دین کا صحیح تصور، واضح کرنے کی اہمیت

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : مئی 2007

            طلبا کاٹھاٹھیں مارتا ہوا جلوس پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس لاہور سے روانہ ہوا۔ عزم وہمت سے روشن یہ سب چہرے وطن عزیز میں اسلامی انقلاب برپا کرنے چاہتے تھے۔ نعرے لگانے کے عمل میں ہر نوجوان دوسرے سے آگے بڑہنا چاہ رہا تھا۔اس اثنا میں ایک طالب علم کو پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی اس نے رینگتی ہوئی بس کی چھت سے چھلانگ لگائی اور سڑک کنارے درخت کی اوٹ میں کھڑے کھڑے پیشاب کیا اور پیشا ب کے پسِ ماندہ قطروں کو اپنے ہی لباس میں سمیٹتا ہوا واپس بس کی طرف بھاگا اور دوسرے سے مائیک چھین کر پرزور نعرہ لگایا‘‘ غلام ہیں غلام ہیں، نبی کے غلا م ہیں’’ ۔

            اسلام کے لیے مرنے والوں کایہ جلوس ،جنہیں اسلام کے لیے جینا مشکل لگتا تھا،جب بدقت اسمبلی ہال پہنچا تو ان کا جذبہ جہاد مکمل عروج پر پہنچ چکا تھا۔ اس کے اظہار کے لیے انہوں نے وہاں موجود اُن چند کاروں کو نذر آتش کر دیاجنہیں ان کے مالکوں نے قرض لے کر خریدا تھااور جب اسی جذبے میں ایک بلڈنگ بھی آگ کے حوالے ہوئی تو ہر طرف سرخ روشنی پھیل گئی اورنوجوانوں کا مقصد روشنی پھیلانا ہی تو تھا۔اس جلوس کے چشم دید گواہ کہتے ہیں کہ یہ نوجوان اپنی دھن کے بہت پکے تھے ۔وہ پولیس کے آگے بھاگتے ہوئے بھی مسلسل یہ کہتے جا رہے تھے کہ‘‘ انقلا ب انقلاب، اسلامی انقلاب’’۔

            جلوس بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا ۔ لوگ جہاد کا ثواب سمیٹتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو سدھارے ۔ اگلے روز اخبارات میں بڑی بڑی خبریں شائع ہوئیں۔سب نے بہت دلچسپی سے جلوس کی روداد پڑھی۔ مگر اکثر لوگوں کی نگاہوں سے یہ خبر اوجھل رہ گئی اور ویسے بھی یہ خبر ایک کالم میں بہت باریک سی چھپی تھی کہ جلتی ہوئی بلڈنگ سے بھاگ کر جان بچانے کی کوشش کرنے والا ایک ملازم سیڑھیوں سے گر کر جان بحق۔یہ ملازم آٹھ بچوں کا واحد کفیل تھا۔

٭٭٭

            نبیﷺ کے دیوانوں اور پروانوں کا قافلہ عیدِ میلاد کا جشن منانے کے لیے سیکڑوں ٹرکوں ،ٹرالیوں، کاروں ، بسوں ،اور پیدل جوانوں بچوں کی صورت میں لاہور کے صد ر بازار کی جانب رواں دواں تھا ۔ہر چہر ہ روشن اور خوش تھا آخر خوش کیوں نہ ہوتا نبی علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت کا ثبوت فراہم کرنے کاموقع آن پہنچا تھا اور یہ موقع کوئی روز روز ملتاہے ۔ سال بھر میں یہ ایک ہی تو دن ہوتا ہے ۔ آخر یہ بھی کیا مسلمانی ہوئی کہ ایک دن بھی مسلمان گھر سے نکل کرکاروان عشق میں شامل نہ ہوں؟

            بعض نے ٹوپیاں اور بعض نے عمامے پہن رکھے تھے اور بعض نے خوبصورت سبز لباس ۔ہر موٹر اور ہر گاڑی پر نعت خوانی جاری تھی۔ اگرچہ بعض نعتیں سن کر بعض لوگوں کی زبان پر فلمی گانوں کے بول بھی آجاتے تھے مگر دیکھنے والے کہتے ہیں کہ ان کا ایمان بہت قوی تھا، وہ فوراً شیطان پر لعنت بھیج کر نعتیں پڑھنے لگتے تھے۔

