بلی نے برباد کیا

مصنف : عشرت جہاں ، حیدر آباد

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : جولائی 2007

            کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ میری دوست کی بربادی کا سبب ایک بلی ہے۔ کہتے ہیں کہ بے زبان کی آہ کبھی خالی نہیں جاتی ۔اپنی سہیلی کی زبوں حالی دیکھ کر مجھے اس بات کا پکا یقین ہو گیا ہے ۔ میری یہ سہیلی اچھے گھرانے کی بیٹی تھی جس کی ذرا سی تکلیف پر پورا گھر بے چین ہو جاتا تھا۔ سکول سے کالج تک اس کی زندگی سبھی کے لیے قابل رشک تھی۔ میری قریبی دوست ہونیکی وجہ سے وہ اپنی سب باتیں مجھے بتا دیا کرتی تھی۔ بچپن سے اپنے پھوپھی زاد سے منسوب تھی اور اس کا منگیتر بھی اسے والہانہ چاہتا تھا۔

            ہم ایف اے ہی میں تھے کہ اس کی شادی ہو گئی وہ اپنے سسرال چلی گئی۔اس کے بعد تین چار سال اس سے ملاقات نہ ہو سکی۔میرا خیال تھا کہ وہ جہاں بھی عیش کر رہی ہو گی لیکن کیا معلوم تھا کہ ایک معمولی واقعہ اس کی زندگی کو ڈس جائے گا۔

            اسے بچپن سے بلیوں سے بہت نفرت تھی۔ گھر میں کسی بھی بلی کا آنا شروع ہوتا تو وہ اسے بوری میں بند کر کے باہر بھجوا دیتی۔ اس کی والدہ اسے بہتیرا سمجھاتی کہ بے زبان کو تنگ نہیں کرتے مگر نہ جانے وہ کیوں بلیوں کی دشمن تھی۔ سسرال میں بھی اس یہی حال رہا۔ سسرال میں سب اس سے بہت محبت کرتے تھے۔ جس بلی نے اس سے انتقام لیا وہ سسرال کی پالتو بلی تھی۔ فیروزہ پہلے تو اس بلی کو برداشت کرتی رہی لیکن جوں ہی اس کا دلہناپا اترا وہ پنجے جھاڑ کر بلی کے پیچھے پڑگئی۔ سسرال والے اسے سمجھاتے مگر اس کی محبت کی وجہ سے اس بات کو نظر اندازکر دیتے۔ فیروزہ نے متعدد بار بلی کو باہر بھجوایا مگر وہ پھر وہ راستہ ڈھونڈتی ڈھونڈتی گھر واپس آ جاتی۔ایک بار اس نے بچے دیے۔ فیروزہ بھلا یہ گندگی کیسے برداشت کرتی اس نے زبردستی پانچوں بچوں کو انکی آنکھیں کھلنے سے پہلے ہی بوری میں بند کر کے ایک کنویں میں پھنکوا دیا۔اس نے سوچا کہ اگر ن بچوں کی آنکھیں کھل گئیں تو یہ بھی گھر کا راستہ دیکھ لیں گے اور گھر آ جایا کریں گے۔ فیروزہ نے کہا کہ جوں ہی اس نے بچوں کو بوری میں بند کرنا شروع کیا بلی نے بڑی ہی دردناک آواز میں رونا شروع کر دیا مگر مجھ پر اس کے رونے کا کچھ بھی اثر نہ ہوا اور میں ان کو پھنکوا کر رہی۔

             اس روز کے بعد بلی نے اسی منحوس آواز میں روزانہ رونا شروع کر دیا۔ بچوں کی تلاش میں وہ گھر سے چلی گئی لیکن رات کو واپس آ جاتی اور چھت پر چڑھ کر رونا شروع کر دیتی۔ سبھی گھر والے اس کی آواز سے ڈرنے لگے۔ اس بات سے ٹھیک تین ماہ بعد فیروزہ کے ہاں ڈلیوری ہوئی ۔پورے چار دن تکلیف کے بعد مردہ بچہ پیدا ہوا۔اور ادھر بلی گھر سے غائب ہو گئی اس کے ساتھ ہی فیروزہ کی بربادی کا دور شروع ہو گیا۔ دوسرے سال بچہ پیدا ہوا وہ بھی اسی طرح مردہ تھا۔ گھر کی اقتصادی حالت بھی اچانک بگڑنا شروع ہو گئی قرض پر قرض لینے کی نوبت آ گئی ۔ سسرال والوں نے اس بربادی کا ذمہ دار فیروزہ کو ٹھہرانا شروع کر دیا۔ جوں جوں گھر کے حالات بگڑتے گئے فیروزہ پر ظلم وستم بھی بڑھتے گئے۔اورتواور اس کے شوہر نے بھی آنکھیں پھیر لیں۔تلخی اتنی بڑھی کہ فیروزہ کو میکے بھجوا دیا۔اب اسے اتفاق کہیے یافیروزہ کے کیے کی سزا کہ اس کے میکے آتے ہی سسرال والوں کے حالات بہتر ہونا شروع ہو گئے۔میکے آنے کے بعد اس کے ہاں تیسرا بچہ پیدا ہوا مگر وہ بھی مردہ تھا۔یہ بات بہانہ بن گئی اور سسرال والوں نے گھر بیٹھے ہی طلاق بھجوا دی۔

            فیروزہ نے دوبارہ کالج میں داخلہ لے لیا ۔ ایک تقریب میں میری اس سے ملاقات ہو ئی تو اس ساری بربادی کا حال کھلا۔ہمیشہ ہنستے رہنے والی لڑکی اب بالکل افسرد ہ اور غم کی تصویر بن چکی تھی۔مجھے اسے دیکھ کر رونا آتا ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ شاید میں بلی کو اپنی بربادی کا ذریعہ نہ سمجھتی مگر خواب میں اب بھی بلی اسے غرا کر جھپٹا مارتی ہے اور اس کی چیخیں سن کر سارا گھر جمع ہو جاتا ہے۔آنکھ کھلنے پر وہ رات رات بھر جاگ کر گزار دیتی ہے ۔