نیٹ سائنس

مصنف : محمد عبداللہ بخاری

سلسلہ : سائنس و ٹیکنالوجی

شمارہ : نومبر 2007

چائے کے فوائد مبالغہ ہیں

             برطانیہ میں اشتہاروں کے ایک نگراں ادارے نے چائے کے ایک ایسے اشتہار کی مذمت کی ہے جس میں چائے پینے کے فوائد کو بڑھاچڑھا کر ناظرین کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔

             اس ادارے نے، جو ایڈورٹائزنگ سٹینڈرز اتھارٹی (اے اس اے) کے نام سے جانا جاتا ہے، برطانیہ ٹی کونسل کے اُس پوسٹر پرتنقید ہے جو یہ کہتا ہے کہ دن میں چائے کی چار پیالیاں صحت کے لیے فائدہ مند ہیں۔ٹی کونسل کا کہنا تھا کے چائے میں فائدے کے حامل انٹی اُکسیڈینٹ ،یعنی ایسے عناصر ہوتے ہیں جو پھلوں اور سبزیوں میں بھی پائے جاتے ہیں اور اس کی وضاحت سائنس بھی کر چکی ہے۔ مگر اے اس اے نے کہا ہے کیوں کہ اس بات کی صحیح طور پر وضاحت نہی ہوئی اس لیے یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔اس نگراں ادارے نے برطانیہ ٹی کونسل پر مزید تنقید کرتے ہوے کہا کہ اس کا برطانوی حکومت کی اُس مہم سے اپنی مہم کا جوڑنا بھی غلط ہے جس میں کم ازکم پانچ پھل اور سبزیاں کھانے کی تائید کی گئی ہے۔

             اس اشتہاری پوسٹر پر لکھا گیا تھا کہ پانچ پھل اور سبزیاں اور چار پیالی چائے، یہ سب صحت مند غذا کا حصہ ہیں۔ تاہم اے اس اے کا کہنا تھا کہ اس سے لوگوں کو گمان ہو سکتا ہے کے یہ پوسٹر حکومت کی صحت مند غذا کے بارے میں کی گی مہم سے بھی منسلک ہے۔ایک غیرجانبدار ماہر کے مطابق جنھوں نے اے اس اے کو اس سلسلے میں مشورہ دیا ہے چائے کے فوائد کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔برطانیہ ٹی کونسل کے سربراہ ولیم گورمین نے کہا ہے کہ ہم نے اے اس اے کو عنقریب سو فیصد غیرجانبدار سائنسی وضاحت کرتے ہوئے تحقیاتی کاغذات پیش کیے مگر پھر بھی انھوں نے یہ بات مانتے ہوئے کہ چائے میں پائے جانے والے انٹی اکسیڈینٹ جسم میں جذب ہوتے ہیں اِسے مسترد کر دیا۔

آلودہ ترین شہر، ایک انڈیا میں

            امریکہ میں ماحولیات کے بارے میں کام کرنے والی تنظیم نے دنیا کے دس سب سے زیادہ آلودہ مقامات کی فہرست جاری کی ہے۔ 'دی بلیک سمتھ نامی اس تنظیم کی اس فہرست میں سابق سوویت یونین کی ریاستوں، چین، انڈیا، پیرو اور زیمبیا کے شہر شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ افراد شدید آلودگی کا شکار ہیں جس کی ایک بڑی وجہ کیمیائی، دھات اور کانکنی کی صنعتیں ہیں۔ آلودگی بیماریوں اور کم عمری میں موت کا باعث بن رہی ہے۔ دو ہزار سات کی فہرست میں چین کا شہر تیانگ یانگ جہاں ممکنہ طور پر ایک لاکھ چالیس ہزار افراد تانبے کی صنعت سے آلودگی کا شکار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق انڈیا کے شہر سکندا بھی آلودہ ترین مقامات میں شامل ہے۔ اس میں میں بارہ کانیں ہیں جو ماحولیاتی تحفظات کے بغیر کام کر رہی ہیں اور ان سے نقصاندہ کیمیائی اجزاء پینے والے پانی میں شامل ہو رہے ہیں۔ آذربائجان کے شہر سمگئیت میں کینسر کی شرح قومی اوسط سے اکیاون فیصد زیادہ ہے اور بچوں میں پیدائشی کمزوریوں کی صورت میں اس کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔ بلیک سمتھ کے منتظم اعلیٰ رچرڈ فلر نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ان آلودہ مقامات پر بچے بیمار اور ہلاک ہو رہے ہیں اور ان مقامات پر حالات بہتر بنانا بہت زیادہ مشکل کام نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال ذرائع ابلاغ میں آلودگی کا بہت ذکر رہا ہے لیکن اس سے نمٹنے کے لیے وسائل جمع کرنے کی طرف زیادہ کام نہیں کیا گیا ہے۔

