امام احمد بن حنبلؒ

مصنف : آباد شاہ پوری

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : جولائی 2007

             کیا بات ہے ابھی تک تم نے بغداد کی خبریں نہیں بھیجیں؟ ہمیں دورے سے واپس آئے کئی دن ہوچکے ہیں۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ہماری غیر حاضری میں بغداد کے شب و روز کیسے رہے۔پھر ہمیں امیرالمومنین کی خدمت میں رپورٹ بھی پیش کرنی ہے۔ بغداد کے گورنر نے تیس بتیس برس کے ایک جوان سے پوچھا۔ اس جوان کا کام یہ تھا کہ گورنر شہر سے باہر ہو تو تمام ضروری خبریں فراہم کرتا رہے اور جب وہ واپس آئے تو یہ خبریں اسے بھیج دے۔

            ‘‘اے امیر! خبریں تو میں نے اپنے بھتیجے احمد کے ہاتھ بھیج دی تھیں۔’’ جوان نے جواب دیا۔ احمد کو طلب کیا گیا۔ ایک کم سن اور نوعمر لڑکا حاضر ہوا۔ کیوں بیٹے! میں نے تمہیں خبریں نہیں دی تھیں کہ انہیں پہنچا آؤ ،چچا نے شفقت بھرے لہجے میں کہا۔ہاں دی تو تھیں۔ احمد نے جواب دیا۔پھر تم نے امیر کو پہنچائیں کیوں نہیں؟

             میں خبریں لیے آرہا تھا کہ خیال آیا کہ اللہ نے تو تجسس سے منع کیا ہے اور ہم نے اسے اپنی زندگی کا وطیرہ بنا لیا ہے، چنانچہ خبروں کا سارا پلندہ دجلہ میں پھینک دیا۔بغداد کے گورنر نے جواب سنا ، تو ایک عجیب کیفیت اس پر طاری ہوگئی اور آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ کہنے لگا: ‘‘افسوس ہم پر، ہم تو اس لڑکے سے بھی گئے گزرے ہیں۔ یہ اس کم سنی کے عالم میں بھی اللہ سے خوف کھاتا ہے اور ہم ہیں کہ احکام الٰہی کی خلاف ورزی میں شب و روز بے دھڑک مصروف ہیں۔ افسوس! صد ہزار افسوس....’’

            یہ نو عمر کم سن لڑکا جس کی ایک بات نے بغداد کے گورنر کی دنیائے دل میں ہلچل برپا کردی، بڑا ہو کر ابوالکلام آزاد کے الفاظ میں‘‘عزیمت دعوت و کمال مرتبہ وراثت نبوت اور قیام حق و ہدایت فی الارض والامت کے مقام خاص ’’ پرفائز ہوا، جسے دنیا سید المجددین، امام المصلحین امام احمد بن حنبلؒ کے نام سے جانتی ہے، جو حنبلی مکتب فکر کے بانی اور امام ہیں، جن کا امت کے نامور مجتہدین میں شمار ہوتا ہے۔ جن کی فقہ، حنفی، مالکی اور شافعی فقہ کی طرح آج بھی عالم اسلام میں زندہ ہے اور لاکھوں مسلمان جس کی اتباع کرتے ہیں۔

٭٭٭

            امام احمد بن حنبلؒ ربیع الاول ۱۶۴ھ میں پیدا ہوئے۔ نسلاً خالص عرب تھے۔ ان کا قبیلہ بصرہ میں رہتا تھا اور ان عرب قبائل میں سے تھا جو قبیلہ شیبان سے تعلق رکھتے تھے۔ جن کی بہادری، جاں فروشی، صبروہمت اور جرأت و استقامت تاریخی طور پر مسلم تھی۔ امام احمد ؒ کے دادا حنبل بن بلال، بصرہ سے خراسان چلے گئے، وہیں اموی افواج میں شامل ہوئے اور ترقی کرتے کرتے کمانڈر بنے، پھر سرخس کے گورنر مقرر ہوئے۔ واضح رہے کہ بنو امیہ کے عہد میں فوج کے اعلیٰ کمانڈر ہی گورنر مقرر کیے جاتے تھے۔

             امام احمدؒ کے والد محمد بن حنبل بھی فوجی تھے۔ ابھی امام صاحب پیدا نہیں ہوئے تھے کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ امام صاحب کی والدہ مرو سے بغداد آئیں اور یہیں امام احمدؒ پیدا ہوئے۔

            ان کی والدہ بڑی باہمت اور حوصلہ مند خاتون تھیں۔ شوہر نے مختصر سی جائداد چھوڑی تھی۔ اسی پر تنگی ترشی سے گزر بسر ہوتی۔ اس طرح امام صاحب بچپن ہی سے صبر و شکر، قناعت، جفا کشی ، بلند ہمتی، زمانے کی مشکلات اور سختیوں کا سامنا کرنے کے خوگر ہوگئے۔

            امام احمد بغداد ہی میں پلے اور پروان چڑھے۔ اس زمانے کا بغداد پوری دنیا میں اسلام کا دارالخلافہ اور علم و تہذیب کا مرکز اور فنون و معارف کا بحر ذخار تھا۔ بڑے بڑے علما ، محدث، زبان دان، فقیہہ اور فلسفی موجود تھے اور علم کے پیاسے علم و فن کے اس منبع سے فیض یاب ہونے کے لیے چاروں طرف سے امڈ کر آرہے تھے۔ امام صاحب کو تو گویا یہ منبع گھر بیٹھے میسر آگیا۔ ان کی والدہ خاندانی روایات کے برعکس اپنے بچے کو عالم بنانا چاہتی تھیں، چنانچہ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ مکتب میں بٹھا دیے گئے۔ سب سے پہلے قرآن کریم حفظ کیا ، پھر علم لغت حاصل کیا، اس کے بعد لکھنا سیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے بے پناہ حافظہ دیا تھا۔ ایک بار جو کچھ پڑھتے یا سنتے، ذہن پر گویا نقش ہوجاتا، ہونہار بِروا کے چکنے چکنے پات، جلد ہی انہیں مثالی طالب علم سمجھا جانے لگا۔ نہایت مہذب، با تمیز اور متقی۔ بہت سی عورتیں جن کے شوہر فوج میں تھے اور سرحدوں پر گئے ہوئے تھے ان سے خط پڑھواتیں اور جواب لکھواتیں، لیکن وہ شریعت یا تہذیب کے خلاف کوئی مضمون نہ لکھتے۔ لوگ اپنے بچوں کی تربیت کرتے وقت ان کی مثال سامنے رکھتے۔ ان کی صلاحیتیں، تقویٰ و طہارت اور اطوار و خصائل دیکھ کر اصحاب نظر کہا کرتے تھے کہ یہ بچہ اگر زندہ رہا ، تو اپنے عہد کا مرد کامل اور اہل زمانہ کے لیے حجت بنے گا۔

