سوال ، جواب (ترتیب و تہذیب ، سید عمر فاران بخاری)

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : دسمبر 2007

ج: جب آپ نکاح کرتے ہیں تو بیوی کے نان و نفقے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔مہر اس ذمہ داری کی ٹوکن منی (علامت )ہے ۔ یہ نکاح کے فوراً بعد ادا ہونا چاہیے ، اس کاطلاق سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ اس میں حق مہر صرف اس لیے لکھا جاتا ہے کہ اگر طلاق ہو گئی تو زیر بحث آئے گا ۔ یہ عورت کا حق ہے اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ فوراً اس کوادا کریں۔ یہ نکاح کا ایک لازمی جزو ہے ،اور بغیر کسی تاخیر کے فوراً ًدینا چاہیے ۔ یہ قرض ہے اور اگر ایک دن بھی تاخیر کرتے ہیں تو آپ مقروض کی موت مرتے ہیں، اس وجہ سے اس معاملے میں تاخیر اور طلاق کا کوئی سوال نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالی نے قرآن میں بتا دیا ہے کہ میں نے یہ دنیا آزمائش کے لیے بنائی ہے اور میں یہ چاہتا ہوں کہ تم شعور کے ساتھ اس دنیا کی آزمائش میں پورے اترو ۔اس استحقاق کی بنیاد پر میں تم کو اپنی جنت عطا فرماؤں گا ۔ اس نے فیصلے کی بنیاد اپنے علم کی بنا پر نہیں رکھی بلکہ ہمارے عمل پر رکھی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ سوال ہمارے قومی مزاج کی صحیح عکاسی ہے۔ ہمارے لیے دین سیکھنا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، قرآن سیکھنا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، مسئلہ ہے تو صرف یہ کہ کسی معاملے میں اگر تسلی نہیں ہوئی تو ہم ساری چیزوں سے محروم ہو جائیں گے۔ سب سے پہلے آدمی کو اپنے اس رویے کی اصلاح کرنی چاہیے اور اپنے اندر یہ جذبہ پیدا کرنا چاہیے کہ وہ سب چیزوں کو شیطان اور ملائکہ کے خانے میں نہ ڈالے ، اختلافات کے باوجود خیر سے فائدہ اٹھائے اور اگر کسی چیز پر اطمینان نہ ہو تو اس پر گفتگو جاری رکھے ۔ فرقہ بازی اسی رویے سے پیدا ہوتی ہے ۔ اس لیے سب سے پہلے اس رویے کی اصلاح ہونی چاہیے ۔یہی رویہ بحیثیت امت ہماری بدقسمتی بن گیا ہے ۔

            نماز کے بعد اجتماعی دعا نبیﷺ سے ثابت ہی نہیں تو مانگنے کا کیا سوال ۔ یہ صرف ہندستان میں ایک روایت بن گئی ہے ۔ آج بھی ہندستان کے باہر عالم اسلام کے علما بالعموم اس طرح دعا نہیں مانگتے ۔ حضورﷺ نے کبھی محسوس کیا کہ اجتماعی دعا کی ضرورت ہے ، یا لوگوں میں سے کسی نے درخواست کر دی کہ بارش یا کسی اور کام لیے دعا کردیں ، تب آپﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ انفرادی دعا کیجیے ، اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اجتماعی دعا نبیﷺ کی سرے سے سنت ہے ہی نہیں ۔ یہ ہماری ہندستانی روایت ہے ، اور مزید بدقسمتی یہ ہے کہ دین کے معاملے میں ہمارے علم کا حال یہ ہو گیا ہوا ہے کہ جو چیزیں روایت پکڑ جاتی ہیں ان کے بارے میں کوئی جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتا کہ اصل دین کیا ہے

(جاوید احمد غامدی)

