تعمیر کعبہ اور قربانی کی پہلی عید

مصنف : مرتضی احمد خان میکش

سلسلہ : قصص القرآن

شمارہ : مئی 2007

تعمیرکعبہ

            سائرہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ نوے سال کی عمر میں اس کا دامن اُمید گلہائے مراد سے مالا مال ہوجائے گا اور وہ اپنی گود کے مولودِ مسعود سے شہور صدسالہ کی بوڑھی کمر مضبوط کرنے کا سامان مہیا کرسکے گی۔ تاہم اس نے ابراہیم ؑ کو دوسری شادی کر کے اولاد حاصل کرنے کی اجازت دیتے ہوئے یہ پختہ وعدہ لے لیا تھا کہ ہاجرہ اور ہاجرہ کی اولاد اس کی تابع فرمان رہے گی۔ فطرتِ نسوانی کے اس اقتضا سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسحاقؑ کی پیدائش کے بعد سائرہ کے دل میں ہاجرہ کے بیٹے اسماعیل ؑ کے لیے وہ محبت و شفقت قائم نہ رہتی جو اسے اولاد کی طرف سے مایوس ہونے کی صورت میں تھی لیکن سائرہ کا یہ مطالبہ یقینا حداعتدال سے متجاوز تھا کہ ہاجرہ اور اسماعیل ؑدونوں اپنے خداوند مجازی کی چھت کے نیچے نہ رہیں اور اتنی دُور چلے جائیں کہ سائرہ اُن کی صورت دیکھنی تو درکنار ان کی خبر تک بھی سننے نہ پائے۔

            ابراہیمؑ سخت کشمکش میں مبتلا تھے۔ ایک طرف انھیں سائرہ کی نازک طبیعت کا خیال آتا تھا جو آج تک کسی قسم کے سخت الفاظ کی متحمل نہ ہوئی تھی۔ دوسری جانب انھیں اور ان کی دوسری بیوی ہاجرہ کو اپنا وہ مقدس وعدہ بھی یاد آ رہا تھا جو دونوں نے شادی کے موقع پر خدا کو حاضر و ناظر جان کر سائرہ کے ساتھ کیا تھا کہ ہاجرہ اور اس کی اولاد سائرہ کی تابع فرمان رہے گی۔ غرض سائرہ کے اس مطالبہ نے بھرے گھر کو عجب پریشانی میں مبتلا کر رکھا تھا اور ابراہیم ؑاپنی بیوی کی یہ تریاہٹ دیکھ دیکھ کر ایک عجیب کشمکش میں تھے۔ وہ جانتے تھے کہ سائرہ کا یہ مطالبہ سراسر ناجائز ہے تاہم وہ اس وعدہ کی بنا پر جو اس نے اپنے شوہر اور اس کی دوسری بیوی سے لے رکھا تھا’ حق رکھتی تھی کہ ہاجرہ اور ہاجرہ کے بیٹے اسماعیلؑ کو اپنے حسب ِ منشاء عمل پیرا ہونے پر مجبور کرے اور چاہے انھیں ابراہیم ؑ کے گھر میں رہنے دے چاہے نکال دے۔

            ابراہیمؑ اپنی بیوی کو اس قدر سخت مطالبہ سے باز رہنے اور رحم و نرمی سے کام لینے کی تلقین کر رہے تھے۔ لیکن سائرہ کہاں ماننے والی تھی۔ ابراہیمؑ کی طرف سے اس نادری حکم کو جامۂ عمل پہنانے میں جس قدر تاخیر یا تساہل ہوتا تھا’ سائرہ کے غصے کا پارہ اور بھی بلند ہو رہا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر صبروشکر اور تسلیم و رضا کی پتلی ہاجرہ سے نہ رہا گیا۔ اُس نے جی کڑا کرکے اپنے محبوب شوہر سے کہا کہ سائرہ کے حکم کی تعمیل لابدی ہے۔ آپ انھیں زیادہ خفا نہ کریں۔ میں اپنی بڑی بہن اور مربیہ کی خوشنودی کی خاطر کہیں دُور چلی جاؤں گی اور محنت و مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچے کا پیٹ پالوں گی۔