            ابتدائی تعلیم سے فارغ ہو کر امام احمدؒ حدیث کی طرف متوجہ ہوئے۔ بغداد کے بڑے بڑے محدثین کے آگے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ دارالخلافہ کے علمی سرچشموں سے فیض یاب ہوچکے، تو بصرہ ، حجاز، یمن، شام اور جزیرے کاسفر کیا اور ہر جگہ کے نامور محدثین سے استفادہ کیا۔ امام شافعیؒ سے پہلی بار ملاقات اور ان کی شاگردی کی سعادت حجاز کے پہلے سفر ہی میں حاصل ہوئی۔ طلب حدیث کی راہ میں ہر طرح کے مصائب اور شدائد جھیلتے اورکالے کوسوں کا فاصلہ پیدل طے کر کے علم و فضل کے ان سرچشموں تک پہنچتے جن کا چرچا بلادِ اسلامیہ میں دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ ہمت کی بلندی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار جو نیت کرتے، اسے پورا کرکے رہتے۔

            ایک مرتبہ امام صاحب نے پروگرام یہ بنایا کہ پہلے حج کو جائیں گے، کچھ روز حجاز میں رہ کر حدیث سننے کے لیے عبدالرزاق بن ہمام کی خدمت میں صنعا (یمن) حاضرہوں گے۔امام صاحب نے اس ارادے کا ذکر اپنے ہم درس یحیٰ بن معین سے بھی کردیا۔ دنوں اس نیت سے مکہ پہنچے۔ ابھی طواف قدوم کر رہی تھے کہ عبدالرزاق بن ہمام طواف کرتے دکھائی دیے۔ یحیٰ بن معین ان کو پہچانتے تھے۔ چنانچہ سلام کیا اور امام احمدؒ کا تعارف کرایا۔ عبدالرزاق نے انہیں درازی عمر اور راہ حق میں ثابت قدمی کی دعا دی اور کہا: میں نے ان کی بڑی تعریف سنی ہے۔ابن معین نے کہا: انشاء اللہ ہم کل حدیث کی سماعت کرنے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔عبدالرزاق چلے گئے، تو امام صاحب نے ابن معین سے کہا: یہ تم نے شیخ سے کل ملنے کا وعدہ کیوں کر لیا؟انہوں نے کہا : حدیث سننے کے لیے۔ شکر کرو اللہ نے صنعا کے سفر کی زحمت اور مصارف سے بچالیا اور شیخ سے یہیں ملاقات ہوگئی۔امام احمدؒ نے کہا: مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ میں حدیث کے لیے سفر کی نیت کروں اور پھر اسے توڑ ڈالوں۔ ہم یمن جائیں گے اور وہیں سماعت حدیث کریں گے۔چنانچہ حج سے فارغ ہونے کے بعد یمن گئے اور حدیث کی سماعت کی۔

            چالیس برس کی عمر میں امام صاحب نے درس حدیث دینا شروع کیا۔ ان کے فضل و کمال کا چرچا بلاد اسلامیہ میں دور دور تک پھیل چکا تھا، چنانچہ ان کے درس میں طلبہ اور سامعین کا زبردست اژدہام ہوتا۔ بعض راویوں کے مطابق ان کے حلقہ درس میں شامل ہونے والوں کی تعداد پانچ ہزار سے بھی تجاوز کرجاتی تھی اور ان میں سے پانچ سو کے قریب صرف وہ تھے جو احادیث قلمبند کیا کرتے تھے۔ شاگردوں کا خاص حلقہ وہ تھا جو امام صاحب کے گھر جا کر ان سے حدیث سنتا اور لکھتا۔ درس کی یہ محفلیں نہایت باوقار، پرسکون اور سنجیدہ ہوتیں۔ حاضرین ادب اور وقار کے ساتھ بیٹھتے۔ ہنسی مذاق یا حدیث کے ادب و احترام کے خلاف کوئی بات زبان پر نہ آنے پاتی۔ غریبوں کو امیروں اور دنیا داروں پر ترجیح دیتے۔ امام صاحب کے ایک ساتھی ابو بکر مروزی بیان کرتے ہیں: میں نے غریب آدمی کو جس قدر معزز و محترم امام احمدؒ کی مجلس میں دیکھا اور کہیں نہیں دیکھا۔ وہ غریبوں کی طرف متوجہ رہتے اور امیروں سے بے رخی برتتے۔ ان میں حلم اور وقار تھا، وہ عجلت پسند نہ تھے۔ نہایت متواضع تھے۔ طمانیت اور وقار ان کے چہرے سے عیاں تھا۔ عصر کے بعد جب وہ درس کے لیے بیٹھتے تو جب تک ان سے سوال نہ پوچھا جاتا، گفتگو نہ فرماتے۔

            امام صاحب غیر معمولی قوت حافظہ کے مالک تھے، انہیں دس لاکھ حدیثیں یاد تھیں، لیکن اس کے باوجود محض قوت حافظہ پر اعتماد کر کے کبھی کوئی حدیث روایت نہ کرتے، بلکہ جب بھی ضرورت پڑتی، کتاب سے کام لیتے۔ اپنے شاگردوں کو بھی تلقین کرتے کہ کتاب دیکھے بغیر روایت بیان نہ کرو۔ یہ اہتمام امام صاحب کی احتیاط پسندی کی وجہ سے تھا لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حدیث کی کتابوں کا چلن عام ہوگیا۔

