مدار س بنکوں کی حرام نوکر ی کے لیے علما تیار نہیں کرتے

مصنف : ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر

سلسلہ : معیشت و معاشیات

شمارہ : مارچ 2006

جامعہ بنوری ٹاؤن کے رئیس ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندرنے ختم بخاری کی تقریب سے بصیرت افروز خطاب فرماتے ہوئے بعض علماء اوردینی مدارس کی جانب سے بینکوں کی نوکری کی ترغیب و تائید پر مبنی تجدد، اجتہاد کی بالواسطہ مذمت کرتے ہوئے دینی مدارس کے طلبا پر واضح فرمایا کہ بینک خواہ کسی قسم کے ہوں ان کی نوکری حرام ہے۔ اسلامی بینک کاری کے ضمن میں عموماً کہا جا رہا ہے کہ علماء نے اسے حلال قرار دیا ہے درست نہیں۔ پاکستانی اور ہندوستانی علماء کی اکثریت اسے حرام سمجھتی ہے۔ جسٹس تقی عثمانی صاحب بھی بعض تجربات و مشاہدات کے بعد اسی نتیجے پر پہنچ چکے ہیں لیکن اظہار میں تامل ہے۔ لاہور میں اسلامی بینک کاری کے ناقدین پر نقد کرتے ہوئے فرمایا کہ ‘‘اس کے مخالفین بھی کم از کم اسلامی بینکاری کو صریحاً حرام تو نہیں کہہ سکتے۔’’ یہ جملہ بتاتا ہے کہ اگر صریحاً حرام نہیں تو صریحاً حلال بھی نہیں ہے اور جس چیز میں شک کا عنصر زیادہ ہو جائے۔ شریعت اسے ترک کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اسلامی بینکاری کے تمام اصول وقواعد سودی بینکاری کے مماثل ہیں۔ یہ متبادل معاملہ نہیں ہے۔ اسلامی بینکاری کا تمام کارو بار اب تیزی سے غیر مسلم بلکہ یہودی بینکوں کے پاس جا رہا ہے۔ سود کو حلال اٹھانا آسان ہو گیا ہے۔ کنایہ میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا اسکندر کے مخاطب حضرت مولانا تقی عثمانی ہیں جنھوں نے اسلامی بینک کاری کو حلال قرار دیا ہے اور آج کل مدارس کے علماء کو سودی بینکوں کے مشیر کے طور پر تیار کرارہے ہیں۔ یہ بصیرت افروز خطاب بینات، اکتوبر ۲۰۰۵ء میں شائع ہو چکا ہے۔

             ‘‘میں آپ سے پوچھتا ہوں تم جا کر میڈیکل کالج میں وہاں کے پرنسپل سے کہو، پرنسپل صاحب! آپ اس کالج میں انجینئرنگ کے مضمون کیوں نہیں رکھتے؟ آپ لاء کے مضمون کیوں نہیں رکھتے؟ آپ سائنس کے مضامین کیوں نہیں رکھتے؟ اگر وہ کوئی بڑی شخصیت ہے تو بڑے ادب سے کہے گا: حضرت! ہم نے یہ میڈیکل کالج اس لیے بنایا ہے کہ یہاں اچھے ڈاکٹر پیدا کریں اور اچھے ڈاکٹر پیدا کرنے کے لیے جو نصاب ہو گا وہی ہم رکھیں گے۔ ہم نے یہ میڈیکل کالج اس لیے نہیں بنایا کہ ہم آپ کو سائنسدان دیں، علماء دیں یا انجینئر دیں۔ اور اگر کوئی عام آدمی جا کر پرنسپل کو کہے تو وہ کہے گا اس کو پاگل خانہ لے جاؤ۔ اب تم بتاؤ، دین کے معاملے میں یہ ہمیں کہتے ہیں کہ اس میں سائنس بھی رکھو، اس میں فلاں بھی رکھو، فلاں بھی رکھو، بھائی ہم نے تو یہ مدرسے اس لیے کھولے ہیں تاکہ ان میں علوم نبوی کے حامل علماء پیدا ہوں، اس لیے نہیں کہ یہاں سے اکاؤنٹینٹ یا انجینئر وغیرہ پیدا ہوں۔ پھر یہ کتنی جاہلانہ اور غلط مثال دی جاتی ہے کہ یہاں سے جو نکلے اس کو بینکوں میں نوکری مل جائے (نعوذ باللہ من ذلک) کتنی بے شرمی اور بے عقلی کی بات ہے ، کیا کوئی طالب علم سولہ سال دینی تعلیم اس لیے پڑھتا ہے کہ وہ حرام کی نوکری جا کر کرے؟ پھر یہ علم ہم اس لیے تو حاصل نہیں کرتے کہ ہم نوکریاں کریں گے، علم حاصل کرنے والا تو اس لیے یہ علم حاصل کرتا ہے کہ وہ خود بھی عمل کرے اور دوسروں سے عمل کرائے اور امت کی رہنمائی کرے، یہ ہے اصل کام۔ ہمارے اسلامی دور میں جب بغداد میں بڑے بڑے مدرسے تھے، وہاں کے حکمران خود بھی بڑے علماء ہوتے تھے، وہ اپنا فرض سمجھتے تھے کہ اس دین کو پڑھائیں۔ اس دور کے ایک حکمران نے ایک رات حلیہ بدل کر چکر لگایا کہ دیکھیں طلبہ کیا پڑھ رہے ہیں؟ ہر طالب علم کے پاس جا کر پوچھتا ہے کہ بھائی ایسے مدرسہ کو تو بند کرنا چاہیے، ان کا مقصد تو خالص دنیاہے، تنخواہیں ہے، وہ حکمران بددل ہو گیا، نکلتے نکلتے دیکھا کہ ایک صوفی ساطالب علم بیٹھا پڑھ رہا ہے، اس نے سوچا چلو بھائی اس سے بھی پوچھ لو۔ اس کے پاس جا کر کہا السلام علیکم! بھائی آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟ کیوں پڑھ رہے ہیں؟ طالب علم نے پہلے تو سلام کا جواب دیا پھر کہا: جناب اس لیے پڑھ رہا ہوں کہ ہم اللہ کے بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے احکام نازل کیے ہیں، تاکہ میں ان کو بجا لاؤں اور کن چیزوں سے مجھے روکا ہے ان چیزوں سے میں رک جاؤں، اس لیے پڑھتا ہوں۔ وہ حاکم ایک دم چونکا اور اس کی ساری رائے بدل گئی اس نے کہا جس ادارے میں اس جیسا طالب علم بھی ہے اس ادارے کو بند نہیں کرنا چاہیے، دیکھیے اس دور کے مسلمان حکمران تو دینی مناصب کے غرض سے پڑھنے پر بھی خوش نہیں ہو رہے اور آج ہمیں کہا جا رہا ہے کہ یہاں سے طلبہ نکلیں اور بینک میں ملازمت کریں (نعوذباللہ) کوئی سمجھ کی بات کرو’’۔