سوال ، جواب (ترتیب و تہذیب ، سید عمر فاران بخاری)

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : فروری 2006

ج: معلوم نہیں یہ غلط فہمی کہاں سے پھیل گئی ہے کہ لونڈی غلاموں کا اسلام کے قانون سے کوئی تعلق ہے۔ دنیا میں جو غلاظتیں اُس وقت موجود تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی تو ایسا نہیں ہوا کہ اسلام نے آکر کہا ہو کہ لونڈیاں غلام بنا لو ۔ ہزاروں کی تعداد میں لونڈیاں غلام پہلے ہی سے موجود تھے ۔ دنیا کی معیشت کا انحصار ہی ان پر تھا۔ جو صورتحال اس وقت بینکاری کے نظام کو حاصل ہے معیشت میں وہی اس وقت لونڈی غلاموں کی تھی ۔ باقاعدہ بازار لگتے تھے ۔لونڈیاں بھی بکتی تھیں اور غلام بھی ۔ ان کے بارے میں دنیا میں ایک بین الاقوامی قانون جاری تھا۔ جس طرح اب بہت سے بین الاقوامی قانون جاری ہیں ۔ یہ صورتحال ہے جس میں نبیﷺنے اصلاح کی ۔جو چیزیں معاشرت میں اس درجے میں داخل ہو چکی ہوں ان پریکدم سے پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کا شعور بیدار کیا جائے ، تعلیم اور تلقین سے اس چیز کی حقیقت ان پر واضح کی جائے اور پھر ایک تدریجی طریقے سے اسے ختم کیا جائے۔ اسلام نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا بلکہ تورات نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا تھا۔ کتابِ استثنا پڑھیے اس کے اندر یہ مسئلہ موجود ہے ۔ اس زمانے کے لحاظ سے اللہ نے قانون دیا کہ چھ سال کے بعد لازمی طور پر غلام یا لونڈی کو رہا کر دیا جائے او راس موقع پر آدمی اپنے دروازے پر کھڑا ہو کر کہے کہ جو تم کو لے جانا ہے ،تم کو حق ہے کہ لے جاؤ۔ قرآن نے بھی یہی کام کیا ایک طرف جنگوں میں لوگوں کو لونڈی غلام بنا لینے کا رواج ختم کیا۔سورہ محمد میں یہ قانون نازل کیا کہ اب اگر کوئی جنگ ہوتی ہے تو اس میں یا تو فدیہ دے کر قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے یا احسان کیا جائے۔گویا نئے لوگوں کا داخلہ بند ہو گیا۔دوسری طرف جو لوگ پہلے سے موجود تھے ان کے لیے سورہ نور میں مکاتبت کا قانون بنا دیا کہ وہ اگر اپنے بارے میں یہ بات واضح کر دیں کہ عورتیں قحبہ خانے نہیں کھولیں گی اور مرد بھکاری نہیں بنیں گے تو ن سے مکاتبت کر لی جائے ۔مکاتبت یہ ہے کہ غلام اپنے آقا سے معاہد ہ کر لے کہ میں تمہیں اتنے پیسے کما کر دوں گا تو اس رقم کی ادائیگی کے بعد وہ رہا تصور ہوتا ہے۔اس بارے میں حکم دیا کہ فکاتبوھم۔ یعنی ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان کے ساتھ مکاتبت کر کے ان کی آزادی کی راہ کھول دے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے بیت المال کو حکم دیا گیا کہ جو روپیہ تمہارے پاس ہے اگر کسی لونڈی غلام کو پاؤں پر کھڑا ہونے میں دقت ہو رہی ہو تو اس سے ان کی مدد کر دی جائے۔ اس طریقے سے جو موجود تھے ان کے لیے بھی راستہ نکال دیا گیا اور آئندہ بننے کا بھی راستہ بند کر دیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ ان کے لیے پہلے سے جاری بین الاقوامی قانون کوچند اصطلاحات کر کے اس وقت تک جاری رہنے دیا ِگیا جب تک کہ یہ معاملہ وقت کے ساتھ ختم نہیں ہوجاتا۔ اسلام نے اس معاملے میں جو طریقہ اختیار کیا میرے نزدیک ہر مصلح کو وہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ آج آپ کے ہاں کون نہیں مانتا کہ جہیز ایک لعنت ہے ، لیکن معاشرے میں آپ اس کو قانون کے ذریعے سے ختم کر سکتے ہیں ؟ اسی طریقے سے بینکاری کا نظام ہے ۔ ساری دنیا کا اس پر اتفاق ہے کہ سود ایک اخلاقی برائی ہے ،ماہرین معیشت بھی مانتے ہیں کہ یہ ایک اخلاقی برائی ہے۔ لیکن کیا آپ یکدم سے بنک بند کر سکتے ہیں کبھی نہیں۔لوگ چیخ اٹھیں گے اور معیشت دھڑام سے گر جائے گی۔یہ معاملہ بھی تد ریج کا متضاضی ہے۔اسلامی معاشرے میں سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ غلاموں کی گردنیں چھڑاؤ۔ جس دین نے اس بات سے اپنی دعوت کی ابتدا کی ہو اس پر اس سے بڑا الزام کیا ہو سکتا ہے کہ اس میں غلامی کی گنجایش رکھی گئی ہے۔ اصولی بات وہی ہے کہ اگر کسی معاشرے کے اندر کوئی چیز اس درجے میں پھیل چکی ہو تو پھر اس کو احمقانہ طریقے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرض جب آپ کوواپس ملے گا تو اس وقت اس پر زکوۃ عائد ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرض بجائے خود سوسائٹی کی ایک خدمت ہے ۔ آپ نے اپنے کسی بھائی کو اپنے پاس پڑے ہوئے اگر پیسے دے دیے ہیں تو یہ آپ کا اس کے اوپر احسان ہے۔ آپ اس کو اپنے پیسے استعمال کرنے کے لیے دے رہے ہیں ۔ زکوۃ کی طرح آپ نے معاشرے کی یہ خدمت کر دی ۔جب پیسے واپس آئیں گے تو پھر لازم ہے کہ آپ اس کی زکوۃ ادا کریں ۔ البتہ جو لوگ کاروباری نوعیت کے قرض لیتے ہیں جیسے بنکوں سے لوگ کروڑوں روپے کا قرض لے لیتے ہیں تو جن لوگوں نے قرض لے رکھا ہے اور وہ اس کو استعمال کر رہے ہیں تو وہ قرض کی وجہ سے زکوۃ سے مستثنی نہیں ہوں گے۔ ان کے اوپر اسی طرح زکوۃ عائد ہو گی جس طرح دوسری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ زکوۃ میں مالک بنانے کی شرط کوئی ضروری نہیں ہے ۔یہ مسئلہ اصل میں ایک آیت کا مدعا غلط سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہواہے۔ زکوۃ سے آپ ادارے بھی بنا سکتے ہیں اورنظام بھی۔تملیک کی شرط تو ایسی ہے کہ بقول ہمار ے جلیل القدر استاد کے الفاظ میں کہ اب اگر کسی لاوارث مردے کو کفن دینا ہو تو پہلے اس کو زندہ کر کے مالک بنائیں گے پھر اس کے بعد کفن دیں گے ۔تملیک کوئی چیز نہیں ہے ۔ آپ زکوۃ لوگوں کو دے بھی سکتے ہیں اوران کی بہتری کے کاموں میں بھی صرف کر سکتے ہیں ۔تملیک کی شرط نے حیلے کی بدترین قسم کو ایجاد کرنے پرمجبور کر دیا ہے۔مدارس میں حیلہ یہ کیا جاتا ہے کہ جب آپ زکوۃ کی رقم لیکر جاتے ہیں تو کہتے ہیں لے آئیے اور پھر کسی طالب علم کو اس کا مالک بناتے ہیں اور پھر اس سے اندر خانے وعدہ لے لیتے ہیں کہ تم مدرسے کو اعانت کر دو گے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: انشورنس بذات خود بری چیز نہیں، یعنی اگر لوگوں کی مدد کا نظام قائم کیا جائے تو اس سے ا چھی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ بہت سے لوگ تھوڑاتھوڑاجمع کریں اور پھر اس کے بعد کوئی قاعدہ ضابطہ بنا کر کسی آدمی پر کوئی افتاد آجائے تو اس کو دے دیں۔ یہ اپنی جگہ پر اعلی چیز ہے ۔ اس وقت اس میں سود کی آلائش ہے یعنی چونکہ پورا سسٹم سود پر چل رہا ہے تو انشورنس بھی اس کی آلائش سے محفوظ نہیں ہے۔آپ اگر محتاط زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو اس سے بچنے کی کوشش کیجیے اور اگر کوئی مجبوری ہے تو اللہ معاف فرمائے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلام کہاں ہے ؟ میں کہتا ہوں کہ پوری قوت سے اگر دنیا میں کوئی چیز موجود ہے تو اسلام ہی ہے ۔ اس کے پاس کوئی حکومت نہیں ،اس کے پاس کوئی طاقت نہیں ،وہ دنیا میں سپر پاور نہیں ، اس کے باوجود لاکھوں کروڑوں دلوں پر حکومت کر رہا ہے اور آج بھی لوگ خلوت اور جلوت میں اس کے سامنے سر جھکا تے ہیں ۔ اپنے دل سے پوچھیے کیا اس میں اسلام نہیں تو پھر یہ پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے کہ اسلا م کہاں ہے؟