            ہاجرہ نے اپنے اور اپنے شوہر کے قول کا پاس کرتے ہوئے شوہر کے گھر کو خیرباد کہنے کی تیاری کرلی اور ابراہیمؑ نے جو حوادثِ روزگار کی بیسیوں نیرنگیاں دیکھ چکے تھے اور ہر نئی مصیبت اور ہر نئے ابتلا کو اپنے خالق و مالک کا نیا امتحان تصور کرکے تسلیم و رضا کی گردن خم کرنے کے عادی ہوچکے تھے’ باچشمِ پُرنم ہاجرہ اور اسماعیل ؑکو اس محیط اور حاوی طاقت کے سپرد کردیا’ جو انسان و حیوان کی زندگی کی محافظ اور اس کے رزق کی کفیل ہے۔ ہاجرہ کنعان سے نکل کھڑی ہوئی اور اس مختصر سے زادراہ کے ساتھ جو سائرہ نے اُسے ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی تھی’ کسی نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہوگئی۔

            ایک روز ہاجرہ عرب کے ریگستان میں سفر کر رہی تھی کہ اسماعیل ؑنے پانی مانگا۔ ہاجرہ نے مشکیزہ دیکھا تو خالی ہوچکا تھا۔ لق و دق بیابان میں جہاں دُور دُور تک ا نسان تو کیا چرند و پرند کے آثار بھی نظر نہ آتے تھے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ کسی طرف نخلستان یا سرسبزی کا نشان تک دکھائی نہ دیا۔ جو پانی کی موجودگی پر شاہد ہوتا۔ ماں اپنے اکلوتے جگر بند کو تسلیاں دیتی ہوئی کوہستان کی طرف لے چلی۔ جس کی سیاہ چوٹیاں نظروں کے سامنے آفتاب کی تیز شعاعوں کے باعث چمک رہی تھیں۔ صحرائے عرب کی دھوپ اور ریگستان کی سموم ہاجرہ کے دل کی کلی پژمردہ کرنے کے لیے غیرمعمولی شدت دکھا رہی تھی۔ پہاڑ کے دامن تک پہنچتے پہنچتے اسماعیل ؑ بے کل ہوگیا۔ اس کی ٹانگوں نے چلنے سے جواب دے دیا اور وہ چکر کھاکر اس سنگلاخ قطعۂ زمین پر گر پڑا جس میں برگ و گیاہ کا نام تک نہ تھا۔ماں نے اپنے جگر بند کے اُوپر دوپٹے کا سایہ کردیا اور خود برہنہ سر ایک پہاڑی کی طرف دوڑی تاکہ اُس کے دامن میں کوئی کنواں یا چشمہ تلاش کرے اور اپنے دل بند کے لیے جو پیاس کے مارے بیہوش ہو رہا تھا آبِ حیات لائے۔ہاجرہ ہانپتی ہوئی ایک پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ گئی جہاں سے اُس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی لیکن کہیں پانی کا نشان نظر نہ آیا۔ وہاں سے دوڑتی ہوئی اُتری اور دوسری پہاڑی کی طرف گئی جو تیر کی زد کے فاصلہ پر سامنے نظر آرہی تھی۔ وہاں بھی پانی کا کوئی نشان نہ ملا۔ وہ اپنے بچے کی حالت کا خیال کرکے خوفزدہ ہورہی تھی۔ سراسیمگی کی حالت میں اِدھر اُدھر بھاگتی پھرتی۔ واہمہ کی فریب کاریاں اُسے ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر لے جاتیں۔ چنانچہ ہاجرہ نے اسی بدحواسی میں صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر کاٹے’ لیکن پانی کا نشان نہ ملنا تھا نہ ملا۔ تھک کر چور ہوگئی تو اپنے دلبند کو دیکھنے کے لیے مڑی۔ اسماعیل ؑدوپٹے کے سائے میں پڑا جان کنی کی صعوبتوں میں ایڑیاں رگڑ رہا تھا۔ قریب گئی تو قریب ہی شیریں پانی کا ایک چشمہ نظر آیا جو اس سنگلاخ زمین کے سینے سے اس طرح پھوٹ رہا تھا جیسے کسی سنگدل شخص کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ہوں’ گویا ہاجرہ کی بے کسی دیکھ کر کائنات کا دل بھی پگھلنے لگا تھا اور پتھر کی آنکھ بھی پُرآب ہوگئی تھی۔ ہاجرہ نے اسماعیل ؑکے منہ میں شیریں پانی کی بوندیں ٹپکائیں۔ بچے کے رگ و ریشہ میں تازگی آنے لگی اور کچھ دیر کے بعد اُس نے آنکھیں کھول دیں۔