انٹرنیٹ جرائم ایک بڑا کاروبار

              انٹرنیٹ سیکیورٹی فرم سائمینٹک کے مطابق انٹرنیٹ سے منسلک جرائم پیسے بنانے کا ایک بڑا ذریعہ بن چکے ہیں۔اپنی رپورٹ میں سائمینٹک نے ایسی چیزیں فروخت کرنے والی سائٹس کا حوالہ دیا ہے جہاں بینک اکاؤنٹس کی تفصیل اور کریڈٹ کارڈ تک فروخت کیے جاتے ہیں۔

             ویب سائٹس پر حملے کرنے والا وہ سافٹ ویئر بھی فروخت ہوتا ہے جسے جرائم پیشہ افراد اپنے کاروبار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ جرائم پیشہ افراد مائی سپیس اور فیسبک جیسی قابلِ اعتبار سائٹس کو دوسروں کے کمپیوٹروں پر حملے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

             بی بی سی کے ٹیکنالوجی کے نامہ نگار نے کہا ہے کہ ابھی تک ہیکر صرف شرارتًا کمپیوٹر پر وائرس کے حملے کرتے تھے لیکن اب انہوں نے پیسے بنانے شروع کر دیے ہیں۔اس حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب اس طرح کے حملے اربوں ڈالر کی صنعت بن چکے ہیں۔اس میں ان آن لائن ڈسکشن بورڈز کا ذکر کیا گیا ہے جن میں ممبران ایسی معلومات خریدتے اور بیچتے ہیں جس سے دوسرے کی آئڈینٹٹی تھیفٹ یا شناخت کی چوری ممکن ہو سکتی ہے۔ہمارے نامہ نگار کے مطابق حالیہ دنوں میں اس طرح کی ایک سائٹ پر کچھ لوگ سو ملین ای میل اڈریسیسز سے لے کر بینک لاگ انز اور کریڈٹ کارڈز کی تفصیلات فروخت کر رہے تھے۔اس کے علاوہ ایسی کٹس بھی دستیاب ہیں جنہیں خریدنے والا بینکوں کی جعلی سائٹس بنا سکتا ہے تاکہ گاہکوں کو پھنسایا جا سکے۔

سمندر کی تہہ میں وادی کا مشاہدہ

             سائنسدانوں نے پرتگال کے ساحل کے قریب سطح سمندر کے نیچے موجود وادی کا مشاہدہ شروع کر دیا ہے اور اب تک کئی حیران کن چیزیں سامنے آئی ہیں۔برطانوی آئی ایس آئی ایس روبوٹ یا مشینی آبدوز کے ذریعے سائنسدان پہلی مرتبہ سمندر کی سطح سے پانچ کلو میٹر نیچے اس وادی کا مشاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔یہ وادی جو امریکہ کے گرینڈ کینین کے برابر ہے لزبن کے شمال میں نظاری کے ساحل سے شروع ہوکر مشرقی بحرِاوقیانوس میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ وادی نقشوں پر تو موجود تھی لیکن اس سے پہلے اس کا مشاہدہ نہیں کیا گیا۔ اس مشینی آبدوز کو برطانیہ کے تحقیقاتی جہاز جیمز کک سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ اس کا کنٹرول روم جو اسٹار وار جیسی کسی فلم کا کوئی سیٹ دکھائی دیتا ہے سائنسدانوں کی ایک ٹیم اس آبدوز کو اس وادی میں اتار رہا تھا جس کے ذریعے اس وادی کی تصاویر حاصل کی جا رہی تھیں۔تین ہزار چھ سو میٹر کی گہرائی میں اچانک ایک شارک دکھائی دیتی ہے۔ سائنسدانوں اس پر حیرت زدہ ہوجاتے ہیں کیونکہ شارک تین ہزار میٹر سے زیادہ گہرائی میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔

              سائنسدان اس کے بارے میں مختلف آراء رکھتے ہیں اس ٹیم کی قیادت کرنے والے سائنسدان پروفیسر ڈو ماسن نے بتایا کہ سائنسدان اس بات پر اختلاف رکھتے ہیں کہ آیا اتنی گہرئی میں کوئی جگہ سمندری حیات کے بارے میں تحقیق کے لیے دلچسپی کا باعث بن سکتی ہے یا یہ کوئی سمندر کے نیچے صحرا ہے۔انہوں نے کہا حقیقت میں یہ دونوں کا امتزاج ہے یہاں کی چٹانوں پر سمندری حیات کے آثار ہیں جبکہ بعض جگہیں صرف ٹیلے ہیں اور زندگی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔پروفیسر پال ٹیلر کے لیے جوکہ میرین بائیلوجسٹ ہیں کے لیے یہ مہم زیر زمین حیات کے بارے میں معلومات اکھٹا کرنے کا ایک بہترین موقع ہے۔

             انہوں نے کہا کہ کئی دوسرے علاقوں میں گہرے سمندروں میں ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کر چکی ہیں وہ یہاں وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا تبدیلیاں آ رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی خطہ ماحول میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔اس ٹیم کی اگلی مہم آئرلینڈ کے ساحل کے قریب وٹارڈ کینین کا مشاہدہ کرنا ہے۔

نوکیا: بیٹریوں میں خرابی کا اعتراف

             اوور ہیٹنگ کی شکایات خاص طور پر بی ایل - فائیو سی ٹائپ کی بیٹریوں کے بارے میں ملی تھیں۔ نوکیا نے اپنے چار کروڑ ساٹھ لاکھ موبائل ٹیلی فونوں کی بیٹریاں تبدیل کرنے کی پیشکش کی ہے۔ ان موبائل فونوں کے بارے میں یہ شکایات ملی تھی کہ چارجنگ کے دوران یہ بیٹریاں ضرورت سے زیادہ گرم ہو جاتی ہیں۔ یہ شکایات خاص طور پر بی ایل - فائیو سی ٹائپ کی ان بیٹریوں کے بارے میں پائی گئی تھیں جو دو دسمبر دو ہزار پانچ سے نومبر دو ہزار چھ کے دوران ماٹسوشیٹا نے تیار کی تھیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ نوکیا کے لیے اسی ٹائپ کی دیگر پچیس کروڑ یا دو سو پچاس ملین بیٹریوں میں جو دوسرے اداروں نے بنائی تھیں کوئی شکایت نہیں پائی گئی۔ موبائل ٹیلی فونوں کے اس بڑے ادارے کا کہنا ہے کہ اسے ان بیٹریوں کی اوور ہیٹنگ یا ضرورت سے زیادہ گرم ہونے کے بارے میں سو شکایات ملی تھیں۔ کمپنی کے مطابق یہ بیٹری پچاس مختلف ٹیلیفونوں میں استعمال کی جاتی ہے۔تاہم اس سیسلسلے میں جاری کیے جانے والے کمپنی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ضرورت سے زیادہ گرم ہونے کی اس شکایت کی وجہ سے کسی کیشدید زخمی ہونے یا کسی مالی نقصان کی شکایت نہیں ملی۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ صارفین کو اگر اپنے فون کی بیٹریوں کے بارے میں کوئی شکایت ہے تو وہ کمپنی کی ویب سائٹ پر جا کر معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ایسے صارفین جن کے موبائل فونوں میں مذکورہ ساخت کے بیٹریاں ہیں وہ چارجنگ کے دوران درکار احتیاطوں کے بارے میں بھی ویب سائٹ سے جان سکتے ہیں۔

(بشکریہ ، بی بی سی ڈاٹ کام)