ج: لازمی ہے ، اللہ تعالی نے خود اس کو لازم کیا ہے اور اسی کے ذریعے سے ہماری نمازیں پوری یکسوئی کے ساتھ اللہ کے رخ پر ہو جاتی ہیں ، یہ ضروری ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پھر بیوی کو عدالت میں طلاق کا مطالبہ کرنا پڑے گا ۔ اس کا شوہر رجوع کا حق رکھتا ہے ، وہ اگر نہیں چاہتی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ طلاق چاہتی ہے ۔اس کے لیے اسے عدالت سے رجوع کرنا پڑے گا ، اس کے بعد طلاق واقع ہو گی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہر بچے کے معاملے میں معاشرے کو حساس ہونا چاہیے کہ وہ دین بھی سیکھے اور دنیا بھی ۔کسی معاشر ے کے لیے یہ آخری درجے کی شکاوت کی بات ہے کہ اس میں خواتین اور بچوں کو کام کرنا پڑے ۔ سوسائٹی کو کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں کو کام نہ کرنا پڑے لیکن ہم انفرادی طور پر اس کو تبدیل نہیں کر سکتے اس لیے اس کا دوسراپہلویہ ہے کہ اگر ایک بچے کو ملازمت کرنا ہی ہے تو اچھا ہے کہ آپ کے ہاں کر لے ، آپ کم سے کم شفقت سے تو پیش آئیں گے ، ہو سکتا ہے اللہ آپ کو توفیق دے تو آپ اس کی تعلیم کا بندوبست بھی کر دیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حضرت عمرؓ بہت زیادہ مشورہ کیا کرتے تھے بلکہ اگر اختلاف ہوتا تو باقاعدہ شوری بلا کر بھی مسائل حل کرتے تھے ۔روزمرہ کے معاملات کے لیے مہاجرین کی شوری موجود تھی ، اس کے اجلاس وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے تھے اور بڑے معاملات انصار اور مہاجرین مل کر حل کرتے تھے ۔ اس کو بالکل متناسب نمائندگی کے طور پر بلایا جاتا تھا۔ ایک موقع پر جب زمینوں کا فیصلہ ہوا تو آپؓ نے حکم جاری کیا کہ پانچ پانچ آدمی انصار کے دونوں قبیلوں میں سے آئیں اور باقی مہاجرین اس میں شریک کیے گئے تھے ۔ اگر کسی معاملے میں آپ نے اپنااجتہاد نافذ کیا اور صحابہؓ نے اس سے اختلاف نہیں کیا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کو بھی سب صحابہ کی تائید حاصل ہو گئی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ واقعہ بہت صحت کے ساتھ ثابت نہیں ۔ اس میں واعظوں نے کچھ ایسی تفصیلات شامل کردی ہیں جو بالکل خلاف عقل ہیں ، اس لیے اس واقعے پر زیادہ توجہ نہیں دینی چاہیے تاہم اگر کوئی ایسی بات ہوئی بھی ہے اور انہوں نے دو جرائم کیے بھی تھے تو دونوں کی سزا دی جا سکتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جو لوگ مشرکانہ تصویریں بناتے تھے اور ان کے سامنے جا کر نذر نیاز پیش کرتے تھے ، دعائیں کرتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ یہ تصاویر ہمارے لیے نفع نقصان کا باعث بنیں گی ، اس طرح کے لوگوں کو اللہ کہیں گے کہ جن کو تم زندہ سمجھ کر پوجتے رہے ہو ان میں جان بھی ڈالو اور مجھے دکھاؤکہ ان پتھروں کی کیاحیثیت ہے ۔یہ مطلب ہے اس کا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بچوں کی تربیت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ والدین جو کچھ بچوں کو بنانا چاہتے ہیں ، گھر میں خود اس کانمونہ بنیں اور بچوں میں ہمیشہ خیر کے پہلو کو نمایاں کریں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پہلی بات یہ کہ مسلمان کبھی خاموش تماشائی نہیں بنے گا وہ اصلاح کرے گا ، ایک ایک کے پاس جائے گا ، ان کو خدا کا واسطہ دے گا ، لڑنے سے باز رکھنے کی کوشش کرے گا ، نصیحت کرنے والا بن کر ان کادامن پکڑے گا اور ان سے کہے گا کہ آپ یہ کام نہ کریں ۔ یہ طریقہ ہر مسلمان کو اختیار کرنا چاہیے ۔ جب بھی اس طرح کا معاملہ ہوتو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ کسی جتھے کے ساتھ آدمی تلوار نکال کر کھڑا ہو جائے ۔         

