لال مسجد کا سانحہ، عدالتی تحقیقات کی ضرورت

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : اگست 2007

            وطن عزیز کے مرکزی شہر کے بیچوں بیچ ہونے والا آپریشن سائلنس (جس کی گونج ساری دنیا نے سنی ) بالآخر ایک ایسے المیے پر منتج ہوکررہا کہ جس کی تلخی تا دیر باقی رہے گی ۔ہم یہ تو نہیں کہتے کہ اس آپریشن کے بانی دماغ اس کے نتائج اور عواقب سے آگا ہ نہ تھے مگر ہمارے خیال میں وہ اس کے مابعد اثرات کا کما حقہ ادراک کرنے سے یقینا قاصر رہے ۔ بظاہر یہ کہنا آسان ہے کہ اتنے لوگ جان سے ہار گئے مگر وہ جس طرح جان سے ہارے ،یہی امر اس بات کو واضح کر دینے کے لیے کافی ہے کہ اب یہ سلسلہ اپنے پیچھے رد عمل کے ایسے لا متناہی شرارے چھوڑ گیا ہے کہ جو امن و محبت کو ترسی سرزمین پرکبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں شعلوں میں تبدیل ہوتے رہیں گے ۔ فیض نے بہت دیر پہلے یہ کہہ دیا تھا کہ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا و ہ شان سلامت رہتی ہے ۔ یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں۔ جب کوئی جان دینے پر آہی جائے اور ایک خاص دھج سے آجائے توجان لینے والے کوہزار بار سوچ لینا چاہیے کہ کربلا سے لے کر اب تک اسلامی تاریخ کی یہ روایت رہی ہے اس طرح جان دینے والے ہی امر ہو ا کرتے ہیں نہ کہ جان لینے والے۔بہر حال وہ کون سی قوتیں اور وہ کون سے لوگ تھے جنہوں نے لال مسجد میں موجود علما اور طلبا کو اس دھج سے مقتل میں جانے کا موقع فراہم کیا۔یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر زبان پر ہے مگر اس کا جواب دینے سے ہر کوئی عاجز ہے ۔

            نظریے اور افکار گولیوں سے ختم نہیں کیے جا سکتے اور نہ ہی ان کو دفن کیا جا سکتا ہے ۔ایک نظریے کے مقابل جب تک اس سے مضبوط نظریہ اور دعوت سامنے نہیں آئے گی، اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔غازی برادران کے والد گرامی مولانا عبداللہ کو گولی سے اڑا کر یہ سمجھا گیا کہ ان کے نظریے کو ختم کر دیا گیا مگر دنیا دیکھ رہی ہے کہ تشدد نے مزید تشدد کو جنم دیا اور نفرت نے مزید نفرت کو۔اگرقاتل کو گرفتار کر کے مولانا عبداللہ کے ورثا کو انصاف فراہم کیاجاتا تو شاید آج یہ صورت حالات نہ ہوتی ۔

