نیٹ سائنس

مصنف : محمد عبداللہ بخاری

سلسلہ : سائنس و ٹیکنالوجی

شمارہ : جولائی 2007

رحم مادر کا سبق یاد رکھنے کے فوائد

             نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر بچوں سے وہ حرکات کروائی جائیں جو وہ پیدائش سے پہلے ماں کے پیٹ میں کرتے تھے تو انگریزی اور ریاضی کے مضامین میں ان کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے۔ اس تحقیق کو بیلفاسٹ کی کوینز یونیورسٹی کے ڈاکٹر مارٹن مکفلپس نے متعارف کروایا ہے اور اس کے نتائج نے اب تک اس بات پر شک کرنے والوں کو حیران کر دیا ہے۔

             ‘پرائمری موومنٹ’ نامی تحقیق کی بنیاد اس نکتے پر ہے کہ بچہ ماں کے پیٹ میں اپنے آپ کو نئی شروع ہونے والی زندگی کے لیے تیار کر رہا ہوتا ہے۔

              بچے رحم مادر میں بہت سی حرکات و سکنات کرتے ہیں جو پیدائش کے بعد ایک سال کے اندر اندر ان سے چھوٹ جاتی ہیں جب کہ کچھ بچے ایسے ہوتے ہیں جو ان عادات کو نہیں چھوڑتے۔ڈاکٹر مکفلپس کا کہنا ہے کہ سکول میں طالب علموں سے وہ حرکات و سکنات کروانے کے بعد مثبت نتائج دیکھے گئے جو انہوں نے پہلی بار رحم مادر میں سیکھی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ بچوں سے موسیقی کی مدد سے یہ حرکات کروائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلی نظر میں یہ فضول سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن اگر ماں کے پیٹ میں بچے کی حرکت کا مطالعہ کیا جائے تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن حرکات کی وہ بات کر رہے ہیں بچہ وہ ماں کے پیٹ میں تخلیقی عمل کے دوران ایک انتہائی اہم مرحلہ میں کرتا ہے۔ پرائمری سکولوں میں بچوں سے یہ حرکات کروائی جاتی تھیں لیکن اب تک اس پر کوئی باقاعدہ تجربہ نہیں ہوا تھا۔ اس سلسلے میں تیرہ سکولوں کے ایک ہزار بچوں کو تجربے میں شامل کیا گیا تھا۔ مزید تجربات کے بعد جب یہ تحقیق حتمی طور پر ثابت ہو گئی تو محکمہ تعلیم ہر سطح پر اس کو متعارف کروا سکتا ہے۔

بچہ زبان کیسے سیکھتا ہے

             امریکہ کے ایک سائنسدان اپنے بچے کی پیدائش سے لے کر تین سال کی عمر تک کی ہر حرکت اور آواز ریکارڈ کر رہے ہیں۔ایم آئی ٹی کے پروفیسر ڈیب رائے بچے کے بڑھنے کے ہر عمل کو محفوظ کر رہے ہیں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ بچہ زبان کیسے سیکھتا ہے؟ ‘ہیومن سپیچ کام’ نامی اس پراجیکٹ میں ان کے گھر میں کیمرے اور مائیکروفون نصب کیے گئے ہیں۔اس عمل کے دوران میں چار لاکھ گھنٹوں پر مشتمل مواد اکٹھا کیا جائے گا۔بچوں کے زبان سیکھنے کے عمل کے بارے میں بہت اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اگرچہ والدین کے بولنے کا سب سے زیادہ اثر سمجھا جاتا ہے لیکن بہت سے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جس تیزی سے بچے ترقی کرتے ہیں اس کے اور بھی اسباب ہو سکتے ہیں۔ان عوامل میں زبان سے متعلقہ ‘جین’ اور ماحول کے اثرات بھی شامل ہیں۔ اب تک ماحول کے اثر کا صحیح طرح سے جائزہ نہیں لیا جا سکا کیونکہ سائنسدان بچے کا اتنی زیادہ دیر تک تجزیہ نہیں کر سکے۔ لیکن اس منصوبے سے تجزیے کے لیے بہت سا مواد مل جائے گا۔ مثال کے طور پر یہ پتا چلے گا کہ اس بچے نے پہلا لفظ کب اور کیسے بولا؟ ایمٹ آئی ٹی کی میڈیا لیب کے ڈائریکٹر فرینک موس نے کہا ہے کہ یہ منصوبہ ‘جینوم’ پراجیکٹ کے بہت قریب ہے۔اس عمل کے دوران روزانہ 350 گیگا بائٹ ڈیٹا ریکارڈ کیا جاتا ہے اور اسے تجزیے کے لیئے ایم آئی ٹی کی لیبارٹری میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں انسانوں کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر بھی اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔

شخصیت پر قبل از وقت پیدائش کااثر

             ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ قبل از وقت یا پری میچور ولادت بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔انسٹیٹیوٹ آف سائیکاٹری کے ماہرین نے اٹھارہ اور انیس سال کے نوجوانوں پر کی جانے والی تحقیق کا موازنہ نارمل وقت پر پیدا ہونے والے افراد سے کیا۔

             پری میچور بچے خاص طور پر لڑکیوں میں عام لڑکیوں کی نسبت ڈپریشن اور دماغی ہیجان کے خطرات زیادہ پائے گئے۔محققین نے ایک سو آٹھ نوجوانوں سے مختلف سوال پوچھے۔ ان تمام افراد کی پیدائش انیس سو اناسی سے انیس سو اکیاسی کے دوران تینتیسویں ہفتے کی تکمیل سے قبل ہوئی۔ان سے حاصل نتائج کا تقابلی موازنہ ان 67 دوسرے افراد سے کیا گیا جو ان کے ہم عمر تھے لیکن ان کی پیدائش مکمل ہوئی تھی۔سوال جواب میں شامل ہر شخص کو ایک سوال نامہ بھرنے کے لیے کہا گیا۔ یہ سوالنامہ کیا آپ کا مزاج بدلتا رہتا ہے اور کیا آپ دوسروں کے تعاون سے لطف اندوز ہوتے ہیں؟ ایسے سوالات پر مشتمل تھا۔اس سوال نامے سے حاصل ہونے والے نتائج بتاتے ہیں کہ پری میچور ولادت کے حامل افراد میں امتیازی خصوصیات کا درجہ کم دیکھا گیا جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ایسی شخصیتوں میں اعتماد اور دوستانہ رویے کی کمی ہوتی ہے۔ بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے اس تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر میتھو ایلن نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ جسم کے چھوٹے رہ جانے سے دماغ کو کسی قدر نقصان کا خطرہ ہوتا ہے۔پری میچور بے بی چیریٹی ‘بلس’ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ تحقیق سے حاصل نتائج بڑے دلچسپ ہیں تاہم نفسیات کے حوالے سے قبل از وقت پیدائش کے حامل بچوں کا انتہائی نگہداشت میں رہنا ایک اہم موضوع ہے اور اس سلسلے میں کہیں زیادہ توجہ اور تحقیق کی ضرورت ہے۔

پیدائش سے پہلے میری زندگی

              کریئیٹ ہیلتھ کلینک لندن کے پروفیسر سٹیورٹ کیمبل کی الٹرا ساؤنڈ کی نئی ٹیکنالوجی سے لی گئی تصاویرسے اخذ شدہ نتائج

