مثبت افکارِ زندگی

مصنف : حکیم محمد سعید مرحوم

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جولائی 2007

            زندگی کی تگ و دو اور کش مکشِ حیات میں انسان ایسے حالات و تغیرات سے دوچار ہوتا رہتاہے کہ جن کی وجہ سے صلاحیت ِ فکر اور توانائیِ کار متاثرہوتی ہے اور اعصاب پر دباؤ محسوس ہوتا ہے۔ اگر یہ دباؤ زیادہ عرصہ رہے تو نفسیاتی اور جسمانی بیماریاں بھی لاحق ہوسکتی ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ کی زندگی لا متناہی مصروفیتوں اور سرگرمیوں کا گہوارہ رہی ہو۔ آپ دن رات مسلسل کام کرتے رہے ہوں جس کی وجہ سے آپ پر تھکن اور مشقت کا ہیجان تشویش ناک سطح تک پہنچ گیا ہو۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جب انسان اپنی خود اعتمادی سے محروم ہوجانے کے خطرات سے دوچار ہوتا ہے۔ قوتِ فیصلہ بھی کمزور پڑ جاتی ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ حد سے زیادہ مشقت کے نتیجے میں عورتوں پر مردوں سے زیادہ بار پڑتا ہے اور ان کی صلاحیت کار گِر کر بہت نچلی سطح تک پہنچ جاتی ہے۔ عورتوں کو گھر کا بجٹ متوازن رکھنے میں جس قدر دقتیں پیش آتی ہیں اس قدر شاید کسی بڑی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کو کمپنی کا میزانیہ متوازن رکھنے میں بھی نہ پیش آتی ہوں۔

            میری رائے میں یہ ہی وہ مواقع ہوتے ہیں کہ جب روحانی غذا کام آتی ہے جس کی توانائی سے معجزاتی نتائج کا ظہور ہوتا ہے اور ان کے ذریعے سے ہم مشکلات کے ہجوم سے باہر نکل آتے ہیں اور دشواریوں پر قابو پالیتے ہیں۔ اہلِ وطن سے میں کہتا ہوں کہ آپ اپنے اندر مثبت طرزِ فکر کو راہ دینے کی روزانہ کوشش کیجیے۔ مثبت طرزِ فکر کے بیج کو پھولنے پھلنے کا موقع دیجیے تا کہ وہ صحت مند شعور کا ایک سدا بہار درخت بن جائے اور آپ اضافی توانائی کا پھل حاصل کر سکیں۔ آپ کے اندر جوش و ولولہ اور سلامتی و تحفظ کا احساس پیدا ہو۔ کوشش کیجیے کہ آپ کے ذہن کو بڑھنے اور پھولنے پھلنے کا موقع مل سکے۔ ہوائیں کتنی ہی مخالف اور موسم کتنے ہی ناموافق کیوں نہ ہوں آپ خود کو ہمیشہ اور ہر حال میں فکر کی بلندیوں سے سرشار رکھیے۔ اپنی توقعات اور امکانات کی پیش رفت جاری رکھیے۔ آگے بڑھتے چلے جائیے۔ شکست ہر گز تسلیم نہ کیجیے۔                         ماضی میں بنی نوع انسان کو جن تجربات سے دوچار ہونا پڑا ان کے اثرات ہمارے ذہن پر بھی مرتسم ہوتے ہیں۔ ان سے ہم بھی استفادہ کر سکتے ہیں ضرورت صرف اتنی ہے کہ ہم اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو ان کے مطابق بنانے کی کوشش کریں ۔

            انسان کے اندر فلاحی توانائی مخفی ہے جو مختلف سمتوں میں اپنا ظہور چاہتی ہے۔ جب تک جسم و ذہن کی فلاحی توانائیوں کو ظہور کا موقع نہیں ملتا تب تک فلاح و بہبود بھی نہیں ہوسکتی۔

            آج کے عہد کا ایک جوان دق دسل میں مبتلا ہو کر ہسپتال میں پڑا تھا۔ اس کا بہت کچھ علاج بلکہ آپریشن بھی ہوا لیکن افاقے کی کوئی صورت نہ نکل سکی۔ آخر معالج نے تنگ آکر اسے اس کے گھر بھیج دیا۔ معالج نے کہا کہ اسے گھر پر ہی رہنے دو، جب تک زندہ رہنا ہے رہے گا۔ ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ وہ جوان ایک پہاڑی علاقے کا رہنے والاتھا۔ ہسپتال سے واپس آکر اس نے گھر پر رہنا، پرہیزی کھانا اور صبح و شام سیر کرنا شروع کیا۔ اب وہ کوئی دوا استعمال نہ کرتا۔ ایک دن وہ صبح کے وقت ناشتہ کر رہا تھا میں نے محبت کے ساتھ جوان کو مشورہ دیا کہ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو زندہ غذائیں کھایا کرو۔ ‘‘یہ زندہ غذائیں کیسی ہوتی ہیں؟’’ جوان نے حیرت سے پوچھا۔ میں نے اسے بتایا:‘‘ زندہ غذائیں، تازہ سبزیاں ، تازہ اناج اور تازہ پھل ہیں۔’’

            اس جوان نے میرے مشورے پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے پرہیزی غذائیں بھی چھوڑ دیں اور میرے مشورے کے مطابق زندہ اور تازہ غذائیں کھانے لگا۔ان غذاؤں کی بدولت چند ہی دنوں کے اندر اس کے جسم میں تازگی اور زندگی کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ یہاں تک کہ وہ کسی دوا کے بغیر بالآخر صحت یا ب ہوگیا۔ یہ محض ایک تصوراتی کہانی نہیں بلکہ ایک آزمودہ حقیقت ہے۔ ایسے ہی واقعات کئی دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی پیش آچکے ہیں۔