            ہاجرہ کو اس شیریں چشمہ کا پانی ایسا پسند آیا کہ وہ اسی کے قریب ٹھہر گئی تاکہ راستہ چلنے والوں اور بھولے بھٹکے مسافروں کو پانی پلانے کی خدمت انجام دے سکے۔ یہ مقام جہاں ہاجرہ کو پانی کا ایک چشمہ مل گیا تھا شام سے ملک سبا کو جانے والی تجارتی شاہراہ پر واقع تھا۔ رہرؤں اور تجارتی قافلوں نے اس چشمہ کی دریافت کو اسماعیل ؑ کی برکت پر محمول کرتے ہوئے نعمت غیرمترقبہ تصور کیا اور لوگ ہاجرہ کو پانی کا محصول ادا کرنے لگے۔ اس طرح ہاجرہ اور اس کے بیٹے اسماعیل ؑکی گزراوقات کا قدرتی سامان مہیا ہوگیا۔ انھیں مسافروں اور قافلے والوں کی معرفت اسی وادئ غیر ذی زرع میں بیٹھے بٹھائے کھجوریں اور کئی قسم کے دوسرے پھل ملنے لگے۔ دونوں ایک مختصر سا جھونپڑا بنا کر صفا اور مروہ کے دامن میں چشمہ کے قریب رہنے سہنے لگے۔

            چند سال یونہی گزر گئے اور سائرہ اپنے شوہر کے سامنے ہاجرہ اور اسماعیل ؑ کی غربت پر اظہار تاسف و معذرت کرتی ہوئی دوسری دنیا میں چل بسی۔ ابراہیم ؑاپنے جدامجد یعنی آدم علیہ السلام کے مقدس معبد کی تلاش میں نکلے۔ کئی دن کے بعد ابراہیمؑ کی سانڈنی صفا اور مروہ کے درمیان ہاجرہ اور اسماعیلؑ کے جھونپڑے کے قریب آکر خودبخود ٹھہر گئی۔

            ابراہیمؑ نے سواری سے اُتر کر ان ٹوٹے پھوٹے پتھروں پر غور کی نگاہیں ڈالیں جن کے قریب ناقہ خودبخود ٹھہر گیا تھا’ دیکھا کہ عمارت کے کچھ آثار موجود ہیں۔ عقل سلیم نے ابراہیم ؑکی رہنمائی کی۔ جبریل امین نے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ یہی وہ مقدس معبد ہے جسے سب سے پہلے آدم ؑ نے تعمیر کیا تھا۔ ابراہیم ؑ نے اپنے خالق و مالک کی بارگاہ میں سرنیاز جھکا دیا اور سجدۂ شکر ادا کیا۔ تسبیح و تقدیس باری تعالیٰ سے فارغ ہوکر سر اُٹھایا تو ابراہیم ؑ نے دیکھا کہ اُن کی وفا شعار بیوی ہاجرہ اور اس کا اکلوتا دلبند اسماعیل ؑ بھی اس سجدۂ نیاز میں جو انھوں نے خدا کا پہلا گھر ملنے پر ادا کیا تھا’ ان کے ساتھ شریک تھے۔

            باپ اور بیٹا’ بیوی اور شوہر اس ملاقات پر بہت خوش ہوئے اور ابراہیم ؑ بھی اس چشمہ کے قریب مقیم ہوگئے جس کی نگہبانی اسماعیل ؑ کیا کرتے تھے۔ چند روز کے بعد ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ نے آدم کے معبد کی ازسرنو تعمیر شروع کردی۔ اس مقدس گھر کی بنیادیں اُٹھانے کے وقت دونوں معماروں نے اپنے خالق و پروردگار سے یہ دُعا کی:

            ‘‘پروردگار! ہم سے یہ خدمت قبول کرلے۔ بے شک تو ہی التجاؤں کا سننے والا اور نیتوں کا جاننے والا ہے۔ پروردگار! ہم کو اپنا بندۂ فرمانبردار بنائے رکھ اور ہماری نسل سے ایسی اُمت پیدا کر جو تیری فرمانبردار ہو۔ ہمیں اپنی عبادت کے طریقے سکھا اور ہمارے قصوروں سے درگزر کر۔ بے شک تو ہی رحم کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔ اے ہمارے پروردگار! ہماری نسل کے لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجنا جو انھیں تیری آیتیں پڑھ کر سنائے۔ انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔ اُن کے قلوب کا تزکیہ کرے۔ بے شک تو ہی بااختیار اور صاحب ِ تدبیر ہے’’۔

            دنیا جانتی ہے کہ ابراہیم ؑاور اسماعیل ؑ کی دعا کس شان کے ساتھ بارگاہِ ایزدی میں قبول ہوئی۔ اگر یقین نہ ہو تو حج کے موقع پر عرب میں جاکر دیکھ لو’ جہاں مشرق و مغرب اور شمال و جنوب سے انسانوں کے ہجوم خدا کے اس گھر کی زیارت کے لیے جمع ہوتے ہیں جسے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ نے تعمیر کیا تھا اور صفا اور مروہ کے درمیان دوڑ کر اس مبارک ساعت کو یاد کرتے ہیں’ جس میں ہاجرہ نے کامل سعی و جہد کے بعد چاہ زمزم کو پایا تھا۔

قربانی کی پہلی عید

            آج سے ہزارہا سال پیشتر ریگستان عرب کے بادیہ نشین نے عالم رؤیا میں دیکھا کہ وہ اپنے اکلوتے لختِ جگر کے گلے پر چھری پھیر رہا ہے۔ وہ خدا کا ایک مقبول و برگزیدہ بندہ تھا۔ اُس نے خیال کیا کہ میرا پروردگار اپنے بندے سے کسی قربانی کا طلبگار ہے’ چنانچہ اُس نے صبح اُٹھ کر اُونٹوں کا ایک گلہ ذبح کیا اور گوشت مسکینوں میں تقسیم کردیا۔

            دوسری رات پھر اُس نے عالمِ خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے مالک حقیقی کی قربان گاہ پر اپنے اکلوتے دلبند کو لیے کھڑا ہے’ اس کے خواب ہمیشہ سچے ہوا کرتے تھے۔ اُس نے خیال کیا کہ میرا مولا مجھ سے مزید قربانیوں کا طالب ہے۔ اس لیے صبح اُٹھ کر اُس نے اُونٹوں کا ایک اور گلہ ذبح کرڈالا اور گوشت بھوکے مسکینوں میں تقسیم کردیا۔

            تیسری شب پھر اُس نے عالمِ رؤیا میں یہی ماجرا دیکھا اور اپنے پروردگار کی آواز سنی کہ ہم تیرے بیٹے اسماعیل ؑکی قربانی چاہتے ہیں۔ خدا کا یہ برگزیدہ بندہ اس آواز کو سنتے ہی بستر سے اُٹھ بیٹھا اور سب سے پہلے اُس نے اپنے مولا کی بارگاہ میں سجدۂ شکر ادا کیا اور گذشتہ دو دن کی اجتہادی لغزش پر معافی مانگی۔صبح ہوئی تو اس نے اُونٹوں’ بھیڑوں اور بکریوں کے گلوں سے منہ موڑ لیا اور اپنے دلبند سے مخاطب ہوکر کہا کہ ‘‘میرے مولا نے تمھیں اپنے پاس بلایا ہے اور میں تمھیں اللہ کی راہ میں قربان کرنے والا ہوں’’۔

            ننھے بچے کو اپنے پروردگار اور اپنے باپ کی دوستی کا علم تھا۔ وہ اس بلاوے پر بہت خوش ہوا۔ اس کے رُخسار خدا کی راہ میں قربان ہونے کی خوشی سے تمتما اُٹھے۔خدا کے اس برگزیدہ بندے کی سعادت مند بیوی کو بھی اپنے شوہر اور اپنے خدا کے دوستانہ رشتہ کا علم تھا’ جب اُس نے باپ اور بیٹے کی اس خوشی کا ماجرہ سنا تو وہ بھی قربانی کی یہ نئی عید منانے میں اُن کے ساتھ شریک ہوگئی۔

