سوال ، جواب

مصنف : محمد رفیع مفتی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جولائی 2007

جواب: ارشاد باری تعالیٰ ہے:

                        ‘‘ما کان لنبی ان یکون لہ اسری حتیٰ یثخن فی الارض---’’(انفال ۸ : ۶۷،۶۸،۶۹) مولانا مودودی رحمہ اللہ کا ترجمہ درج ذیل ہے:

            ‘‘کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح سے کچل نہ دے۔تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو ، حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے، اللہ غالب اور حکیم ہے۔اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی، پس جو کچھ مال تم نے حاصل کیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقینا اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔’’

            اکثر مترجمین نے اسی طرح کا ترجمہ کیا ہے۔

            لیکن مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کا ترجمہ اس سے مختلف ہے اور وہ یہ ہے :

            ‘‘ کوئی نبی اس بات کا روادار نہیں ہوتا کہ اس کو قیدی ہاتھ آئیں یہاں تک کہ وہ اس کے لیے ملک میں خونریزی برپا کر دے۔یہ تم ہو جو دنیا کے سرو سامان کے طالب ہو، اللہ تو آخرت چاہتا ہے۔اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے سے موجود نہ ہوتا تو جو روش تم نے اختیار کی ہے اس کے باعث تم پر ایک عذاب عظیم آ دھمکتا۔

            پس جو مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کو حلال اور طیب سمجھ کر کھاؤ برتو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ’’

            ان دونوں ترجموں میں کس قیامت کا فرق ہے اسے واضح کرنے کے لیے میں ان ترجموں کی وضاحت کرنے والی عبارتوں کو بریکٹوں میں لکھ کر دوبارہ انھی ترجموں کو پیش کرتا ہوں۔

            پہلا ترجمہ:‘‘کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح سے (ان کا خون بہا کر ) کچل نہ دے۔ (اے محمدؐ ، ابو بکر اور دیگر بدری صحابہ ) تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو ، حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے، اللہ غالب اور حکیم ہے۔اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا (کہ تم پر عذاب نہیں آنا) تو (قیدیوں کا فدیہ وغیرہ)جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں (اے محمدؐ ، ابو بکر اور دیگر بدری صحابہ ) تم کو ( عذاب عظیم کی نوعیت کی) بڑی سزا دی جاتی، پس (ہم نے معاف کیاچنانچہ) جو کچھ مال تم نے حاصل کیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقینا اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔’’

            دوسرا ترجمہ:‘‘ کوئی نبی اس بات کا روادار نہیں ہوتا کہ اس کو قیدی ہاتھ آئیں یہاں تک کہ وہ اس (قیدی حاصل کرنے ہی ) کے لیے ملک میں خونریزی برپا کر دے۔ (اے قریش مکہ )یہ تم ہو جو دنیا کے سرو سامان کے طالب ہو، اللہ تو آخرت چاہتا ہے۔اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے سے موجود نہ ہوتا تو (اے قریش مکہ نبی کے ساتھ دشمنی کی )جو روش تم نے اختیار کی ہے اس کے باعث تم پر ایک عذاب عظیم آ دھمکتا۔ پس (اے مسلمانوں) جو مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کو حلال اور طیب سمجھ کر کھاؤ برتو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ’’

            مزید وضاحت کے لیے آپ تفہیم القرآن، تدبر قرآن اور دیگر تفاسیر دیکھ سکتے ہیں۔بنیادی فرق میں نے واضح کر دیا ہے۔اگر ہم مولانا اصلاحی کے ترجمے سے اتفاق کرتے ہیں تو اس کے مقابل آنے والی تمام احادیث کی اس ترجمے کے مطابق توجیہہ کی جائے گی۔ اگر توجیہہ ممکن نہ ہوئی تو پھر انھیں خلاف قران قرار دے کر رد کر دیا جائے گا۔