 

(جاوید احمد غامدی)

ج: عزت نفس ایک بڑی پاکیزہ چیز ہے یعنی آدمی اپنے آپ کو خدا کا بندہ تو سمجھتا ہے لیکن خود کو حقیر مخلوق نہیں سمجھتا ۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ مجھے عزت اور وقار کے ساتھ اپنا معاملہ کرنا ہے ۔ عزت اور وقار ایک الگ چیز ہے جبکہ انانیت اور چیز ہے ۔اس کو دوسر ے لفظوں میں تکبر سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ سے جب یہ پوچھا گیا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اچھا لباس پہنوں ، اچھا جوتا پہنوں تو کیایہ تکبر تونہیں ہے؟ تو آپ نے فرمایا اللہ جمیل ویحب الجمال یعنی اللہ خود بھی خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کو پسند کرتے ہیں ۔یہ کوئی بری چیز نہیں ہے ۔ تکبر اور انانیت یہ ہے کہ آدمی حق کے سامنے اکڑ جائے اور دوسروں کو حقیر سمجھے۔ ہر انسان کو اپنا بھائی سمجھیے ، کبھی کسی کو حقیر نہ جانیے اور اگر کسی وقت اقتدار ،دولت یا علم کے زعم میں کوئی غلط بات کر بیٹھیں تو ہاتھ جوڑ کر معافی مانگیے اس لیے کہ مظلوم اور اللہ کے مابین کوئی حجاب نہیں ہوتا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالی کے ریکارڈ آفس کوقرآن لوح محفوظ کہتا ہے۔ یہ پوری سلطنت جو چل رہی ہے تو اس کا نظم و ضبط آخر کہیں سے توکنٹرول ہوتا ہے، اس کو قرآن نے لوح محفوظ سے تعبیر کیا ہے او ر یہ بتایا ہے کہ وہاں ایسا پہرہ لگا دیا گیا ہے کہ کسی کے بس میں نہیں ہے کہ وہاں دراندازی کر سکے ۔یہ محض اطلاع نہیں ہے کہ جو قرآن نے دی ہے بلکہ ایک مسئلے کے ضمن میں اسے بیان کر دیا گیا ہے ۔قریش نے جب یہ کہا کہ قرآن شیطان کا الہام ہے تو قرآن نے وہاں بڑی تفصیل کے ساتھ اس کا تذکرہ کیا ہے کہ یہ محمد الرسول اللہﷺ کے پاکیزہ قلب پر نازل ہوتا ہے ، جبریل امین جیسا فرشتہ ا سکو لیکر آتا ہے جو‘‘ مطاع ثم امین’’ہے، کسی کی ہمت نہیں ہے کہ دراندازی کر سکے ۔جس وقت یہ قرآن نازل ہو رہاتھا تو اس پورے عرصے کے دوران میں جو بائیس تئیس سال کا عرصہ ہے قرآن نے بتایا ہے کہ آسمان پر پہرے لگا دیے گئے اور جنا ت کو جہاں جہاں پہنچنے کی اجازت تھی وہ اجازت بھی ختم کر دی گئی ہے اور مزید یہ بتایا کہ جبریل اس کو جہاں سے لیتے ہیں وہ اللہ تعالی کا ایک محفوظ ریکارڈ آفس یعنی لوح محفوظ ہے وہاں پر کسی شیطان کی دراندازی کا کوئی امکان ہے ہی نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس پر سائنسی تحقیق کرنی چاہیے یہ کوئی مذہب کا مسئلہ نہیں ہے ۔ میرے علم کی حد تک اب تک توکوئی ایسی چیز سامنے نہیں آئی کہ ایسے کوئی اثرات ہوتے ہیں۔ چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کے اثرات سمندروں کے مد و جزر پر ہوتے ہیں تووہ ایک سائنسی طور پر متحقق چیز ہے ۔لیکن حاملہ عورت پر ایسے کوئی اثرات ہوتے ہیں یہ کوئی سائنسی طور پر متحقق چیز نہیں ہے اور نہ ہی یہ مذہب کامسئلہ ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جھوٹ کا گنا ہ نہیں ہو گا تو پھر کس چیز کا گنا ہ ہو گا ۔ چیزوں کی سیل کے معاملے میں اگرجھوٹ بولتے ہیں تو یہاں ایک اور جرم بھی شامل ہو جاتا ہے اور وہ ہے فریب۔ یہ دونوں اخلاقی جرائم اور برائیاں ہیں ان سے بچنے کی کوشش کریں اورنہیں ممکن توکوئی اور جاب تلاش کریں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالی اگر اذن دیں گے تو آپ کو حق ہو گا کہ آپ اپنا کوئی حق معاف کرسکیں۔ اللہ کے اذن ہی سے ہو سکے گا اگر وہ اذن نہیں دیں گے تو کچھ نہیں ہو سکے گا۔اور اس کا اذان اس کی حکمت اور عدل کے مطابق ہی ہو گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: تقوی انسان کے اندر موجود ہے، اس کو پیدا کرنے کی نہیں بلکہ صرف اس کو آواز دینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی شخصیت کے اندر دونوں خاصیتیں رکھی ہیں وہ چاہے تو اپنے آپ کو بچا کر بھی رکھ سکتاہے اور چاہے تو اپنی باگ ڈھیلی بھی چھوڑ سکتا ہے۔آپ کے اندر یہ چیز موجود ہے اس کو صرف بیدار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔بیدار کرنے کے لیے چند چیزوں کی ضرورت ہے ۔کائنات کی حقیقت سمجھ لیں،اپنی حقیقت سمجھ لیں ، دنیا کا نظام سمجھ لیں اور اپنے انجام پر غور کر لیں جب اس چیز کا شعور آپ کے اندر پختہ ہو جائے گا تو تقوی بیدار ہونا شروع ہو جائے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عمر تو متعین نہیں کی جا سکتی ۔ہرایک کو اپنے حالات کے لحاظ سے اس کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ لیکن کوشش کیجیے کہ جلد کر لیں کیونکہ موجودہ زمانے میں عفت اور عصمت کو بچانا بہر حال مشکل امر ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یا رسول اللہ کہنے کے پیچھے محرک ہے کیا ہے یہ دیکھا جائے گا۔ ایک تو یہ ہے کہ محبت کے ساتھ بعض اوقات مخاطبت کے صیغے استعمال کیے جاتے ہیں۔ہم کہتے ہیں کہ اے وطن کا ش میں تجھ پر نثار ہو جاتا ۔ماں فوت ہو گئی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ اے ماں ! کا ش تو دیکھتی آج تیرا بیٹا کتنی بڑی کامیابی حاصل کر کے آیا ہے ۔ یہ درحقیقت کوئی خطاب نہیں ہوتا جس میں کوئی بات پہنچانا پیش نظر ہوتا ہے۔ یہ تو اصل میں محبت کا اسلوب ہے جو دنیا کے ہر ادب میں اختیار کیا جاتا ہے ۔اسی اصول پر حالی جیسے شخص نے جس سے بڑا موحد شاعر شاعروں میں شاید ہی کوئی ہو یہ کہا کہ:

