سوال ، جواب (ترتیب و تہذیب ، سید عمر فاران بخاری)

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جنوری 2006

ج: اگر وہ آپ کو ایسی بات کہتے ہیں کہ جو دین کے خلاف ہے ، تو آپ ان کی بات معذرت کے ساتھ رد کر سکتے ہیں، باقی معاملات میں نافرمانی کی معقول وجہ ہونی چاہیے ۔ خدا کے بعد سب سے بڑا حق والدین کا ہے ۔ اللہ تعالی اپنی عبادت کا حکم دیتے ہیں اس کے فوراً بعد کہتے ہیں وبالوالدین احسانا ۔مشرک اور بے دین والدین کے بارے میں بھی حکم ہے کہ دنیا کے معاملات میں ان کے ساتھ بالکل دستور کا ،نیکی کا تعلق رکھا جائے ۔ہر حال میں ان کی عزت کی جائے گا ان کا احترام کیا جائے گا۔ اصل میں تو والدین کی فرمانبرداری ہی ہونی چاہیے جب تک کہ نافرمانی کی ٹھوس وجہ نہ ہواور یہ ٹھوس وجہ آپ کو اللہ کے ہاں ثابت کرنا ہوگی ۔ہوسکتا ہے جو یہاں ٹھوس ہو وہاں وہ ریت ثابت ہو۔ اس لیے اس احساس کے ساتھ والدین سے معاملہ کرنا چاہیے کہ ہم اس کے با رے میں ایک ایسی ذات کو جوابدہ ہیں جو دلوں کے بھید جانتی ہے اور اعمال کے محرکات تک سے باخبر ہے ۔ اگر والدین کوئی حکم اللہ یا اللہ کے رسول کے خلاف دے دیں تو نافرمانی ہو سکتی ہے ۔ وہ کوئی ایسی بات کہتے ہیں کہ جس کا آپ کی زندگی پر برا اثر پڑ سکتا ہے اور والدین خواہ مخواہ اس پر اصرار کر رہے ہیں ، تو شائستگی کے ساتھ معذرت کی جاسکتی ہے لیکن عام حالات میں تو ان کی فرمانبردار ی ہی ہونی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سجاناہی ہے تو دنیاکو سجائیے تا کہ یہ لوگوں کے رہنے کے لیے ایک اچھی جگہ بنے۔لیکن بعض اوقات آدمی کے جذبات ہوتے ہیں ۔ان جذبات میں اگر کوئی اپنے ماں باپ ،یابھائی بہن،یا بچے کی قبر پر دو پھول رکھ دیتا ہے تواس میں کوئی حرج نہیں ۔لیکن قبروں کے ساتھ اس طرح کی وابستگی اختیار کر لینا جس طرح کی ہمارے ہاں بعض لوگ اختیار کر لیتے ہیں تو یہ اسلامی مزاج کے خلاف ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس طرح کی دوستی حدود کے اندر رہے گی ،یہ بہت مشکل امر ہے ۔ اس لیے کہ اللہ نے دونوں صنفوں کے مابین غیر معمولی کشش رکھی ہے اور پھر چھوٹی عمر میں انسان بہتر انتخاب کے قابل بھی نہیں ھوتا۔ایسے میں تو جو بھی قریب ہو ،جس سے بھی تعلق محسوس ہواس سے دوستی ہو جاتی ہے۔ اس وجہ سے اس میں احتیاط کرنی چاہیے تاکہ فتنے سے بچے رہیں۔Physical contact تو بالکل ممنوع ہے ۔دوستی سے بچنا اصل میں فتنے سے بچنے کے لیے ہے ۔ خود بری چیز نہیں ہے لیکن بری چیزوں تک لے جاتی ہے ۔ اس لیے سد ذرائع کے تحت اس سے پرہیزکرنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عام لوگوں کو حدیث پڑھانے کے لیے مشکوۃ ایک اچھا انتخاب ہے ۔ جتنے بھی محدثین ہیں جیسے بخاری یا مسلم ،ان سب نے اپنے اپنے زاویے سے حدیث کی کتابیں مرتب کی ہیں۔