            ماں کے پیٹ میں پلنے والا بچہ آٹھ ہفتے کی عمر میں پوری طرح ہاتھ پیر چلانے کے قابل ہو جاتا ہے۔دس ہفتے کا بچہ اپنے ہاتھوں اور پیروں کو مختلف طرح سے حرکت دینے کے قابل ہو جاتا ہے۔بائیس ہفتے کی عمر میں بچہ نہ صرف اپنے ہاتھ بلکہ انگلیوں کو بھی بہتر طرح سے حرکت دینے لگتا ہے۔پھربچہ حقیقی زندگی کی نقل کرنے لگتا ہے نہ صرف کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے بلکہ آگے کی طرف چلنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔اسی اثنا میں بچے کا دماغ اتنا قوی ہو چکا ہوتاہے کہ وہ جسم کے اعضا کو محسوس کر سکتا ہے۔ بچہ اپنی انگلیوں کو چھونے لگتا ہے ۔چوبیس ہفتے تک حمل ٹھہر جانے کے بعد بچہ اپنی آنکھیں کھول سکتا ہے اور بند کر سکتا ہے۔حمل کے آخری تین ماہ میں بچے کے پکڑنے کی صلاحیت خاصی بہتر ہو جاتی ہے۔ بچہ اپنے ہاتھ ملا سکتا ہے، پاؤں ملا سکتا ہے اور ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیاں بھی پکڑ سکتا ہے۔بچے پیدائش کے بعد چار سے چھ ہفتے تک نہیں مسکراتے لیکن ماں کے پیٹ میں یقیناً مسکراتے ہیں۔بعض اوقات بچہ گیارہ ہفتے کی عمر میں اپنا انگوٹھا بھی چوسنا شروع کر دیتا ہے۔

موٹاپے کا جینز سے تعلق

             موٹاپے کی وجہ صرف خوراک اور کاہلی نہیں ہوتی۔ سائنسدانوں نے موٹاپے پر ایک اہم تحقیق کے دوران میں پہلی مرتبہ موٹاپے کے انسانی ‘جینز’ سے واضح تعلق کا پتا چلا لیا ہے۔اس تحقیق کے دوران انہیں معلوم ہوا کہ لوگوں میں دو طرح کی چکنائی یا فیٹس پائے جاتے ہیں، جن کا تعلق جینز سے ہوتا ہے ان میں موٹا ہونے کا ستر فیصد امکان زیادہ ہوتا ہے جب کہ دوسری قسم کے لوگوں میں یہ کم ہوتا ہے اوران کا اوسطً وزن، تین کلو کم ہوتا ہے۔برطانیہ میں اوکسفورڈ یونیورسٹی کے میڈیکل سکول میں ہونے والی اس تحقیق میں چالیس ہزار افراد سے حاصل ہونے والے ‘ڈیٹا’ کا مشاہدہ کیا گیاسائنسدانوں نے اس تحقیق کے بعد یہ تجویز کیا کہ موٹاپا کم کرنے کے لیے زندگی کے طور طریقے بدلنا بہت ضروری ہوتا ہے لیکن بعض لوگوں کو اپنا وزن کم کرنے کے لیے بہت کوشش کرنی پڑتی ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے موٹاپے کوسمجھنے میں مدد ملے گی اور اس سے بچاؤ کے بہتر طریقے بھی اپنائے جا سکیں گے۔جن لوگوں میں ‘ٹائپ ٹو’ ذیابیطس پائی جاتی ہے ان میں موٹاپے پر مائل کرنے والے جینز ہوتے ہیں۔ میڈیکل سکول کے پروفیسر اینڈریو ہیٹرسلی کی تحقیق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کیوں دو مختلف آدمیوں کا وزن ایک طرح کی خوراک کھا کر اور ایک ہی طرح کی ورزش کرکے مختلف ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کا وزن زیادہ ہے تو اس کا تعلق زیادہ کھانے اور کاہلی سے ہے جس کے آپ قصور وار ہیں۔اس تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس میں کچھ عمل دخل جینز کا بھی ہوتا ہے۔کیمبرج یونیورسٹی کے کلینکل بائیو کیمسٹری کے ڈیپارٹمنٹ کی ڈاکٹر صدف فاروقی نے کہا کہ یہ تحقیق بہت اہم ہے کیوں کہ اس سے پہلی دفعہ موٹاپے اور انسانی جینز کے درمیان تعلق کا پتہ چلا ہے۔