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے

 امت پہ تیر ی آکے عجب وقت پڑا ہے

اسی اصول پہ اقبال نے کہا :

نگا ہے یا رسول اللہ

اس پر کوئی اعتراض نہیں وارد ہوتا ۔لیکن یہ کہ حاضر و ناضر مان کراور خدا کی طرح ہر بات کو سننے والا مان رہے ہیں تو یہ شرک ہے جس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن و سنت میں اس خیال کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ ہم قبرستان جاتے ہیں اپنے جذبات کی تسکین کے لیے ، عبرت حاصل کرنے کے لیے اور یہ بات یاد رکھنے کے لیے کہ ہم کو بھی ایک دن یہیں آناہے ۔ مردے سنتے ہیں یا نہیں سنتے ، محسوس کرتے ہیں یا نہیں کرتے ، اس کے جاننے کا کوئی مستند ذر یعہ ہمارے پاس نہیں ہے اس طرح کی کوئی بات نہ قرآن میں کہی گئی ہے اور نہ ہی کسی مستند حدیث میں بیان ہوئی ہے ۔البتہ جب ہم جاتے ہیں تو یہ ہمار ے تعلق کا تقاضا ہے کہ ہم ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میرا نقطہ نظر تو یہ ہے کہ قصر نماز سفر کی حالت سے مشروط ہے۔ اگر آپا دھاپی کی کیفیت ہو توقصر پڑھنی چاہیے اگر آپ اطمینان سے ٹھہرے ہوئے ہیں او رکوئی مسئلہ نہیں ہے توپوری نماز پڑھیں۔ لیکن احناف کی عمومی رائے یہی ہے کہ مجرد سفر قصر کا باعث بن جاتا ہے ۔اگر آپ اس پر عمل کرنا چاہتے ہوں تو اس کے لیے 15 دن کی مدت مقرر کر رکھی ہے آپ قصر کر سکتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)