خاندانی عصبیت اوراسلام

مصنف : مولانا ابوالکلام آزاد

سلسلہ : انتخاب

شمارہ : دسمبر 2007

اسلام نے ساری نسبتوں اورامتیازوں کو مٹا کر صرف ایک اپنی نسبت نوع انسانی کو عطا کی اور اس نسبت سے بڑھ کر اور کو ن سی نسبت ہوسکتی ہے جس کی ایک مسلمان کو تلاش ہو۔انسان کے لیے معیارشرف جوہرذاتی اور خود حاصل کر دہ علم و عمل ہے نہ کہ اسلاف کی روایات پارینہ اور نسب فروشی کاغرو ر باطل۔ ہم کوایسا ہونا چاہیے کہ ہماری نسبت سے ہمارے خاندان کو لوگ پہچانیں نہ یہ کہ اپنی عزت کے لیے خاندان کے شرف رفتہ کے محتاج ہوں۔ اربا ب ہمت نے ہمیشہ اپنی راہ خود نکالی ہے اور اپنی عظمت ورفعت کی تعمیر صرف اسی سامان سے کی ہے جو خود ان کا بنایاہو ا تھا۔ نپولین کا ایک قول مجھے نہیں بھولتا ۔ فتح پروشیا کے بعد جب فریڈرک اعظم کی قبر پر گیا تودیکھا کہ فریڈرک کی تلوار قبر پر لٹک رہی ہے ۔ نپولین نے تلوار اتار کر ایک ساتھی کے حوالے کی اور کہا کہ پیر س کے عجائب گھر کی نذر کردے۔ یہ سن کر جنرل نے کہا کہ اگر مجھ کو ایسی باعظمت اورتاریخی تلوار ملتی تو کبھی کسی دوسرے کو نہ دیتا۔ نپولین نے کہا ‘کیا میرے پاس میری تلوار نہیں ہے ’۔سچی عظمت کی راہ یہ نہیں ہے کہ فریڈرک کی عظمت یافتہ تلوارلوگوں کو دکھلائیں ۔ سچی عظمت وہ ہے جوخود ہماری تلوار کوہماری نسبت سے ملی ہو۔ دوسروں کی تلواروں کی نمائش سے اگر دیکھنے والوں کا تعجب و احترام حاصل کر بھی لیا گیا تواسکے اصلی مالک ہم نہیں ہیں، تلوار کا مالک ہے ۔خاندان کے فخر کا بت بھی دنیا کے عہد جاہلیت کی ایک یادگار مشؤم ہے اور اسلام نے انسان کے بہت سے بنائے ہوئے بتوں کے ساتھ اس کو بھی توڑ دیا تھا۔بہت ممکن ہے کہ کل کو ایک نو مسلم چمار اپنے حسن عمل سے وہ مرتبہ پائے جوشیخ الاسلاموں کی اولاد کو نصیب نہ ہو۔یہ کل کو ہونے والی بات ہے اور آج بھی دنیا دیکھ رہی ہے کہ عمل کافرشتہ کتنے ہی بڑوں کو چھوٹا اور کتنے ہی چھوٹوں کو بڑا بناتاہے۔بلال حبشیؓ اور صہیب ؓرومی کی نسبت اس سے زیادہ ہم کیاجانتے ہیں کہ مسلمان تھے ۔اور سلمان ؓفارسی سے جب اس کے خاندان کا پوچھا گیا تو اس نے کہا ‘ سلمان ابن اسلام’ ۔ بلا ل سے اللہ کے رسول ؐکہا کرتے تھے ‘ ارحنا یابلال’ اور جب فاروقؓ اعظم کے جنازے پر نمازکی صفیں کھڑی ہوئیں تو ہزاروں قرشی اور ہاشمی مقتدی تھے اور صہیبؓ رومی امام۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی فطر ی ترقی اور قدرتی حقوق کے قیام کے لیے نسب و خاندان کے امتیاز باطل سے بڑھ کر اور کوئی روک نہیں ہو سکتی ۔ یہی چیز ہے کہ جو انسان کو اس کی ذاتی قوتوں کے استعمال اوران کے ثمرات سے محروم رکھنا چاہتی ہے اور اس خلاف فطرت راہ کی رہنمائی کر تی ہے کہ ایک شخص کو باوجود عدم استحقاق ذاتی مستحق شرف سمجھا جائے اور دوسرے کو باوجود استحقاق ذاتی کے محروم کر دیاجائے۔اسلام نے ان اکرمکم عنداللہ اتقکم کے قانون عام کا اعلان کرکے اسی مہلک انسانیت روک کو مٹانا چاہا۔اور قرآن نے بتلادیا کہ دنیا کی تمام قدیم صداقتیں بھی اسی قانون کی طرف دعوت دیتی رہی ہیں۔لیکن افسوس کہ غرورو نسل و وطن کے بت کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے پھرجوڑ لیے گئے اور نئے نئے بھیسوں میں پھر اس کی پرستش شروع ہو گئی۔ اب بہت کم سر ملیں گے جواس نشہ باطل سے سرگراں نہ ہوں۔ الا ماشا ء اللہ۔ ماخوذ از تذکرہ ، مرتبہ مالک رام (انتخاب خضر حیات)