            سب لوگوں کانبی علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت کاجذبہ دیدنی تھاان کے عزم سے لگتا تھا کہ آج وہ یہ فیصلہ کرکے آئے ہیں کہ اب زندگانی کا کوئی ایک لمحہ بھی نبی علیہ الصلوۃ والسلام (فداہ ابی و امی) کی اطاعت سے باہر نہ گزرے گا۔ جلوس صد ر کے گول چوک میں پہنچا تو ظہر کی اذان ہورہی تھی۔کچھ لوگوں نے جلوس روک کر نماز پڑھنا چاہی تو جلوس کے لیڈر نے عشق و محبت میں ڈوبی آواز میں کہا ، سجنو، سال بعد ایک ہی تو دن آتا ہے ،نعتیں پڑھتے چلو اورعشق رسول میں آگے بڑھتے چلو۔

             اسی اثنا میں دو سمتوں سے دو ایمبولینسیں آن رکیں۔ ایک میں ہارٹ اٹیک کا مریض جاں بلب تھا اور دوسری میں درد زہ میں مبتلا ایک خاتون ۔دونوں سی ایم ایچ جانا چاہتے تھے لیکن راستہ ندارد ۔ ڈرائیور سائرن پر سائرن بجا رہاتھے مگر شور میں کو ن سنتا ۔ بالآخر آد ھ گھنٹے کی جدو جہد کے بعدڈرائیور بیچارے بمشکل اور بہ منت تمام راستہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن جب ہسپتال پہنچے تو ہارٹ اٹیک کا مریض توبالکل ہی جا ن ہار چکا تھا البتہ زچہ کے سانس ابھی باقی تھے ۔ اسے بچا لیا گیا جب کہ اس کے پیٹ سے چار بہنوں کے بعد پیدا ہونے والا اکلوتا بیٹارخصت ہو گیا۔لوگ کہتے ہیں کہ ہسپتال کے اندر ڈاکٹر لواحقین سے یہ کہہ رہے تھے کہ، اگر آدھ گھنٹہ قبل یہ مریضہ پہنچ جاتی تو شاید ہم بچے کو بھی بچا نے میں کامیاب ہو جاتے اور ہسپتال سے باہر محبت رسول میں غرقاب یہ صدائیں مسلسل آرہی تھیں، جشن عید میلادالنبی زند ہ باد ، نعرہ رسالت ۔۔۔۔

            اسی عید میلاد النبی کی شام جب مردہ بچے کاباپ اسے ہاتھوں پہ لیے قبرستان جا رہا تھا تو اسے بہت قلق ہو رہا تھا کہ اس برس وہ جلوس میں شمولیت کے ثواب سے محرو م رہ گیا ۔ اسے یاد آیا کہ پچھلے برس وہ کتنی عقیدت اور ذوق و شوق سے جلوس میں شامل ہوا تھا اس نے نہ صرف تین ٹرالیاں فراہم کی تھیں بلکہ جلوس میں راستہ تلاش کرتی ہوئی ایک ایمبولینس کی چھت پر چڑھ کر پوری طاقت سے یہ نعر ہ بھی لگایا تھا، جشن عید میلا د زند ہ باد ، نعر ہ رسالت ۔۔۔۔