             مولانا اصلاحی نے ان آیات کے حوالے سے دیگر مفسرین سے کو ئی صرفی و نحوی اختلاف نہیں کیا بلکہ آپ نے آیات کے اسلوب بیان میں اور ان میں خطاب کا رخ متعین کرنے میں دیگر مفسرین سے اختلاف کیا ہے۔ یہ اختلاف کیا ہے ؟ اسے میں نے بریکٹوں میں درج شدہ الفاظ سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب: صحیح احادیث سے واضح طور پر یہ پتا چلتا ہے کہ بعض مسلمانوں کو ان کے گناہوں کی کچھ سزا دینے کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے گا، پھر اللہ کی رحمت سے انھیں معاف کر دیا جائے گا۔ یہ وہ مؤمنین ہوں گے جن کے پاس حقیقی ایمان خواہ وہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو بہرحال، موجود ہو گا۔ سورہ آل عمران کی آیت ۷۷ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ قیامت کے روز بعض لوگوں کو ان کے گناہوں کی سزا دے کر پاک کیا جائے گا۔ جو لوگ دوزخ کی ابدی سزا پائیں گے وہ حقیقی کافر ، حقیقی مشرک اور حقیقی منافقین وغیرہ ہی ہوں گے۔ حقیقی مسلمان لازماً دوزخ سے بچائے جائیں گے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔  پہلی بات تو یہ جان لیں کہ قرآن و حدیث رائے نہیں دیا کرتے،بلکہ حکم دیتے ہیں۔

جہاں تک قرآن کا تعلق ہے تو شراب کے بارے میں اس نے درج ذیل حکم دیا ہے:‘‘ اے ایمان والو، یہ شراب ، ---- سب گندے شیطانی کام ہیں، اس لیے ان سے الگ رہو تاکہ تم فلاح پاؤ’’۔ ( المائد ہ: ۹۰)

            احادیث میں بھی شراب کو ہر پہلو سے حرام قرار دیا گیا ہے۔

            جابر بن رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انھوں نے نبی ﷺ کو فتح مکہ کے دن یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ اور اس کے رسول نے شراب کی خریدو فروخت، سور، مردار اور بتوں کو حرام قرار دیاہے۔(بخاری، رقم:۲۰۸۲)

            انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا میں ابو طلحہ کے مکان میں لوگوں کا ساقی تھا (شراب پلا رہا تھا) ان دنوں کھجور ہی کی شراب پیا کرتے تھے، پھر نبی ﷺ نے ایک شخص کو یہ منادی کرنے کا حکم دیا ، سن لو، شراب حرام ہو گئی ہے۔(بخاری، رقم: ۲۲۸۴)

            ابن عمرؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر، اس کے پینے والے پر، اس کے پلانے والے پر، اس کے بیچنے والے پر ، اس کے خریدنے والے پراو رکشید کرنے والے پر اور کشید کرانے والے پر اور ڈھو کر لے جانے والے پر اور جس کے لیے وہ ڈھو کر لے جائی گئی ہو۔(ابو داؤد، رقم:۳۱۸۹)