(جاوید احمد غامدی)

ج: نکاح اصل میں تومرد اور عورت کے درمیان ایک آزادانہ معاہدہ ہے لیکن قرآن نے یہ بھی کہا ہے کہ سوسائٹی کے جو معروفات ہیں ان کے مطابق ہونا چاہیے ۔ انہی معروفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نکاح میں خاندان اور اس کے بڑے شریک ہوں تاکہ سوسائٹی کے اندر اچھی روایات پیدا ہوں ۔ اگرصورت حال یہ ہو کہ نہ باپ موجود ہے نہ بھائی موجود ہے نہ خاندان والے موجود ہیں تو یہ ایک مخدوش صورتحال ہوتی ہے ۔ ایسے میں عدالت فیصلہ کر سکتی ہے کہ یہ نکاح اصل میں نکاح ہی نہیں ہے ۔نکاح کے لیے اعلان بھی شرط ہے خفیہ نکاح کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: انسان کو اعتماد رکھنا چاہیے کہ میرا مالک میری اتنی آزمائش کرے گا جتنی اس نے مجھے طاقت دی ہے ۔ جب انسان کم ظرفی کا ثبوت دیتا ہے تو آزمائش لمبی ہو جاتی ہے ، اگر وہ اپنے مالک پر اعتماد کر کے کھڑا ہو جائے تو اللہ تعالی اس کے بعد آزمائش اٹھا لیتے ہیں ۔ہمیں اپنے ضعف ایمان کیوجہ سے آزمائش ضرورت سے زیادہ سخت محسوس ہوتی ہے ۔اصل میں جو کھوٹ ہوتا ہے اس کو نکالنے کے لیے آزمائش لمبی کر دی جاتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ ایک ایسے شخص کا نام ہے جس نے رسول اللہﷺ کا نامہ مبارک چاک کر دیا تھا۔اس حوالے سے مسلمانوں کے اندر فطری نفرت کے جذبات پیدا ہوئے ہیں۔البتہ یہ نہیں کہاجا سکتا کہ یہ شریعت کا مسئلہ ہے۔ لیکن بہر حال ان فطری جذبات کی رعایت کی جانی چاہیے۔ اگر کوئی ناپسند کرتا ہے تو نہ رکھے لیکن شریعت نے بہر حال اسے ممنوع قرار نہیں دیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس حد تک ہے جہاں تک کہ آپ اخلاقی حدود کی خلاف ورزی نہیں کرتے ۔ ہم نے آزادی کی روایت اس طرح قائم کی ہے کہ ہمارے ایک خلیفہ راشد کے خلاف تحریک چلی ، لوگ مصر سے جمع ہونے شروع ہوئے اور ملکوں ملکوں پھر کے انہوں نے اپنے ساتھی اکٹھے کیے اور مدینہ میں آکے مسجد پر قبضہ کر لیا اور خلیفہ کے مکان کا گھیراؤ کر لیا لیکن ان کے خلاف ایک تنکہ بھی نہیں اٹھایا گیا بلکہ خود خلیفۃ المسلمین نے بار بار لوگوں کو بھیجا کہ ان کو سمجھائیے ۔ دنیا میں کہیں بھی کسی ملک کے اندر اتنی آزادی نہیں دی جاتی کہ وہ وقت کے حکمران کو ہی شہید کر دیاجائے۔ بلوائیوں نے سیدنا عثمانؓ کو شہید کر دیا اور سیدنا عثمانؓ اس وقت بھی ان کے خلاف کوئی ریاستی اقدام کرنے پر راضی نہ ہوئے ، اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلام نے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی ، اگر کسی حکومت نے کوئی پابندی لگائی ہے تو اس کی ذمہ داری اسلام پر نہیں عائد ہوتی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ جنت کے خدام ہیں۔بالکل نوخیزبچے ہونگے اور تربیت یافتہ ہو ں گے ۔ نوخیز ہونے کی وجہ سے ان کے اندر چستی اور مستعدی ہو گی ۔ خادم کے لیے یہ دوہی چیزیں چاہیے ہوتی ہیں تجربہ اور چستی ۔ یہ مومنین کے لیے جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جمعہ کی نماز میں دعا کا اصل وقت دوسرا خطبہ ہے ، ہمارے ہاں نماز کے بعد دعا کا جو رواج ہو گیا ہے یہ حضورﷺ کے زمانے میں نہیں تھا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: لامحدود مدت کی سزا جس غلطی پہ دی جائے جائے گی وہ حق کو جانتے بوجھتے نہ ماننا ہے ۔ یعنی آدمی سرکشی اور تکبر اختیار کرے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سامنے حق واضح ہو گیا لیکن اس نے اپنی انانیت یا تعصبات کی بنا پر اس کو ماننے سے انکار کر دیا ۔ یہ ایسا جرم ہے جس کی سزا لامحدود مدت کے لیے دی جائے گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سنت رسول اللہﷺ کا وہ طریقہ ہے جسے آپ نے دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ، اس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے قرآن مجید ہے ۔سنت بھی قرآن کی طرح بالکل متعین ، ہر شک و شبہ سے بالا اور صحابہ کے اجماع سے ملی ہے ۔حدیث رسول اللہﷺکے علم و عمل کا ریکارڈ ہے ۔ اس کے اندر ہر طرح کی چیزیں بیان ہوتی ہیں ۔ واقعات و ہدایات بھی بیان ہوتی ہیں، سوالات کے جوابات بھی بیان ہوتے ہیں ۔ حدیث کا تعلق تاریخ سے ہے اور سنت کا تعلق دین کے ماخذ سے ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ کی یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ایک لحاظ سے مسلمان برادری ہیں اور ایک لحاظ سے پوری انسانیت برادری ہے۔بہت سے معاملات انسانوں کے درمیان مشترک ہیں اور جب آپ انسانوں سے معاہدہ کرتے ہیں تو وہ انسانیت کی مشترکہ اساسات پر کرتے ہیں ، اس کے بعد اسلام اور کفر کے معاملات آتے ہیں۔ اگر سچائی و دیانت اور انسانوں کے لازمی حقوق پر معاہدہ کرنا ہو تو پھر اس میں کفر و ایمان کی تقسیم نہیں کی جائے گی ۔رسول اللہﷺ نے بڑی خوبی کے ساتھ اس کو واضح کیا ۔ آپ نے نبوت سے پہلے ایک معاہدے میں شمولیت اختیار کی تھی جس کے تحت جو لوگ باہر سے آتے تھے ان کے تحفظ کے لیے کچھ اقدامات کیے گئے تھے۔ جب آپ ﷺ پیغمبری کے منصب پر فائز ہوئے تو ایک موقع پر حضور ؐنے کہا کہ آج بھی اگر مجھے اس معاہدے کی دعوت دی جائے تو میں خوشدلی کے ساتھ اس پر دستخط کر دوں گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ انسانیت کی مشترک اساس پر مشتمل معاہدہ تھا۔ تو ہم نے جو معاہدات کیے ہیں اور یو این او کے چارٹر میں جو چیزیں لکھی ہیں ، ان میں کوئی چیز اگر شریعت کے خلاف ہے تو ہم ا س سے ضرور برأت کر سکتے ہیں لیکن میرے علم کی حد تک اس میں ایسی کوئی چیز نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسے تمام معاملات میں شریعت کا حکم ہے کہ معروف کی پابندی کی جائے۔ سوسائٹی میں جو باتیں اچھی مانی جاتی ہیں ، مارکیٹ کے اندر جو چیزیں مسلمہ ہیں ، ان کی پیروی کیجیے ۔ اسلام ایک آفاقی دین ہے ، اگر وہ مختلف معاملات میں منافع کی شرح متعین کر دیتا تو بدلتے حالات اور تمدن کے ارتقا میں بڑی تنگی پیدا ہو جاتی ۔ معروف شریعت سے پہلے ہوتا ہے یعنی آدمی کی عقل کیاکہتی ہے ، اخلاقی مسلمات کیا کہتے ہیں ، معاشرے میں کیا چیزیں اچھی سمجھی جاتی ہیں تو ان کے مطابق منافع کی شرح متعین کیجیے ۔        