 کروڑوں غریب لوگ متاثر ہوں گے

             کئی خطوں پر موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑے واضح اثرات پڑ رہے ہیں دنیا بھر کے سائنسدانوں اور حکومتی اہلکاروں نے خبردار کیا ہے کہ آنے والی دہائیوں میں عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے اربوں افراد کی زندگیاں متاثر ہوں گی۔مختلف حکومتوں پر مشتمل ماحولیاتی تبدیلیوں کی بین الحکومتی تنظیم ‘ انٹر گورمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج’ یعنی آئی پی سی سی کی جانب سے یہ رپورٹ ابھی باقاعدہ طور پر شائع نہیں ہوئی، تاہم پینل کے سربراہ راجندرا پاچوری نے کہا ہے کہ غریب افراد آب و ہوا میں تبدیلی کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ برسلز میں سینکڑوں ماہرین ماحولیات نے کئی روز تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی کے انسانی معاشروں پر واضح اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔رپورٹ کے ایک مصنف سلیم الحق کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں ان علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں آب و ہوا میں تبدیلی کے زیادہ اثرات محسوس کیے جائیں گے۔ رپورٹ کی تیاری میں دنیا بھر میں آب و ہوا میں تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ ممکن ہے ان تبدیلیوں کا آغاز ہو چکا ہو۔ اس کے علاوہ تحقیق میں یہ بات بھی ظاہر ہوئی ہے موسمی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ اثرات غریب اور ترقی پذیر ممالک میں رہنے والوں پر ہوں گے۔ رپورٹ کے مطابق آب و ہوا میں تبدیلی کے سب سے زیادہ منفی اثرات ان کروڑ ہا لوگوں پر ہوں گے جو افریقہ اور ایشیاکے ساحلی علاقوں میں رہتے ہیں۔ رپورٹ میں شامل ایک اور سائنسدان مارٹن پیری نے بتایا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ سائنسدانوں نے آب و ہوا میں تبدیلی کے سائنسی شواہد دنیا کے تمام براعظموں سے جمع کیے ہیں۔پینل کے چیئرمین راجندر پچوری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے غریب خطوں میں بسنے والے افراد جو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے کسی طور بھی ذمہ دار نہیں ہیں ان تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ان کا کہنا تھا ‘ دنیا کے غریب ترین لوگ، جس میں امیر ممالک میں رہنے والے غریب بھی شامل ہیں، سب سے زیادہ بری طرح متاثر ہوں گے۔ میرے خیال میں یہ بات نہایت توجہ طلب ہے کیونکہ غریب لوگوں کے پاس ان مسائل سے نمٹنے کے لیے وسائل بھی نہیں ہیں۔ لہٰذا ایک لحاظ سے یہ تمام ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اس سلسے میں اقدامات کیے جائیں۔’رپورٹ کے مصنف سلیم الحق کا کہنا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی سے پیدا ہونے والے اثرات کافی سنگین ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ‘صورتحال بہت زیادہ بگڑ سکتی ہے۔ اگر درجہ حرارت میں ایک درجے کا اضافہ ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے اثرات اتنے زیادہ نہیں ہوں گے لیکن اگر اس میں دو ڈگری کا اضافہ ہوتا ہے تو اس کے خاصے اثرات ہوں گے اور اگر تین درجے کا فرق پڑتا ہے تو تمام دنیا کو خطرہ ہوگا۔’