٭٭٭

            امام احمدؒ علم و فضل کے جس مقام بلند پر فائز تھے، اس کا اعتراف ان کے ہمعصر بڑے بڑے اہل علم کرتے ہیں۔ محدثین کی صف میں انہیں جو مقام عظمت حاصل ہے، اس کا اندازہ ان کے مجموعہ احادیث المسند سے کیا جاسکتا ہے۔ ان کے تفقہ کے سلسلے میں یہی کہہ دینا کافی ہے کہ وہ ان ائمہ اربعہ میں شامل ہیں جن کی فقہ پر اہل سنت اعتماد کرتے ہیں، تاہم ان کی عظمت کا ایک پہلو اور بھی ہے ، اور یہ ان کا وہ کردار ہے جو انہوں نے فتنہ خلق القرآن کے مقابلے میں ادا کیا۔

            خلق القرآن کا فتنہ معتزلہ کا پیدا کردہ تھا۔ معتزلہ اس دور کے وہ روشن خیال آزاد فکر عالم تھے جو یونانی فلسفے اور اس سے پیدا ہونے والی بحثوں اور مسائل سے متاثر ہوئے اور پھر انہوں نے اللہ کے دین میں بھی علمی و فلسفیانہ موشگافیاں شروع کر دیں اور انہی ذہنی خیال آرائیوں اور فلسفہ طرازیوں کو اصل ایمان قرار دے دیا۔ یہ نظریہ کہ قرآن دوسری مخلوقات کی طرح اللہ کی خلق ہے اپنے پیچھے بڑے خطرناک اور دور رس نتائج رکھتا تھا۔ اگر اس فتنے کے آگے اما م احمدؒ صبرو استقامت کا پہاڑ بن کر کھڑے نہ ہوجاتے تو خود اعتزال پسند مورخین کے مطابق اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ قرآن کی عظمت و جلالت اور ابدیت اور اس کے لفظاً اور معناً کلام الٰہی ہونے کے عقیدہ پر شدید ضرب پڑتی۔ اگر قید وبند اور تازیانوں کے خوف سے ساری آوازیں گنگ ہوجاتیں، حق باطل کے آگے سپر انداز ہوجاتا اور اہل حق کسی مزاحمت کے بغیر اس کو پھلنے پھولنے اور اقتدار کے بل بوتے پر امت کے فکرو ذہن پر مسلط ہوجانے کے لیے چھوڑ دیتے تو ایمان و عقیدہ کی بنیاد ( یہ کہ قرآن حق تعالیٰ کا کلام اور اس کا امر ہے) متزلزل ہوجانے کے بعد فکری و اعتقادی فتنوں کے دروازے چوپٹ کھل جاتے، امت کی فکری و نظریاتی، ایمانی و اعتقادی اور سیاسی و معاشرتی زندگی کی اساس تلپٹ ہو کر رہ جاتی ۔اس فتنے کا ایک پہلو اور بھی تھا۔ اسے تو حکومت کی سرپرستی کی بنا پر فکری و سیاسی اور معاشرتی میدانوں میں کچھ مدت دندنانے اور اپنا دورحیات پورا کر چکنے کے بعد ایک روز تاریخ کے مدفن میں اترجانا تھا، لیکن اگر اس کی مزاحمت نہ کی جاتی تو قیامت تک اس بات کی نظیر قائم ہوجاتی کہ حکمران گمراہ کن فلسفوں سے متاثر و مرعوب ہو کر یا اپنی کج رو عقل سے گھڑ کر جو افکار چاہیں پیش کر سکتے ہیں اور کتاب و سنت کو بالائے طاق رکھ کر اپنے ان مزعومات کو کفرو ایمان کا معیار اور مسائل اجتماعی میں آخری فیصلہ کن اتھارٹی بنا سکتے ہیں۔

            امام احمد کی نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ فتنہ خلق قرآن کی مار کہاں پڑتی ہے، چنانچہ انہوں نے اپنے آپ کو آلام و شدائد کے شعلوں میں جھونک دیا۔ وہ جبرو جور کے آگے ڈٹ گئے، تازیانوں کی مار صبر و عزیمت کے ساتھ برداشت کر لی اور اسلامی مملکت کی فکری اورنظریاتی اساس کو بدلنے کے عزائم خاک میں ملا دیے۔

٭٭٭

            مامون کے خلیفہ بنتے ہی معتزلہ سلطنت کے دروبست پر چھا گئے تھے جن کا سرخیل مملکت کا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) احمد بن ابی داؤد تھا۔ اس سارے عرصے میں یہی لوگ مامون کے ہاتھ پاؤں بنے رہے اور جب آخری چار برسوں میں اس نے اپنی ساری توجہات مملکت کو سیکولر بنانے کے عملی اقدارپر مرکوز کر دیں اور عقیدہ خلق قرآن کو اپنا سب سے بڑا ہتھیار بنالیا تو یہ لوگ جارحیت پر اتر آئے۔ علمی مجلسوں اور حلقوں میں یہ مسئلہ پہلے بھی موضوع بحث بنا رہتا تھا تاہم اس کی نوعیت محض علمی ہوا کرتی تھی۔ سلطنت کی سرپرستی میسر آنے کے بعد اس نے جدال کا رنگ اختیار کر لیا۔ منبرومحراب اس کی تبلیغ و اشاعت کا فورم بن گئے۔ محدثین اور علما و فقہا نے کتاب و سنت کے دلائل سے اس فتنے کا رد کیا۔ اس فکری کمشمکش میں اہل سنت کا پلڑا بھاری تھا۔ علمی و فکری محاذ پر شکست کھا کر مامون نے جبر و تشدد کے ذریعے اپنی فکر فاسد کو کفرو ایمان کا معیار اور امت کا عقیدہ بنانے کا فیصلہ کر لیا۔

            ۲۱۸ھ میں مامون نے بغداد کے نائب حاکم اسحاق بن ابراہیم کے نام پے در پے تین فرامین جاری کیے۔ان فرامین میں کہا گیا تھا کہ سلطنت کے تمام عام و خاص عہدیدار خلق القرآن کا عقیدہ تسلیم کرنے کا اعلان کریں۔ جو شخص اس عقیدہ(خلق القرآن) کو تسلیم نہیں کرے گا اسے معزول کر دیا جائے گا۔ اس حکم کی تعمیل عدالتوں میں پیش ہونے والے گواہوں تک کے لیے لازمی قرار دے دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ جو لوگ عقیدہ خلق القرآن کا اقرار نہیں کریں گے ان کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ ایک ہی وار میں قاضیوں سمیت حکومت کے تمام چھوٹے بڑے احکام اور اہلکار سرنگوں ہو گئے۔

            پہلے دو فرامین میں ایسا لگتا تھا جیسے ایک ایسا مشفق و مہربان حکمران بول رہا ہو جو اپنی رعایا کے ایمان کی فکر میں ہلکان ہو رہا ہو اور جسے یہ فکر کھائے جا رہی ہو کہ امت خلق القرآن کے عقیدہ کو نہ مان کر شرک کی مرتکب ہورہی ہے۔ لیکن تیسرا فرمان پہلے دو فرامین سے یکسر مختلف تھا اس کا اسلوب اور لہجہ دونوں تلوار کی کاٹ لیے ہوئے تھے۔ فرمان میں ایک ایک محدث و فقیہہ و عالم پر اخلاقی اور اعتقادی الزامات لگا کر اس کی کردار کشی کی گئی تھی۔ ہر ایک کا ذکر حقارت اور تمسخر کے ساتھ کیا گیا تھا۔ ایک ایک شخص کے بارے میں احکام صادر کیے گئے تھے کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیاجائے۔اس فرمان کے مطابق بشر بن ولید الکندی اور ابراہیم بن المھدی قتل کر دیے گئے۔ یہ گویا اعلان وانتباہ تھااس بات کا کہ جو لوگ ہمارے سودائے دماغ کے آگے سر نہیں جھکائیں گے ان کا حشر بھی انہی دو سرکشوں کا سا ہوسکتا ہے اور پھر بلادِ اسلامیہ میں پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔ اہل حق کے لیے اللہ کی زمین اپنی وسعتوں کے باجود تنگ ہوگئی۔ جان کے خوف سے بڑے بڑے اصحاب کے قدم ڈگمگاگئے اور انہوں نے خلق القرآن کے عقیدے کا اقرار کر لیا۔

            علما و محدثین کی ابتلا و آزمائش کو چوتھا مہینا جا رہا تھا۔ اس عرصے میں سینکڑوں افراد خوف و تہدید اور حکومت کی قہرمانیت کی تاب نہ لا کر سر جھکا چکے تھے۔ امام احمد ؒ ابتدا ہی سے اس ابتلا کا سامنا کر رہے تھے۔ یہ سب جو بھی ہو رہا تھا نفسیاتی طور پر کسی بھی شخص کو پیسنے اور کچلنے کے لیے کم نہ تھا۔ رہی سہی کسر روزانہ دو چار آٹھ دس علما اور محدثین کی پسپائی کا روح فرسا اور ہمت شکن منظر پوری کردیتا، مگر امام صاحب اپنے موقف پر اٹل پہاڑ کی طرح قائم رہے۔ بغداد کا نائب حاکم اپنے آپ کو عزم و ثبات کے اس پیکر کے آگے بے بس پا رہا تھا کہ مامون کا تیسرا فرمان گویا اسے اس بے بسی سے نجات دلانے کی نوید بن کر آیا۔ اس نے امام ؒ صاحب کو بیڑیوں میں جکڑ کر پولیس کے ایک دستے کی حراست میں طرطوس روانہ کر دیا۔اس سفر میں امامؒ صاحب کے ساتھ تین اصحاب اور بھی تھے۔ وہ ابھی تک راہ حق و صدق پر مضبوطی سے قائم رہے تھے۔ محمد بن نوح، سجاد اور عبداللہ بن عمر القواریری۔ روانگی سے ایک دن پہلے ان لوگوں کی مشکیں کسی گئیں اور بوجھل بیڑیاں ان کے پاؤں میں ڈالی گئیں تو سجاد کی ہمت جواب دے گئی اور وہ روانگی کے پہلے ہی روز عقیدہ خلق القرآن کا اقرار کر کے چھوٹ گئے۔ دوسرے روز عبداللہ بن عمر القواریری کا پایہ اسقامت ٹوٹ گیا اور انہیں رہائی مل گئی۔ حالات کے اذیت ناک مناظر میں یہ حادثہ پہلے حوادث سے کہیں زیادہ جاں گسل تھا۔ اب طرطوس جانے والے قافلے میں صرف دو بلاکشان عشق رہ گئے تھے۔ محمد بن نوح اور امام ؒ صاحب۔ اس قافلے نے چند ہی منزلیں طے کی تھیں کہ مامون کے انتقال کی خبر ملی۔ وہ اچانک بیمار ہوا تھا اور چند روز موت و حیات کی کشمکش میں گرفتار رہ کر اپنی فرد عمل کا حساب دینے کے لیے حضور حق تعالیٰ میں پہنچ گیا تھا۔نئے احکام صادر ہونے تک امام احمدؒ اور ان کے جلیل القدر ساتھی کو رقہ کے زنداں میں پہنچا دیا گیا ۔

            مامون مرنے سے پہلے اپنے بھائی معتصم کو اپنا جانشین بنا گیاتھا اور وصیت کر گیا تھا کہ امورِ مملکت میں اس کی پالیسیوں پر کار بند رہے اور عقیدہ خلق القرآن کو مملکت کا مسلک بنانے کا مشن جاری رکھے۔ معتصم نے چھاؤنی کی تعمیر کے سوا اپنے بھائی کی تمام پالیسیوں اور وصیتوں پر پوری سرگرمی سے عمل کیا۔

            دونوں قیدیوں کا سفر عشق پھر سے شروع ہوگیا۔ اب وہ واپس بغداد جارہے تھے۔ محمد بن نوح طرطوس کے سفر ہی میں بیمار رہنے لگے تھے، رقہ کے زمانہ قید میں ان کی بیماری بڑھ گئی اور بغداد کی طرف روانہ ہوئے تو انہیں اللہ نے اپنے جوارِ رحمت میں بلا لیا اور امام احمد جب منزل عشق پر پہنچے تو بالکل تنہا تھے اور اس عالم میں کہ چار چار بیڑیاں پاؤں میں پڑی ہوئی تھیں۔ راستے میں حکم تھا کہ سواری پر خود سوا ر ہوں اور خود اتریں، اس مشقت میں وہ کئی بار منہ کے بل گرتے گرتے بچے۔