            جہاں تک اس کی حد کا تعلق ہے تو قرآن میں اس کی کوئی متعین حد بیان نہیں ہوئی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شراب پینے والے کے لیے کوئی خاص سزا مقرر نہیں تھی ۔ جو شخص اس جرم کے ارتکاب میں پکڑا جاتا اسے کجھور کے سونٹے وغیرہ سے یا جوتوں وغیرہ سے مارا جاتا ۔ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں اس کی سزا چالیس کوڑے کر دی گئی ۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت کے آغاز میں اس کی سزا چالیس کوڑے ہی تھی ، لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ لوگ اس جرم سے باز نہیں آ رہے تو آپ نے صحابہ کے مشورے سے اس سزا کو بڑھا کر اسی کوڑے کر دیا۔چنانچہ اس بنیاد پر ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ موجود ہ دور میں حکومت حالات وواقعات کے اعتبار سے اس سزا میں کوئی بھی کمی بیشی کر سکتی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ مولانا مودودیؒ نے خلافت وملوکیت میں اپنی طرف سے کوئی باتیں نہیں گھڑیں، بلکہ انھوں نے تاریخ میں موجود معلومات کو اپنے فہم کے مطابق ایک خاص ترتیب اور ایک خاص زاویے سے قارئین کے سامنے رکھا ہے۔ یہ ان کا نقطہ نظر ہے ۔ اس سے علمی اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اسے جناب معاویہؓ پر الزامات اور اصحاب رسولﷺ پر تنقید کے الفاظ سے تعبیر کرنا سرتاسر زیادتی ہو گی۔ ان کی یہ سب باتیں علمی آرا کے زمرے میں آتی ہیں اور ان میں اختلاف کی پوری گنجایش ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ ہمارے علم کی حد تک یہ واقعہ مستند تاریخوں میں مذکور نہیں ہے، اگر آپ اس کا حوالہ بھیج دیں تو اس پر غور کیا جا سکتا ہے اور مزید بات یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ مجرم کے ساتھ اس نوعیت کا کوئی بھی سلوک کرنے سے اپنے ورثا کو منع کر گئے تھے، چنانچہ درایتاً بھی یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ محض میوزیکل پروگرامز کا ہونا تو کوئی حرام چیز نہیں ہے، لیکن یہ دیکھ لیں کہ اگر ان پروگراموں میں فحاشی کا پہلو موجود ہے تو پھر بے شک یہ پروگرام حرمت کے درجے میں چلے جاتے ہیں۔ جہاں تک شراب serve کرنے کا تعلق ہے تو اس کے حوالے سے یہی رائے دی جا سکتی ہے کہ آپ ضرور کوئی دوسری ملازمت تلاش کریں، اس میں ٹھنڈے پیٹوں ملازمت کرتے چلے جانا ایمان کے منافی ہے۔ہماری اس رائے کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے :

وتعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان واتقوا اللہ، ان اللہ شدید العقاب۔ (المائدہ: ۲)

