جمال کا پیکر

مصنف : یوسف خاں جذاب

سلسلہ : چھوٹے نام بڑے لوگ

شمارہ : جنوری 2006

            اقبال اپنی معرکتہ ا لآرانظم ، مسجد قرطبہ ، میں فنا و بقا کی جنگ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ جس میں مادیت کے گلے میں فنا کا ہار پہنایا گیا ہے ۔ جبکہ عشق کو جاوداں بنایا گیا ہے ۔ خیالات کا تار انہیں کشاں کشاں مسجد کے احاطے میں لیے چلتا ہے ۔ مسجد کی پرشکوہ عمارت انہیں مرد مومن یاد دلاتی ہے ۔ اور پھروہ اپنے مرد حر کی شان میں یوں نغمہ سرا ہوتے ہیں ……

ترا جلال و جمال ، مرد خدا کی دلیل

 وہ بھی جلیل و جمیل ، تو بھی جلیل و جمیل

مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے

 اسکی اذانوں سے فاش سر کلیم و خلیل

اسکے زمانے عجیب ، اسکے فسانے غریب

 عہد کہن کو دیا اس نے پیام رحیل

ساقی ارباب ذوق ، فارس میدان شوق

 بادہ ہے اسکا رحیق تیغ ہے اسکی اصیل

            میں جب بھی اقبال کے ان لازوال اشعار کو پڑھتا ہوں تو ہمارے سکول ( نارشکراللہ سرائے نورنگ ) کے سابق پرنسپل حاجی نواب علی صاحب کی شخصیت میری آنکھوں میں جھلملانے لگتی ہے۔ ہمیں ان کے ساتھ تقریبا ایک سال سے زیادہ عرصہ تک اس مادر علمی میں اکٹھے رہنے کا اتفاق ہوا اس عرصہ میں ہمیں انکے شبوں کے سوزوگداز کی بارے میں اگرچہ کچھ معلوم نہیں ہوا تاہم ان کے دنوں کی تپش سے ضرور آگاہ ہوئے، اور جس سے ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ حاجی صاحب اس قابل ہیں کہ عہد کہن کو پیام رحیل دیں ۔ ہم نے سنا ہے کہ وہ ادارہ ہذا کے پھولوں کی کیاریوں میں گوڈی اور نالائی کرتے تھے ۔ ہم نے سنا ہے کہ ادارہ ہذا کے ملازمین کی غیر موجودگی میں وہ بہ نفس نفیس گھنٹی بجایا کرتے تھے ۔ اور ہم نے سنا ہے کہ وہ بیت الخلا کو خود صاف کر دیا کرتے تھے ۔ یقینا اس مردِ درویش کے زمانے عجیب اور انکے افسانے غریب ہیں ۔ لیکن ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں کہ وہ اس ادارے کے پرنسپل نہیں بلکہ ایک عام استاد تھے ۔ ہم خود دیکھ چکے ہیں کہ وہ پرنسپل نہیں بلکہ مولوی عبد الحق کے ‘‘نور خان ’’ تھے۔ اور ہم خود دیکھ چکے ہیں کہ وہ ہمارے ادارے کے پرنسپل ہوتے ہوئے ایک طالب علم تھے ۔ لیکن یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہم جیسے استاد نہیں تھے اور ہمارے ملازمین کی طرح ملازم نہیں تھے اور عصر حاضر کے طالبعلموں کی طرح طالب علم نہیں تھے ۔ اگر استاد تھے تو ایسے استاد جیسے کہ ایک استاد کو ہونا چاہیے ۔ اگر ملازم تھے تو ایسے ملازم جیسے ایک ملازم کوہونا چاہیے ۔ اور اگر طالبعلم تو ایسے جیسے کہ ایک طالبعلم کو ہونا چاہیے۔ ان کی ساری زندگی ‘‘ ہونا چاہیے ’’ سے عبارت تھی۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے فرائض بحسن و خوبی ادا کرتے ہوئے ہماری ناک کٹوا ڈالی وہ ہر جگہ جمال کے اس عظیم مینار کی مانند تھے ، جس سے ہم جیسے اندھے راستہ تلاش کرتے ہیں ۔وہ جمال کے ایک عظیم پیکر تھے لیکن ہم نے اپنی فطرت کو مسخ کیا ہے جس کی وجہ سے اللہ نے اپنی سنت کے تحت ہمیں ان کی روشنی سے محروم رکھا ۔وہ ہمارے ادارے کی شب تاریک کے لیے ایک جگنو تھے ، جس سے ہمیں مستفید ہونا چاہیے ۔ لیکن ہم اپنی کوتاہیوں کے باعث رحمتِ خداوندی سے محروم اور تہی دامن رہے ہیں ۔ وہ شرافت کا پتلا تھے ، وہ نیکی کے آسمان کا تارا تھے اور وہ تقوی کی جنت کی ایک خوشگوار یاد تھے ۔ عاجزی اور تواضع کی چوٹیوں کو چھو رہے تھے ، حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد میں بھی کسی قسم کی کوئی کوتاہی روا نہیں رکھتے تھے ۔ لوگوں کی حتی الوسع مدد کرتے تھے بلکہ ہمارا خیال یہ ہے کہ مدد کے سلسلے میں ان کی ویلنسی +1 تھی ۔ وہ ‘‘ الیکٹران الیکٹران ’’ روپیہ بہا دیتے تھے ۔ دوسرے حضرات کی طرح حقوق العباد کو ذبح کر کے اس کے خون سے وضو بنا کر درگاہ رب العزت میں حاضری نہیں دیتے تھے ۔ ہم نے عام طور پر دیکھا ہے کہ تصوف اور تبلیغی تحریک وغیرہ سے وابستہ لوگ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کا گلا گھونٹتے ہیں ۔ لیکن حاجی صاحب ایسے آدمی نہیں تھے ، وہ ‘‘ دست بکار دل بیار ’’ کے مصداق اپنے فرائض کو پوری تندہی سے انجام دیتے تھے ۔ بچوں کا وقت کبھی ضائع نہیں کرتے تھے ۔ اپنے پیریڈز تو لیتے ہی تھے ، خالی پیریڈمیں بھی بغیر کسی ٹائم ٹیبل کے چلے جاتے تھے ۔ ہم نے کبھی انہیں سکول دیر سے پہنچتے ہوئے نہیں دیکھا اس کے باوجود بھی اساتذہ کو وقت کی پابندی کی تلقین کرتے تو بیت الغزل کی طرح مکرر فرماتے ‘‘ میں خود لیٹ آتا ہوں ’’ انہیں وقت کا بہت زیادہ احساس تھا ۔ ہم جیسے سہل پسند کبھی نغمہ سنج ہوتے ‘‘ پرنسپل صاحب ! گرمی زیادہ ہے ، ذرا سویرے چھٹی کراتے ہیں ’’ ۔ تو خندہ پیشانی سے جواب دیتے ‘‘ یہ وقت ہمارا نہیں ان مستقبل کے معماروں کا ہے ، کل خدا کو کیا جواب دیں گے ’’ تو ہم چپ سادھ لیتے ۔ لیکن پھر بھی انسان تھے الوہیت کے درجے میں نہیں رہتے تھے ۔ ان کے قدم زمین پر مضبوطی سے جمے ہوئے تھے ۔ اگر سرخلیلؑ سے آشنا تھے تو سر کلیمؑ سے بھی واقف تھے۔ روح تو اگرچہ ان کی جمال کے آسمانوں کو چھو رہی تھی لیکن جلال کے سلسلے میں بدقسمتی سے وہ اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہر ہ نہ کر سکتے تھے۔

