کیا قیامت میں لوگ اپنی ماؤں کے نام سے پکارے جائیں گے؟

مصنف : علامہ حبیب الرحمن کاندھلوی

سلسلہ : حسن تحقیق

شمارہ : مارچ 2006

            عوام و خواص میں یہ مشہور ہے کہ قیامت کے دن لوگ اپنی ماؤں کے نام سے پکارے جائیں گے۔ یہ ایک ایسا تخیل ہے جس سے نہ عوام خالی ہیں اور نہ خواص ۔یہ کہانی ہمارے علماء و دانشور حضرات برسر منبر بیان کرتے رہتے ہیں بلکہ اسے باقاعدہ ایک روایت کی شکل دے دی گئی ہے جو ان الفاظ میں پیش کی جاتی ہے۔

            ‘‘قیامت کے روز لوگ اپنی ماؤں کے نام سے پکارے جائیں گے تاکہ لوگوں پر پردہ ڈالا جاسکے۔’’

            ملا علی قاری نورالدین المتوفی ۱۰۱۴ نے اپنی موضوعات میں۔ حافظ ابوعبداللہ شمس الدین محمد بن ابی بکر المعروف بابن القیم المتوفی ۷۵۱ سے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔

            یہ روایت کہ لوگ ماؤں کے ناموں سے پکارے جائیں گے باطل ہے۔

            پھر آگے ملا علی قاری لکھتے ہیں۔

            محمد بن کعب کا قول تو یہ ہے کہ لوگ اماموں (یعنی امیروں) کے ناموں سے پکارے جائیں گے۔ ماؤں کے نام سے نہیں۔

            کہا جاتا ہے کہ ماؤں کے ناموں سے پکارے جانے کی تین وجوہات ہیں۔

            ۱۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چونکہ باپ نہیں۔ اس وجہ سے ماؤں کے ناموں سے پکارا جائے گا۔

            ۲۔ تاکہ حرام سے پیدا شدہ اولاد قیامت کے دن رسوا نہ ہو۔

            ۳۔ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے مرتبہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ قاعدہ اپنایا جائے گا۔

            یہ توجیہات بغوی نے ‘‘معالم التنزیل’’ میں پیش کرکے لکھا ہے کہ صحیح احادیث سے اس امر کی تردید ہوتی ہے۔

            بخاری نے اپنی صحیح میں سرخی قائم کی ہے کہ ‘‘لوگ قیامت کے دن اپنے باپوں کے نام سے پکارے جائیں گے’’ پھر امام بخاری نے یہ حدیث بیان کی کہ قیامت کے روز ہر غدار کے سامنے اس کی غداری کے مطابق جھنڈا گاڑا جائے گا۔ جس پر لکھا ہو گا کہ یہ فلاں بن فلاں غدار ہے۔ ابن القیم لکھتے ہیں۔ اس موضوع پر اور بھی متعدد احادیث موجود ہیں۔( موضوعات کبیر صفحہ ۱۷۵)

            محمد بن کعب کا یہ قول کہ لوگ اماموں کے ناموں سے پکارے جائیں گے تو غالباً انھوں نے اس آیت یوم ندعوا کل اناس بامامھم (بنی اسرائیل) ‘‘ہم تم لوگوں کو ان کے اماموں کے ساتھ بلائیں گے۔’’کو پیش نظر رکھ کر یہ بات فرمائی ہے ۔ اس آیت میں امام سے مراد رہبری کرنے والے اور گمراہ کرنے والے افراد ہیں۔ تو گویا یہ پکار دو قسم کی ہو گی۔ ایک انفرادی اور ایک اجتماعی۔ اس وقت زیر بحث مسئلہ انفرادی پکار کا ہے۔

            جہاں تک اس توجیہہ کا تعلق ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے باپ نہیں تھے۔ اس لیے لوگوں کو ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا تو ہماری عرض یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو کس نام سے پکارا جائے گا؟ ظاہر ہے کہ آپ جو بھی اصول مرتب کریں گے اس سے وہ خارج ہوں گے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی مستثنیٰ سمجھا جائے گا۔

