومت کو ٹیکس نہیں دیتے۔ ان میں سے بہت سے اپنی فیکٹریوں سے تیار شدہ مال کی تعداد چھپاتے ہیں۔ وہ اپنے سالانہ بجٹ میں لاکھوں کی بچت کرتے ہیں اور قومی خزانے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ بہت سے دیگر طریقوں سے بھی یہ لوگ جرم کرتے ہیں اور عام طور پر ان پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا جاتا۔ یہ کام گہری تحقیقات سے ہی سامنے آتے ہیں۔

            پاکستان میں ایک ملٹی نیشنل سکیم، ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے 2002ء میں متعارف کرائی تا کہ وہ شیونگ کے سامان کی فروخت میں اضافہ کرے۔ انہوں نے پبلک مقامات پر بڑے بڑے ڈبے رکھ دیے۔ انہوں نے اپنے گاہکوں کو ترغیب دی کہ وہ ان کی مصنوعات خریدیں اور ورلڈ فٹ بال کپ کے لیے ٹکٹ حاصل کریں۔ عام گاہکوں سے کہا گیا کہ وہ مصنوعات کے ڈبے پھاڑیں اور اس کے اند دیے گئے کوپن میں نام و پتہ تحریر کریں اور ان کو ان ڈبوں میں ڈال دیں جو مختلف مقامات پر رکھے گئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ڈبے اب بھی کئی مقامات پر موجود ہیں اور ان کو کبھی نام نہاد قرعہ اندازی میں استعمال نہیں کیا گیا۔ جعلی انعامی سکیمیں اور انعامات کا چلن اب عام ہوگیا ہے۔ محض گنی چنی کمپنیاں اپنے وعدوں کے مطابق قرعہ اندازی کرتی ہیں۔ اب یہ اعتماد کے خلاف عمل ہے اور قابل دست اندازی پولیس ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں اسے کوئی جرم سمجھا ہی نہیں جاتا۔چند انشورنس کمپنیاں ہیں جو کبھی کبھار ہی اپنے وعدے پورے کرتی ہیں۔ ان کے ایجنٹ وعدے کرتے ہیں اور ان کی ذہنی سطح عام آدمی کی ذہنی سطح سے کافی بلند ہوتی ہے۔

            ڈاکٹروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مسیحا ہیں۔ ان کا تعلق معاشرے کے متوسط یا اعلیٰ طبقے سے ہوتا ہے۔ یہ بھی سفید کالر جرائم کرتے ہیں۔

            لیکن ہمارے معاشرے میں یہ کبھی پکڑے نہیں جاتے۔ بلاوجہ سرجری کردینا ہمارے ہاں عام سی بات ہے۔فاطمہ کی عمر 13برس ہے۔ اس کی ماں کہتی ہے کہ اسے معمولی سا درد محسوس ہوا۔ اسے ڈیفنس کے ایک ہسپتال لے گئی۔ ایمرجنسی روم میں موجود ڈاکٹر نے اسے ایک سرجن کے پاس ریفرکر دیا۔ جس نے فوراً ہی کہہ دیا یہ اپنڈکس کا معاملہ ہے۔ اس کی ماں کو شک گزرا کہ بچی کو جس مقام پر درد ہے وہاں تو اپنڈکس ہوتا ہی نہیں ہے۔ وہ اپنی بچی کو سرکاری ہسپتال لے گئی جہاں اس بچی کو رفع درد کی چند گولیاں دی گئیں اور فارغ کر دیاگیا ۔ غلط آپریشنز ہمارے ہاں رواج بنتے جارہے ہیں۔ یہ سفید کالر جرائم کی خطرناک قسم ہے۔ ہمارے اکثر نجی اور سرکاری ہسپتالوں میں مریض کو دھوکہ دینا اب عام سی بات ہے۔ انتظامی عملہ اور ڈاکٹر ایسے جرم کرتے ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ نرسوں اور ڈاکٹروں کی پرائیویٹ ہسپتالوں میں کوشش رہتی ہے کہ معمولی مرض میں مبتلا مریض کو بھی داخل کر لیا جائے۔ ہنگامی امداد کے سٹاف کو تربیت دی جاتی ہے جس سے وہ مریض کے لواحقین کو خوفزدہ کر دیتے ہیں ۔ زبیدہ بیگم کو یہ سٹاف غلط بلڈ پریشر بتا کر ڈراتا رہا۔ ایک پرائیویٹ ہسپتال کی ایمرجنسی میں اسے بتایاگیا کہ اس کا بلڈ پریشر بہت زیادہ ہے اور اسے فوری علاج اور ٹیسٹ کے لیے داخل کرنا ہوگا۔ اس وقت زبیدہ کے پاس رقم نہیں تھی۔ وہ ایک چھوٹے سے کلینک چلی گئی۔ ڈاکٹر نے چیک کر کے بتایا کہ اس کا بلڈ پریشر بالکل درست ہے۔طبیب اور حکیم بھی ایک طرح کے سفید کالر جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ بہت سے حکیم سٹیرائڈز بے تحاشا استعمال کراتے ہیں تا کہ مریض جلد صحت یاب ہوجائے۔ ان حکیموں کے مطب پر ایسے مریضوں کی لمبی قطاریں دیکھی جاسکتی ہیں جو فوری صحت یابی چاہتے ہیں۔ فزیشن ڈاکٹر بھی مریضوں کو ہائی ڈوز کی دوا دے دیتے ہیں۔ ان انٹی بائیوٹکس سے جلد آرام آجاتا ہے لیکن مریض بہت سی دیگر پیچیدگیوں سے دوچار ہوجاتاہے۔ ڈاکٹر عفت اکرام کا کہنا ہے کہ جدید تحقیقات سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ زیادہ طاقت کی ادویات سے نئی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں جن سے انسانی اعضائے رئیسہ شدید متاثر ہوجاتے ہیں۔

