عوام کہانی

مصنف : محمد عارف جان

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : مارچ 2006

             یہ حقیقی کہانی ایک ایسی ریاست میں پیدا ہونے والے بدقسمت عوام کی ہے جس کو بہت نیک مقاصد کے لیے لاکھوں انسانوں نے اپنی جا ن ومال اور آبرو کی قربانی دے کرحاصل کیاتھا ۔ اس ریاست کانام بھی بہت خوبصورت اور اس کاجسم بھی بہت حسین تھا مگر نجانے اس کو کس کی نظر لگ گئی۔ اس کے ہرہر عضو کو اتنی بیما ریاں لاحق ہوئیں کہ پھر کوئی بھی دواکارگر نہ ہوسکی ۔

            کہتے ہیں کہ اسی پاکیزہ ریاست کے ایک چھوٹے سے شہر میں ایک خاتون کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جس کانام ‘‘عوام’’ رکھا گیا ۔پیدا ہوا تو غریب والدین نے خود کو پانچ چھ ہزار کا مقروض پایاکیونکہ دو نمبر ہسپتالوں کے دو نمبر مسیحاؤں نے عین ڈلیوری کے موقع پر صرف چند ہزار روپوں کے حصول کے لیے یہ انکشاف کیا کہ بچے کی پوزیشن صحیح نہیں ہے اور آپریشن کرنا پڑے گا ۔ ورنہ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ آپریشن کی ہر گز ضرورت نہ تھی ۔اس بچے کے منہ میں نقلی فیڈر ڈالا گیا ۔ ملاوٹ شدہ دودھ کے ساتھ جب گھٹیا پلاسٹک کا نپل معصوم بچے کے منہ میں گیا تو یہ بیمار ہو گیا ۔ اسہال شروع ہوئے اور ساتھ ہی جسم پر دانے بھی نکل آئے دانوں پر پاؤڈر لگایا گیا تو بدقسمتی سے وہ بھی دو نمبر تھا اس طرح اس کی حالت مزید خراب ہو گئی۔بہر حال جب کچھ بڑا ہوا تو اس نے سوچا اب مجھے اچھے اچھے کھلونے ملیں گے میں ماں باپ کی آنکھوں کاتارا بن جاؤں گا ۔ اورسب گھر والے میرے ناز نخرے برداشت کریں گے مگر ایسا کچھ بھی واقع نہ ہوا بلکہ غریب والدین نے اس کوایک دکان پر سائیکلوں کے پنکچر لگانے کے کام پر مامور کر دیا کیونکہ اس ریاست میں تمام بچوں کی تعلیم کا کوئی بندوبست نہ تھا ۔ وہاں وہ ترستی نگاہوں سے بعض خوش نصیب بچوں کو سکول جاتے ہوئے دیکھتا رہتا۔ ان کے صاف ستھرے کپڑے، ان کے چمکتے ہوئے جوتے اور خوبصورت بستے دیکھتا تو آہیں بھرکر رہ جاتا ۔ آخر ایک دن اللہ نے اس کی سن لی اور ایک صاحبِ حیثیت باشعور آدمی نے اس کوترس کھا کر محلے کے پرائمری سکول میں داخل کروایا ۔ وہ وہاں داخل تو ہو گیا ۔ مگر وہاں جاکر کیا دیکھتا ہے کہ نہ تو سکول کی چار دیواری ہے ،نہ پینے کا پانی اور نہ ہی بیٹھنے کے لیے کرسیاں۔ اور مزید دلچسپ بات یہ تھی کہ صرف ایک کلا س روم میں اس پرائمری سکول کے تمام بچے بیٹھا کرتے تھے اور صرف دو استاد 5 کلاسوں کو پڑھانے کے فرائض سرانجام دیتے تھے اور وہ بھی مہینے میں سے 20 د ن غائب ہوتے اور صرف دس دن آتے۔ بڑی مشکلات کے ساتھ اس نے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ کسی دفتر میں کلرک کی نوکری حاصل کرنے کے لیے ڈومیسائل کی ضرورت پڑی ۔ ڈومیسائل بنواتے ہوئے یوں محسوس ہوا جیسے امریکہ کی شہریت حاصل کرنے کے لیے پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہوں ۔ پورے دو مہینے مجاز اہل کاروں نے چکر لگوائے اور آخر خدا خدا کر کے اس کاڈومیسائل بنا بعد میں معلوم ہوا کہ صرف پانچ سو دیکر یہ ڈومیسائل دو دنوں میں بھی حاصل کیا جا سکتا تھا ۔ دو سال اخباروں میں نوکری کے اشتہار پڑھ کر گزار دیے ۔ کئی ٹیسٹ اور انٹرویوز دیے مگر ہر بار ناکامی کامنہ دیکھنا پڑا ۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ اخبار میں اشتہار آنے سے پہلے کامیاب امیدواروں کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ہے ۔ اس اثنا میں عمر اٹھارہ سال ہو چکی تھی معلوم ہوا اب شناختی کارڈ بنوانا بھی لازمی ہے لہذا ڈومیسائل کی طرح شناختی کارڈ کے حصول کے لیے بھی پورے دو ماہ دفتر کی خاک چھاننی پڑی جبکہ اس کے دیکھتے دیکھتے بعض امیر گھرانوں کے لڑکوں نے وہاں جائے بغیر چند دنوں میں شناختی کارڈ حاصل بھی کر لیا ۔ آخر کار اس کی والدہ نے اپنے ہاتھوں کے کڑے اور کانوں کی بالیاں بیچ کر ایک آدمی سے اس کی نوکری کی بات کی ۔ اس کو جب پانچویں سکیل میں نوکری ملی اور تنخواہ کا معلو م ہوا تو سن کر شرمندگی ہوئی کیونکہ اس سے نہ تو وہ والدین کی خدمت کی جا سکتی تھی اور، نہ شادی کر کے وہ اپنا گھر چلا سکتا تھا۔ اس کو کسی نے مشورہ دیا کہ وہ مذہب سے لو لگائے اور 5 وقت کی نماز پڑھے تو اللہ اس کے رزق میں برکت ڈال دے گا ۔ وہ اس بات سے کا فی متاثر ہوا اور نماز پڑھنے کے لیے قریبی مسجد چلا گیا مگر جلد ہی اسے معلوم ہوا کہ محلے میں چار مساجد ہیں اور مسلمانوں کے چار بڑے فرقے ہیں جن کے نام شیعہ ، سنی ، بریلوی اور وہابی ہیں اس کو ان میں سے کسی ایک فرقے کو اختیار کرنا ہوگا ورنہ اس کی نماز قبول نہ ہو گی ۔ اس کوبہت پریشانی ہوئی کہ نماز شروع کر کے وہ کس مصیبت میں پھنس گیا ہے ۔ پھر ایک اورگروہ بھی اس کے محلے میں موجودتھا جس نے اس کو بتایا کہ وہ مسجد میں نہ جایا کرے اور گھر میں نماز پڑھ لیا کرے کیونکہ مسجدیں انسانی زندگی کے لیے غیر محفوظ ہیں وہاں اکثربم دھماکے ہو جاتے ہیں ۔ وہ اس بات سے خوفزدہ ہو گیا اور اس نے مسجد جانا چھوڑ دیا ۔ اب اس کو گھرمیں علیحدہ پریشانی تھی اور دفتر میں علیحدہ ۔ دفتر میں اس کویہ پریشانی لاحق ہوئی کہ اس کی سادگی اور ایمانداری کی وجہ سے دفتر میں سب لوگ اس کامذاق اڑانے لگ گئے اور اس کے افسران نے اس کو بے کار سمجھ کر‘‘ کھڈے لائن ’’لگا دیا جہاں اس کو کوئی پوچھنے والا نہ تھا ۔ دفتر میں اس کی کوئی عزت نہ تھی اور ادھر گھر کی طرف سے یہ پریشانی ہر وقت اس کے ذہن پر سوار تھی کہ اب ماشا ء اللہ اس کے پانچ بہن بھائی اور بھی پیدا ہو چکے تھے اور خاندان کے تمام بڑے اس کے ذہن میں یہ بات ڈالتے رہتے تھے کہ یہ تمہاری اولاد کی طرح ہیں ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت بھی تمہارے ذمے ہے ۔ تم بڑے ہو ،تم پڑھے لکھے ہو ، تم برسر روزگار ہو ، تم یہ ہو تم وہ ہو ، یعنی مفت میں بیٹھے بٹھائے ،نہ شادی ہوئی نہ بیوی آئی اور پانچ بچوں کی نگہداشت اس کے حصے میں آگئی۔ ابھی تو اس کی شادی ہونی تھی، یہ چیز بھی باقاعدہ ایک مہم کی شکل اختیار کر گئی۔ اس کی والدہ نے دنیا بھر کے رشتے دیکھنے کے بعد آخر کار اپنے بھائی کی ان پڑھ بیٹی کے ساتھ اس کی شادی کر دی اور تین سال تک جب اس کے ہاں کوئی اولاد پید انہ ہوئی تو یہ سوچے بغیر کہ خرابی لڑکے میں بھی ہو سکتی ہے طلاق دلوائی اور دوسری شادی کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ ایک غیر خاندان میں دوسری شادی کا معرکہ بھی سرانجام پاگیا ۔ آپ کو معلو م ہے غیر تو پھرغیر ہوتے ہیں ۔ بیوی کے نخرے ، ساس کے نخرے ، سالوں کے نخرے اور آخرکار علیحدہ گھر کا مطالبہ زور پکڑ گیا ۔ اب اس کی ماں پچھتائے کہ وہی بھتیجی اچھی تھی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا ۔ یہ اس کا اپنا کیا دھرا تھا ۔ اس کو کرائے پر علیحدہ گھر لینا پڑا اور خاندان کے بزرگوں اور محلے داروں کے طعنے الگ سے سننے پڑے کہ پانچ بہن بھائی اور بوڑھے والدین کو چھوڑ کر چلا گیا ہے کتنا بے مروت ہے کتنا بے غیرت ۔ جب علیحدہ گھر لیاتو معلوم ہوا کہ بجلی گیس اور پانی کے بل بھی ادا کرنے ہیں اور تین وقت کی روٹی بھی پوری کرنی ہے ۔ آخر کار اپنے ضمیر کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور رشوت لینے کی سوچی ۔ اب اس کے پاس دو راستے تھے کہ یاتو بھوک اور Tension سے مر جائے اوریا پھرضمیر کاسودا کرے ۔ ضمیر کا سودا کرنے میں اس کو عافیت محسوس ہوئی کیونکہ اس نے دیکھا کہ اس کی پوری قوم یہی راہ اختیا ر کیے ہوئے تھی اور یہ کوئی انوکھی بات بھی نہ تھی ۔ اب ایک طرف ضمیر کا مجرم اوردوسری طرف بہن بھائیوں کی فکر تیسری طرف بوڑھے والدین کی فکر چوتھی اپنی بیوی اورپھر اپنے پہلے ہونے والے بچے کی فکر ۔ نتیجتا بلڈ پریشر ، شوگر اور دل کا مریض بن کر رہ گیا ۔ ہر وقت ٹینشن ، ڈیپریشن اور فرسٹریشن طاری رہتی اور وہ اندر ہی اندر گھلتا رہا ۔ اب اس کی صحت آدھی بھی نہ رہ گئی تھی اور مسائل کے پہاڑ اس کے چہرے سے عیاں ہو رہے تھے ۔ وہ 30 سال کی عمر ہی میں 60 سال کا بوڑھا نظر آتا تھا ۔ حساس طبیعت ہونے کی وجہ سے جب وہ اخبار پڑھتا تو اس کی پریشانی مزید بڑھ جاتی ۔ گندا پانی پینے سے درجنوں ہلاک ، سگنل خراب ہونے کی وجہ سے ٹرین کا حادثہ ، ڈرائیور کی غفلت سے بس الٹ گئی ۔ چوریوں کی وارداتیں ، ڈکیتیاں ، زنا بالجبر ، خودکش حملوں کے واقعات ، مسجدوں میں بم دھماکوں کے سانحات اور دوسری طرف شوبز کے صفحے پر فیشن شوز مقابلہ حسن کی تصاویر ، خواتین کی کیٹ واکس ، دلہن بنانے کے مقابلے ، شان و شوکت سے بھرپور منگنی کی تقریبات ، 5 سٹار ہوٹلوں میں سالگرہ کی تقریبات ، ڈانس شوز جو تہذیب و ثقافت کے نام پر منعقد کیے گئے تھے ۔وہ روزانہ سوچتا یا اللہ یہ کیسا ملک ہے ، یہ کیسی ریاست ہے ۔ یہ کیسا معاشرہ ہے یہ کیسے لوگ ہیں جہاں غریب لوگوں کے پاس تین وقت کی روٹی نہیں ہے ، جہاں 70 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے ، جہاں پرائمری سکولوں کی چار دیواری نہیں ہے ۔ جہاں سر چھپانے کے لیے اکثریت کے پاس گھر نہیں ہے ۔ جہاں ڈومی سائل بنانا ہو تو مسائل ، شناختی کارڈ بنوانا ہو تو مسائل ، پاسپورٹ بنوانا ہو تو مسائل ، بجلی ، گیس کا میٹر لگوانا ہو تو مسائل ، ٹیلی فون کا کنکشن لینا ہو حتی کہ بلوں کی ادائیگی کرنی ہو تو پھر بھی مسائل ہی مسائل ، گھروں کے باہر گندگی ، سڑکوں پر گندگی ، گٹر ابل رہے ہیں ، کوڑا کرکٹ کے جگہ جگہ ڈھیر لگے ہیں ۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور جگہ جگہ گندہ پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے بیماریاں سرا ٹھائے کھڑی ہیں ۔ یا اللہ میں کس دنیا میں، کس مصیبت میں پھنس گیاہوں جہاں قدم قدم پر موت ہے اور مسائل کے مگرمچھ منہ کھولے کھڑے ہیں ۔

