۲۰ برس بعد

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : مارچ 2006

            علی الصبح فون کی گھنٹی بجی۔فون اٹھایا تو ایک عزیز دوست عبدالرحمن صاحب فرما رہے تھے کہ آج عصر کی نماز فلاں مسجد میں ان کے ساتھ پڑھوں۔ حکم کی تعمیل میں وقتِ عصر ان کی خدمت میں پہنچاتو بہت خوش ہوئے اور ایک صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے ان کو پہچانا؟میں نے کہا کہ محسوس تو یوں ہی ہوتا ہے کہ کہیں دیکھا ہوا ہے مگرصحیح یاد نہیں پڑ رہا۔کہنے لگے کہ یہ صادق صاحب ہیں۔اتناکہتے ہی پچھلے بیس بر س کی تاریح ذہن میں گھوم گئی۔معاملہ کچھ یوں تھا کہ عبدالرحمن صاحب تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے تھے اور ابھی بھی ایک جماعت کے ساتھ ہی اس مسجد میں موجود تھے۔صادق صاحب ان کے بچپن کے دوست اور ایک نیک طبیعت کاروباری آدمی تھے ۔ اگرچہ نماز روزے کے پابند تھے مگر ہمارے اس دوست کی خواہش تھی کہ یہ داڑھی بھی رکھ لیں اور تبلیغ کے لیے بھی جایا کریں۔ مگر دوسری طرف صورت حال یہ تھی صادق صاحب کی طبیعت نہ صرف یہ کہ آماد ہ نہ تھی بلکہ برعکس تھی۔وہ پیروں فقیروں کی دنیا کے آدمی تھے اور ان کی خدمت میں بے بہاپیسہ صرف کیا کرتے تھے۔عبدالرحمن صاحب کی رائے یہ تھی کہ یہ بیچارے سادہ طبیعت ہیں ۔ غلط جگہ پر وقت اور پیسہ صرف کر رہے ہیں۔ اس درد کے ساتھ انہوں نے محنت کی کہ ان کا وقت اور پیسہ صحیح جگہ پرصرف ہوجائے اور ان کی زندگی کا رخ بقول ان کے درست ہوجائے ۔یہاں ہمیں صحیح اور غلط کا فیصلہ نہیں کرنا اور نہ ہی اس طرف کوئی اشارہ کرناہے بلکہ ایک رویے کی طر ف توجہ دلانا ہے وہ رویہ جو عبدالرحمن صاحب نے اختیار کیا۔ ان کے نزدیک ان کا دوست غلط جگہ پراپنی توانائیاں ضائع کر رہا تھا اوراس کا دینی رخ درست نہ تھا تو ان کے دل میں یہ درد پیدا ہوا کہ کاش اس کا رخ درست ہو جائے ۔ اس کے لیے انہوں نے اسے ملنا شروع کیا ۔مجھے یاد ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے اکثرمجھے بھی ساتھ لے جایا کرتے تھے ۔ وہاں ان کے ساتھ بہت دلچسپ گفتگوہوتی اور میں ان دونوں حضرات کی باتوں سے بہت مستفید ہوتا۔ مجھے حیرانی اس بات پہ ہوتی تھی کہ ویسے توصادق صاحب عبدالرحمن صاحب کی غیر معمولی عزت کیا کرتے تھے مگر جوں ہی عبدالرحمن صاحب تبلیغ کی بات شروع کرتے صادق صاحب صاف معذرت کر لیتے اور کہتے عبدالرحمن اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہو گی ۔ اور آج میں دیکھ رہا تھا کہ وہی صاف انکار کرنے والا اور بات تک نہ سننے والا صادق تبلیغی جماعت کے ساتھ موجود تھا۔جوکام مجھے ناممکن نظر آ رہا تھا اور جس کے بارے میں میں عبدالرحمن سے کہتا تھا کہ تم وقت ضائع کر رہے ہو آج اسکا رزلٹ میرے سامنے تھا ۔ مجھے اپنی رائے کی غلطی کا فوراً ہی احساس ہو گیا۔اورمیں جان گیا کہ کوئی کام بھی نا ممکن نہیں ہوتا بس ہم وقت اورمحنت کے اعتبار سے اس کی مطلوبہ قیمت نہیں ادا کر پاتے ۔وقت اور محنت کے ساتھ ایک اور امر جسے ہم نظر انداز کر دیتے ہیں وہ دعا اور دل کا درد ہے ۔ یہ چیز بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ وقت اور محنت ۔ کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے اوربطور خاص کسی انسان کی اصلاح کے لیے جب تک آپ کے وقت اورمحنت کے ساتھ مطلوبہ درد اور دعا شامل نہ ہو گی اس کا حصول مشکوک ہی گا اور اگر یہ دونوں چیزیں بھی شامل ہو جائیں تو پھر ہمارے خیال میں اس کا حصول یقینی ہو جاتا ہے بشرطیکہ اللہ کی حکمت ہی کے خلاف نہ ہو۔

            کسی کی اصلاح پیغمبرانہ مشن ہے مگر اسکے لیے اسی قدر حوصلہ اور ہمت بھی درکار ہے برداشت ، حکمت ،استقامت اوردعا یہ چاروں عناصر بیک وقت کام کریں تو اصلاح کی امید کی جا سکتی ہے ۔ورنہ عام طور پر اصلاح کے نام پر یا تو لوگ نفرت پھیلا دیتے ہیں اور یا پھر مایوسی۔ عبد الرحمن کا طرز عمل ایک حقیقی داعی کا طرز عمل ہے ۔داعی اور درد لازم و ملزو م ہیں۔ دین کی دعوت یا اصلاحی مشن کے لیے دل کا درد ہونا از حد ضروری ہے۔ درد بھی فکر ، غم ، اور دکھ کی منازل سے گزر کر ہی حاصل ہوتا ہے لیکن جب حاصل ہوجاتا ہے تو پھر یہ سونے بھی نہیں دیتا۔ فکر ،غم اور دکھ میں تو نیند آہی جایا کرتی ہے مگر جسے کوئی درد لگ جائے اسے پھرنیند بھی نہیں آیا کرتی۔ دعوت کے کام کو علمی طور پر سمجھانا اور ایر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کراس کے فلسفے کوواضح کرنا تو بہت آسان ہے مگر عملی میدان میں اس قسم کے‘‘ علامے ’’اکثر ناکام ہوجایا کرتے ہیں۔ وہاں تو ‘‘عبدالرحمن’’ ہی کام آیا کرتے ہیں اور عبدالرحمن بھی وہ جو بیس برس قربان کرنے کے لیے تیار ہو۔