بت شکن

مصنف : مرتضی احمد خان میکش

سلسلہ : قصص القرآن

شمارہ : اپریل 2007

بے جان بتوں کی جگہ اصل رب کی پرستش کی دعوت

            تمدن انسانی کے اوّلین گہوارہ ملک بابل کے ہیکل میں دیوتاؤں کی پرستش کا ایک عظیم الشان تیوہار منایا جا رہا تھا۔ اُر کے اصنام پرست صابی سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں مندر کے اندر اور باہر اپنے ارباب النوع کی عظمت و طاقت کا عاجزانہ اعتراف کر رہے تھے۔ بت پرست اپنے دیوتاؤں اور ظنی خداؤں کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہیکل کے ایک دروازہ کی راہ سے داخل ہوتے اور اظہار عقیدت و اعتراف نیاز کے طور پر انسانی ہاتھ کی بنی ہوئی خوشنما مورتیوں اور تمثیلوں اور ڈراؤنی شکلوں کے تراشے ہوئے پتھروں اور بتوں کے سامنے اکل و شرب کی مختلف الانواع نعمتیں رکھ رکھ کر دوسرے دروازہ کی راہ سے باہر نکل جاتے۔ بڑے بڑے سرکشوں اور ذی اقتدار لوگوں کی گردنیں مٹی کے کھلونوں اور پتھر کے ٹکڑوں کے سامنے انتہائی عقیدت و نیازمندی کے ساتھ جھک رہی تھیں۔ انسان کی بلند اور روشن پیشانیاں جن میں شرفِ انسانی کا ستارہ چمک رہا تھا۔ اصنام بلکہ مختلف قسم کے اوہام کے سامنے زمین پر رگڑی جارہی تھیں۔ پجاریوں کی منڈلیاں دیوتاؤں کی تعریف میں بھجن گاتی اور گھنٹے اور ناقوس بجاتی ہوئی میلہ میں گشت لگا رہی تھیں۔ بڑے بڑے ذی شوکت پہلوان اور سلطنت بابل کے ذی مرتبہ اور صاحب ِ اقتدار حاکم پتھر کی مورتیوں کے سامنے جو ناک پر سے مکھی اُڑانے کی طاقت نہ رکھتی تھیں ذلت و رُسوائی کے مجسّمے بن بن کر گر رہے تھے۔ حتیٰ کہ اس زمانہ کا معزز ترین انسان نمرود بھی جس کے دربار میں اللہ کے سیکڑوں بندے ہر وقت سربسجود رہتے تھے، ہیکل کے اُن بے جان اور بے حس مخلوق خداوندوں کے آگے عقیدت و نیازمندی کا خراج پیش کرنے کے لیے دست بستہ کھڑا عقل سلیم کی ہنسی اُڑا رہا تھا۔اس سارے مجمع میں صرف ایک خوش رُو نوجوان انسان کی نادانی اور نافہمی پر ماتم کرتا نظر آتا تھا جو اپنے گردوپیش کے لوگوں سے کہہ رہا تھا کہ عقل و ہوش رکھنے کے باوجود کیوں تمھارے سر پھر گئے ہیں؟ تم کیوں ایسے دیوتاؤں کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمھیں نفع پہنچاسکتے ہیں اور نہ تمھارے نقصان پر قادر ہیں؟ نادانو! تمھاری عقلوں کو کیا ہوگیا کہ تم ایسے معبودوں کو پکارتے ہو جو نہ تمھاری آواز سن سکتے ہیں اور نہ تمھیں نفیاً یا اثباتاً کسی قسم کا جواب دے سکتے ہیں۔ ذرا ہوش و حواس سے کام لے کر غور کرو اور دیکھو کہ پتھر کی یہ مورتیں اور مٹی کے یہ ڈھانچے جنھیں تم ہر وقت گھیرے رہتے ہو تمھارے سامنے کیا حقیقت رکھتے ہیں؟خوشرو نوجوان کی یہ باتیں سننے کے لیے لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ جمع ہورہے تھے اور اس کے نئے پیغام پر جو اُنھوں نے اس سے قبل کسی بوڑھے سے بوڑھے کاہن اور ستارہ شناس سے بھی نہ سنا تھا، حیرت و استعجاب کا اظہار کر رہے تھے۔ آخر ہجوم کے چند آدمیوں نے اس نوجوان سے سوال کیا: ‘‘آذر کے بیٹے! تم اس قسم کی باتیں اپنے دل سے کہہ رہے ہو یا ہم سے اور ہمارے دیوتاؤں سے دل لگی اور مذاق کرتے ہو؟’’ اس پرنوجوان کو طیش آگیا۔ اُس نے کہا کہ مَیں تمھاری عقلوں کا ماتم کر رہا ہوں اور اپنے قلب سلیم کی آواز تمھارے کانوں تک پہنچا دینے کا آرزومند ہوں کہ مَیں تمھارے دیوتاؤں کا دشمن ہوں۔ مَیں نے دوستی اور محبت کا رشتہ اسی ایک ذات سے وابستہ کرلیا ہے جس نے مجھے اور تمھیں پیدا کیا۔ جسے زندگی اور موت کی قدرت حاصل ہے جو زمین اور آسمان اور ساری کائنات کا مالک و پروردگار ہے۔ نادان انسانو! میں تمھیں خدائے حقیقی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور تم سے التجا کرتا ہوں کہ تم نادانی اور نافہمی کی ان حرکتوں سے باز آجاؤ جو تم سے بتوں اور مورتیوں کے پوجنے میں سرزد ہورہی ہیں۔نوجوان کی باتیں انسانوں کے اس ہجوم کے دلوں اور دماغوں میں گھر کر رہی تھیں اور ان کی قوت فہم وادراک اس کے استدلال کی قائل ہوئی جاتی تھی۔ بت پرستوں کے گروہ ابراہیمؑ کی باتیں سن کر لاجواب ہوجاتے اور یہ کہہ کر کہ ہم نے اپنے آباؤاجداد کو انھیں مورتیوں کے سامنے سرجھکاتے دیکھا ہے اورو ہ ان کے طریقہ کو چھوڑ کر تمھارے نئے خدا کو قبول نہیں کرسکتے، نوجوان کی طرف سے منہ پھیر لیتے اور اپنے ضمیروں کی آواز اور اپنی عقلوں کی پکار سے بے اعتنائی کا برتاؤ کرتے ہوئے ہیکل کی طرف چلے جاتے۔

            غرض بت پرستوں کے اس قومی تیوہار میں نوجوان کی صدا نے ایک ہلچل ڈال رکھی تھی۔ لوگ جوق در جوق اپنے دیوتاؤں کی پرستش کرنے کے لیے آتے تھے اور راستہ میں ابراہیمؑ کی محیرالعقول باتیں سن سن کر اظہار استعجاب کرتے ہوئے چلے جاتے۔ بعض اُس سے کج بحثی کرنے لگے لیکن اکثر اس کی آواز کو درخوراعتنا خیال نہ کرتے۔ لوگوں کی اس بھیڑ میں جو ہیکل سے اپنے دیوتاؤں کو ماتھا ٹیک کر واپس آ رہی تھی ملک کا فرمانروا نمرود بھی اس ہجوم کے پاس سے ہو کرگزرا جو ابراہیم ؑسے کج بحثی کر رہا تھا۔ لوگوں نے نمرود کی پالکی روک لی اور اس سے شکایت کی کہ صنم تراش آذر کا بیٹا ہمارے دیوتاؤں سے مذاق کرتا ہے اور ہمیں اُن کی پوجا سے منع کر رہا ہے۔ نمرود نے اس نوجوان کو اپنے پاس بلایا۔ ابراہیم ؑ ہجوم کو چیرتا ہوا پالکی کے قریب پہنچا۔ نمرود نے لوگوں کی شکایت کے متعلق استفسار کیا تو ابراہیم ؑنے نہایت بے باکی سے قلمرو بابل کے اس مغرور و سرکش فرمانروا کے سامنے اپنے مشن کی تبلیغ شروع کر دی اور بتوں کی مذمت کرنے کے بعد نمرود کو بھی اسی وحدہ لاشریک کے سامنے سرنیاز جھکانے کی تلقین کی جو ہرچیز پر قادر ہے۔ نمرود نے ابراہیمؑ کا یہ پیغام سن کر کہا: ‘‘اگر ہمارے دیوتا کسی قسم کے نفع و نقصان پر قادر نہیں تو تم اُس خدا کی طاقت و قدرت بیان کردو جس کی عبادت کے لیے ہمیں تاکید کر رہے ہو’’۔ ابراہیم ؑ نے جواب دیا کہ ‘‘میں تمھیں اُس خدا کی پرستش کے لیے کہہ رہا ہوں جس نے ہم سب کو پیدا کیا جو ہمیں زندہ رکھتا ہے اور جو ہمیں وقت مقررہ کے بعد مار ڈالتا ہے۔ میرے خدا کے حیطہ اقتدار میں موت و حیات کی قوتیں ہیں’’۔ نمرود نے کہا: ‘‘اگر تمھارے خدا کا بڑے سے بڑا کمال یہی ہے تو میں اس پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں’ کیونکہ انسانوں کی زندگی اور موت کے اختیارات تو مجھے بھی حاصل ہیں۔ مَیں جسے چاہوں زندہ رکھوں اور جسے چاہوں بیک اشارۂ چشم موت کے گھاٹ اُتار دوں’’۔ ابراہیم ؑ نے نمرود کے اس بودے استدلال پر چمک کر جواب دیا: ‘‘صرف یہی نہیں میرا خدا تو ہرچیز پر قادر ہے’ زمین و آسمان اور ان کی کل کائنات اسی کی قدرت و طاقت کے بل پر قائم ہے۔ میرا خدا سورج کو ہر روز پورب کی سمت سے نکالتا ہے اگر تم ایسے ہی بااقتدار ہو تو ذرا اسی آفتاب کو کسی روز پچھم کی طرف سے نکال کر دکھاؤ’’۔نمرود نوجوان کا یہ استدلال سن کر اور اس کی بے باکی اور جسارت دیکھ کربھونچکا سا رہ گیا۔ اس سے ابراہیم ؑکی اس برہانِ قاطع کا جواب بن نہ پڑا۔ اُس نے کہاروں کو چلنے کا اشارہ کیا اور کچھ اس انداز سے کہ وہ نوجوان کی باتوں کو چنداں قابلِ التفات نہیں سمجھتا۔ آگے روانہ ہوگیا۔

            جہان کو روشن کرنے والا آفتاب دن بھر انسان کی نادانیوں کے مظاہروں کو چشمِ عتاب سے دیکھتا ہوا اُفق مغرب میں روپوش ہوگیا اور آسمان کے لاجوردی نقاب کے روزنوں سے روشن ستاروں نے جھانکنا شروع کیا۔ اُر کے بت پرست ابراہیم ؑ کے ساتھ برابر کج بحثی کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اپنے آباؤاجداد کے طریقے چھوڑ کر کس طرح ایک نوجوان کی باتوں پر یقین کرلیں۔ ابراہیم ؑبھی اپنی قوم کے لوگوں کو دن بھر تلقین کرنے کے بعد تھکان محسوس کرنے لگا تھا۔ اُسے اُر کے باشندوں کی نارسائی فہم اور ان کی ہٹ دھرمی پر افسوس ہو رہا تھا بلکہ غصہ آرہا تھا۔ اُس نے آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھا اور یہ سوچ کر کہ رات کا عمل شروع ہوگیا ہے اور لوگ عنقریب اپنے اپنے گھروں کی راہ لیں گے۔ کہا: ‘‘نادانو! اگر تم میری بات نہیں مانتے اور خدائے برتر و توانا کے مقابلہ میں پتھر کی مورتیوں کو ترجیح دیتے ہو تو میں بھی تمھارے پیٹھ پھیرنے کے بعد تمھارے ان دیوتاؤں کو ایسا مزہ چکھاؤں گا جسے تم یاد ہی کرو گے’’۔چند ساعتوں کے اندر اندر میلہ بکھر گیا اور ہیکل جو آبادی سے بہت دُور واقع ہوئی تھی دن بھر کی ہماہمی کے بعد رات کی سنسان تاریکیوں میں غائب ہوگئی۔ ہیکل کے اندر اور باہر جہاں دن بھر دیوتاؤں کی پرستش کرنے والے انسانوں کا ایک بارونق اژدہام لگا ہوا تھا ایک پُرہیبت سناٹا چھا گیا۔ چاند جو آسمان کی نیلگوں چھت کو طے کرتا ہوا سر پر آپہنچا تھا گھور گھور کر اُر والوں کے ان دیوتاؤں کی طرف دیکھ رہا تھا جن کے سامنے اشرف المخلوق انسان کی گردنیں جھک رہی تھیں۔ رات کی سنسان خاموشیوں میں ایک شخص کندھے پر تیر اُٹھائے ہیکل کے اندر داخل ہوا۔ دیوتاؤں کے سامنے مختلف قسم کے کھانوں’ مٹھائیوں اور اکل و شرب کی دیگر نعمتوں کے دسترخوان بچھے ہوئے تھے۔ سونے اور چاندی کے ڈھیر ان کے سامنے پڑے تھے۔ ہیکل کے اندر داخل ہونے والے شخص نے پتھر کی ان تمثیلوں سے مخاطب ہوکر کہا: ‘‘انسان کی نادانی تمھارے لیے بہترین کھانے چھوڑ گئی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ تم ان کھانوں کی طرف نگاہ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے اور ان نعمتوں کی طرف اپنے ہاتھ نہیں بڑھاتے۔ چاند اور سورج کے اوتارو! تمھاری زبانوں کو کیا ہوگیا۔ تم میرے سوالات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟’اس غصہ آلود گفتگو کے بعد اس شخص نے اپنا تیر اُٹھایا اور پتھر کی مورتیوں کی تواضع شروع کردی۔ تیرکی ضربیں زور زور سے بتوں کے سروں’ گردنوں’ کندھوں اور بازوؤں پر پڑ رہی تھیں اور پتھر کے ٹکڑے ٹوٹ پھوٹ کر دنیا کے اوّلیں بت شکن کے قدموں میں گر رہے تھے۔ ایک ساعت کی پُرجوش محنت شاقہ کے بعد اس اولوالعزم انسان نے ہیکل کی اس داخلی موجودات پر نگاہ ڈالی’ تو اس نے دیکھا کہ سنگ تراشی کے کمالات کی تمام تمثیلیں جو اپنے سامنے انسان کی گردنیں خم کرانے کا موجب تھیں’ خستہ حال اور برباد ہوچکی تھیں۔ چاندنی پہلے کی نسبت زیادہ شگفتہ ہوکر بت شکن انسان کی ہمت پر تحسین و آفرین کے پھول برسا رہی تھی۔ ستارے چشمک زنی کر رہے تھے۔ ہیکل کی موجودات اپنی ذلت و رسوائی پر نادم نظر آتی تھیں اور کائنات اس وحدہ لاشریک لہ کے جلال و جبروت کے سامنے سربسجود ہوکر بت شکن انسان کی اولوالعزمی کا کلمہ پڑھ رہی تھی۔

            اگلے روز صبح کا آفتاب اُر والوں کے ہزیمت خوردہ دیوتاؤں اور ہیکل کی شکستہ مورتیوں پر ہنسی اڑاتا ہوا طلوع ہوا۔ صبح کے وقت پوجا پاٹھ کے لیے آنے والے پجاریوں نے اپنے دیوتاؤں کی خستہ حالی کو دیکھا اور آتش زیرپا ہوگئے۔ مورتیوں کی شکست کی خبر بجلی کی سرعت رفتار کے ساتھ شہربھر میں پھیل گئی اور انسانوں کا وہی ہجوم جو کل پتھر کے ان ٹکڑوں کی عظمت کے سامنے سرنیاز خم کر رہا تھا آج ان کی بربادی اور بیچارگی پر نوحہ خوانی کے لیے جمع ہوگیا۔ بت پرست اور اُن کے کاہن بہت غضبناک ہورہے تھے۔ اژدہام میں ایک ہیجان کا عالم تھا۔آتش غیظ و غضب سے مشتعل ہونے والے صابی اپنے دیوتاؤں کی یہ توہین دیکھ کر آپے سے باہر ہوئے جاتے تھے۔ صنم پرستوں کے درمیان طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہورہی تھیں اور لوگ کہہ رہے تھے کہ ہم نے کل اور اس سے پیشتر آذر کے بیٹے ابراہیمؑ کو ان بتوں کی شان میں مکروہ اور گستاخانہ کلمات کہتے سنا ہے۔ دیوتاؤں کی توہین کا یہ ارتکاب اُسی نوجوان کا کام معلوم ہوتا ہے۔