             اس کے اپنے مسائل بھی تو ختم نہ ہوئے تھے اس کی ایک بہن شادی کے دوسال بعد بدقسمتی سے بیوہ ہو گئی اور اپنے دو بچوں کے ساتھ اپنے اس بھائی کے گھر آگئی ۔ اس کی دوسری بہن کو مکافات عمل کے نتیجے میں طلاق ہو گئی اور وہ بھی اس کے گھر آگئی ۔ اس نے جذبات میں آکر طلاق دینے سے پہلے اپنے بہنوئی کے ساتھ جھگڑا کر کے بہن کے ساتھ وفادار ہونے کا حق ادا کیا تھا ۔ جس کی پاداش میں اس کو حوالات اور بعد ازاں جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی تھی ۔ کچہری ، تھانہ اور جیل دیکھ کر وہ باہرکی دنیا کے تمام غم ، دکھ اور تکالیف بھول گیا تھا اسے ہر گز اندازہ نہ تھا کہ انسان ، جج ، تھانیدار اور سپرنٹنڈنٹ جیل کی شکل میں اتنا ظالم بھی ہوسکتا ہے ۔ اب اس کوباہر کے حالات بہت پرامن اور پرسکون نظر آتے تھے ۔ اور پھر اس نے کسی کے ساتھ نہ لڑنے کا عہد کیا اور اپنی طلاق یافتہ بہن کو گھر بٹھانے کی حامی بھر لی ۔ وہ بچپن میں سوچا کرتا تھا کہ وہ ملک و قوم کے لیے کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دے گا ۔ مگر ان مسائل کے ساتھ بھلا وہ کیاکر سکتا تھا ۔جس کی اپنی صحت ٹھیک نہیں وہ بھلا دوسروں کی صحت کا کیا خیال رکھے گا ۔ جس کی اپنی تعلیم ادھوری ہو وہ دوسروں کو کیا تعلیم دے گا ۔ جس کی ساری عمر ٹینشن میں گزری ہو وہ دوسروں کو کیا آسودگی دے گا ؟

            آخر انسان ہے تھک جاتا ہے اور مایوس بھی ہو جاتا ہے وہ بھی اب تھک گیا تھا ۔ ایک دن ان حالات سے تنگ آکر اس نے خود کشی کا سوچا اور ریاستی پارلیمنٹ کے سامنے خود کو آگ لگانے کی کوشش کی مگر وہاں بھی حفاظتی پولیس پہنچ گئی اور اس کو زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا۔اقدام خودکشی کی FIR درج ہو گئی کیونکہ حکمرانوں کے بقول ایک خوشحال ریاست میں خودکشی حرام تھی ۔ ہسپتال سے ٹھیک ہونے کے بعد خود کشی کے الزام میں اس کو جیل جانا پڑا ۔ آخرکار نذرانہ دینے پر عدالت سے ضمانت ہو گئی ۔ ضمانت پر رہا ہو کر گھر جارہا تھا کہ اس نے سوچا بازار سے چھوٹی بیٹی کے لیے گڑیا خرید لوں ۔ وہ کھلونوں کی دکان سے گڑیا خرید رہا تھا کہ ایک زوردار دھماکہ ہوا جس میں دس بے گناہ لوگ موقع پر ہی زندگی کی بازی ہار گئے جن میں سے ایک خوش نصیب یہ بھی تھا ۔ لاوارث سمجھ کر دفنا دیا گیا ۔ دفنانے کے بعد فرشتے حساب کتاب کے لیے پہنچ گئے ایک فرشتے نے کہا کہ یہ آدمی اس ریاست سے آیا ہے جس کا حساب کتاب اللہ نے معاف کر رکھا ہے ۔ اس کو سیدھا جنت میں بھجو ا دیا جائے اور پھر جنت کے باغ کی ایک کھڑکی اس کی قبرمیں کھول دی گئی جہاں سے وہ جنت میں داخل ہو سکتا تھا ۔ اس نے جب فرشتے سے پوچھا کہ اس کوبغیر حساب کتاب کے جنت میں کیوں بھیجا گیا ہے تو فرشتوں نے جوا ب دیا ۔ اللہ ایک انسان کو دو مرتبہ جہنم میں نہیں بھیجتے تم چونکہ دنیا میں اپنی جہنم کاٹ چکے ہو لہذا اب یہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت الفردوس میں رہو گے ۔