            امام ؒ صاحب نے رات معتصم کے محل میں چراغ سے محروم اندھیرے بندی خانہ میں رکوع و سجود میں گزاری۔ صبح ہوئی تو معتصم کا قاصد انہیں دربار میں لے گیا۔ معتصم مسند خلافت پر قہرمانی کی علامت بنا جلوہ گر تھا۔ درباری اپنے مناصب کے مطابق دست بستہ، سر نہوڑائے، آنکھیں جھکائے کھڑے تھے۔ قاضی القضاۃ ابن ابی داؤد اور اس کے ہم مشرب بھی بڑی تعداد میں حاضر تھے۔اس عہد کے بہت بڑے شافعی فقیہہ ابو عبدالرحمان الشافعی کھڑے تھے۔ دربار میں سناٹا طاری تھا۔ امام ؒصاحب کی حاضری سے چند لمحے پہلے دو آدمیوں کی گردنیں مار ی جا چکی تھیں اور ان کے لاشے پڑے تھے۔ اس منظر نے دربار میں پھیلے ہوئے سناٹے میں دہشت کی گھمبیر لہر دوڑا دی تھی۔ امام ؒ صاحب بڑے سکون کے ساتھ دربار میں داخل ہوئے، دربار اور اہل دربار پر ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالی جو خون آلود لاشوں پر سے گزرتی ہوئی ابو عبدالرحمان الشافعی پر مرتکز ہوگئی۔پھر ان کی آواز بلند ہوئی۔ وہ ابو عبدالرحمان سے پوچھ رہے تھے :‘‘ مسح کے بارے میں تمہیں امام شافعی کا کوئی قول یاد ہے۔’’ امیرالمومنین کو نظر انداز کر کے کسی سے کچھ پوچھنا یا بات کرنا آداب دربار کے منافی اور شاہی چوبداروں کے لیے اشتعال انگیز تھا مگر امامؒ صاحب کی جرأت و بے اعتنائی سے سب مبہوت ہو کر رہ گئے۔ ابن ابی داؤد تو فرط حیرت سے پکار اٹھا۔ اس شخص کو دیکھو کہ اس کی گردن ماری جانے والی ہے مگر یہ فقہ کے مسائل کی تحقیق کر رہا ہے! پھر معتصم نے انہیں اپنے قریب آنے کو کہا۔ وہ بیڑیوں میں جکڑے آگے بڑھے۔ معتصم بار بار کہہ رہا تھا اور آگے آؤ اور آگے آؤ اور امام صاحب آگے بڑھتے بڑھتے اس کے بالکل قریب پہنچ گئے۔ معتصم نے انہیں بیٹھ جانے کو کہا۔ امام صاحب بیڑیوں کے بوجھ سے تھک گئے تھے، اجازت پا کربیٹھ گئے۔ کچھ دم تک دربار میں ہیبت ناک سکوت طاری رہا جسے امامؒ صاحب کی آواز نے توڑا۔ وہ فرما رہے تھے :‘‘ مجھے کچھ کہنے کی اجازت ہے۔’’ معتصم نے کہا:‘‘ ہاں بولو!’’ امام ؒصاحب نے کہا:‘‘میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس چیز کی طرف دعوت دی ہے۔’’امام ؒ صاحب کی آوازبلند ہوگئی تھی۔ کچھ دیر خاموشی طاری رہی، پھر معتصم نے کہا:‘‘ لا الہ الا اللہ کی شہادت کی طرف!’’ امام ؒ صاحب نے فرمایا:‘‘تو میں اس کی شہادت دیتا ہوں۔’’ پھر فرمایا:‘‘ آپ کے جدامجد عبداللہ ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ایمان کے بارے میں آپ سے سوال کیا۔ آنحضورؐ نے فرمایا:‘‘ایمان یہ ہے کہ اس بات کی گواہی دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود اور الٰہ نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں، نماز کی پابندی کی جائے،زکوٰۃ ادا کی جائے اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالا جائے۔’’ امام احمدؒ خود خلیفہ کے جد امجد کی اس روایت کو بیان کرکے یہ کہنا چاہتے تھے کہ اللہ کے رسول ؐ نے ایمان کی جو تعریف بیان فرمائی ہے اس میں تمہارے ان عقلی اوہام وظنون کا کوئی مقام نہیں ہے جنہیں تم نے کفر و ایمان کا معیار بنا لیا ہے اور امت کو مجبور کر رہے ہو کہ وہ تمہارے ان اوہام و ظنون پر ایمان لائے۔ تم اللہ کے رسول کی بیان کردہ شرائط ایمان میں اپنی طرف سے ایک نئی شرط کا اضافہ کر کے دین میں اضافے اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کے جرم کا ارتکاب کر رہے ہو۔ معتصم امام احمدؒ کے منشا کو سمجھ گیا تھا، چنانچہ اس سے اس کے سوا کوئی جواب نہ بن پڑا کہ احمد! میرے پیشرو نے اگر تمہیں گرفتار نہ کیا ہوتا تو میں تم سے کوئی تعرض نہ کرتا۔

            پھر مناظرہ شروع ہوا جو تین دن تک ہوتا رہا۔ قاضی ابن ابی داؤد اور ان کے ساتھی اپنے ترکش علم و استدلال سے دلائل لے کر گویا امام احمدؒ پر پل پڑے۔ امامؒ صاحب ان کے ایک ایک سوال کا جواب دیتے اور ایک ایک دلیل کا رد کرتے۔ اور فرماتے یہ سب باتیں محض تمہاری عقل کی سرگشتگی اور وہم و گمان کے تیر تکے ہیں، یہ کسی مسلمان کے لیے حجت نہیں بن سکتیں، حجت اور دلیل صرف کتاب و سنت ہے۔ کتاب و سنت سے کوئی دلیل ہے تو لاؤ۔ ان کی غیرت حق میں ڈوبی ہوئی آواز سب سے بلند اور سب پر غالب ہوتی۔ معتصم امامؒ صاحب کے طرزِ استدلال پر بھنا اٹھتا اور کہتا:‘‘احمدؒ اللہ تم پر رحم کرے، تم کیا کہہ رہے ہو؟’’ امام صاحب فرماتے: ‘‘امیر المومنین! مجھے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے دلیل دی جائے، میں اس کے آگے سر تسلیم خم کر دوں گا۔ دوسرے دن شام کے وقت امام احمدؒ زنداں کی کوٹھڑی میں پہنچے تو وہ خود کہتے ہیں کہ حالات کے تیور دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ کل کچھ ہو کر رہے گا۔ میں نے ڈوری منگوائی اور اس سے اپنی بیڑیوں کو کس لیا اور جس ازار بند میں بیڑیاں باندھ رکھی تھیں، اس کو اپنے پاجامہ میں پھر ڈال لیا کہ کوئی سخت وقت آجائے تو برہنہ نہ ہوجاؤں۔

