کبوتر ، ہاتھی اور کتے

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : دلچسپ و عجیب

شمارہ : اگست 2007

انڈیا کے امیر ترین کبوتر

کہتے ہیں دانے دانے پر لکھا ہے کھانے والے کا نام، لیکن راجستھان کے دو گاؤں میں سینکڑوں بیگھا زمین کے دانے دانے پر کبوتروں کا نام لکھا ہے۔ جودھپور ضلع کے ناڈسر اور آسوپ گاؤں کی چار سو باسٹھ بیگھے زمین باقاعدہ کبوتروں کے نام ہے اور اس زمین کی آمدنی سے پورے سال کبوتروں کو دانا ڈالا جاتا ہے۔یہ زمین ان دیہاتوں میں بنائی گئی ‘کبوتران کمیٹی’ کے نام ہے۔ کمیٹی زمین کی دیکھ بھال کرتی ہے اور پرندوں کے لیے صاف دانے اور پانی کا انتظام کرتی ہے۔آسوپ کی کبوتران کمیٹی کے صدر ڈونگر رام کاسٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ کمیٹی کے پاس بائیس لاکھ روپے ہیں جو ایک بینک میں فکسڈ ڈیپازٹ میں رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ کمیٹی کے پاس تین دوکانیں بھی ہیں۔ دس ہزار آبادی والے آسوپ میں قدم رکھتے ہی کبوتروں کی غٹرغوں شروع ہوجاتی ہے۔ گاؤں میں کبوتروں کے لیے پندرہ چبوترے بنے ہیں اور جالی لگا کر کبوتروں کے لیے محفوظ گھر بھی بنائے گئے ہیں۔شروع شروع میں سالانہ انکم کو سود پر دیا جاتا تھا تاکہ آمدنی بڑھے لیکن اب بینک میں فکسڈ ڈیپازٹ کرا دی گئی ہے۔ گاؤں کی ترقی کے ساتھ ساتھ زمین کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔ ایسے میں کبوتر کمیٹی کے کچھ لالچی ممبران سے زمین بچانے کے لیے چوکس رہنا پڑتا ہے۔دوسرے گاؤں ناڈسر کے سرپنچ پرکاش چندر لوہڑا کہتے ہیں ‘ان دونوں دیہاتوں میں یہ قدیم روایت ہے۔ بعض فراخ دل افراد نے برسوں پہلے یہ زمین کبوتروں کے نام کردی تھی۔ پچھلے پچاس برس سے تو میں یہ روایت دیکھ رہا ہوں۔’ ناڈسر میں ایک سو بارہ بیگھے زمین کبوتروں کے نام ہے۔ دس چبوتروں پر دانا ڈالا جاتا ہے اور روزانہ ایک بوری دھان کبوتر چگ جاتے ہیں۔پرکاش لوہڑا کا کہنا ہے کہ برسوں پہلے گاؤں کے لوگوں نے کبوتروں کے لیے زمین ٹھیکے پر دے دی تھی۔ یہ زمین حصہ داری کے تحت کاشت کے لیے دی جاتی ہے اور کھیتی سے کی گئی آمدنی کبوتروں کے کام آتی ہے۔آسوپ کے اشوک سنگھوی کہتے ہیں ‘ یہ ثواب کاکام ہے۔ کسی دن کبوتر نہ آئیں تو عجیب لگتا ہے۔ کبوتر اس گاؤں کا اہم حصہ بن گئے ہیں۔ شروع شروع میں سالانہ انکم کو سود پر دیا جاتا تھا تاکہ آمدنی بڑھے لیکن اب بینک میں ایف ڈی کرا دی ہے۔ گاؤں کی ترقی کے ساتھ ساتھ زمین کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔ ایسے میں کبوتر کمیٹی کے کچھ لالچی ممبران سے زمین بچانے کے لیے چوکس رہنا پڑتا ہے۔’ اس گاؤں سے سینکڑوں میل دور جے پور میں پچھلے دنوں حکومت نے البرٹ ہال سے کبوتروں کو بھگانے کے لیے شکاری باڑ تعینات کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن گاؤں والوں کی مخالفت کے بعد حکومت کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔

 راجستھان میں ہاتھیوں کا پولو میچ

 راجستھان میں ہاتھی پولو چیمپئن شپ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ انھیں اس چیمپئن شپ کا انتظام کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے منظوری مل گئی ہے۔ منتظمین کے مطابق جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے سرکاری محکمہ ‘اینیمل ویلفئر بورڈ’ نے انھیں اس کی اجازت دی ہے۔

‘ الٹرنیٹو کارٹر ایلیفینٹ پولو کپ 2006’ نام کی اس چیمپئن شپ کا ہاتھیوں کے مالکوں نے خیر مقدم کیا ہے۔یہ چیمپئن شپ راجستھان کے جے پور شہر میں ہوگی۔ حالانکہ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ہاتھیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم 'ہاتھی پریوار' کے ممبر ڈاکٹر مدھو لال کا کہنا ہے کہ ہاتھیوں پر کسی بھی طرح کا ظلم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ‘ ہم آئرن پوڈ کا استعمال نہیں کریں گے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ممبئی جیسے شہر میں بیٹھے بعض افراد اسے بے وجہ کا ایک تنازعہ بنا رہے ہیں۔ ہم ہاتھیوں کے تحفظ کے لیے برسوں سے کام کررہے ہیں’۔منتظمین کے مطابق یہ کھیل راجستھان کی روایات میں شامل ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بعض ہندی فلم اداکاروں کے علاوہ دو ہالی ووڈ فلم ستارے بھی اس چیمپئن شپ کو دیکھنے آ رہے ہیں۔چیمپئن شپ میں بیس ہاتھی حصہ لیں گے۔چیمپئن شپ سے وابستہ ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ‘ہمارا مقصد ایشیا کے ہاتھیوں کی طرف لوگوں کی توجہ مرکوز کرنا ہے اور انکے بارے میں لوگوں کو معلومات فراہم کرنا ہے’۔ جے پور میں پہلے ہی سو سے زائد ہاتھی سیاحوں کی سیر اور تفریح میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

ہاتھیوں کی خاندانی منصوبہ بندی

انڈیا کی ریاست مغربی بنگال میں ہاتھیوں کی افزائش نسل پر بھی کنٹرول کیا جارہا ہے کیونکہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے ریاستی حکومت ان کی مناسب دیکھ بھال نہیں کر پا رہی۔مغربی بنگال میں چار سو ہاتھی ہیں جن میں سے ستر سدھے ہوئے ہیں جن میں وہ بھی شامل ہیں جو نجی ملکیت میں ہیں یا محکمہ جنگلات کے لیئے کام کرتے ہیں۔محکمہ جنگلات کے محافظ انہیں جنگلی جانوروں کی حفاظت کے لیے مخصوص علاقوں کی نگرانی کے لیے کیے جانے والے گشت میں استعمال کرتے ہیں۔ جنگلی حیات کی تحفظ کے لیئے کام کرنے والے غیر سرکاری اداروں نے افزائش نسل پر کنٹرول کے اس منصوبے اور اس کے لیے تجویز کیے جانے والے طریقوں پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔بنگال کا محکمہ جنگلات اپنے زیر استعمال ہاتھیوں کی دیکھ بھال پر ہر سال ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر یا چھ کروڑ روپے کے لگ بھگ رقم خرچ کرتا ہے۔اس سلسلے میں محکمہ جنگلات کے اہلکار پی ٹی بھٹیا کا کہنا ہے کہ ‘ہمارے محکمے کو ملنے والی رقم کم کر دی گئی ہے اور ہمیں کہا گیا ہے کہ صرف ان ہاتھیوں کی دیکھ بھال کی جائے جو کار آمد ہیں اور دیگر ہاتھیوں کی افزائش کو روکا جائے۔ بھٹیا کا کہنا ہے محکمے کے پاس جو ہاتھی ہیں وہ ہر سال تین یا چار بچے دیتے ہیں اور ان ہاتھیوں میں سے صرف تیس ہاتھی محکمہ جنگلات کے محافظوں کے زیر استعمال ہیں۔

ہاتھیوں کی ریٹائرمنٹ لازمی

ہاتھیوں کو تمام مراعات کے ساتھ ریٹائر کیاجائے گا۔بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ میں ریاستی حکومت نے ان تمام ہاتھیوں کو جو حکومت کے استعمال میں ہیں پینسٹھ سال کی عمر کو پہنچنے پر تمام مراعات کے ساتھ ریٹائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ریاست کے وزیر جنگلات نے کہا ہے کہ ان ہاتھیوں کوجوسرکاری خدمت انجام دیتے رہے ہیں پینسٹھ برس کی عمر تک پہنچنے پر اچھی خوراک، طبی سہولیات اور بہتر زندگی مہیا کی جائیگی۔انہوں نے کہا کہ ہاتھیوں کے ساتھ ان کے مالکان کے ظالمانہ رویے سے وہ اچھی طرح آگاہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض دفعہ ہاتھی تنگ آ کر وحشی ہوجاتے ہیں اور تشدد پر اتر آتے ہیں۔کیرالہ کی حکومت نے ایک حکم جاری کیا ہے جس میں ہاتھیوں کے پالنے کے بارے میں ہدایات درج ہیں۔ اس حکم کے مطابق پینسٹھ سال کی عمر کے بعد ہاتھیوں سے کام لینے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ہاتھی عموماً جنگلوں میں ستر برس کی عمر تک زندہ رہتے ہیں لیکن جن ہاتھیوں کو پکڑ لیا جاتا ہے اور مختلف نوعیت کے کاموں میں استعمال کیا جاتا ہے ان کی عمر بہت کم رہ جاتی ہے۔ریاستی حکومت کا یہ حکم صرف ان ہاتھیوں کے لیے ہے جو ریاست کے استعمال میں ہیں۔ ریاست میں لوگوں کی ذاتی استعمال میں اور مختلف سرکسوں میں جو ہاتھی ہیں ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔کیرالہ کی حکومت کا یہ فیصلہ دہلی کی حکومت کے اس فیصلہ کے بعد کیا گیا ہے جس میں ہاتھیوں کی پشت پر روشنی منعکس کرنے والی بتیاں لگانے کو کہا گیا تھا تاکہ سڑکوں پر ان کے باعث ہونے والے حادثات کو روکا جا سکے۔

نئے جانور کی دریافت

 انڈونیشیا میں بورنیو کے گھنے جنگلات میں عالمی ماحولیاتی ادارے نے ایک نیا جانور دریافت کیا ہے جو بظاہر ممالیہ کی ایک نئی قسم ہے۔ سائنسی اصطلاح میں (mammal) یعنی ممالیہ ان جانوروں کو کہتے ہیں جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں۔ماحولیات کے عالمی ادارے ‘ورلڈ وائڈ فنڈ’ نے اس جانور کی دو تصاویر حاصل کی ہیں۔ یہ پالتو بلی سے بڑا ہے، اس کا رنگ گہرا سرخ ہے اور اس کی لمبی اور مضبوط دم ہے۔ادارے کے مطابق مقامی لوگوں نے اس جانور کو پہلے کبھی نہیں دیکھا ہے اور محققین کا کہنا ہے کہ یہ ایک نیا جانور ہے۔

اس ادارے کا کہنا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کے جنگلات کو بچانے کی اشد ضرورت ہے جو درختوں کی کٹائی اور پام آئل کی تجارت سے تباہ ہو رہے ہیں۔یہ نئی مخلوق جو گوشت خور لگتی ہے ‘کیان مینٹراگ نیشنل پارک’ میں پائی گئی ہے جو انڈونیشیا میں واقع ہے۔اس جانور کو دریافت کرنے والی ٹیم جس کے سربراہ سٹیفن ولفراٹ ہیں، اس جانور پر اپنی تفصیلی رپورٹ شائع کرے گی۔اس ادارے کے برطانوی سربراہ کالم رنکنی نے کہا کہ ‘آپ کو نئے جانور بہت کم ملتے ہیں۔ ایسا کرنا یقیناً غیر معمولی کام ہے’۔انہوں نے بی بی سی ویب سائٹ کو بتایا کہ اس جانور کی مزید حرکات کے جائزے اور تصاویر کے لیے خفیہ کیمرے اور آلات جنگل میں نصب کر دیے گئے ہیں۔ان تصاویر کی ہلکی سی مشابہت لیمر کے ساتھ ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بورینو کے جنگلات میں لیمر یقیناً موجود نہیں ہیں اور یہ صرف مڈغاسکر کے جزیروں میں پائے جاتے ہیں۔اس کی دم دیکھ کر صاف پتا چلتا ہے کہ یہ بہت مضبوط ہے اور درختوں کے اوپر بھی چڑھ جاتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے پہلے یہ نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آبادی اور سڑکوں کے بڑھنے اور جنگلات کے رقبے میں کمی کی وجہ سے اب ان جنگلات کے وسط میں جانا نسبتاً آسان ہو گیا ہے۔اس مسئلے پر یہ ادارہ حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ حکومت کو ان الزامات کی صحت سے انکار ہے۔سراوک کے وزیر اعلٰی حاجی عبدالطیب محمد کا کہنا ہے کہ پام آئل کے ذخیرے ان علاقوں میں لگائے گئے ہیں جو ثانوی جنگلات کی حیثیت رکھتے تھے اور انہیں بہت پہلے کاشتکاری کے لیے صاف کیا گیا تھا۔

ماحولیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ جنگلات کی تباہی سے ایسی مخلوقات دنیا کو پتا چلنے سے پہلے ہی ختم ہو سکتی ہیں۔ یہ تنظیم اس جانور کو زندہ پکڑنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تاکہ اس پر مکمل تحقیق کی جا سکے۔

پشاور کی ‘کتا منڈی’

 کتا انسان کا وفادار دوست سمجھا جاتا ہے۔ لیکن کئی لوگوں کے لیے کتا پیسے کمانے کا ذریعہ بھی ہے۔ بیوپاری صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور میں کتوں کی ہفتہ وار منڈی گزشتہ کئی برسوں سے لگا رہے ہیں۔ شاہی باغ کے نزدیک سڑک کنارے کتوں کا شور سنا تو گمان ہوا کہ شاید ان کی لڑائی کروائی جا رہی ہے لیکن قریب آیا تو معلوم ہوا کہ یہ کتوں کا میدانِ جنگ نہیں بلکہ ان کی منڈی ہے جو ہفتے میں دو مرتبہ جمعے اور اتوار کے روز کئی برسوں سے باقاعدگی سے لگ رہی ہے۔ بڑی تعداد میں کتوں کے بیوپاری یہاں جمع ہیں اور اونچی آواز میں کاروبار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کتوں کا مسلسل بھونکنا اور ٹریفک کا شور عجیب سا سماں پیدا کر دیتا ہے۔جرمن شیپرڈ، رشین پپیز، پوائنٹر، شکاری اور لڑاکو غرض ہر قسم اور ہر عمر کا کتا دو سے پانچ ہزار روپے میں یہاں دستیاب ہے۔ گلیوں سے پکڑے جانے والے آوارہ کتے نہلادھلا کر اور اچھی نسل کے کتے چوری کرکے بھی لائے جاتے ہیں۔ ان کو لانے کا طریقہ بھی جدا جدا ہے۔ بڑے کتے بندھے ہوئے جبکہ چھوٹے کچھ بوریوں میں اور چند لکڑی کے کریٹ میں بھی لائے جاتے ہیں۔ اس منڈی میں پچھلے پندرہ برسوں سے کتوں کی خریدو فروخت کرنے والے سراج نے منڈی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ منڈی تو کافی پرانی ہے لیکن اس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس نے شکایت کی کہ پولیس والے کبھی کبھی انہیں تنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے ضلعی حکومت سے ضروری سہولتوں اور تحفظ کے ساتھ ایک مخصوص مقام کا تعین کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔سراج نے بتایا کہ السیشن اور پوائنٹر کتوں کی مانگ زیادہ ہوتی ہے۔ اس نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ چوری اور دو نمبر کتے بھی فروخت کے لئے لائے جاتے ہیں لیکن وہ اپنے رنگ و عادات سے با آسانی پہچانے جاتے ہیں اور فروخت نہیں ہوتے ہیں۔ ایک دس سالہ بچہ نوید بھی دو سفید خوبصورت روسی پپیز لیے خریدار کا انتظار کرتا نظر آیا۔ اس نے بتایا کہ وہ کسی سے خرید کر انہیں لایا ہے اور جوڑی کا دو ہزار روپے مانگ رہا ہے۔ اس کی ہی عمر کا ایک دوسرا بچہ ایک کتے کو رسی سے گھسیٹتا نظر آیا۔ کتے کی شکل اور رنگ سے صاف معلوم رہا تھا کہ اسے زبردستی السیشن بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ایک شخص بڑا کتا فروخت کے لئے لایا ہوا تھا۔ فرہاد علی نے بتایا کہ گھر کی مالی حالت اچھی نہیں اس لئے اسے فروخت کرنے کے لیے لایا ہوں۔ اس نے کہا گھریلو پالا ہوا کتا ہے اس لئے وہ اس کے پانچ ہزار روپے مانگ رہا ہے لیکن تین ساڑھے تین ہزار تک فروخت کر دے گا۔خریداروں میں محمد نصیر بھی تھے جو چوکیداری کی غرض سے کتے کی تلاش میں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ زیادہ رقم خرچ کرنے کے موڈ میں نہیں لیکن اگر اچھا کتا ہزار بارہ سو روپے تک ملتا ہے تو وہ خرید لیں گے۔کتے یا تو لوگ شوق کی وجہ سے یا حفاظت کے نظریے سے پالتے ہیں۔ یہی دو وجوہات ضرورت مندوں کو یہاں کھینچ لاتی ہیں۔

             گزشتہ دنوں مجھے سمندری جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں امریکہ میں بسنے والے سب سے امیر پاکستانی کا گھر ہے۔ خیر وہاں میں ایک گھر میں گیا جو کہ چڑیا گھر کے کافی قریب تھا۔ کہنے کا مطلب ہے کہ وہاں بھینسوں اور بکروں کے علاوہ مور، کبوتر، کتے، بلیاں، مرغیاں اور طوطے بھی دکھائی دیے۔ اور یہ سب کوئی عام جانور نہیں تھے۔ مثلاً کتے کے متعلق پتا چلا کہ اس کی قیمت سوزوکی کی مہران کار سے دوگنی ہے، یعنی کہ چھ سات لاکھ، اسی طرح طوطا اور مور بھی تھے۔ خیر جو بات انہونی تھی وہ یہ تھی کہ طوطا بالکل بلٹیریئر کتے کی طرح بھونکتا تھا۔ جب بھی وہ کسی بلی یا انجان فرد کو دیکھتا تو بھونکنا شروع کر دیتا۔ گھر والوں نے بتایا کہ جب کتے اپنے واڑوں میں بندھے ہوتے ہیں تو یہ طوطا گھر کی بڑی حفاظت کرتا ہے۔ بعد میں صاحب صاحب کی صدا بلند ہوئی۔ میں بھی احتراماً اٹھ کھڑا ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد صاحب آئے تو لیکن چار ٹانگوں پر چل کر۔ صاحب ان کے دیو ہیکل کتے کا نام تھا جس کے اپنے بھی دو ملازم تھے یعنی صاحب صاحب ہے۔

کتا اور طلاق

 چین میں کتا پالنے پر ایک جوڑے کے درمیان ناچاقی کے باعث بیوی نے کتا مارنے کے لیے غنڈوں کی مدد حاصل کی ہے۔مگر غنڈوں نے مسلہ حل کرنے کے بجائے بات بگاڑ دی ہے اور اب شوہر نے بیوی کے خلاف طلاق کی کارروائی شروع کر دی ہے۔ژاؤ فانگ نامی خاتون نے سرکاری خبر رساں ادارے سنہوا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے شوہر کا ‘وولف ہاؤنڈ’ ان کے ننجیانگ والے فلیٹ کا حلیہ بگاڑ دے۔انہوں نے بتایا کہ پہلے تو انہوں نے اپنے طور پر کتے کو گھر سے نکالنے کی کوشش کی مگر ہر بار وہ واپس لوٹ آیا پھر انہوں نے اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں کرائے کے چار غنڈوں سے اس مسلے کا حل کرانا چاہا۔لیکن جب ان کے شوہر کو اس بات کا پتا چلا تو وہ اس قدر ناراض ہوئے کہ انہوں نے ژاؤ فانگ سے طلاق لینے کا فیصلہ کر لیا۔اسی سلسلے میں جب ان کے شوہر سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ کتا ‘ہی ہو’ ان کے لیے گھر کے ایک فرد جیسا ہے’۔ بقول ان کے‘ آخر ان کی بیوی اتنی سنگدل کیسے ہو سکتی ہے؟’ژاؤ بھی اپنے شوہر رویے سے اتنی ہی حیران ہیں جتنا کہ ان کے شوہر ان سے ہوئے۔ بقول ژاؤ‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے شوہر کے لیے کون زیادہ اہم ہے ؟ میں یا ان کا لاڈلا کتا۔’

(بحوالہ بی بی سی )