خون گروپ تبدیل کیا جا سکے گا

             اس طریقے کی کامیابی کے نتیجے میں خون کے مختلف گروپوں کی کمی پر قابو پایا جا سکے گا۔سائنسدانوں نے ایسا طریقہ ایجاد کر لیا ہے جس کے ذریعے خون کے ایک گروپ کو خون کے دوسرے گروپ میں تبدیل کیا جا سکے گا۔اس طریق کار کے نتیجے میں کسی بھی ایک گروپ مثلاً اے یا بی یا اے بی کو گروپ ‘او’ میں تبدیل کیا جا سکے گا اور کسی بھی بلڈ گروپ کے مریض کا خون تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔یہ طریق کار حال ہی میں دریافت ہونے والے اینزائم کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے اور اس سے خون کی تبدیلی میں رکاوٹ بننے والی دشواریوں پر قابو پایا جا سکے گا۔ جریدے ‘نیچر بایو ٹیکنالوجی’ میں شائع ہونے والی یہ تحقیق کوپن ہیگن یونیورسٹی میں کی گئی ہے۔اب تک خون کی تبدیلی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ غیر متناسب بلڈ گروپ کا استعمال مریض کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیتا تھا۔جن لوگوں کا بلڈ گروپ اے یا بی ہوتا ہے ان کے بلڈ سیلز دو مختلف قسم کے شوگر مالیکیولز پر مشتمل ہوتے ہیں انہیں ‘اینٹی جنز’ کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ امیون سسٹم مدافعتی نظام کے ردِعمل کو تحریک دے سکتے ہیں۔جن لوگوں کا بلڈ گروب اے بی ہوتا ہے ان کے سلیز میں دونوں طرح کے مالیکیولز ہوتے ہیں جب کہ گروپ ‘او’ والوں کے سیلز میں کسی بھی طرح کے مالیکیولز نہیں ہوتے۔لوگوں کے جسم اپنے اینٹی جنز کی کمی پورا کرنے کے لیے اینٹی باڈیز پیدا کرتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ گروپ اے ، بی اور اے بی صرف انہیں مریضوں کو دیا جا سکتا ہے جن کا خون ان گروپوں سے ہم آہنگ ہو لیکن او گروپ کا خون کسی بھی بلڈگروپ والے کو دیا جا سکتا ہے۔نئی ٹیکنیک میں خون کے سرخ سیلز کی سطح سے شوگر مالیکیولز کو بکٹیریل اینزائمز کے ذریعے کاٹا جائے گا اور ان کے سرخ سیلز میں اینٹی جنز کو ختم کیا جا سکے گا۔تاہم محققین کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنیک کو برائے کار لانے کے لیے اسے مریضوں پر آزمایا جانا ضروری ہے جس کے بعد اس کا عام ہسپتالوں میں بھی استعمال ممکن ہو جائے گا۔

تتلیوں کے لیے شاہراہ بند

             دنیا میں تتلیوں کی نقل مکانی کی اس قسم کی صرف دو مثالیں ملتی ہیں تائیوان میں ایک مرکزی شاہراہ کی ایک لین اس وجہ سے بند کی جا رہی ہے تاکہ دس لاکھ سے زائد تتلیاں جو اس راستے کو اپنی معمول کی موسمی نقل مکانی کے لیے استعمال کرتی ہیں، محفوظ رہ سکیں۔ ‘پرپل مِلک ویڈ’ تتلی سردیاں جزیرے کے جنوب میں گزارتی ہیں اور بہار کی آمد پر شمال کی طرف نقل مکانی کرتی ہیں۔ ہر گھنٹے ساڑھے گیارہ ہزار تتلیاں اپنا یہ سفر شروع کرتی ہیں۔ مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ان میں سے کئی تتلیاں سفر پورا نہیں کر پاتیں۔اس سال ان کی مدد کے لیے حفاظتی جالیاں اور الٹرا وائیلیٹ روشنی کا بھی انتظام کیا جا رہا ہے۔ تائیوان میں حکام کا کہنا ہے کہ شاہراہ کو بند کرنے سے ٹریفک کوپریشانی ضرور ہوگی مگر ایسا کرنا ضروی ہے ۔قومی شاہراہ بیورو کے لی تھے منگ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ‘انسانوں کو دوسری مخلوقات کے ساتھ رہنا اور جینا سیکھنا ہوگا، چاہے وہ ننھی تتلیاں ہی کیوں نہ ہو۔’ ہر سال ہزاروں تتلیاں تیز رفتار گاڑیوں کی زد میں آکر ہلاک ہو جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان تمام حفاظتی اقدامات پر تیس ہزار ڈالر لاگت آئی ہے۔