            جس طرح اسلامی نظام کے نفاذ اور فحاشی اور عریانی کے بارے میں مولانا عبدالعزیز اور مولانا عبدالرشید مرحوم کے مطالبات کے حق ہونے پر کسی کو کوئی کلام نہیں اسی طرح ان کے طریقہ کا رکے غلط ہونے پر بھی کوئی دو آرا نہیں۔تما م مکاتب فکر کا اس بات پر اتفاق تھا اور ہے کہ یہ طریقہ کا ر کسی بھی طرح اسلامی شریعت کے مطابق نہیں ۔ سوئے حرم بھی اس کی دینی حیثیت کو پچھلے شمارے کے اداریے میں‘ اگر مگر اور لیکن’ کے عنوان سے واضح کر چکاہے مگر وہ کون سی وجہ تھی کہ دو نوں بھائی بلا روک ٹوک آگے بڑھتے رہے اور وہ بھی اسلا م آباد کے عین وسط میں۔بہر حال ہماری دیانتدارانہ اوردرد مندانہ رائے ہے کہ حکومت وقت اگر خود کو تاریخ کے بے رحم تجزیے سے بچانا اور پراسراریت اور شکو ک و شبہات کے بدنما داغوں کو مٹانا چاہتی ہے تو نہ صرف عدالت عالیہ کے غیرجانبدار اور اچھی شہرت کے حامل ججوں پر مشتمل ایک تحقیقاتی بنچ تشکیل دے بلکہ اس بنچ کو کام کرنے کی پوری آزادی بھی فراہم کر ے ، اس کی رپورٹ کی اشاعت کا بھی کامل اہتمام کرے ، اس کی سفارشات پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائے اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزائیں بھی دے۔اور اگر یہ سب کچھ نہیں ہونا تو پھر تحقیقاتی کمیشن بنانے سے ہی گریز کیا جائے کیونکہ وطن عزیز میں پہلے ہی تما م عدالتی کمیشن ایک مذاق بن چکے ہیں اور عوام کی رائے ہے کہ اگر کسی کام سے توجہ ہٹانا ہو تو حکومتیں کمیشن اور کمیٹیاں بنا دیتی ہیں۔اور ویسے بھی لیاقت علی خاں کے قتل سے لے کر ضیا ء الحق کے سانحے تک ہمیشہ یہی کچھ ہوا ہے۔ملک و قوم کی بہتر ی اسی میں ہے کہ عدالتی کمیشن درج ذیل سوالات کے جوابات قوم کو فراہم کرے اور آئندہ کے لیے اس طرح کے ماورائے عدالت اقدامات کاٹھوس اور دیرپا سدباب تجویز کرے۔

۱۔ اس سانحے میں فی الواقع کتنی اموات ہوئیں۔

۲۔ حکومت وقت کے اپنے بیانات کے مطابق لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں چار ، ساڑھے چار ہزار طلبا ، طالبات موجو د تھیں جبکہ سرنڈرکرنیوالوں اور ہلاک ہونے والوں کی مجموعی سرکاری تعداد اس سے کہیں کم بنتی ہے ۔ باقی لوگ کہاں ہیں اور اس کا ذمہ دار کون ہے۔

۳۔ وہ کون سے حالات تھے جن کی وجہ سے اس قدر زیادہ اموات ہوئیں اور کیا ان اموات کو بہتر حکمت عملی سے کم نہ کیا جاسکتا تھا۔

۴۔ وہ کون سے حالات ، اشخاص اور سازشیں تھیں جنہوں نے غازی برادران کو عسکریت کی طرف دھکیلا۔

۵۔ گولی اوربموں کے بجائے متبادل طریقے کیوں اختیار نہ کئے گئے مثلا اعصاب شکن گیس کا استعمال یا مخصوص فریکوئنسی کی آواز کا استعمال جس سے لوگ باہر آنے پر مجبور ہو جاتے۔

۶۔ مولانا عبدالعزیز جب گرفتار کر ہی لیے گئے تھے توسرکاری میڈیا پر ان سے توہین آمیزسلوک کیوں او ر کس کے کہنے پر کیاگیا۔

۷۔ چلڈرن لائبریری پر قبضے کے فوراًبعدقانون کی عمل داری کو یقینی کیوں نہ بنایا گیا اور یہ قبضہ کیوں نہ چھڑایاگیااورقابضین کو اتنی مہلت کیوں دی گئی۔

۸۔ سی ڈیز نذر آتش کرنے کے بعد فوری ایکشن کیوں نہ لیا گیا۔

۹۔ ایک گھر سے خواتین کے اغوا اور چینی باشندوں کے اغوا کے بعد ذمہ داروں کو گرفتار کر کے مقدمہ عدالت میں پیش کیوں نہ کیا گیا۔

۱۰۔ سی ڈی اے اورحکومتی ایوانوں کے وہ کون سے لوگ تھے جنہوں نے جامعہ حفصہ کے ذمہ داروں کے لیے سی ڈی اے کی پچیس کنال زمین پر ناجائز قبضہ آسان بنایا۔