٭٭٭

            تیسرے روز امامؒ صاحب کو بغداد کے گورنر کے پاس لایا گیا۔ اس نے ان کے اس خدشہ کی گویا تصدیق کر دی۔اس نے کہا احمدؒ تم اپنی زندگی سے بیزار نظر آتے ہو، لیکن امیر المومنین تمہیں اپنی تلوار سے قتل نہیں کریں گے بلکہ تعذیب و اذیت کی مار ماریں گے۔ انہوں نے قسم کھائی ہے کہ اگر تم نے ان کی بات نہ مانی تو مار پر مار پڑے گی اور تمہیں ایسی جگہ ڈال دیا جائے گا جہاں تم کبھی سورج نہ دیکھ سکو گے۔ اس دھمکی کے بعد انہیں معتصم کے دربار میں پہنچا دیا گیا اور پھر تعذیب و اذیت کا وہ عمل شروع ہو گیا جس سے خاصان الٰہی کو اعلائے کلمۃ الحق کا فریضہ ادا کرتے اور راہ حق و صدق پر چلتے ہوئے کسی نہ کسی شکل میں گزرنا پڑا ہے۔ اس داستان کرب و ستم کو ہم ابوالکلام آزاد سے مستعار لے کر بیان کرتے ہیں کہ اس سے بہتر الفاظ میں آج تک کوئی قلم دعوت و عزیمت کے اس باب کو رقم نہیں کر سکا:

            ‘‘رمضان المبارک کے عشرہ آخر میں جس کی اطاعت اللہ کو تمام دنوں کے طاعات سے زیادہ محبوب ہے، بھوکے پیاسے جلتی دھوپ میں بٹھائے گئے اور اس پیٹھ پر جو علوم و معارف نبوت کی حامل تھی، کوڑے اس طرح مارے گئے کہ ہر جلاد دو ضربیں پوری قوت سے لگا کر پیچھے ہٹ جاتا اور پھر تازہ دم جلاد اس کی جگہ لیتا۔ اس کو بھی ہنسی خوشی برداشت کر لیا۔مگر اللہ کے عشق سے منہ نہ موڑا اور راہ سنت سے منحرف نہ ہوئے۔ تازیانے کی ہر ضرب پر جو صدا زبان سے نکلتی تھی، وہ نہ تو جزع فزع کی تھی اور نہ شوروفغاں کی، بلکہ وہی تھی جس کے لیے یہ سب کچھ ہو رہا تھا: القرآن کلام اللہ غیر مخلوق (قرآن اللہ کا کلام اور غیر مخلوق ہے)خود معتصم باللہ سر پر کھڑا تھا۔ جلادوں کا مجمع چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھا اور وہ بار بار کہہ رہا تھا:اے احمد! میں تم پر اپنے بیٹے ہارون سے بھی زیادہ شفقت رکھتا ہوں، اگر تم خلق قرآن کا اقرار کر لو، تو قسم خد ا کی ابھی اپنے ہاتھوں سے تمہاری بیڑیاں کھول دوں گا، لیکن اس پیکر حق اور مجسمہ سنت کی زبان صدق سے صرف یہی جواب نکلتا تھا۔ اعطونی شیئا من کتاب اللہ وسننہ رسولہ حئی اقول بہ(اللہ کی کتاب میں سے کچھ دکھلا دو یا اس کے رسول کا کوئی قول پیش کر دو، تو میں اقرار کرلوں گا، اس کے سوا میں اور کچھ نہیں جانتا)

            جب معتصم عاجز آکر قاضی ابن ابی داؤد اور اس کے ہم نوا علماسے کہتا:‘‘ ناظروہ و کلموہ(اس سے مناظرہ اور بحث کرو) اور وہ کتاب و سنت کے میدان میں عاجز آکر اپنے اوہام و فنون باطلہ کو باہم عقل و رائے سے پیش کرتے تو وہ اس کے جواب میں بول اٹھتے ما ادری ماھذا(میں نہیں جانتا یہ کیا بلا ہے) اعطونی شئیا من کتاب اللہ وسننہ رسولہ حئی اقول بہ

            جب معتصم باللہ نے جلادوں کو ضرب تازیانہ لگانے کا حکم دیا تو علمائے اہل سنت بھی دربار میں موجود تھے جو شدت محن و مصائب کی تاب نہ لاسکے اور اقرار کر کے چھوٹ گئے تھے۔ ان میں سے بعض نے کہا:‘‘احمدخود تمہارے ساتھیوں میں کسی نے ایسی ہٹ کی، جیسی تم کر رہے ہو؟ امام احمدؒ نے کہا یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی، اعطونی شئیا من کتاب اللہ وسننہ رسولہ حئی اقول بہ۔ عین حالت صوم میں کہ پانی کے صرف چند گھونٹ پی کر روزہ رکھ لیا تھا…… تازہ دم جلادوں نے پوری قوت سے کوڑے مارے یہاں تک کہ تمام پیٹھ زخموں سے چور ہوگئی اور تمام جسم خون سے رنگین۔’’