بند گوبھی پھیپھڑوں کے لیے مفید

              سائنسدانوں نے اس بات کا پتا لگایا ہے کہ بند گھوبھی، بروکلی اور اس سے ملتی جلتی سبزیاں کھانے سے پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہونے کے امکانات میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔فرانسیسی سائنسدانوں نے پتاچلایا ہے کہ گوبھی اور بروکلی وغیرہ کھانے سے ایسے لوگوں میں پھیپھڑوں کے کینسر پھیلنے کے امکانات ستر فیصد کم ہو جاتے جن میں یہ بیماریاں پھیلانے والے جراثیم جسم میں موجود ہوتے ہیں لیکن اپنا اثر دکھانا شروع نہیں کیا ہوتا۔اس تحقیق سے پہلے بھی یہ خیال کیا جاتا تھا کہ بند گھوبھی اور اس سے ملتی جلتی سبزیاں پھیپھڑوں کی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے مفید ہیں لیکن اس کی کوئی سائنسی وجہ معلوم نہیں تھی سائنسدانوں کے مطابق، بند گھوبھی، بروکلی آئسوتھنیٹ کیمکل سے بھرپور ہوتی ہیں ۔ آئسوتھینیٹ کیمکل پھیپڑوں کے کینسر سے بچاؤ کے لیے سب سے مفید دوا سمجھی جاتی ہے۔فرانس میں سائنسدانوں نے پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا دو ہزار اکتالیس افراد پر ریسرچ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہفتہ میں ایک دفعہ بند گوبھی اور بروکلی کھانے سے پھیپھڑوں کے مرض سے بچا جا سکتا ہے۔سائنسدانوں نے دو ہزار ایسے لوگوں پر بھی ریسرچ کی ہے جو اس مرض میں مبتلا نہیں ہوئے ہیں لیکن ان میں ایسے جراثیم موجود ہیں جو ان کو اس مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں۔

شہد سے سرطان کا علاج ممکن

              کروشیا میں جامعہ زغرب کی تحقیق کرنے والی ایک ٹیم نے تجربات کے ذریعے معلوم کیا ہے کہ شہد کی مکھی سے حاصل ہونے والے اجزا سے چوہوں میں ٹیومر کو پیدا ہونے سے اور پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔ماہرین نے سائنس کے ایک جریدے میں امکان ظاہر کیا ہے کہ سرطان کے مرض میں مبتلا انسان بھی اس تحقیق سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ لیکن انہوں نے خبردار کیا شہد کو متبادل کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے کیموتھیراپی یا کیمیائی ادویات کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہیے۔ ماہرین تجربات کے ذریعے شہد کی مکھی کے زہر اور شہد کے اثرات معلوم کرنا چاہتے تھے۔

             انہوں نے شہد کے چھتے کی تیاری میں کام آنے والے مواد اور مکھیوں سے پیدا ہونے والی اس جیلی کا بھی تجزیہ کیا جو لاروا کی خوراک کے طور پر کام آتی ہے۔ تجربات کے دوران چوہوں میں ٹیکوں کے ذریعے سرطان کے جراثیم داخل کیے گئے۔ کچھ چوہوں میں سرطان کے جراثیم شہد کی مکھی سے حاصل کیے گئے اجزاء داخل کرنے سے پہلے، کچھ میں ساتھ ہی اور کچھ میں بعد میں داخل کیے گئے۔ تجربات سے معلوم ہوا کہ اگر شہد پہلے کھلایا جائے تو سرطان کے ٹیومر کو پھیلنے سے روکتا ہے۔ اسی طرح مکھیوں سے حاصل کی گئی جیلی جب چوہوں کو سرطان کے جراثیم داخل کرتے وقت کھلائی گئی تو اس نے بھی واضح طور پر سرطان کو پھیلنے سے روک دیا۔ شہد کی مکھی کے زہر سے سرطان کا ٹیومر سکڑنا شروع ہوگیا۔ ماہرین نے کہا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ شہد کس طرح سرطان پر اثر انداز ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور شہد کی مکھیوں کی انسانوں کے لیے افادیت معلوم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر تجربات کی ضرورت ہے۔

(ماخذ، بی بی سی ڈاٹ کام)