تم نیکی اور تقوی میں تعاون کرو، گناہ اور تعدی میں تعاون نہ کرواور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ سخت پاداش والا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اس مشا بہت سے مراد ان کے کسی خاص شعار کی مشابہت ہے جیسے صلیب گلے میں لٹکانا یا سکھوں کی طرز کی پگڑ ی پہننا جس سے دیکھنے والا دھوکے میں مبتلا ہو او راس قوم میں سے خیال کرے۔رہا لباس وغیر ہ کا معاملہ تو یہ اس میں نہیں آتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کی طرف سے تحفتہً آیا ہوا لباس زیب تن فرمایا ہے ، لیکن اس کو اختیار نہیں کیا بلکہ اپنے اس وقت کے کلچر ہی کے لباس کو اختیار کیے رکھا۔ اسلام نے نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کو مسلمانوں کے لیے لازمی قرار دیا اور نہ ان کے لیے الگ سے کسی خاص وضع کا لباس تجویز کیا ہے۔ بلکہ لباس کے معاملے کو ہر علاقے کے رسم و رواج پر چھوڑ دیا ہے۔ البتہ دین کے حوالے سے لباس میں جو چیز ملحوظ رکھنے کی ہے وہ حیا اور ستر ہے، یعنی لباس باحیا اور ساتر ہونا چاہیے، دین اس معاملے میں کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ رہا موسم کی سختی سے بچاؤ کا معاملہ تو اس سے بچنا ایک فطری چیز ہے انسان موسم کے مطابق اپنا لباس تبدیل کرتا رہتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ عمر: اس لفظ کے اپنے کوئی معنی نہیں ہیں۔ یہ لفظِ عامر سے بدلا ہوا ہے جس کے معنی ‘‘آباد کرنے والے کے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح کی تبدیلی ہے جس طرح ہمارے ہاں اصل نام بدل کر کچھ اور ہو جاتا ہے جس کے پھر کوئی معنی نہیں ہوتے۔ اور عمیر کا مطلب ہے چھوٹا عمر۔عائشہ: اس کے معنی ‘‘اچھی حالت والی ’’یا ‘‘آسودہ حال’’ کے ہیں۔مریم: یہ اصلاً غیر عربی لفظ ہے جو عربوں کے ہاں رائج ہو گیا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ سیونگ اکاؤنٹ پر منافع سود کے ذیل میں آتا ہے۔ علاوہ ازیں انعامی بانڈ، پرچی سسٹم اور اس طرح کی دوسری سکیمیں جو بھی نکلی ہوئی ہیں وہ سب جوئے ہی کی اقسام ہیں۔ یہ سب چیزیں قسمت آزمائی ہیں، لہٰذا اس طرح کی چیزوں سے بچنا چاہیے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ موسیقی انسانی فطرت کا جائز اظہار ہے ، اس لیے اس کے مباح ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ہمارے ہاں عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اسلامی شریعت میں موسیقی حرام ہے ،لیکن جب ہم اس معاملے میں قرآن وسنت اور علوم دین کے دوسرے مصادر کی طرف رجوع کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن وسنت میں اس کی حرمت کی کوئی دلیل موجود نہیں ۔ جہاں تک احادیث کا تعلق ہے تو ان میں متعدد صحیح اور حسن روایات موسیقی اور آلات موسیقی کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔ ممانعت کی روایتیں بھی موجود ہیں، لیکن محدثین نے ان میں سے بیشتر کو ضعیف قرار دیا ہے۔ان روایتوں کے بغور مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ممانعت کا سبب ان کی بعض صورتوں کا شراب، فواحش اور بعض دوسرے رذائل اخلاق سے وابستہ ہونا ہے۔ چنانچہ اس بنا پر ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ موسیقی مباحات فطرت میں سے ہے اور اسلامی شریعت اسے ہر گز حرام قرار نہیں دیتی۔ لیکن اگر اس کے اندر کوئی اخلاقی یا دینی قباحت موجود ہو تو پھر یہ بعض صورتوں میں لغو، بعض میں مکروہ اور بعض میں حرام قرار دی جائے گی۔مثال کے طور اگر کسی نعت میں مشرکانہ مضامین کے اشعار ہیں تو اس نعت کی شاعری حرام ہو گی۔البتہ، یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس میں زیادہ دلچسپی انسان کو تقویٰ کے اعتبار سے نقصان دیتی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ قولی تواتر سے مراد کسی قول کا ہر زمانے میں امت کے خاطر خواہ افراد سے مسلسل قولاً روایت ہوتے رہناہے۔ اور عملی تواتر کا مطلب کسی عمل کا امت کے خاطر خواہ افراد میں مسلسل جاری رہنا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔  ہر آدمی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی بھی صحیح حدیث جو اس کی سمجھ میں نہ آئے ، اسے رد کردے۔ درایتاً رد کرنے کے بھی کچھ اصول ہیں جن کی روشنی میں صرف ایک محقق عالم ہی اس حدیث کو رد کر سکتا ہے۔ اگر کسی عام آدمی کو یہ مسئلہ پیش آئے تو اس کو کسی جید عالم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر ‘‘السلام علیکم یا ایھاالنبی’’ کہنا ہرگز شرک نہیں ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کے علاوہ بھی وحی آتی تھی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی شہادت ہمیں قرآن مجید کے بہت صریح الفاظ سے بھی ملتی ہے اور حدیث شریف میں بھی اس کی گواہی موجود ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی براہ راست راہنمائی میں کار دعوت سر انجام دے رہے تھے ، چنانچہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید نازل کیا جاتا تھا وہاں حالات کی ضرورت اور وقت کے تقاضے کے مطابق اس کے علاوہ بھی وحی کی صورت میں اللہ تعالٰیٰ کی جانب سے راہنمائی فرمائی جاتی تھی۔پھر اتنی بات ہی نہیں بلکہ وہ سنت نبی جس کی بنا پر ہم نماز پڑھتے، روزہ رکھتے، زکوۃ دیتے اور حج کرتے ہیں، وہ ساری کی ساری قرآن مجید کے علاوہ آنے والی وحی کی بنیاد ہی پر ہمیں دی گئی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ بخاری میں بھی بعض غلط احادیث موجود ہیں مثلاًبخاری کی یہ حدیث کہ عمرو بن میمون کہتے ہیں :‘‘میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک بندریا کو دیکھا، اس نے زنا کیا تھا اور اس کے پاس بہت سے بندر جمع تھے، (میرے سامنے) ان بندروں نے اسے سنگسار کیا، (یہ دیکھ کر) میں نے بھی ان کے ساتھ اسے سنگسار کیا۔’’(بخاری، رقم:۳۸۴۹)اگر اس روایت کو صحیح مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اور جانور دونوں ہی یکساں طور پر انسانی شریعت کے مکلف ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اگر اپنی ذمہ داریوں اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی سے فرار کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ اس حوالے سے سارا بندوبست کرنے کے بعد کوئی شخص سیر و سیاحت پر جارہا ہے، تو یہ ایک مباح عمل ہے اس میں کوئی حرج نہیں اور دینی اعتبار سے اسے ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ نیز اگر آپ کی یہ سیاحت کوئی باقاعدہ Study Tour ہے تو اس صورت میں یہ اپنی جگہ پر ایک خیر اور بھلائی کا کام ہے۔ میرا خیال ہے کہ مسلمان آدمی کے لیے سیر و سیاحت محض ایک مباح کام ہی نہیں ہوتا بلکہ خدا کی دنیا کو غور و فکر کی نگاہ سے مشاہدہ کرنے کا ذریعہ بھی ہوتا ہے اور یہ مشاہدہ اس کے لیے خدا کی معرفت کا ذریعہ بنتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ غامدی صاحب نے قرآن مجید کی بعض آیات کی بنا پر اپنا یہ نقطہ نظر بیان کیا ہے کہ جیسے آدم علیہ السلام کو براہ راست مٹی سے بنایا گیا تھا، ایسے ہی تخلیق آدم سے پہلے مخلوقات کے براہ راست مٹی سے بننے کا ایک دور گزرا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دور میں انسان نما کوئی مخلوق بھی بنائی گئی تھی، ایک عرصہ تک یہ مخلوق صرف مٹی سے براہ راست ہی بنتی تھی پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اس میں تناسل کی صلاحیت پیدا کر دی گئی اور پھر اس کی اولاد بھی پیدا ہونے لگی، پھر ایک عرصے تک تخلیق کے یہ دونوں طریقے جاری رہے، یعنی اس مخلوق کے بعض افراد مٹی سے پیدا ہوتے تھے اور بعض تناسل کے طریقے سے پیدا ہوتے۔ اسی موقع پر براہ راست مٹی سے آدم و حوا کی تخلیق ہوئی، انھیں اللہ تعالیٰ نے انسانی سماعت و بصارت اور عقل سے نوازا اور ان میں اپنی روح بھی پھونکی ، اس کے ساتھ چونکہ ان میں اپنی نسل پیدا کرنے کی صلاحیت بھی تھی، لہذا، ان سے یہ نسل انسانی آگے چلی۔ تخلیق آدم کے بعد وہ انسان نما مخلوق ختم کر دی گئی۔ یہ نقطہ نظر درج ذیل آیات پر مبنی ہے۔(آل عمران ۳:۵۹، النسا۴: ۱ اور السجدۃ۳۲:۷،۸)