            جہاں تک اس توجیہہ کا تعلق ہے کہ حرام سے پیدا شدہ اولاد قیامت کے دن رسوا نہ ہو۔ تو اس قسم کی جتنی بھی اولاد ہوتی ہے۔ شریعت کی نظر میں وہ ہرگز مجرم نہیں۔ مجرم تو وہ مرد و عورت ہیں جن کی حرام کاری کے باعث یہ ہوا۔ کیا یہ دعویٰ کرکے مشکوک قسم کے لوگ اپنے شک پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں؟ اب یہ فیصلہ تو اللہ ہی کرے گا کہ ان کی اس خواہش کا احترام کیا جائے یا وہ دفتر کھول کر سامنے رکھ دیا جائے۔ جس میں اللہ تعالیٰ کے پوشیدہ نگرانوں نے ان کی یہ حرکات تحریر کی تھیں۔

            اب صرف ایک وجہ باقی رہ جاتی ہے۔ یعنی حضرت حسنؓ و حسینؓ کے باعث یہ کام ہو گا۔یعنی انہیں سید نا علی کی جانب منسوب کرنے کے بجائے انہیں سیدہ فاطمہؓ کی جانب منسوب کیا جائے اور آل رسول میں شامل کیا جائے۔ ہمیں اس امر پر کوئی خاص اعتراض نہیں، بشرطیکہ علی بن زینب، امام بنت زینب اور عبداللہ بن رقیہ کو بھی آلِ رسول مان لیا جائے۔

            علامہ عبدالرحمان بن علی بن محمد بن عمر الشیبانی الاثری رقم طراز ہیں۔یہ روایت کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز لوگوں کو ان کی ماؤں کے ناموں سے پکارے گا۔ تاکہ اپنے بندوں پر پردہ ڈالا جا سکے۔ یہ روایت حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی المتوفی ۳۶۰ نے ‘الکبیر’ میں حضرت ابن عباسؓ سے مرفوعاً نقل کی ہے۔ اس موضوع پر حضرت انسؓ اور حضرت عائشہؓ سے بھی روایات مروی ہیں۔ یہ سب روایات ضعیف ہیں جنھیں ابن جوزی نے موضوعات میں شمار کیا ہے۔ اور بخاری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم قیامت کے روز اپنے اور اپنے باپوں کے ناموں سے پکارے جاؤ گے۔ اس حدیث سے ان کہانیوں کا رد ہو رہا ہے۔

            حافظ شمس الدین محمد بن عبدالرحمان السخاوی فرماتے ہیں۔یہ روایت کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز لوگوں کو ان کی ماؤں کے ناموں سے پکارے گا تاکہ اپنے بندوں کے اعمال پر پردہ ڈال سکے۔ یہ روایت طبرانی نے ‘‘الکبیر’’ میں اسحاق بن بشر بن ابی حذیفہ کے ذریعہ ابن عباسؓ سے مرفوعاً نقل کی ہے۔ اس موضوع پر ایک روایت حضرت انسؓ اور ایک روایت حضرت عائشہؓ سے مروی ہے یہ سب ضعیف ہیں۔ان سب کو ابن جوزی نے موضوعات میں داخل کیا ہے۔ اور اس کی تردید کے لیے وہ حدیث کافی ہے جو ابوداؤد نے اپنی سنن میں ایک عمدہ سند کے ساتھ حضرت ابوالدرداءؓ سے نقل کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ تم لوگ قیامت کے دن اپنے اور اپنے باپوں کے ناموں سے پکارے جاؤ گے۔ لہٰذا اپنے نام اچھے رکھاکرو۔

            بلکہ بخاری نے اپنی صحیح میں ابن عمرؓسے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جب تمام اولین و آخرین کو جمع کرے گا تو ہر غدار کے روبرو ایک جھنڈا گاڑا جائے گا۔ اور کہا جائے گا یہ فلاں بن فلاں غدار ہے۔

