یورپ اور اسلام ،ایک مذاق

مصنف : ایم جے اکبر

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : مارچ 2006

            اسلام اور مسلم ممالک اور خاص طور پر وہ مسلم ممالک جن کے پاس توانائی کے ذرائع موجود ہیں، ذرائع ابلاغ کے سوچے سمجھے، محتاط اور منصوبہ بند دانشورانہ حملوں کی زد میں ہیں۔ اس صورتِ حال کا مقابلہ حقائق اور اسباب سے کیا جانا چاہیے۔ ہم مسلمان اس وقت بحث ہار جاتے ہیں جب ہم یا تو تابعدار انہ دفاعی پوزیشن اختیار کرتے ہیں یا جارحانہ ہذیانی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں کیفیات کے درمیان زبردست خلا موجود ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرانے کی ضرورت ہے کہ متبادل آواز باغی اور منحرف آواز نہیں ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ مسلمانوں اور امریکیوں کے درمیان مذہب کے تعلق سے اس قدر غلط فہمی پائی جاتی ہو کہ ایسا تاثر دیا جائے کہ وہی مذہب کے سچے پیروکار ہیں۔ سال رواں کے شروع میں چرچ آنے جانے والوں کے تعلق سے ہونے والا ایک سروے بتاتا ہے کہ ۶۰ فیصد امریکی دن میں ایک بار ضرور عبادت کرتے ہیں،۷۰ فیصد امریکیوں کی رائے ہے کہ امریکی صدر پختہ مذہبی عقائد پر کاربند ہونا چاہیے اور ۶۱ فیصد سخت اخلاقی ضابطوں اور خاص طور پر اسقاطِ حمل پر پابندی کے حق میں ہیں۔ مجھے مسلمانوں کے سلسلہ میں اس قسم کے اعدادوشمار کا علم نہیں ہے۔ لیکن مذکورہ بالا تمام زمروں میں مسلمانوں کی تعداد بھی کم و بیش اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ ہو گی۔ ایک مسلمان صدر یا وزیراعظم ہفتہ میں ایک بار جمعہ کی نماز      ضرور کسی مسجد میں ادا کرتا ہے۔ اس کے برخلاف یورپ نے مذہب کو عقلیت پسندی یا خو پیدا کردہ کمیونزم پر قربان کر دیا ہے۔ دو شخصیات مارکس اور لینن نے اپنا اتنا زبردست اثر چھوڑا کہ انھوں نے نصف ایشیا میں تاؤ، کنفیوشیس اور بدھ ازم کو اور نصف یورپ میں عیسائیت کو تاراج کر دیا۔

            مذہب، انسانی اسباب تک محدود نہیں ہے، عقیدہ تو اخلاقی، دستاویزی، روحانی اور الہامی شے ہے۔ اسلام ایک ہی خالق کائنات اللہ کی قدرت و طاقت کو تسلیم کرتا ہے اور یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ جہاں ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم کیسے پیدا ہوتے ہیں اور کیسے مرتے ہیں وہیں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مسلمان موت سے پہلے اور موت کے بعد کی وجودیت کے کیوں قائل ہیں۔ قرآن میں ہے، ہم خدا ہی کی طرف سے آتے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے۔

            مسئلہ اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب کسی ایک واقعہ کو اس کے اصل تناظر سے ہٹا کر اسے ایک مذہب اور اس کے پیروکاروں کی شبیہ مسخ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

            ہر خود کش مشن کو سمجھا جاتا ہے کہ وہ دنیا سے جنت کا سفر ہے، یہ ٹھیک ہے کہ ہم حیات بعد الموت پر یقین رکھتے ہیں اور جنت ودوزخ پر بھی ہمارا یقین ہے لیکن ہمارے اس یقین کو جان بوجھ کر دوسرے معنی پہنائے جاتے ہیں اور میڈیا کے ذریعہ ایک شور و غوغا مچایا جاتا ہے۔ اس کا بہرحال جواب دیا جانا چاہیے اور یہ جواب ایک متحدہ یکساں آواز میں دیا جانا چاہیے۔ اسلامی ممالک کی کانفرنس (او آئی سی) کو اپنی دو ترجیحات طے کرنی چاہئیں۔ اسے حکمت عملی اور حربی مصلحت کے محاذوں پر کام کرنا چاہیے۔ فوری ضرورت اس امر کی ہے کہ ذہنوں کی جنگ جیتنے کے لیے ایک یکساں آواز قائم ہو۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ‘‘دانشورانہ قتل عام’’ نائن الیون سے بہت پہلے شروع ہو گیا تھا۔ یہ ردِ عمل نہیں تھا۔ ہنٹگٹن نے ۱۱؍۹ سے سات سال پہلے ہی تہذیبوں کے تصادم کے بارے میں لکھ دیا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب تقریباً ہر مسلم ممالک نے افغانستان اور کویت کی آزادی کے لیے امریکا کا ساتھ دیا تھا۔ جدیدیت پسندوں پر اس کا الزام دھرنا کافی نہیں ہے۔ ہمیں ان کا جواب دینا چاہیے۔