            ہمارے ہاں میڈیکل لیبارٹریوں میں بھی بہت سنگین سفید کالر جرائم ہورہے ہیں۔ وہاں ایسے ٹیسٹ ہورہے ہیں جن کا سامان بھی ان کے پاس نہیں ہوتا۔ایک کوالیفائیڈ پتھالوجسٹ کئی ایک لیبارٹریوں کی رپورٹس پر دستخط کر کے خاصی رقم کما لیتا ہے۔ وہ خود ٹیسٹ نہیں کرتا۔ یہ کام نا تجربہ کار اور نان کوالیفائیڈ لوگ کرتے ہیں وہ صرف دستخط کر کے رقم کماتا ہے۔

            ایک غلط دعویٰ ایک نئے سفید کالر جرم کی بنیاد بنتا ہے ۔ کچھ برس قبل سویڈش کار ‘‘والوو’’ کے بنانے والوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی کار دنیا میں بہترین کار ہے۔ اس کی قوت اور مضبوطی ظاہر کرنے کے لیے ایک فلم بنائی گئی ۔ کار ایک کریش ٹیسٹ سے گزرتی ہے۔ اس کے باوجود اس کا ڈھانچہ اور چھت باکل صحیح سالم رہتی ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ اس ٹیسٹ کے لیے کار میں اضافی سامان لگایا گیا تھا۔ یہ سامان ٹی وی پر دکھایا گیا۔ بعد میں اس کار کی کمپنی کے مالک نے ٹی وی پر آکر معذرت کی۔

            اشتہارات کے ذ ریعے بھی ٹی وی اور اخبارات میں جھوٹے دعوے کیے جاتے ہیں اور یہ کام بہت باقاعدگی سے ہوتا ہے۔ کبھی ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر کسی ٹی وی چینل پر آکر زندگی عطا کردیتا ہے تو کبھی کسی کمپنی کے جوتے پیش کر کے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آپ کا قد چھ انچ بڑھ جائے گا اور وہ بھی دو گھنٹوں میں ۔

            ٹی وی او ر اشتہارات کے ذریعہ سفید کالر جرائم اب عام ہورہے ہیں۔ ان میں سے بہت سی کمپنیوں کا کوئی وجود بھی نہیں ہے۔ وہ اپنے اشتہارات میں محض ایک فون نمبر یا پوسٹ بکس نمبر دے دیتی ہیں۔ اور رقم واپس کرنے کی گارنٹی بھی دیتی ہیں۔ لیکن کبھی اپنا وعدہ پورا نہیں کرتیں۔ بہت سے تعلیمی ادارے بھی اسی طرح کے جرم کرتے ہیں۔ ایک کالج کے اشتہار میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ جاہل آدمی کو صرف تین ہفتوں میں مکمل انگریزی سکھا دیتے ہیں۔ اشتہار بھی اردو میں تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر آپ اردو لکھ اور پڑھ سکتے ہیں تو جارج بش کی طرح انگریزی بھی بول اور لکھ سکتے ہیں اور وہ بھی صرف تین ہفتوں میں۔

            ادویہ ساز اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی عجیب و غریب دعوے کرتی ہیں۔ ادویات کے ایسے اثرات بیان کیے جاتے ہیں جن میں صداقت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ مارکیٹنگ سے پہلے اور بعد میں ایک دوا پر کی گئی تحقیق کے نتائج بہت مختلف تھے۔ بعد کے نتائج مکمل طور پر غلط تھے۔ ان کمپنیوں کا کہنا ہے دوا کی قیمت زیادہ اس لیے ہے کہ موصولہ رقم میں سے ایک بڑا حصہ تحقیق و ترقی پر خرچ ہوتا ہے جب کہ پاکستان میں میڈیسن پر تحقیق نامی کوئی چیز موجود ہی نہیں۔