             گھاس پھوس کی شکل میں جنم لینے والے پودے ہمیشہ گھاس پھوس ہی نہیں بنے رہتے بلکہ اگر ان کے اندر امنگ ہوتی ہے اور حالات سازگار ہوتے ہیں تو وہ تناوردرخت بھی بن جاتے ہیں۔ نا موافق موسم میں جو پودے مردہ ہوجاتے ہیں۔ موافق موسم کا لَمس پا کر وہ بھی زندہ ہو کر بڑے درخت بن سکتے ہیں۔ یہ بات صرف نباتات ہی کے لیے نہیں۔ بلکہ انسان پر بھی صادق آتی ہے۔ شرط صرف وہی سازگار حالت ہے۔

            ہمارے جسم میں جو درد ہوتا ہے وہ در اصل ہمارے جسم کے اندر پیدا ہونے والی کسی خرابی کا اشارہ ہوتا ہے۔ اس اشارے کے ہوتے ہی ہمیں خبردار ہوجانا چاہیے، یاد رکھیے کہ درد جسمانی علالت کا مظاہرہ ہے تو جرم کا سرزد ہونا بھی ہماری اخلاقی و روحانی بیماری کا مظہر ہے۔ اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کی طرف سے غفلت زیادہ دور رس تباہی کا موجب بن سکتی ہے۔ جس طرح ہم اپنی جسمانی بیماریوں کو محسوس کرتے ہوئے ان کے علاج کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ اِسی طرح اخلاقی بیماریوں کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنی غلطیوں کو محسوس کرنا اور ان کا اعتراف کرنا چاہیے۔

            اس عالمِ کون و مکاں میں خیر و شر کی دونوں طاقتیں موجود ہیں اور دونوں کم و بیش برسر پیکار ہیں۔ شر پھیلانے والے شر پھیلا رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں خیر والے لوگ خیر کا سامان کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ زندگی کے روز مرہ مدو جزر اور نشیب و فراز کے ساتھ جاری ہے۔ مگر اس وقت حالات سنگین تر ہوجاتے ہیں کہ جب شر کی طاقت کو شر سے دبانے کی کوشش کی جائے۔ یہ غلطی ہے اور میرے نزدیک شر کو شر سے دبانا خود شر ہے، خیر نہیں۔ ہمیں اپنا اندازِ فکر بدلنا چاہیے۔ شر کی طاقت کو خیر کی طاقت سے سے شکست دینا ہی مثبت عمل ہے۔

            مجھے اپنی زندگی میں جن دشوار گزار چوٹیوں پر چڑھنا پڑا اور جن تاریک گھاٹیوں سے گزرنا پڑا ہے، جو انسانی پتھر میرے راستے کا روڑا بنے ہیں اور انہوں نے زبان و قلم کے تیر و نشتر سے مجھے زخم پہنچائے ہیں، جن طوفانوں اور آندھیوں نے مجھے پیچھے کی طرف دھکیلا ہے، جن مصائب نے میرا خون اور پسینہ بہایا ہے میں ان سب کا شکر گزار ہوں ۔ کیوں کہ ان کے طفیل میں بہت قوی ہوگیا ہوں میری قوت ایسے حالات سے جوان تر رہتی ہے۔ اور پھر جب میں اس شر کے مقابلے میں خیر کی طاقتوں کے ساتھ مل کر نبرد آزما ہوتا ہوں تو فتح ونصرت میرا مقدر ہوتی ہے۔

            ناموافق حالات پر کڑھنے کی ضرورت نہیں، انسان کو پر سکون رہنا چاہیے۔ کڑھ کڑھ کر اپنا قیمتی وقت ہر گز ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ پر سکون رہنے سے روح کو سکون ملتا ہے۔ کامل یقین کے ذریعے سے مکمل صحت یابی ہوتی ہے۔ مضبوط قوتِ ارادی جسم کے اندر مثبت برقی مقناطیسیت پیدا کرتی ہے۔ اس کی لہریں جسم کو فعال کرتی ہیں۔ کام کرنے کا عزم پیدا کرتی ہیں اور حوصلہ تازہ عطا کرتی ہیں۔

            میں زندگی کی مشکلات سے مُنہ موڑ کر بھاگ نہیں سکتا کیوں کہ میں پامردی کے ساتھ سربلند رہنا چاہتا ہوں۔ میں نے دباؤ پر قابو پانا سیکھا ہے۔ میں ان حالات کو تسلیم کرلیتا ہوں جنہیں میں تبدیل نہیں کرسکتا۔زندگی کی تاریک گھڑیوں میں طمانیت قلب اور عمل بہت کام آتے ہیں۔ ان کی شفابخش قوت کی بدولت دل دوبارہ نغمہ سرا ہوجاتا ہے۔

             آفتاب ہمیشہ درخشاں ہی نہیں رہتا کبھی بدلیوں میں بھی گھِر جاتا ہے۔زندگی میں محبت اور سکون رخصت ہوجانے کے بعد دوبارہ آتے ہیں، نقصانات پر فتح پائی جاسکتی ہے، درد کو دور کیا جاسکتا ہے اللہ اور انسان اسی کو وقعت و اہمیت دیتے ہیں جو دنیا کو حسین تر بنا نے کی جدو جہد کرتے ہیں۔صداقت کہیں باہر سے نہیں آتی بلکہ اندر ہی موجود ہوتی ہے۔ ہر رات جب میں بستر پر جاتا ہوں اور صبح سویرے بیدار ہوتا ہوں تو سچائی کو یاد کرتا ہوں۔ اس طرح سچائی مجھے دن رات یاد رہتی ہے۔ یہ سچائی کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو رحیم بھی ہے اور رحمان بھی۔