            اللہ کو پورے پورے اسلام میں داخل ہونا مطلوب ہے لیکن جو اس معیار کی گھاٹی طے نہ کر سکے تو یہ بھی غنیمت ہے کہ حاجی صاحب کی طرح وہ اسلام کے کچھ اہم پہلوؤں سے عشق پیدا کرلے۔ بلاشبہ اس سلسلے میں حاجی صاحب کا منتخب کردہ راستہ ہمارے جیسے بے عمل لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے ۔

            آج کی دنیا مادیت کی دنیا ہے لیکن حاجی صاحب وہ مردِ قلندر تھے جن کی زندگی سراسر روحانیت سے عبارت تھی ، حاجی صاحب ریٹائرمنٹ لیکر ہم سے جدا ہو گئے ہیں ۔ ہمارا ادارہ ، اس ادارے کے بچے اور اساتذہ ، اس ادارے کے ملازم ہمیشہ حاجی صاحب کو یاد رکھیں گے ۔ ہمارے سینے ہمیشہ ان کی یادوں سے معطر رہیں گے ۔ حاجی صاحب بغیر کسی شک کے ایک نیک آدمی تھے۔ ہمارے لیے ان کی زندگی ایک کرامت سے کم نہ تھی ۔ وہ اصلاح و روحانیت کی تحریک سے وابستہ ہیں ، اپنوں کے لیے مشعل راہ اور بیگانوں کے لیے بھی …… خدا تعالی ان کی خدمت کوقبول فرمائے۔

 پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

 افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی