سانحہ لال مسجد

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : نوائے سروش

شمارہ : اگست 2007

            کیا وہ اور اس کے ساتھی غدار تھے ؟ کیا وہ باغی تھے؟ کیا انہوں نے آئین سے غداری کی تھی ؟ کیا وہ قاتل اور ڈاکو تھے ؟ کیا وہ سب ، اس سزا کے مستحق تھے جو انہیں دی گئی ؟یہ وہ سوال ہے جوعوام بھی پوچھ رہے ہیں اور تاریخ بھی یقینا پوچھے گی۔

            ہمیں غازی برادران کے طریقہ کار سے کبھی اتفاق نہیں رہا ، لیکن جس طریقے سے انہیں گو لیوں سے بھونا گیا اس سے بھی اتفاق نہیں کیاجا سکتا۔ جا معہ حفصہ اور لال مسجد مرکز دہشت و وحشت نہ تھے ۔ یہ تو اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات فراہم کرنے والے ادارے تھے ۔ ایک اسلامی ملک میں کعبہ کی بیٹی کی چادر عصمت ، جس طرح ، خود اس کے بیٹوں کے ہاتھوں تار تار ہوئی ، اس پر پوری قوم صدمے سے دو چار ہے ۔

            نہ جانے وہ کیا حالات تھے ۔ جس میں مولانا رشید غازی نے قرآن چھوڑ کر کلاشنکوف ہاتھ میں لے لی۔ وہ ایک غیرت مند بلوچ تھے، یقینا وہ بڑے ہی سنگین حالات ہوں گے جس میں وہ عسکریت پسندی کی طرف مائل ہوئے ۔ مقتدر قوتیں ، ضرور اس بات پر غور کریں کہ ہماری عزت مأب بہنیں ، جو قرآن و حدیث پڑھ رہی تھیں اچانک ڈنڈے لے کر کیوں سڑکوں پر آگئیں ۔ کیا یہ کسی عمل کا رد عمل تو نہ تھا ؟

            مولا نا عبدلعزیز اور مولا نا رشید غازی نے اسلامی اقدار کے احیا اور اسلامی قانون کے نفاد کا جو طریقہ کار اختیار کیا تھا ، اس سے پاکستان کے ہر سنجیدہ اور ذی شعور عالم دین نے اختلاف کیا تھا، لیکن کیا اس ملک میں ، اﷲ اور اس کے رسو ل ﷺ کے دین کے نفاد کی بات کرنا اور صاحبان اقتدار سے ، دینی اقدار اور روایات کے تحفظ کا مطالبہ کرنا ، اتنا بڑا جرم ہے کہ ایسے لوگوں کو توپوں کا سامنا کرنا پڑے ۔ یہ بات اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے لیے شر مناک ہے ۔ بلا شبہ مولانا رشید غازی نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مسلح کارر وائیوں کی دھمکی دی تھی، لیکن کیا محض دھمکی دینا کسی کو اندھا دھند فائرنگ میں جھونک دینے کے لیے کافی ہے ؟ اہل جامعہ حفصہ نے ، اس پورے قصے کے دوران میں جو ایک دو کارروائیاں کیں ، وہ ہر گز مسلح کارروائی کہلانے کی حقدار نہیں۔اور نہ ہی ان کی طرف سے کوئی غیر اخلاقی اقدام سامنے آیا ۔ ہمارا اشارہ شمیم اور چینی عورتوں کے اغوا کی طرف ہے ۔یقینا یہ ان کی بے تدبیری تھی اور یقینا ، یہ اقدامات وطن عزیز کے لیے بدنامی کا باعث بن رہے تھے ۔لیکن سوال تو یہ ہے کہ اس کی جو سزا دی گئی اور اس کے سد باب کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ، کیاوہی واحدحل تھا؟

            حکومتی رٹ (Writ) کو قائم رکھنے کے ہم حامی ہیں، بلکہ شدید حامی ۔ اجتماعی نظم مملکت میں ہم کوئی رخنہ برداشت کرنے کو تیار نہیں ۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے اور بغیر کسی عدالتی فیصلے کے کسی کی جان لے لینا بھی قابل برداشت نہیں۔

            ‘‘خاموش اپریشن ’’ سے قبل، حکومت نے بڑے زور سے یہ پرو پیگنڈہ کیا تھا کہ اہل جامعہ حفصہ خود کش بمبار تیار کر رہے ہیں اور یہ کہ ان کے پاس خوفناک اسلحے کا ذخیرہ ہے اور یہ کہ ان کے پاس اعلیٰ قسم کے تربیت یافتہ دہشت گرد ہیں اور یہ کہ و ہ ریاست کے اندر ریاست قائم کر رہے ہیں ، وغیرہ وغیرہ ، سچی بات ہے کہ کوئی بھی ذی ہوش آدمی اس طرح کے منصوبے رکھنے والے کسی بھی فرد کی حمایت کا سوچ بھی نہیں سکتا ، لیکن افسوس یہ سب پرو پیگنڈہ ثابت ہوا ۔ نہ ہی خود کش بمبار نکلے نہ ہی خوفناک اسلحہ اور نہ ہی ریاست کے اندر ریاست کا کوئی خفیہ منصوبہ ،بلکہ نکلا توکیا نکلا، قرآن و حدیث کی کتابوں کا ڈھیر، اوراق کا پریشاں مجموعہ، جلے ہوئے برقعوں ، کپڑوں اور کاپیوں کا خزانہ۔

            انتہا پسندی ، عسکریت پسندی اور پرائیوٹ جہاد کے ہم بالکل قائل نہیں ۔ ہمارا یقین ہے کہ دعوت دین کے لیے عسکری لائحہ عمل با لکل غلط ہے ۔ ہمارا ایمان ہے کہ تعلیم و تربیت اور تزکیہ نفس ہی اصل مطالبات دین ہیں اور یہ کہ احباب لال مسجد اور دیگر محترم جہادی قائدین ، جو لائحہ عمل احتیار کیے ہیں وہ ہماری سوچ کے مطابق ، ردعمل کی نفسیات کا نتیجہ ہے، لیکن صاحبان اقتدار نے ان سے نبٹنے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا، وہ بھی ظالمانہ ، غیر آئینی اور ماورائے عدالت قتل کے مترادف ہے۔

            یہ انتہا ئی قدم جو اٹھایا گیا ، اس کے لیے ابھی‘‘مجبوری کا وقت ’’نہ آیا تھا ۔ ابھی بہت سی باتیں رہ گئی تھیں ۔ کئی اعتماد ساز اقدامات باقی تھے۔ خیر سگالی کے پیغامات کے تبادلے کا سلسلہ ابھی جاری تھا ، مذاکرات کا سلسلہ منقطع نہ ہوا تھا ۔ اہل خیر اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے تھے اور مایوسی کا ابھی وقت نہ آیا تھا ۔ نہ جانے ‘‘اقدام’’ کی کس کو جلد ی تھی۔ نہ جانے کون کہاں ‘‘ سر خرو ’’ ہونا چاہتا تھا ۔ کاش ! جلدی نہ کی جاتی !!

            مسجد و مدرسہ کے خلاف اس ظالمانہ قدم کے بعد ہم یہاں واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ قوتیں جو یہاں حملہ آور ہوئی ہیں اگر سمجھتی ہیں ،کہ مدرسہ پر یوں حملہ اور معصوم طلبہ و طالبات کو یوں خوں میں نہا کے وہ اس امت کے نوجوانوں کے اندر سے روح دین و ایمان کو سلب کر لیں گے تو یہ ان کی بھول ہے ۔ معصوم شہادتیں جذبوں کو فراوانی عطا کیا کرتی ہیں ۔ دین پر مٹنے والے ابھی ختم نہیں ہوئے ۔ اگر حکومت اسی طرزعمل کا مظاہرہ کرتی رہی تو پھر مسجد و مدرسہ سے بھی مجاہد فراہم ہوتے رہیں گے ، لیکن اگر ، حکومت ہوش کے ناخن لے، یعنی انہیں بھی اپنے نظریات کے تحت جینے کا حق دے تو پھر ممکن ہے کہ اہل مدرسہ بھی خود کو قومی دھارے میں شامل کرنے پر تیار ہو جائیں ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ حکومت وقت کے اس اقدام سے ، اہل مدرسہ کے وہ عناصر جو اپنی سوچ کے اعتبار سے معتدل اور عمل کے اعتبار سے روشن خیال تھے ،اب ارباب ِ لال مسجد کی فکر کے حامی بنتے نظر آ رہے ہیں ۔ وہ علما کرام ، جنہوں نے رشید غازی صاحب کے طرز عمل سے سرتا سر اختلاف کیا تھا اب اس کی ‘‘ مظلومانہ شہادت’’ کے بعد ، اس کے ‘‘ مشن ’’ کو آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں ۔ بے چینی اور اضطراب کی ایک لہر ہے جو پوری قوم کے اندر دوڑ گئی ہے ۔ جس کے نتیجے میں مو لا نا رشید غازی اور اس کے ساتھی قوم کے ہیر و بن گئے ہیں ۔مولانا رشید غازی اصلاً نہ تو اتنے بڑے دہشت گر د تھے کہ انہیں اس درندگی کا نشانہ بنایا جاتا اور نہ ہی وہ اتنے بڑے عالم تھے کہ اس قوم کے لیڈر بننے کے اہل ہوتے ۔ لیکن اب صاحبان اقتدار کے نا عاقیت اندیشی نے انہیں ہیرو بھی بنا دیا ہے اور لیڈر بھی ۔

            ہمارا دکھ تو سہ رخی ہے جہاں مو لا نا رشید غازی، ان کے ساتھیوں اورطلبا و طالبات کے قتل اور مظلومانہ شہادت کا ہمیں افسوس ہے ، وہاں ہمیں عسکریت پسندی کے مزید پنپنے کے امکانات کے پیدا ہونے کا بھی غم ہے اور ایسا ، سرتاسرحکومت کی بے تدبیری اورنا عا قبت اندیشی کی وجہ سے ہوا ہے اور تیسری طرف مسجد و مدرسہ کے خلاف پوری دنیا میں جو طوفان بد تمیزی برپا کیا جا رہا ہے اور جس طرح دین کے اصل چہرے کو مسخ کیاجا رہا ہے اس سے بھی ہمارا دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔ ہمارا اصل دکھ یہی ہے ۔اور ہمارے اس سہ رخی دکھ کے ذمہ دار دونوں ہیں ارباب لال مسجد بھی اور کار پر داز ان حکومت بھی ۔