مشکوۃمیں تمام کتابوں کا انتخاب کرلیا گیا ہے اوراس کی ترتیب بہت اچھی ہے یعنی مسئلہ پوری طرح سامنے آجاتا ہے۔ بخاری اصل میں اہل علم کی کتاب ہے ، اس لیے میرے خیال میں عوامی درس کے لیے اس کا انتخاب بہتر نہیں۔ اسی طرح مسلم ایک ہی روایت کو مختلف طریقوں سے لاتے چلے جاتے ہیں اس میں بھی مخاطب بوریت محسوس کرنے لگ جاتا ہے۔ مشکوۃ ایک خوبصورت انتخاب ہے۔ جو روایتیں میں چھوڑتا ہوں وہ ضعیف ہیں ۔ صاحبِ مشکوۃ نے کچھ ضعیف روایتیں بھی جمع کر دی ہیں ۔اس وجہ سے میں ان کو چھوڑ دیتا ہوں ، صحیح روایتوں کو لے لیتا ہوں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلامی شریعت کی رو سے شادی یا تو کسی مسلمان کے ساتھ ہو سکتی ہے یا اہل کتاب کے ساتھ ۔اہل کتاب کے ساتھ بھی شادی کرنے میں احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ اس وقت اہل کتاب کی صورتحال یہ ہے کہ بہت سی حرام چیزیں ان کے ہاں حلال ہیں اور مشرکانہ چیزیں ان کے اندر داخل ہو گئی ہیں۔ایسے میں آدمی کیسے اس چیز کو گوارا کر لے گا کہ اس کے گھر میں حرام چیزیں بھی آجائیں اور مشرکانہ بھی۔اولاد کے متاثر ہونے کاخدشہ الگ سے ہوتا ہے۔ تاہم قانونی اجازت ہے۔ اہل کتاب کے علاوہ کسی اور کے ساتھ شادی ممنوع ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قدیم مذاہب میں قربانی سے پہلے قربانی کے جانور کو معبد یعنی عبادت گاہ کے سامنے پھیرے دیے جاتے تھے ۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بھی مروہ پر حضرت اسماعیل کی قربانی سے قبل اسیطرح کیاسعی اسی کی یاد گار ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کنواں تو وہاں پہلے ہی سے موجود تھا۔ہمارے ہاں جو قصہ بیان کیا جاتا ہے وہ اصل میں تورات میں بیان ہواہے ۔ہمارے ہاں بھی وہیں سے آیا ہے۔یہ خلاف عقل بھی ہے اور خلاف قرآن بھی۔قرآن یہ کہتا ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کا واقعہ جب پیش آیا، تو اس موقع پر حضرت ابراہیم ؑ نے دعا کی تھی کہ اب میں اپنی اولاد کو اس وادی میں آباد کرتاہوں ۔ آباد کرنے کا ذکر ہی اس وقت ہوا ہے اور اس وقت وہ دس پندرہ سال کے تھے ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اسماعیل سے پوچھا ہے کہ میں نے یہ خواب دیکھا ہے تو انہوں نے کہا کہ یابت افعل ما تومر تو یہ بات کوئی دودھ پیتا بچہ تو نہیں بات کر سکتا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حج میں اصل میں شیطان کے خلاف جنگ کو Symbolize کیا گیا ہے۔ دنیا میں جب انسان آیا ہے تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم اب دنیا میں جاؤ تم دونوں اب ایک دوسرے کے دشمن ہوگے۔ تو شیطان ہمارے مقابل میں کھڑا ہے ، اللہ ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ہماری زندگی اصل میں شیطان کے خلاف شب و روز کی جنگ ہے ۔