            مغرب میں شائع ہونے والی رپورٹوں کا کوئی جائزہ لے تو اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ خود کش مشن مسلمانوں کے ہی ذریعہ شروع کیا گیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ خودکش مشن ہمیشہ ہی جنگی حکمت عملی کا ایک عنصر رہا ہے۔ گارجین کے حالیہ شمارے میں ایک مبصر نے لکھا ہے کہ لازمی طور پر سیمسن دنیا کا سب سے مشہور خودکش مشنری تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی پائلٹوں نے خود کش مشن کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ امریکا کے ایڈمرل ولیم فریڈرک ہالس (۱۹۵۹۔۱۸۸۴) نے جو امریکی فوج کی تیسری فلیٹ کا کمانڈر تھاامریکی جنگی بیڑے پر جاپان کے خودکش حملہ کے بعد لکھا تھا کہ خود کش مشن کے پیچھے کی نفسیات ہم سے ملتی جلتی تھی۔ وہ امریکی جو زندہ رہنے کے لیے لڑتے ہیں یہ مشکل سے تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی دوسرا شخص مرنے کے لیے لڑے گا۔’’

            جاپانیوں نے خودکش مشن کا نام کامیکازے رکھا تھا مگر انھوں نے اسے کبھی خودکش مشن کا نام نہیں دیا بلکہ وہ اس کو زیادہ تعداد والی فوجوں پر اپنی اخلاقی فتح اور برتری تصور کرتے تھے۔ وہ اپنے پائلٹوں سے کہتے تھے کہ ‘‘اپنی امنگوں اور زندگی کے عیش و آرام کو ایک طرف رکھو، کیونکہ جب تم موت کی طرف بڑھو گے تو گویا جنگ کی طرف بڑھو گے۔’’

            خودکش مشن کا انتہائی موثر استعمال غیر مستقل طور پر لڑی جانے والی سری لنکا کے تامل ٹائیگرز کی جنگ کے دوران ہوا۔ واضح رہے کہ تامل ٹائیگرز ہندو ہیں۔ خودکش کے ایک ایسے مشن نے وزیراعظم راجیو گاندھی کی جان لے لی تھی لیکن آج عالمی رائے عامہ کچھ اس طرح کی بن گئی ہے کہ تقریباً ہر فرد یہی سمجھتا ہے کہ ‘‘دہشت گردی’’ اسلام کی ہی پیدا کردہ ہے۔ ہمیں ۱۱؍۹ اور لندن بم دھماکوں کے احساس اور جذباتی ردِ عمل کا بھی حل تلاش کرنا ہے۔ میں خودکش مشن سے اتفاق نہیں کرتا لازمی طور پر ہم سب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ ایسے معاملات میں جہاں ایک خطہ پر ظاہری طور پر سرپھری بیرونی طاقتوں کا قبضہ ہو خودکش مشن نوجوانوں کے اندر پنپنے والے غصہ اور اضطراب کا مظہر ہوجاتا ہے۔ ہمیں ایسے خودکش مشن کے خاتمہ کے لیے اس غصہ اور اضطراب کا جواب تلاش کرنا ہو گا۔ ہمیں ناقابل قبول دہشت گردی اور جدوجہد کی ضرورت کے درمیان پائے جانے والے فرق کی بھی تشریح کرنی ہو گی۔ دنیا کی تاریخ نا انصافیوں اور مسائل سے بھری پڑی ہے۔ لیکن اگر نا انصافی کو پر امن مذاکرات کے ذریعہ حل کیا جائے تو پھر مسلح جدوجہد اور خودکش مشن کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ پر امن مذاکرات ایک ہوش مند فرد اور ملک کا اصل لائحہ عمل ہونا چاہیے اور یہی عالمی رائے کا مرکزی نقطہ نگاہ ہونا چاہیے۔