٭٭٭

             مولوی صاحب کی دکان پر دودھ خریدنے والوں کا بہت ہجوم تھا۔ ان کے میٹھے بول اور اخلاق سے سبھی لوگ بہت متاثر تھے اسی لیے تووہ دور دور سے دودھ لینے یہیں آتے ۔ سب کو اعتماد تھا کہ یہاں دودھ بہت خالص ملتا ہے اور ویسے بھی مشہور تھا کہ ان کی دکان کا ددوھ بہت گاڑھا ہوتا ہے اور اس پر ملائی بھی خوب آتی ہے ،اور یہ بات ہے بھی ٹھیک تھی۔یہ بات ٹھیک کیوں نہ ہوتی آخر مولوی صاحب کا حاجی صاحب کے خاص تعلق تھا اور وہ ہمیشہ انھی کی فیکٹری سے مال منگواتے تھے۔حاجی صاحب کی بندروڈ پر ہڈیاں کرش کرنے کی بڑی فیکٹری تھی اور ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہڈیوں سے جیلی ، جیلٹن اور سفوف وغیرہ بناتے ہوئے یہ خاص احتیاط کرتے ہیں کہ ان میں مردار جانوروں، گدھوں اور کتوں کی ہڈیاں شامل نہ ہوں اگرچہ کرش کرنے والے پلانٹ کے سپر وائزر نے مولوی صاحب کو بتا یا تھا کہ عملاً یہ ہوتا نہیں لیکن مولوی صاحب کہتے تھے کہ ہمیں حاجی صاحب کی بات پر یقین کرنا چاہیے۔

            مولوی صاحب کی دکان پر گاہکوں کا رش بڑھتا جا رہاتھا اور ادھر مغرب کی اذان شروع ہو چکی تھی۔ مولوی صاحب نے‘ ‘چھوٹے ’’کو آواز دی اور اسے ایک ڈول میں ہڈیوں کا سفوف خاص اورچند دوسری پڑیاں دیتے ہوئے کہا جلدی دودھ تیار کرو میں اتنی دیر میں نماز پڑھ کر آتاہوں۔

٭٭٭

            شیخ صاحب کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ تھا ۔ ماشاء اللہ پہلے گھی کی ایک مل تھی اب دو ہو چکی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دین کی خدمت میں بھی بہت سر گرم عمل رہتے تھے ۔ پہلے ہر سال بڑی دھوم دھا م سے محفل نعت کرواتے تھے اور اس میں عمرے کے تین ٹکٹ خا ص اپنی گرہ سے دیتے تھے لیکن جب سے تبلیغی جماعت کے ساتھ ان کا تعارف ہوا تھا، ان کی تو گویا دنیا ہی بدل گئی تھی۔اب ان کی زبان پر ہر وقت ماشا ء اللہ ، سبحان اللہ اور اللہ اکبر کا ورد رہتا۔ چلہ لگانے کے بعد تو ان کی زبان کی مٹھاس اور بھی زیادہ ہو گئی تھی۔ لوگو ں سے بھی بہت اخلاق سے پیش آتے اور ہر وقت ہر ایک کو چلے کی دعوت دیتے رہتے ۔ وہ جان چکے تھے کہ مسلمان کی زندگی کا مقصد دین کی دعوت ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ملازموں کی تنخواہوں میں بھی ایک فیصد اضافہ کر دیا تھا کیونکہ ان کا منافع سو فیصد بڑھ چکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پچھلے برس انہوں نے کیمسٹر ی کے جو دو ماہر بھرتی کیے تھے انہوں نے شیخ صاحب سے بہت تعاون کیا تھا۔ ان ماہرین نے اگرچہ شیخ صاحب کو یہ بتایا تھا کہ اگر گھی سے ‘نکل’ اور دوسرے کیمیکل صاف نہ کیے جائیں تو کینسر کا خطرہ ہوتا ہے مگر شیخ صاحب نے فرمایاتھا کہ نکل اور کیمیکلز میں کیا طاقت ہے کہ وہ کینسر پیداکریں کینسر تو اللہ کے حکم ہی سے ہو گا اور انہوں نے اپنے ملازمین کو بتایا تھا کہ اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اورمخلوق سے کچھ نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آجانا چاہیے اور ان ماہرین نے بھی اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ نکل، کیمیکلز سب مخلوق ہی تو ہیں۔

            واقف حال کہتے ہیں کہ اپنے گھر میں شیخ صاحب صرف وہ گھی استعمال کرتے تھے جو اس دوران میں بنتا تھا جب وہ چلے کے لیے گئے ہوتے تھے۔آخر وہ ماہرین بھی مسلمان تھے اور ویسے بھی انہیں معلوم تھا کہ شیخ صاحب یہ پسند نہیں کرتے کہ جب وہ اللہ کی راہ میں ہوں تو کوئی سپیشل کام کیا جائے۔

