ادھوری بات

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : دسمبر 2007

            اپنے وقت کا ایک بڑا عالم تقریر کررہاتھا۔ اس کی گفتگومیں بلا کی روانی اور اس کے اسلوب بیان میں ایک عجیب کشش تھی ۔ لوگ دم بخود اس کی باتیں سن رہے تھے اور دل ہی دل میں حیران ہو رہے تھے کہ اللہ جب کسی کو نوازنے پر آئے تو کس طرح بے حساب نواز دیتا ہے۔یہ جلیل القدر عالم کہہ رہاتھا کہ دنیا کی ہر کتاب کو سمجھ کر پڑھا جاتا ہے اوراگر کوئی کتاب کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو وہ اسے کبھی نہیں پڑھتامگر ایک قرآن ہی ایسی کتاب ہے جسے لوگ محض ثواب کے لیے بلا سمجھے پڑھے جاتے ہیں۔وہ کہہ رہا تھا کہ یہ عمل مقصدِنزولِ قرآن کے خلاف ہے اور ویسے بھی لفظ تلاوت کے اندر ہی یہ مفہوم شامل ہے کہ اسے سمجھ کر پڑھا جائے۔

            وہ بھی بڑے غور سے یہ سب باتیں سن رہا تھا۔ اسے اس عالم سے نہ صرف عقید ت تھی بلکہ وہ اس کابالواسطہ شاگر دبھی تھا مگر اس کی یہ بات اس کی سمجھ میں نہ آسکی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیا قرآن کے صرف معانی مطلوب ہیں یا لفظ و معانی دونوں؟اصولی طو ر پر اسے اس بات سے اتفاق تھا کہ قرآن کتاب ہدایت ہے اور اس سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے اسے سمجھنا بہر حال ضروری ہے مگر ساتھ ہی وہ سوچ رہاتھا کہ کیاقرآن سے تعلق کا صرف یہی ایک پہلو ہے؟ تقر یر ختم ہوئی ، باقی سب کی طرح وہ بھی اپنے گھر کو سدھارا۔ مگر یہ سوچ ابھی بھی اس کے دل و دماغ پرحاوی تھی۔ اس نے بہت کوشش کی کہ اس عالم کی بات اس کے دل تک راستہ بنا لے مگر جوں ہی وہ یہ کوشش کرتا، دو تصویریں بہت نمایاں ہو کر دل کی راہ میں حائل ہو جاتیں اور وہ ان میں کھو کر رہ جاتا۔ ان میں ایک تصویر اس کے والد کی تھی اور دوسری اس کی بیوی کی۔

            صبح دم اونچی آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کرنا اور شام کے اوقات میں بچوں کوفی سبیل اللہ قرآن پڑھانا اس کے والد کامحبوب مشغلہ تھا۔عمر بھر یہ شغل جاری رہا۔اور جب وفات کا وقت قریب آیاتو رمضان کا مہیناتھا۔نوے برس کی عمر میں ایک پاؤں چلنے سے جواب دے گیا تھااورٹانگیں سوکھ کر کانٹا بن گئی تھیں مگر اس حالت میں بھی وہ پاؤں گھسیٹتے ہوئے لاٹھی کے سہارے مسجد تک ضرور جاتے تھے ۔ اپنی زندگی کے اس آخری رمضان میں ایک دن وہ وقت ظہر نماز کے لیے مسجد پہنچے تووضو کرتے ہوئے فالج کاحملہ ہوگیا ، وہیں گر گئے ،نمازی اٹھا کر گھر تک لائے ۔فالج نے نہ صرف جسم مفلوج کر دیابلکہ ذہن پربھی شدید اثرات چھوڑے اورزبان پر بھی لکنت طاری کر دی۔ یادداشت ساتھ چھوڑ گئی مگر اس عالم میں بھی ایک بات یاد رہی کہ جب سے رمضان شروع ہوا ہے میں نے قر آن مجید کے سات پارے پڑھ لیے ہیں، اب مجھے اگلا پار ہ پڑھنا ہے۔بچے عرض کرتے،اب تو آپ پڑھ نہیں سکتے۔وہ کہتے، نہیں پڑھ سکتا تو تم لوگ مجھے پڑھ کر سناؤ۔ کم از کم ایک قرآ ن مجید تو رمضان میں مجھے ضرور ہی ختم کرنا ہے ۔ہر روز حساب لگاتے کہ آج کون سا روزہ ہے کہا جاتا کہ ،مثلاً، آج دسواں ہے۔ کہتے، اچھا تو مجھے آج دسواں پارہ پڑھنا چاہیے تھا، اچھاتم لوگ مجھے سناد و۔پورا رمضان یہی حساب لگاتے لگاتے اللہ کے حضور پیش ہو گئے۔

             رمضان آتا ہے تو اس کی بیوی کا رنگ ہی بدل جاتا ہے ۔ اب اسے بس ایک ہی دھن سوار ہوتی ہے کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن پاک ہو جائے۔ و ہ پانچ بچوں کی ماں ہے اور گھر میں اس کا ہاتھ بٹانے والا بھی کوئی نہیں۔بچے بھی کاہل اور خاوند بھی نکما،جو ایک تنکا تک نہیں توڑتے۔ کچن کی مصروفیت سے لے کر گھر کی صفائی تک، کپڑ ے دھونے سے لے کر ان کی استر ی تک، بچوں کو سکول کے لیے تیار کرنے سے لے کر ان کے ہوم ورک تک سب کچھ اسے خود ہی کرنا ہے اورظاہر ہے کہ رمضان میں بھی اسی طرح کرنا ہے ۔ان میں سے کوئی بھی کام کم نہیں ہوتا بلکہ افطاری اور سحر ی کا اہتما م مزیدبڑھ جاتا ہے اور اس اہتمام کو بھی وہ بخوبی اور بخوشی نبھاتی ہے لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ ہی وہ روزانہ پانچ یا چھ پارے تلاوت بھی کرتی ہے ۔مزید یہ کہ اس کے باقی معمولات تہجد ، نوافل ، تسبیحات اور نمازوں کے اہتمام میں بھی کوئی کمی نہیں ہوتی ۔اس طرح رمضان کے آخر میں جب وہ چھٹا قرآن پاک ختم کر رہی ہوتی ہے تو اس کے چہرے پر شکر کی عجب طمانیت ہوتی ہے اور وہ یہ دعا کرتی ہے کہ یا اللہ مجھے آئند ہ برس بھی یہ توفیق نصیب فرمائے رکھنا۔

            یہ دونوں تصویریں اس سے بار بار پوچھتی رہیں کہ کیا یہ بات اللہ کے ہاں کوئی وزن نہ پائے گی کہ اس کا کوئی بند ہ عمر بھر قرآن مجید سے متعلق رہا۔ کیا یہ بات اللہ کے رجسٹروں سے محو ہو جائے گی کہ اس کے کسی بندے کو قرآن کریم سے صرف اس لیے محبت تھی کہ وہ اللہ کا کلام تھا۔کیا اللہ کے فرشتے اس بات کو بھول جائیں گے کہ اس بندے نے عمر بھر قرآن پاک کی تلاوت کا اہتمام صرف اس لیے رکھا کہ وہ اس کے الفاظ کو اللہ کے الفاظ اور اس کتاب کو اللہ کی کتاب سمجھتا تھا ۔ اور جب وہ باوجودپوری کوشش کے ان تصویروں کے جواب نہ دے پایا تو اس کے دل نے کہا کہ اگرچہ اس عالمِ بے بدل کی بات ٹھیک بات تھی مگر وہ پوری بات نہ تھی۔