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ ان تینوں چیزوں کی دینی حیثیت نہیں ہے۔موذن آواز بلند کرنے میں سہولت کے لیے ایسا کرتا ہے۔توبہ کے وقت کانوں کو ہاتھ لگانے والا گویا توبہ کے عہد کا اظہار کرتا ہے۔ سلام کے بعد دل پر ہاتھ رکھنا بعض لوگوں میں اظہار اخلاص کے ایک طریقہ کے طور پر رائج ہو گیا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اپنی زینت ظاہر کرنے سے منع کیا ہے۔ چنانچہ خوشبو لگا کر نکلنا بھی ممنوع ہے اور وہ قریبی اعزہ اور متعلقین ،جن کی فہرست قرآن مجید میں بیان کر دی گئی ہے، ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کے سامنے آرائش و زیورات اور اس طرح کی دوسری چیزوں کے اظہار پر بھی یکسر پابندی ہے۔ ‘‘الا ما ظہر منہا’’ کے الفاظ سے جو استثنا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ہاتھوں، پاؤں اور چہرے کے زیور یا ان کی آرائش جو کہ عادۃً ظاہر ہوتی ہے،اس کے ظاہر ہونے پر گرفت نہیں ہے۔ لیکن اس سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ ‘‘ہاتھوں، پاؤں اور چہرے کا زیور یا ان کی آرائش کا اظہار کرنے میں عورت آزاد ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ عورت کو نامحرموں کے درمیان اپنے ہاتھوں، پاؤں اور چہرے کے زیور یا ان کی آرائش کا اظہار کرنے کی اجازت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ محرم اعزہ کے علاوہ لوگوں کے سامنے زیب و زینت کے ہر اظہار پر پابندی ہے، خواہ یہ جسم کے کسی بھی حصے کا ہو، حتی کہ چہرے ، ہاتھ اور پاؤں کی زینت کو بھی ارادتاً یعنی جان بوجھ کر ظاہر کرنا دین میں ممنوع ہے۔ البتہ ان حصوں کی زینت چونکہ عادتاً ظاہر ہوتی ہے اس لیے اس کے خود بخود ظاہر ہونے پر گرفت نہیں ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ طلاق ایک عمل ہے۔ جس کے لیے نیت اسی طرح شرط ہے جیسے دوسرے اعمال کے لیے شرط ہے۔ یہ عمل جب نیت سے کیا جاتا ہے ظاہر ہے کہ تبھی اس کا وقوع ہوتا ہے۔ لیکن جب طلاق کا مسئلہ عدالت میں چلا جاتا ہے تو بعض صورتوں میں وہ مجبور ہوتی ہے کہ محض ان الفاظ ہی کو دیکھے جن سے طلاق دی گئی ہے اور طلاق دینے والے کی نیت سے یکسر بے نیاز ہو کر فیصلہ کرے۔ محض وسوسے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ بعض افراد اس طرح کے وساوس اور وہموں میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ لغو ہوتا ہے،دین میں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اس کی پروا کرنا سخت نقصان دہ ہے۔یہ بات ذہن میں رہے کہ دل کا خیال نیت نہیں ہوتا۔ نیت پختہ ارادے کا نام ہے۔ چنانچہ اس شخص کی طلاق کو طلاق کہا جائے گا جو فی الواقع طلاق دیتا ہے، یعنی جو یقین کے ساتھ سے اس کا ارادہ کرتا اور پھر یقین کے ساتھ اس پر عمل کرتا ہے، اگر اسے پتا چلے کہ طلاق واقع ہونے میں کوئی کمی رہ گئی ہے تو وہ فوراً اس کمی پورا کرنے کے لیے کوشاں ہو جاتا ہے۔ اسے اپنے طلاق دینے کے بارے میں خود کوئی شبہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ مکمل یقین پر کھڑا ہوتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔  دین کا علم حاصل کرنے کا شوق نہایت قابلِ تحسین ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہوتا کہ آدمی جس بات کی خواہش کرے، اسے وہ پا بھی لے۔ انسان کی زندگی کوشش سے عبارت ہے۔ انسان پر بس یہ لازم ہے کہ وہ اپنے ہدف کو حاصل کرنے لیے کوشش کرتا رہے۔ پھر اگر وہ اپنے ہدف کو نہ بھی پا سکے تو اسے مطمئن رہنا چاہیے کیونکہ اس نے اپنی سی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مسلمان کی زندگی گزارنے کا مکلف ٹھہرایاہے ۔ارشاد باری ہے:‘‘ ولا تموتن الا و انتم مسلمون’’یعنی تم ہرگز نہ مرنا مگر مسلمانی کی حالت میں۔حصول علم کی خواہش اگر پایہ تکمیل کو نہ بھی پہنچے تو کوئی بات نہیں، لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی آدمی مسلمانی کی زندگی اختیار کرنے سے ہی محروم رہ جائے۔لہذا،انسان کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ مسلمانی کی زندگی اختیار کرے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔  ملازمت ملنے میں اگر وقتی طور پر ناکامی بھی ہو رہی ہو تو آدمی کو گبھرانا نہیں چاہیے، بلکہ کوشش جاری رکھنا چاہیے۔ بہت سے لوگ جو اس وقت کسی نہ کسی ملازمت پر ہیں ان سے اگر پوچھ کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ان میں سے کتنے ہی لوگوں کو ان کی ملازمت بڑی تگ و دو سے ملی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک آیت کا ایک ہی مطلب ہے، اس کے نزدیک اس کے کئی مطالب نہیں ہوتے، چنانچہ جو شخص بھی قرآن مجید کا ترجمہ کرے یا اس کی کسی آیت کی شرح و وضاحت کرے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ہی ترجمہ یا ایک ہی مفہوم ،جو اس کے نزدیک درست ہو، اسے بیان کرے۔

            تاویل واحد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر انسان آیت کے اصل مطلب تک لازماً پہنچ سکتا ہے۔ قرآن مجید گو بہت صریح کلام ہے، لیکن اس کے باوجود اس کی کسی آیت کے بارے میں مختلف علما کی رائے مختلف ہو سکتی ہِے، اس اختلاف کی وجہ علما کے اپنے علم کا فرق ، ان کے ہاں غور و فکر کے اصولوں کا مختلف ہونا اور اس طرح کی کئی دوسری چیزیں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالی نے اس امتحان گاہ میں علما کے درمیان آرا کے اس اختلاف کو حتمی طور پر ختم کرنے کا کوئی ذریعہ پیدا نہیں کیا۔ البتہ تاویل واحد کا تصور ان علما کو اس بات سے روکتا ہے کہ وہ ایک ہی آیت کے چار چار مطلب بیان کریں، چنانچہ ان میں سے ہر ایک کو صرف وہی مطلب بیان کرنا ہو گا جو اس کے نزدیک درست ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اصولی بات یہ ہے کہ عام آدمی کو علما کی رہنمائی ہی میں چلنا چاہیے۔ ہاں علما کو چاہیے کہ انہیں جہاں اپنے امام کی رائے پر اطمینان نہ ہو، وہاں وہ دوسرے آئمہ کی آرا بھی دیکھیں اور پھر ان میں ترجیح قائم کریں۔ عام آدمی کے لیے اصولاً یہ لازم نہیں کہ وہ کسی ایک امام کی تقلید کرے، البتہ عقلاً یہ بات درست ہے کہ اسے جس امام پر اعتماد ہے، وہ اسی کی تقلید کرے، ہاں اگر کسی مسئلے میں اس امام پر اس کا اعتماد مجروح ہو جائے تو پھر یقینا اس معاملے میں اسے دوسرے امام کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اس رجوع کی صورت بھی یہ ہو گی کہ وہ دوسرے مسلک کے علما کے ذریعے سے ان کے امام کی رائے جانے گا ، اگر اس رائے پر اسے اطمینان ہوا تو وہ اس پر عمل کرے گا۔