٭٭٭

            نومسلموں کی تعلیم و تربیت کے لیے وقف اس انٹرنیشنل ادارے میں چالیس کے قریب خواتین کام کرتی تھیں ۔ ان سب کا تعلق اچھے اچھے مسلم ممالک سے تھا اور یہ سب خود بھی بہت اچھی مسلمان تھیں کیونکہ ان کی نگاہیں ہر وقت جھکی رہتیں اور سرسکارف میں اور جسم عبا میں لپٹے رہتے ۔یہ سال بھر اتنی تن دہی اور خلوص سے اپنے کام میں مگن رہتیں کہ دیکھنے والے انہیں زمینی فرشتوں سے تعبیر کرنے لگتے۔سال بعد یہ سب ایک ماہ کی چھٹی پر اپنے اپنے وطن روانہ ہوتیں ۔ ایئر پورٹ پر پہنچتے ہی اکثر عباؤں کے پس منظر سے جینز،ٹائٹز میکسیاں،ہاف سلیو اور سلیو لیس شرٹس اور سکارف کی اوٹ سے بوائے کٹ بال نمودار ہونے لگتے اور ایر پورٹ کی مسجد میں ہونے والی اذان ان کے قہقہوں کی گونج میں گم ہونے لگتی۔جہاز کے اند ر بھی ان کی کوشش ہوتی کہ سیٹ کسی اچھے‘ ‘ ہمسفر’’کے ساتھ مل جائے تا کہ گپ شپ میں اچھا وقت کٹ جائے پوچھنے والے نے پوچھاکہ یہ سب کیا ہے تو بتانے والے نے بتایا کہ آخر ‘ فرشتے ’ہیں اور فرشتے جب چاہیں اپنا روپ بدل سکتے ہیں۔

٭٭٭

             کراچی کے ایک پوش علاقے میں ایک بڑے گھر کے سامنے ایک بڑی گاڑی کے پاس شوفر بیگم صاحبہ کا منتظر تھا۔ اس شوفر کی ڈیوٹی تھی کہ ہفتے میں پانچ دن ہررات، دوبجے بیگم صاحبہ کوبلائے ،گاڑی میں بٹھائے اور ہر روز ایک نئی منزل مقصود پر پہنچا دے اور صبح پانچ چھ بجے پھر انہیں ان کے گھرچھوڑ دے۔یہ شوفر ایک بڑی کمپنی کاملازم تھا ۔اس کمپنی کے پاس شہر کی نامور شخصیات کی فہرست بھی تھی اور نامور بیگمات کی بھی۔ اور نامور شخصیات کو انٹرٹینمنٹ فراہم کرنا کمپنی کا سائڈ بزنس تھا۔ اس شوفر کی تنخواہ بیس ہزار جبکہ اس کے ساتھ سفر کرنے والی بیگم کی تنخواہ ایک لاکھ ماہانہ تھی ۔بہت ساری بیگمات ‘‘نائٹ ڈیوٹی ’’کے لیے اس کمپنی کے پاس جاب کرتی تھیں اور یہ بیگم صاحبہ بھی ان میں سے ایک تھیں۔ یہ سب اپنے عزیز واقارب کو بتاتی تھیں کہ ہم فلاں کمپنی میں کام کرتی ہیں اورہماری نائٹ ڈیوٹی ہوتی ہے۔

            دو بج چکے تھے شوفر بیل پہ بیل دے رہاتھا مگر بیگم صاحبہ لیٹ ہو رہی تھیں۔ آخر شوفر نے گیٹ کے اندر جا کر آواز دی بیگم صاحبہ جلدی کریں دیر ہو رہی ہے ۔اندر سے آواز آئی ، دومنٹ ٹھہرو میں تہجد کے دو نفل پڑھ لوں۔گاڑی میں بیٹھتے ہی شوفر نے پوچھا بیگم صاحبہ آپ اس ‘‘ڈیوٹی’’ کے ساتھ تہجد بھی پڑھتی ہیں؟ بیگم صاحبہ نے جواب دیا نماز اپنی جگہ اور ‘‘جاب’’ اپنی جگہ۔

٭٭٭