            چند ہفتوں قبل میں برلن میں ایک سیمینار میں شریک تھا۔ سیمینار کا موضوع یورپ اور ماڈرن اسلام تھا، میرے میزبان ایک سیاسی پارٹی کے لوگ تھے، نہ تو وہ پیشگی طور پر کسی کے تعلق سے بد خواہ تھے اور نہ ہی متعصب تھے مگر پھر بھی مسلمانوں کے تعلق سے ہر طرح کی پیشگی بدخواہی اور غلط فہمی پر مبنی سوالات یہاں بھی اٹھائے گئے۔عموماً ایسا نادانستگی میں ہوتا ہے۔ ایک اجلاس کے صدر صاحب مستقل ملامت کرتے رہے، انھوں نے خواتین کے ختنہ کا مسئلہ اٹھایا، تاہم میں نے جواب دیا کہ خواتین کے ختنہ کی اصل افریقی قبائل میں ملتی ہے۔ مسلمان یا اسلام سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ فطری طور پر حجاب کا بھی ذکر آیا، میں نے کہا کہ مشرق میں بلا تفریق مذہب عورت کے لیے سر ڈھانپنا ایک وقار اور متانت کی علامت تصور کیا جاتا تھا اور یہ کہ میں نے کبھی کسی عیسائی کے ذریعہ بنائی گئی کوئی ایسی پینٹنگ نہیں دیکھی کہ جس میں مقدس مریم نے حجاب کی شکل کا کچھ اوڑھ نہ رکھا ہو۔ اور یہ کہ آج بھی ہر کیتھولک نن روایتی سرپوش ضرور پہنتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ناقص اور مہمل معلومات کا نتیجہ ہے کہ جوتے کے تسمہ کو تو متمدن تصور کیا جاتا ہے لیکن اسکارف کو وحشیانہ قرار دیا جاتا ہے۔ میں نے عام طور پر دہرایا جانے والا یہ طعنہ بھی سناہے کہ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ میں نے جواب دیا کہ نشاۃ ثانیہ کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب کوئی قوم تاریک عہد سے گزری ہو۔ چین، ہندوستان اور خلافت عثمایہ کے خطے تاریک عہد سے نہیں گزرے ہیں، اس لیے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے وجود میں آنے سے دو سو سال قبل بغداد میں ۱۰۰ کتب خانے موجود تھے۔ ایک خاتون مقرر جو ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتی تھی میرے تبصروں کے جواب میں کہنے لگی کہ مہاتما گاندھی کو ایک مسلمان نے قتل کیا تھا۔ میں نے جب انھیں بتایا کہ مہاتما گاندھی کا قاتل گوڈسے تھا جو ایک ہندو تھا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ دوسرے مسلمانوں کی طرح مجھ پر بھی یہاں آوازے کسے گئے اور مجھے بھی یہ طعنہ دیا گیا کہ اسلام تو ‘‘جہاد’’ کا مذہب ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ میں بہرحال اپنے مذہب کے اصول و ضوابط کے متعلق نہ نادم ہوں اور نہ ہی دفاعی رویہ اختیار کرتا ہوں۔ میں نے کہا کہ اسلام امن کا مذہب ہے لیکن چند حالات میں آپ پر جنگ بھی تھوپی جا سکتی ہے۔ اسلام جائز اور ناجائز جنگ کی تشریح کرتا ہے اور دونوں کے درمیان واضح فرق کرتا ہے۔ جہاد نا انصافی کے خلاف ایک جنگ ہے۔ مکہ کی ظلم و زیادتی کی زندگی کے دوران میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ہتھیار نہیں اٹھائے۔ قرآن میں جہاد کی آیات اس وقت نازل ہوئیں جب منافقین نے مذہب اسلام کو تاراج کرنا شروع کر دیا اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نا انصافی کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیا گیا۔ جہاد کے بالکل واضح اصول ہیں۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ آپ جہاد کے دوران خواتین اور بچوں اور بے قصوروں کو ہلاک نہیں کر سکتے۔ یہاں تک آپ درختوں کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