            دلیل کی بنا پر اپنے مسلک سے مختلف رائے اپنانے سے انتشار پیدا نہیں ہوتا بلکہ انتشار علم کی روشنی میں چلنے کے بجائے جہالت کے اندھیرے میں اندھا دھند بھاگنے سے پیدا ہوتا ہے۔

            اگر کسی آدمی کے نزدیک اس کے اپنے علم کی حد تک کسی مسئلے میں دو آرا یکساں صحت کی حامل ہیں، تو پھر اسے جو رائے اپنے لیے عملًا آسان لگتی ہے اسی کو اپنانا چاہیے۔ البتہ یہ بات درست نہیں ہے کہ بیک وقت دونوں آرا کو درست جانے۔ کیونکہ وہ عقلاً اس بات کو جانتا ہے کہ ایک ہی مسئلے میں بیک وقت دو مختلف آرا درست نہیں ہو سکتیں،لہذا، اس کے سامنے جب دو مختلف آرا آ جائیں تو اس کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ علما کی مدد سے اپنی استطاعت کی حد تک اپنا رجحان کسی ایک طرف قائم کرنے کی کوشش کرے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اگر ایک شخص یہ مانتا ہے کہ اسے خدا نے غض بصر کا حکم دیا ہے تو اسے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حالات کی سختی جہاں عمل کو مشکل بناتی ہے وہاں اس کے اجر کو بڑھا بھی دیتی ہے اور پھر ایسے حالات میں فرمانبردار آدمی کے لیے معافی کی گنجایش بھی بڑھ جاتی ہے۔اس زمانے میں برائی کا جو سیلاب انسان کی طرف بڑھ رہا ہے اس سے بچنے کے لیے انسان کو چاہیے کہ وہ خدا کے ذکر میں اپنے آپ کو بڑھائے، اپنی موت کو یاد رکھے اور صالح لوگوں کی محفلوں کو اختیار کرے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔  بعض باتیں قابل غور ہی نہیں ہوتیں انہی میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ خدا کو کس نے پیدا کیا ہے۔ اس بات پر ہم تبھی غور کر سکتے ہیں، جب ہم خدا کے وجود کا اسی طرح احاطہ کر لیں جیسے ہم کسی مادی چیز کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ مثلاً اس پر غور کرنے لیے ہمارے پاس اس بات کا جواب ہونا چاہیے کہ خدا یقینا مخلوق ہے اور اسے بھی ایک وقت میں پیدا کیا گیا تھا، (جیسا کہ یہ ہم جانتے کہ یہ زمین و آسمان مخلوق ہیں اور یہ کسی خاص وقت میں وجود پذیر ہوئے تھے) اور پھر خدا کو ہمارے خیال و وہم کے قابو میں اسی طرح آ جانا چاہیے جیسے اس کائنات کی دوسری چیزیں آ جاتی ہیں۔لیکن اگر ہم اتنے بڑے نہیں ہیں کہ خدا کی ذات کو اپنے دامِ خیال میں لا سکیں، تو پھر ہمیں چاہیے کہ ہم ذات کے موضوع سے ہٹ کر ، اپنے غور و فکر کو ذرا اپنے قد کاٹھ کی چیزوں تک ہی محدود رکھیں مذہب نے خدا کے حوالے سے ہمیں جو کچھ بتایا ہے اسے آپ مثلاًسورہ اخلاص، سورہ حدید کی ابتدائی آیات، سورہ حشر کی آخری آیات میں اور قرآن مجید کے بعض دوسرے مقامات پر دیکھ سکتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ بہشتی مقبرے کا تصور لوگوں کا خود ساختہ ہے۔ یہ اگر کوئی حقیقت ہوتا، تو قدیم آسمانی مذاہب میں بھی اس کا ذکر ہوتا اور ہم قرآن مجید اور احایث نبوی میں بھی اس کا ذکر پاتے۔قادیانی حضرات چونکہ مرزا صاحب کو خدا کا نبی سمجھتے ہیں ، اس لیے وہ مرزا صاحب کے قول کو حق سمجھتے اور اس کی بنا پر اس طرح کے تصورات قائم کرتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ خواب شریعت میں نہ کوئی اضافہ کر سکتے ہیں اور نہ کمی، اور نہ اب ختم نبوت کے بعد وہ دینی معلومات کا کوئی مستند ذریعہ ہو سکتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)