            انیس کوڑے لگ چکے تو معتصم، امام ؒ صاحب کے پاس آیا اور کہنے لگا: احمدؒکیوں اپنی جان کے در پے ہو، بخدا مجھے تمہارا بہت خیال ہے، اپنی ہٹ چھوڑ دو، مگر امامؒ صاحب کا عجب عالم تھا! انسان نما درندے انہیں بھنبھوڑنے کو تیار کھڑے تھے۔ عجیف نامی ایک شخص انہیں اپنی تلوار سے کچوکے دیتا اور کہتا کہ تم ان سب لوگوں پر غالب آنا چاہتے ہو؟ کوئی کہتا:‘‘خلیفہ تمہارے سر پر کھڑا ہے اور تم سرکشی کر رہے ہو، کوئی چاپلوسی کرتے ہوئے کہتا: امیر المومنین! روزے سے ہیں اور دھوپ میں کھڑے ہوئے ہیں۔ معتصم پھر کہتا : احمد ؒ ضد چھوڑ دو، مگر امام صاحب اس کو وہی جواب دیتے اور معتصم بپھر کر پھر کوڑے مارنے کا حکم دیتا اور مشق ستم پھر شروع ہوجاتی۔ اس واقعہ کے ایک عینی شاھد کہتے ہیں کہ امام روزے سے تھے، میں نے کہا بھی کہ آپ روزے سے ہیں، اپنی جان بچانے کے لیے رخصت کی راہ اختیار کرلیں ۔اور پھر یہ کہ اس عقیدہ کا اقرار کرنے کی گنجایش بھی ہے، لیکن انہوں نے میری اس بات پر ذرا دھیان نہ دیا۔ ایک مرتبہ پیاس کی شدت انتہا کو پہنچ گئی تو پانی طلب فرمایا’ چنانچہ برفاب سے بھرا ہوا پیالہ پیش کیا گیا’ امام نے اس کو ہاتھ میں لیا’ کچھ دیر اس کی طرف دیکھتے رہے اور پھر پیے بغیر پیالہ واپس کر دیا۔ اس اثنا میں امامؒ صاحب کی حالت بگڑ گئی، ان کے حواس جاتے رہے، پھر انسانی درندے ان پر ٹوٹ پڑے، انہیں اوندھے منہ گرا دیا اور روندنے لگے۔ وہ بے ہوش ہوچکے تھے۔ خود کہتے ہیں کہ جب ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ میری بیڑیاں کھول دی گئی ہیں۔ چند آدمی پانی لائے اور کہا لو پانی پی لو، مگر میں نے انکار کر دیا کہ روزہ نہیں توڑ سکتا۔ وہاں سے مجھے اسحاق بن ابراہیم کے قصر میں لے گئے۔ ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا تھا۔ ابن سماعہ نے امامت کی اور میں نے نماز پڑھی۔ ابن سماعہ نے کہا: تم نے نماز پڑھی، حالانکہ خون تمہارے کپڑوں میں بہہ رہا ہے، یعنی دم جاری و کثیر کے بعد طہارت کہاں رہی؟ میں نے جواب دیا:‘‘ میں نے وہی کیا جو حضرت عمرؓ نے کیا تھا۔ صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ انہیں قاتل نے زخمی کیا اور اسی حالت میں انہوں نے نماز پوری کی۔’’

            فقہی موشگافیاں جیسی کچھ بھی کی جائیں ابوالکلام آزاد نے اس ساری صورت حال پر بڑے خوبصورت پیرائے میں تبصرہ کیا ہے: ‘‘میں کہتا ہوں کہ جو خون اس وقت امام احمدؒ بن حنبل کے زخموں سے بہہ رہا تھا، اگر وہ خون ناپاک تھا اور اس کے ساتھ نماز نہیں ہو سکتی تھی تو پھر دنیا میں او رکون سی چیز ایسی ہے جو پاک کر سکتی ہے او رکون سا پانی ہے جو طاہر و مطہر ہوسکتا ہے، اگر یہ ناپاک ہے تو دنیا کی تمام نا پاکیاں اس ناپاکی پر قربان اور دنیا کی ساری طہارتیں اس پر سے نچھاور۔ یہ کیا بات ہے کہ پاک سے پاک اور مقدس سے مقدس انسان کی میت کے لیے بھی غسل ضروری ٹھہرا اغسلو ابما ء و سدرو کفنوہ فی ثوبین( میت کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اسے دو کپڑوں میں کفناؤ۔(بخاری عن ابن عباس) مگر شہیدان حق کے لیے یہ بات ہوئی کہ ان کی ناپاکی‘‘شرمندہ آب غسل نہیں لم یصل علیہم ولم یغسلہم( حضور ؐ نے شہدا کی نماز جنازہ پڑھی نہ انہیں غسل دیا گیا۔) بلکہ ان کے خون کے رنگے کپڑوں کو ان سے الگ نہ کیجیے یدفنوا فی ثیابھم و دمائھم اور اسی لباس گلگوں اور خلعت رنگیں میں وہاں جانے دیجیے جہاں ان کا انتظار کیا جارہا ہے اور جہاں خون عشق کے سرخ دھبوں سے بڑھ کر شاید اور کوئی نقش ونگار عمل مقبول محبوب نہیں ہے۔ عند ربھم یرزقون فرحین بماتا ھم اللہ!’’

٭٭٭

            امام احمدؒ اپنی گرفتاری کے بعد ۲۸ مہینے تک قید و بند کی اذیتوں میں مبتلا رہے۔ ان کو تینتیس چونتیس کوڑے مارے گئے اور اتنی قوت سے مارے گئے کہ ایک راوی محمد بن اسماعیل کے مطابق اگر کسی ہاتھی کو مارے جاتے تو وہ بھی چیخ کر بھاگ اٹھتا۔ یہ سارا عرصہ امام ؒصاحب نے بڑے حوصلے اور جرأت و وقار کے ساتھ گزارا۔ بغداد کا کوتوال ابراھیم بن مصعب امام صاحبؓ جس کی تحویل میں تھے ، کہتا ہے کہ میں نے احمدؒ سے زیادہ جری اور دلیر کوئی شخص نہیں دیکھا۔ ان کی نگاہ میں ہم لوگوں کی حیثیت مکھی سے زیادہ نہ تھی۔ آخر امامؒ صاحب کے صبرو استقامت کے آگے ظالموں کا جبرو تشدد جواب دے گیا، چنانچہ انہیں رہا کر دیاگیا اور اس حالت میں گھر پہنچے کہ زخموں سے چور تھے۔ صحت یاب ہونے پر درس حدیث پھر شروع کر دیا۔

            معتصم کے بعد واثق تخت خلافت پر بیٹھا۔ اس نے جسمانی ایذا تو نہیں دی، البتہ امام صاحب کو ان کے گھر میں نظر بند کر دیا۔ کسی کو ان سے ملنے جلنے کی اجازت نہ تھی۔ نماز بھی وہ گھر میں پڑھا کرتے۔