            صحرا نشینوں کے گھر عید منائی جانے لگی اور شوہر بیوی اور ان کا اکلوتا بیٹا تینوں اس نرالی قربانی کے لیے اپنی ا پنی جگہ پر تیاری کرنے لگے۔ماں نے اپنے لخت ِ جگر کو نہلایا’ اسے نئے کپڑے پہنائے۔ آنکھوں میں کاجل لگایا اور رُومال پر خوشبو چھڑک دی کیونکہ وہ اپنے اور باپ کے دوست کے ہاں مہمان جا رہا تھا۔ باپ نے چھری ہاتھ میں لی اور ایک سیاہ پتھر پر گھسنے لگا تاکہ اس کی دھار تیز ہوجائے اور بیٹے کی قربانی کا کام اتمام کو پہنچے۔ماں نے اپنے لخت ِ جگر کے ماتھے پر بوسہ دیا’ باپ اور بیٹا قربان گاہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ بیٹے کو اپنے باپ کی بہ نسبت اس عید کی زیادہ خوشی تھی اور اُس کے پُرشوق قدم بڑی تیزی سے قربان گاہ کی طرف اُٹھ رہے تھے۔

            راستہ میں ان باپ بیٹوں کو ایک شیطان ملا’ جس نے انھیں ورغلانے کی کوشش کی۔ دونوں نے اس پر پتھر اور کنکر پھینکے اور وہ خوار ہوکر بھاگ گیا۔ شیطان نے اسماعیل ؑ کی ماں کو بھی بہکانے کی کوشش کی اور اس سے کہا: تمھارا شوہر دیوانہ ہوگیا ہے جو محض ایک خواب کی بنا پر بیٹے کے گلے پر چھری پھیرنے والا ہے۔ اسماعیل ؑکی ماں نے بھی بہکانے والے شیطان پر پتھر پھینکے اور وہ خوار ہوکر بھاگ گیا۔

            قربان گاہ میں پہنچ کر بیٹے نے رَب جلُّ وَعَلٰی کی بارگاہ میں گردن تسلیم خم کردی۔ باپ نے چھری گلے پر رکھ دی۔ شفقت پدری نے آنکھوں پر پٹی باندھی۔ زُبان پر تکبیر جاری ہوگئی۔ دل خدا کی تقدیر و تمجید کرنے لگا اور ابراہیم ؑ کی روح پکار اُٹھی:

            ‘‘میری نماز’ میرا طریق’ میری موت اور میری حیات اللہ کی راہ میں قربان ہوں جو کئی جہانوں کا پالنے والا ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی چیز کا حکم دیا گیا ہے اور میں اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والوں میں سب سے پیش ہوں’’۔

            ابراہیم ؑ کے ہاتھ کو جنبش ہوئی اور ملائے اعلیٰ پر بیٹھ کر تماشا دیکھنے والے فرشتوں کی زبان سے اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر لا اِلٰہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر ۔ اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد کی تسبیح جاری ہوگئی جس نے فضائے آسمانی میں ایک لامتناہی گونج پیدا کردی۔

            ابراہیم ؑ نے اپنے دلبند کی خون آلود نعش کا نظارہ کرنے کے لیے آنکھیں کھولیں تو نقشہ بدلا ہوا تھا۔ چھری ایک دُنبے کی گردن پر چل چکی تھی اور اسماعیل ؑ وحی آسمانی کی اُنگلی تھامے مسکرا رہے تھے’ اُن کا چہرہ نور نبوت سے روشن تھا۔

            آسمان سے نازل ہونے والے فرشتے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو تمھارے بچے کے خون’ گوشت اور پوست کی ضرورت نہ تھی۔ وہ تم سے تقویٰ کا طلب گار تھا اور تم تقویٰ کے اس امتحان میں پورے اُترے۔ تمھارے پروردگار نے قربانی کے لیے یہ دُنبہ بھیجا ہے اور میں تمھیں تمھاری بیوی اور تمھارے ہونہار بچے کو اللہ کی رضا کا پیغام دینے کے لیے آیا ہوں۔باپ اور بیٹے نے مالک کی رضا کا مژدہ سن کر سرنیاز جھکا دیا اور زمین و آسمان کی کل کائنات نے تکبیر و تہلیل کا ایک غلغلہ بلند کیا۔سطح ارضی پر یہ پہلی عید قربان تھی جو خلیل اللہ کے گھر میں منائی گئی اور اب اولاد خلیل ؑکے گھروں میں ہر سال منائی جاتی ہے۔