            علامہ ناصر الدین البانی رقم طراز ہیں۔

            یہ روایت کہ لوگ قیامت کے روز اپنی ماؤں کے ناموں سے پکارے جائیں گے، یہ موضوع روایت ہے۔ اس روایت کو حافظ ابو احمدعبداللہ بن عدی الجرجانی نے اسحاق بن ابراہیم الطبری کے واسطہ سے حضرت انسؓ سے مرفوعاً روایت کرکے لکھا ہے۔کہ یہ روایت اس سند سے منکر ہے اور اسحاق بن ابراہیم منکر الحدیث ہے۔

                        ابن الجوزی نے یہ روایت‘‘ الموضوعات’’ (ج۳، صفحہ۲۴۸) میں ابن عدی کی سند سے نقل کرکے لکھا ہے۔ یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ اسحاق منکر الحدیث ہے۔

            ناصر الدین البانی آگے لکھتے ہیں۔ اس کا رد اس حدیث سے ہوتا ہے جو ابوداؤد نے عمدہ سند کے ساتھ حضرت ابوالدرداءؓ سے نقل کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے لوگو اپنے نام اچھے رکھا کرو کیونکہ قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے باپوں کے ناموں سے پکارے جاؤ گے۔ اسی طرح صحیح بخاری کی یہ حدیث کہ جب اللہ تعالیٰ اولین و آخرین کو جمع فرمائے گا تو ہر غدار کے روبرو ایک جھنڈا گاڑا جائے گا۔ اور کہا جائے گا یہ فلاں بن فلاں غدار ہے۔

             اس کہانی کے رد کے لیے اتنے حوالے بھی بہت کافی ہیں۔ لیکن ان حضرات نے دو صحیح روایات کے حوالے بطور تردید پیش کیے ہیں۔ جن میں سے ایک روایت صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے۔ ملاحظہ ہو بخاری ج ۲، صفحہ۹۱۲

            دوسری حدیث حضرت ابوالدرداءؓ سے مرفوعاً مروی ہے۔ دیکھیے سنن ابی داؤد۔ ج۲، صفحہ۳۹۴ ابوالدرداء ؓ کی یہ حدیث سنن دارمی ج۲ صفحہ۲۹۴ پر بھی موجود ہے۔

            پھر ان احادیث کی تائید قرآن کی ایک آیت سے بھی ہوتی ہے۔ ارشاد ہے۔

            ادعوھم لابائھم ھواقسط عنداللہ (الاحزاب۔۵) لوگوں کو ان کے باپوں کے ذریعہ پکارو۔ یہ اللہ کے نزدیک منصفانہ فعل ہے۔

            جب دنیا میں ہمیں یہ حکم دیا جارہا ہے کہ لوگوں کو ان کے باپوں کے ناموں سے پکارو۔ اور ساتھ ساتھ یہ بات ……ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ منصفانہ بات ہے تو اشارۃ النص سے یہ امر خود بخود واضح ہو گیا کہ کسی کو ماں کے نام سے پکارنا غیر منصفانہ فعل ہے۔ اس لیے کہ اولاد باپ کی جانب منسوب ہوتی ہے۔ ماں کی جانب نہیں۔

            اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی ذہن میں رکھئے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی منصف نہیں ہو سکتا۔ وہ عادل ہے اور اس کی صفت عدل ہے۔ اور جس شے کو وہ خود نا منصفانہ قرار دے وہ شے تو سراسر ظلم ہو گی اور اللہ تعالیٰ کی جانب ظلم کی نسبت نہیں کی جا سکتی۔

            تو جو لوگ یہ سمجھتے ہیں یا یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ماؤں کے ناموں سے پکارے گا وہ اللہ تعالیٰ کو مخفی الفاظ میں ظالم قرار دے رہے ہیں۔ (بحوالہ مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت، جلد ۲)