(جاوید احمد غامدی)

ج: جو لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں وہ قائد اعظم سے واقف نہیں۔ قائد اعظم نے اس تقریر میں یہاں رہنے والی اقلیتوں کے حقوق بیان کیے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ قانون کی نگاہ میں وہ بالکل برابر ہوں گی۔ چنانچہ انہوں نے اس کی وضاحت کر دی کہ میری بات کاتعلق مذہبی معاملات سے نہیں ہے بلکہ قانونی مساوات سے ہے ۔یہ کم وبیش ویسے ہی الفاظ ہیں جو میثاق مدینہ میں خود حضورﷺ نے یہود کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے ثبت فرمائے تھے۔ اس وجہ سے میرے خیال میں ان کی بات بہت غلط سمجھی گئی ہے ۔ وہ ایک قانون پسند آدمی تھے ، انہوں نے غیر مسلموں کے حقوق بیان کیے اور بتایا کہ غیر مسلم برابر کے شہری ہیں، ان کے اور ہمارے درمیان سیاسی اور قانونی لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہو گا ۔قائد اعظم کی اس تقریر کے الفاظ بالکل دین کے مطابق ہیں ، اس میں کوئی چیز دین کے خلاف نہیں ہے ۔ اس کے دو دن بعد ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ تقریر کرتے ہوئے جب اس نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ یہاں غیر مسلموں سے اکبر کی روایات کے مطابق سلوک کیا جائے گا تو قائد اعظم نے ٹوکا اور کہا کہ نہیں بلکہ تیرہ سو سال پہلے کی محمد الرسول اللہﷺ کی روایات کے مطابق ہو گا۔تو اس طرح کے شخص کی کسی ایک بات کو لے کر سیکولر ازم نکالنے کی کوشش کرنا علمی دیانت کے خلاف ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایک رفع یدین وہ ہے جو نماز شروع کرنے سے پہلے کیا جاتا ہے ۔ یہ حضور ﷺ سے باقاعدہ ثابت ہے اور پوری امت کا اس پر اتفاق ہے۔ یہ نماز کا لازمی حصہ ہے ۔ ایک رفع یدین رکوع میں جاتے یا اٹھتے وقت کیا جاتا ہے ۔ اس پر صحابہ کا بھی اتفاق نہیں ہو سکا اورامت کا بھی نہیں۔ اس لیے اس کے بغیر نماز بلاشبہ ہوجاتی ہے لیکن اگر کوئی سمجھتا ہو کہ یہ کرنا چاہیے تو یہ کوئی بدعت نہیں ، وہ کر سکتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نبیﷺ نے بڑے ناخن رکھنے سے منع فرمایا ہے ۔ ناخن تزکیہ اور طہارت کے خلاف ہیں ۔ اسلامی اصول یہ ہے کہ جس طرح مردوں کو اپنی مونچھیں کم رکھنی چاہیں اور ناخن کاٹ کر رکھنے چاہیں، اسی طرح خواتین کو اپنے ناخن کاٹ کر رکھنے چاہیں۔ ناخنوں میں مرد یا عورتوں کا سوال نہیں ۔بڑے ناخن رکھنا دونوں کے لیے ناجائز ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)