            برلن کانفرنس کا موضوع ‘‘یورپ اور ماڈرن اسلام’’ دراصل ایک مذاق تھا۔ اس لیے کہ اسلام میں ماڈرن، قرون وسطی یا عہد قدیم کوئی چیز نہیں ہے۔ اسلام اسلام ہے۔ دوسرے یہ کہ ویسٹ ایک جغرافیہ ہے اور اسلام ایک عقیدہ ہے۔ دونوں کا تقابل کیسے کیا جا سکتا ہے؟ آپ ویسٹ اور ایسٹ ایشیا کا تقابل کر سکتے ہیں اس کے برخلاف آپ اسلام اور عیسائیت کو موضوع بحث بنا سکتے ہیں ویسٹ اور اسلام کا مطلب کچھ اس طرح ہے کہ جیسے آپ کے ذہن میں پیشگی طور پر یہ خاکہ ہوکہ ویسٹ، روشن، ترقی اور عہد جدید کی خوبیوں سے عبارت ہے جب کہ اسلام تاریکی، تنزلی اور دس برس پہلے کی برائیوں سے عبارت ہے۔

            اسلام کے بارے میں یہ نظریہ کہ وہ وحشیانہ مذہب ہے جب کہ عیسائیت ایک متمدن و مہذب عقیدہ ہے، دراصل صلیبی جنگوں کے ذریعے دیا گیا ایک لاحقہ ہے اور آج تک اس کو خطبات و مقالات سے خارج اور محو نہیں کیا گیا۔ یہ کہنا کہ اسلام نے کچھ ممالک کو غریب، پسماندہ، اور مطلق العنان بنا کر چھوڑ دیا ہے۔ حقائق سے روگردانی اور بد دیانتی ہے۔ اسی طرح سے ‘‘اسلام اور ڈیموکریسی’’ جیسا موضوع بھی ہے جس پر اکثر بحث کی جاتی ہے۔ اسلام کی عمر ۱۴۰۰ برس سے زیادہ ہے۔ جمہوریت کی عمر کیا ہے؟ امریکا واحد ملک ہے جو کہہ سکتا ہے کہ اس کی ڈیموکریسی ۲۰۰ سال پرانی ہے۔ امریکی آئین شخصی اور اجتماعی آزادی عطا کرنے کا بہترین دستاویز ہے مگر اس کے باوجود امریکی معاشرہ ‘‘سیاہ سفید’’ کے نام پر ایک نسل کے ساتھ امتیاز برتتا ہے۔ اس رجحان میں اس وقت ہلکی سی تبدیلی آئی جب ۱۹۶۵ء میں ووٹنگ رائٹ ایکٹ کے بننے کے بعد مسی سیپی جیسی امریکی ریاست میں افریقین امریکن رجسٹرڈ ووٹروں کا فیصد سات سے بڑھ کر ۱۹۶۵ء میں ۷۰ فیصد ہو گیا۔

            امریکا نے جب اپنے لیے آزادی حاصل کی تو فرانس نے اس کے تین برس بعد وعدہ کیا کہ وہ اپنے شہریوں کو آزادی، مساوات اور اخوت کا تحفہ دے گا مگر اس کو ادارہ جاتی طور پر ایسا کرنے میں مزید ایک صدی کا عرصہ لگا جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار برطانیہ میں جمہوریت محض بیسویں صدی کا ہی تو قصہ ہے مشرقی یورپ تو نوجوانوں کو جمہوری حقوق دینے کے عمل سے گزرتا رہا ہے اور چین کے ایک بلین سے زیادہ لوگوں کو تو آج کی تاریخ تک میں بھی جمہوریت کے معنی کا علم نہیں۔ اس کے باوجود مجھے معلوم نہیں کہ آج تک کسی اکیڈمک ادارے نے کنفیوشنزم اور ڈیموکریسی کے عنوان سے کوئی سیمینارکیا ہو۔ اگر بہت سے مسلم ممالک میں جمہوریت نہیں ہے تو اس کا سبب تاریخ میں پوشیدہ ہے۔ بشمول نو آبادیات، جدید نو آبادیات اور سامراجیت کی تاریخ کے، اس کا سبب مذہب نہیں ہے۔

(کالم نگار Asian Age دہلی کے مدیر اعلیٰ ہیں)

(بشکریہ: سہ روزہ ‘‘دعوت’’- نئی دہلی)