تلافی مافات یا پیار

مصنف : ع۔ف (کھاریاں)

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : 2017 اپریل

            میں بچپن ہی سے بہت موٹی تھی۔صورت شکل بھی معمولی تھی لیکن مجھے اپنی اس کمزوری کا کبھی احساس نہ ہوا کیونکہ میرے والد ڈیر ہ دون کے مشہور بیرسٹر تھے۔ اکلوتی بیٹی ہونے کے ناطے انہوں نے مجھے بہت لاڈ پیار سے رکھا تھا۔ وہ مجھے بڑی بڑی محفلوں میں لے جاتے۔ ان کی وجہ سے میری ہر جگہ آؤ بھگت ہوتی اورمیں خود کو معلوم نہیں کیا سمجھنے لگتی۔پاکستان آنے کے بعد بھی والد کی مالی حالت بہت اچھی رہی۔یہاں آنے پر ہمارے گھر میں ایک اور فرد کا اضافہ ہو گیا۔ ہجرت میں ہمارے دور کے رشتہ دار خاندان سمیت شہید کر دیے گئے۔ان کا چھ سات سال کا بیٹا فیاض کسی نہ کسی طرح بچ گیا ۔ میرے والد اسے کیمپ سے گھر لے آئے۔میری عمر چار پانچ سال کی تھی مجھ میں نخوت بھی بہت تھی۔ میں کچھ دن تو فیاض سے دور دور رہی مگر آخر دوستی ہو گئی۔ وہ بہت بھولا بھالا ، خوبصورت اور نیک تھا۔ تھوڑی ہی دنوں میں اسے باقاعدہ گھر کے ایک فرد کی حیثیت حاصل ہو گئی۔

            بچپن ہی سے میرے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی تھی کہ فیاض میر ا بھائی ہے ۔ پاپا نے بھی اسے اپنے بیٹوں کی طرح پالا تھا۔پنڈی میں ہم دونوں نے ایک ہی سکول میں تعلیم حاصل کی ۔بڑا ہوا تو اسے فوج میں کمیشن مل گیااس طرح ہم کچھ عرصہ کے لیے جدا ہو گئے۔ہم دونوں سگے بھائی بہنوں کی طرح ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ میں اس کے گھر سے جانے پر بہت روئی۔ وہ بھی بہت افسرد ہ رہا اور مجھے بھائیوں کی طر ح لمبے لمبے خط لکھتا رہا۔میں ان دنوں ایف اے کا امتحان دے رہی تھی کہ پاپانے خاندان بھر میں یہ اعلان کر دیاکہ میری شادی فیاض سے ہو گی۔ہمارے ذہنوں میں آج تک کوئی ایسا خیال بھی نہ گزرا تھا اس لیے میری آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔امی نے مجھے بہت سمجھایا کہ فیاض سے اچھا رشتہ نہیں مل سکتااس کو تم میری خوش نصیبی سمجھو۔مجھ سے فیاض کے دل کی کوئی بات چھپی ہوئی نہیں تھی۔وہ میری ایک سہیلی کو بہت چاہتا تھا۔ میں نے اس سلسلے میں اس کی بہت مدد بھی کی تھی۔دونوں کے آپس میں عہدو پیماں بھی ہو چکے تھے۔ایسے حالات میں پاپاکا فیصلہ بم سے کم نہیں تھا۔پاپا کی ضد بھی خاندان میں مشہور تھی۔مجھے یہ تو معلوم تھا کہ فیاض میراسگا بھائی نہ تھا لیکن پھر بھی دل بھائی کے علاوہ کسی اور روپ میں اسے قبول کرنے کو تیار ہی نہ تھا۔ابھی فیاض کو اس کا علم نہ تھا۔وہ امریکہ ٹریننگ پر جانے والا تھا۔اس نے پاپا کو اپنے جانے کی اطلاع کی۔ جواب میں پاپا نے اسے فوری طورپر گھر آنے کاحکم دیا۔اپنے جانے سے صرف ایک روز پہلے وہ پنڈی سے آیا تو پاپا نے اسے اپنا فیصلہ سنا دیا۔اورکہا کہ جانے سے پہلے نکاح کر لو۔فیاض کی حالت قابل دید تھی۔پاپا کے اس غیر متوقع فیصلے سے وہ بر ی طرح جھنجھلا گیا اور شادی سے صاف انکار کر دیا۔پاپا نے غصے میں جو منہ میں آیا کہہ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اسی رات گھر سے چلا گیا۔پاپا تمام رات سوچ میں گم صم بیٹھے رہے ۔امی نے لاکھ سمجھایا ،میں نے بھی زبان کھولی کہ میں فیاض کو حقیقی بھائی سمجھتی ہوں مگران کے پاس ایک ہی جواب تھا کہ اگر تمہاری شادی ہو گی تو فیاض سے ورنہ عمر بھر یوں ہی بیٹھی رہو گی۔دوسرے دن ہمیں ایر پورٹ سے فیاض کی کال ملی۔ اپنے سخت رویے کی امی سے معافی مانگی اورمجھ سے بھائیوں والے لہجے میں دو چار باتیں کیں۔ پاپا گھر سے باہر گئے ہوئے تھے شام کو واپس آئے تو ان کا رنگ زرد تھاانہیں فیاض کے جانے کی اطلاع مل چکی تھی۔امی نے کال کی بات بتائی تو غصے سے ان کا برا حال ہو گیا۔ امی اور میں خوف سے سہم گئے لیکن پاپا کو جیسے دماغی دورہ پڑ گیا۔ شاید ان کے عمر بھر کے یقین کو دھچکا لگا تھا۔رات کھانا بھی نہیں کھایا۔ امی نے انہیں کمرے میں تنہاچھوڑ دیا۔ دوسری صبح وہ کمرے میں بے ہوش ملے ۔ رات کے پچھلے پہر انہیں دل کادورہ پڑ گیا تھا۔انہیں ہوش نہیں آیا اور تیر ہ گھنٹے کی بے ہوشی کے بعد وہ دنیا سے چل بسے۔پاپا اس ذہنی صدمے کو برداشت نہ کر سکے تھے۔ہم پر غم کا پہاڑ آن پڑا۔خاندان میں اس نا گہانی موت پر سب ہی رو رہے تھے۔میں نے دو تین ہفتے بعدفیاض کو اس حادثے کی اطلاع بھجوا دی تھی۔گھر کی تنہائی ہمیں ہر لمحے پاپا کی یاد دلاتی امی کا بھی صدمے سے بہت برا حال تھا۔