            بڑے بڑے آئمہ نے اعتراف کیا کہ اذارایت الرجل یحب احمد بن حنبل فاعلم انہ ھو صاحب السنۃ اگر کسی کو دیکھو کہ وہ امام احمدؒ بن حنبل سے محبت رکھتا ہے تو جان لو کہ وہ صاحب سنت ہے۔ ایک اور رجل دین نے امام صاحب کی ذات کو مسلم اور زندیق کے درمیان امتیاز کی کسوٹی قرار دیا یعرف بہ المسلم من الزندیق۔ ایک اور صاحب علم و فکر نے کہا من سمعتموا یذکر احمد بن حنبل بسو ء فا تھموہ علی الاسلام کسی شخص کو امام احمدؒ بن حنبل کا ذکر برائی سے کرتا ہوا سنو تو اس کے اسلام کو مشکوک سمجھو۔

            اللہ تعالیٰ نے اس دین کے غلبہ وحفاظت کا کام دو اصحاب سے لیا ہے جن کا کوئی تیسرا ہمسر نظر نہیں آتا۔ فتنہ ارتداد کے موقع پر حضرت ابو بکر صدیقؓ اور فتنہ خلق القرآن کے سلسلے میں احمدؒ بن حنبل۔

            فتنے کا طوفان واثق کے عہد میں اترنے لگا۔اہل فتنہ کا زور ٹوٹنے لگا اور جن باتوں پر خلیفہ کے دربار میں اور اہل علم و دانش کی مجلسوں میں سر دھنے جاتے ھے وہ مسخروں کا موضوع تمسخر و تضحیک بن گئیں۔ خلیفہ واثق نے اگر چہ تشدد کی پالیسی نہیں اپنائی تھی تاہم وہ اس فتنے کا اپنے پیشروؤں ہی کی طرح سرپرست اور مربی تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ غیر جانبدار ہوتا چلا گیاتھا۔ اس کے مرنے کے بعد متوکل خلیفہ تھا تو فتنے کے رہے سہے بادل بھی چھٹ گئے اور مطلع بالکل صاف ہوگیا۔ متوکل نے امام احمدؒ کی نظربندی ختم کر دی اور پچھلے مظالم کی اپنے جود و کرم سے تلافی کرنا چاہی اور انعام و عطیات سے نوازنے کی کوشش کی۔ ترغیب و تحریص کے سنہرے جال بڑے ہی پر کشش ہوتے ہیں۔ انسان بسا اوقات اپنے عقیدے اور ایمان کے تحفظ کی خاطر اور حق و صدق کے اصولوں پر قائم رہنے کے لیے ہر قسم کے مصائب و شدائد سہ لیتا ہے لیکن جب تحریص و ترغیب کا دام پھینکا جاتا ہے تو وہ اس کے کشش انگیز حلقوں کا شکار ہوجاتا ہے اس طرح ترغیب و تحریص کی ابتلا جسمانی سے زیادہ مہلک ہوتی ہے۔ امام ؒ صاحب جنہوں نے کوڑوں کی مار بڑے تحمل سے برداشت کرلی تھی اس تازہ دم آزمائش پر چیخ اٹھے کہ یہ آزمائش کوڑوں کی مار سے زیادہ سخت ہے تاہم انہوں نے اپنے دامن کو اس آلائش سے آلودہ نہ ہونے دیا۔

            ایک بار انہوں نے متوکل کے بھیجے ہوئے ایک لاکھ کے خطیر عطیہ کو واپس کرتے ہوئے فرمایا:‘‘ میں اپنے مکان میں اپنے ہاتھ سے اس قدر کاشتکاری کر لیتا ہوں، جو میری ضروریات کے لیے کفایت کرتی ہے ۔ اس بوجھ کو اٹھا کر کیا کروں گا؟ کہا گیا کہ اپنے صاحبزادے سے کہیے کہ وہ لے لیں۔ فرمایا: وہ اپنی مرضی کا مالک ہے۔ ان کے صاحبزادے نے بھی عطیہ لینے سے انکار کر دیا تو امامؒ صاحب سے کہا گیا کہ امیر المومنین کا حکم ہے کہ خود نہیں لینا چاہتے تو نہ لیجیے، بس قبول کر کے فقرا و مساکین میں تقسیم کر دیجیے۔ فرمایا: امیر المومنین کے محل کے نیچے فقیروں کا ہجوم رہتا ہے، یہ رقم فقیروں ہی کو دینی ہے تو وہیں دے دی جائے، یہاں میرے غریب خانے کے سامنے ہنگامہ کھڑا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟فتنہ خلق قرآن کے بچے کھچے حامی جنہیں اب بھی دربار میں اثرو رسوخ حاصل تھا، خلیفہ کے کان بھر رہے تھے کہ امام صاحب نے خلافت کے دشمن کسی علوی کو پناہ دے رکھی ہے۔

امام صاحب کے بہی خواہوں کا اصرار تھا کہ ایسی فضا میں عطیات شاہی قبول کرنے سے انکار سنگین غلط فہمی پیدا کرنے کا موجب ہوسکتا ہے اس لیے انہیں بادل نخواستہ چند عطیات کو قبول کرنا پڑا، لیکن وہ ان عطیات کو ہاتھ تک نہ لگاتے، اپنے صاحبزادے کو حکم دیتے کہ خلیفہ کی بھیجی ہوئی اس رقم کو صبح ہوتے ہی اہل حاجت میں تقسیم کر دیں۔ بعد میں جب غلط فہمیاں اور پھیلائی ہوئی بد گمانیاں دم توڑ گئیں تو خود متوکل نے انہیں اختیار دے دیا کہ عطیہ شاہی کو قبول کریں یا مسترد، ان کی مرضی پر موقوف ہے ۔ چنانچہ یہ مجبوری کا سلسلہ ختم ہوگیا۔

            ان کے صاحبزادے صالح نے معاشی حالات سے مجبور ہو کر شاہی وظیفہ قبول کر لیا تو اس کے ہاں سے کھانے پینے یا ضرورت کی کوئی چیز لینے سے اجتناب کرنے لگے۔ امام احمدؒ قناعت و استغنا کا پیکر تھے اور زہد وورع کے مرتبہ کمال پر فائز۔

            خیرو صلاح، تدوین حدیث، اتباع سنت اور دفاع حق و صدق سے عبارت، بھر پور زندگی گزارنے کے بعد امام احمد کا ۷۷ برس کی عمر میں جب انتقال ہو ا تو آٹھ لاکھ مرد اور ساٹھ ہزار عورتیں با دل مجروح و محزوں ان کے جنازے میں شریک تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ سارا بغداد امنڈ آیا ہے۔

٭٭٭