حج اس کا علامتی اظہار ہے۔آپ احرام باندھتے ہیں تو گویا دنیا سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں ۔وہ دنیا جس میں شیطان آپ کو ملوث کرنا چاہتا ہے ۔شیطان جن جگہوں سے حملہ کرتا ہے ان چیزوں کو اپنے اوپر حرام قرار دے لیتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا حملہ جنس کے راستے سے ہوتا ہے تو تمام جنسی تعلقات ختم ہو جاتے ہیں ۔اس کے بعد گویا ایک مجاہد کی طرح پڑاؤ ڈال دیتے ہیں۔منی میں ڈالا پھر عرفات میں گئے ،خدا کے حضور جا کر دعائیں کیں پھر وہاں سے واپس آئے۔تو شیطان کی جو علامتیں بنائی گئی ہیں ان کو آپ مارتے ہیں ۔ اس کے بعد قربانی کرتے ہیں یعنی اپنے آپ کو اس جنگ میں پیش کر دیتے ہیں ، خدا کی نذر کر دیتے ہیں ۔یعنی گویا یہ عہد کرتے ہیں کہ اگر شیطان کے خلاف جنگ میں اللہ کے ساتھ ہو کر جان بھی دینی پڑی تو ہم یہ بھی دے دیں گے۔گویا تمثیل ہے پور ی کی پوری شیطان کے خلاف جنگ کی۔اسی کو Symbolize کر دیا گیا ہے۔حج کے مناسک کے بارے میں لوگوں نے افسانے گھڑے ہوئے ہیں۔شیطان کے بارے میں بھی ایسا ہی افسانہ ہے کہ اس نے حضرت ابراہیم ؑ کو بہکانے کی کوشش کی۔ اصل بات یہ ہے کہ ازل سے شیطان کی اور رحمان کی جنگ ہے ، جس جنگ میں ہم زندگی بھر مصروف رہتے ہیں اور پھر اس کو Symbolize کرتے ہیں ، اس شعور کے ساتھ کہ میرے نفس میں جو شیطان پڑا ہوا ہے میں اس کو کچل کر آرہا ہوں اور خدا کے ساتھ کھڑا ہوں۔آ پ منی میں پڑاؤ ڈالتے ہیں پھر عرفات میں جاتے ہیں پھرمزدلفہ میں رات بسر کرتے ہیں،یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے فوج Move کرتی ہے ۔ پھر آکے شیطان پرحملہ کر دیتے ہیں۔ اس میں شیطان پسپا ہوتا ہے ۔پہلے بڑا شیطان پھر چھوٹا یہ اس کی پسپائی کی علامت ہے۔لوگ آتے ہیں سارے کام کرتے ہیں لیکن کوئی چیز ان پر اثر نہیں کرتی کیونکہ انہیں پتا ہی نہیں ھوتا۔ حجر اسود کا بوسہ اللہ تعالی کے ساتھ عہد کی علامت ہے۔ قدیم زمانے میں ہاتھ میں ہاتھ دیکر عہد کیا جاتا تھا تو اس کو اللہ کے ہاتھ کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ اس موقع پر حضورﷺ جو دعاپڑھی ہے وہ یہی ہے کہ پروردگار میں تیرے عہد کی وفاداری کے لیے یہ کررہا ہوں۔ طواف نذر کے پھیرے ہیں ۔آپ اپنے آپ کو خدا کی نذر کر رہے ہیں ۔ حج کا جو ترانہ ہے یا ذکر ہے وہ صرف تلبیہ ہے اس کے علاوہ نہ حج کی کوئی خاص دعا ہے ،نہ خاص ذکرہے۔ جو جی چاہیں دعا کریں جو جی چاہے ذکر کریں۔لیکن دعاؤں کا ایک عجیب و غریب بوجھ لوگوں پرڈال دیا جاتا ہے۔ اس کی دعا یا ترانہ جو کچھ بھی ہے وہ صرف تلبیہ ہے اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے باقی آپ کی مرضی ۔

(جاوید احمد غامدی)