            میں کبھی خود کو اس حادثے کاذمہ دار سمجھتی کبھی فیاض کی خودغرضی پر رونا آتا۔ اس نے پاپا کی وفات پر تعزیت کا خط بھی نہ لکھا تھا۔اس بات کو دو ہی ماہ گزرے تھے کہ فیاض غیر متوقع طو ر پر پنڈی پہنچ گیا۔رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ ہم دونوں اس کی آمد پرحیرا ن رہ گئیں۔رات ہی کو امی کو لے کر پاپا کی قبر پر گئے دو بجے رات واپس آئے ۔ صبح صبح امی نے مجھے جگایاگھر کی صفائی ہو رہی تھی ۔ تھوڑی دیر بعد مہمان آنا شروع ہو گئے تب امی نے بتایا کہ فیاض صرف دو روز کے لیے آیا ہے اور آج میرا اس سے نکاح ہے۔میرا اسی روز گیارہ بجے اس سے نکاح ہو گیا۔میں نہیں جانتی کہ پاپاکی آخری آرزو کاانہوں نے اتنا احترام کیوں کیا تھا۔ وہ دورروز رہ کر چلے گئے۔ چھ سات ماہ بعد میں بھی ان کے بلانے پر ان کے پاس چلی گئی۔ڈھائی سال بعد لوٹی تو دو بچوں کی ما ں بن چکی تھی۔ ان کا مجھ سے پیا ر بے مثا ل ہے لیکن میں نہیں جانتی کہ وہ اپنے آپ کوپاپا کا قاتل سمجھ کر تلافی کر رہے ہیں یا مجھ سے سچ مچ پیار کرنے لگے ہیں جب کہ میرا حلقہ احباب کہتا ہے کہ تم شکل و صورت میں اورجسامت میں ان کے ذرہ بھی ہم پلہ نہیں ہو۔