۱۱۔ آپریشن کے اختتا م پر فوراً میڈیا کو اند رکیوں نہ لے جایا گیا۔

۱۲۔وہ کس قسم کی صفائی تھی جوآپریشن کے بعد فوج کرتی رہی۔

۱۳۔ خود کش بیلٹیں ، بارودی سرنگیں ، مہلک ہتھیار اگر لال مسجد کے اند رموجود تھے توان لوگوں نے استعمال کیوں نہ کیے ۔

۱۴۔ اور اگر یہ سارے ہتھیار وہاں پہلے ہی سے تھے تو انتظامیہ کی عین ناک تلے کیسے جمع ہوتے رہے۔

۱۵۔ اس سارے آپریشن کی عالمی سطح پر تشہیر کر کے ملک و قوم کی رسوائی کا سامان کس نے فراہم کیا۔

۱۶۔ عین آخر ی لمحے علما کی کوششوں سے جو ڈرافٹ طے پا گیا تھا اسے کس طرح اور کیوں تبدیل کیا گیا اور علماکو تبدیل شدہ ڈرافٹ پر مذاکرات کا وقت کیوں نہ دیا گیا۔

۱۷۔ (ام حسان کے بیان کے مطابق )وہ کو ن سے وزیر اور حکومتی اراکین تھے جو مولانا عبدالعزیز کو اسلامی نظام کے نفاذکی کوششوں پر اکساتے رہے۔

۱۸۔ وہ کون لوگ تھے جو جنگ افغانستان سے لے کر آج تک مدارس میں عسکریت پسندوں کو پروان چڑھاتے رہے۔ کیا وہ صرف مدارس کے کارپردازان تھے یا کچھ مقتدر قوتیں بھی ان میں شامل تھیں اگر مقتدر قوتیں بھی ان کوششوں کاحصہ تھیں تو نزلہ بر عضو ضعیف کیوں۔

۱۹۔ غیر جانبدار جنگی ماہرین اورتجزیہ نگاروں کوکہا جائے کہ وہ جامعہ حفصہ اور لال مسجد کامعائنہ کرکے اپنی رپورٹ پیش کریں کہ محل وقوع کیا بتاتا ہے کہ کارروائی میں اصل شدت کس طرف سے ہوئی۔ مہلک ہتھیاروں کا استعمال کس طرف سے ہو ا اور وقوعہ کے مطابق کتنی جانوں کا نقصان ہوا ہو گا۔

۲۰۔ اگر اموات اتنی ہی کم تھیں تو میڈیاکو لاشیں دکھانے سے کیوں روکا گیا؟اور تدفین کا سارا کام راز میں کیوں رکھا گیا؟

۲۱۔ معصوم جانوں کو بچانے کے لیے کیا کیا اقداما ت کیے گئے۔

۲۲۔ اسلحہ سے پاک معاشرہ بنانے کے لیے حکومت اپنے اقدامات میں کتنی سنجید ہ ہے۔کیا صرف مدارس کو اسلحہ سے پاک ہونا چاہیے یا کہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی دفاتر کو بھی۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ۱۲ مئی کو کراچی میں جو اسلحہ کی نمائش ہوئی اس کی برآمدگی کے لیے حکومت نے کیاکیا اقدامات کیے۔اگر نہیں کیے تو پھر یہ معاشرے کے مختلف طبقات سے امتیازی سلوک کیوں؟

۲۳۔ سب طلبا او ر طالبات کو جیلوں میں کیوں ٹھونسا گیا؟ کیا قرآن وحدیث کا علم حاصل کرنا جرم تھا۔

۲۴۔ حکومتی رٹ ، دہشت گردی اورجہاد کی کیا تعریف ہے ۔ کیا اتنی سی بات اور مطالبات اور اقدامات سے حکومتی رٹ چیلنج ہو جایا کرتی ہے ؟

            سوالات کی یہ فہرست عدالت عالیہ کے جج صاحبان کے لیے صرف ایک اشارہ ہے کہ عوام کس طرح سوچتے ہیں باقی وہ خود اور دیگر اربا ب عقل و دانش ان میں بہت سے سوالات کا اضافہ کر کے اپنے کام کو مزید مفید بنا سکتے ہیں۔