بعض لوگ ابراہیم ؑ کو پکڑ کر موقع واردات پر لے آئے۔ ہیکل کے پجاریوں اور سلطنت کے ارکان نے اس سے بازپرس شروع کردی۔ ابراہیم ؑ نے غضب ناک لوگوں کے اژدہام کثیر میں کھڑے ہوکر ٹوٹے ہوئے بتوں اور شکستہ مورتیوں کی طرف اشارہ کیا اور نہایت بے باکی سے باآواز بلند کہا: ‘‘پتھر کے یہ ٹکڑے تمھارے دیوتا ہیں تم انھیں بڑی بڑی طاقتوں اور قوتوں کا سرچشمہ خیال کرتے ہو۔ ذرا ان ہی سے پوچھ لو کہ کس بت شکن کے تیر نے ان کا اقتدار ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور ان کی عظمت خاک میں ملا دی۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ تمھارے یہ دیوتا رات کی تاریکیوں میں چڑھاوے کی قابوں پر آپس میں لڑ گئے ہوں اور بڑے بت نے اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر چھوٹے بتوں کا یہ حال کردیا ہو’ ذرا ان سے استفسار تو کرو اور دیکھو یہ کیا جواب دیتے ہیں۔ابراہیم ؑ کی یہ باتیں سن کر اُر والوں کے ارباب اقدار کی نظریں جھک گئیں۔ وہ دل ہی دل میں اپنے دیوتاؤں کی بیچارگی پر نادم ہونے لگے اور انھیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا کہ بت محض مٹی کے کھلونے ہیں۔ اُنھوں نے کہا: ‘‘تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ہمارے دیوتا بول نہیں سکتے اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ ان میں آپس میں لڑنے یا کسی کو نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں۔ پھر تم کس طرح کہتے ہو کہ ہمارے دیوتاؤں کی توہین کا ارتکاب بڑے بت نے کیا ہے اور اس فعل کی ذمہ داری کسی انسان پر عائد نہیں ہوتی’’۔اُر والوں کا یہ جواب سن کر ابراہیم ؑ کا چہرہ فرط جوش سے تمتما اُٹھا۔ اس نے ہجوم سے مخاطب ہوکر کہا: ‘‘میں بھی تو یہی کہتا ہوں کہ تمھارے دیوتا کچھ نہیں کرسکتے۔ وہ نہ تمھیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں اور نہ کسی قسم کا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ جب ان میں اتنی طاقت بھی نہیں کہ آپس میں ایک دوسرے کا کچھ بگاڑ سکیں تو تم جو ان مورتیوں کو اپنے ہاتھ سے بناتے ہو کیوں ان کی غیرمعمولی طاقتوں کے قائل ہو؟ کیوں ان سے ڈرتے ہو؟کیوں ان سے مرادیں مانگتے ہو؟ کیوں اپنی گردنیں پتھروں کے سامنے جھکاتے ہو؟ تمھاری عقلوں کو کیا ہوگیا۔ کیوں تم ہدایت کی سیدھی راہ پر گامزن نہیں ہوتے اور اس خدا کی طرف رجوع نہیں کرتے جو اقتدار کلی کا مالک ہے ابراہیم ؑکی اس تقریر نے اُروالوں کو لاجواب کردیا۔ اس کے عقلی استدلال کی بجلی اُن کے دل و دماغ پر گری جس نے ان کے خرمن ادراک کو جلا ڈالا۔ وہ اپنے دلوں میں بہت خفیف اور نادم ہوئے لیکن قائل ہوکر ابراہیم علیہ السلام کے پیغام پر ایمان لانے کے بجائے اُن کے افلاس تعقل نے انھیں اور بھی برافروختہ کردیا۔ ہجوم کی طرف سے دیوتاؤں کی توہین کے انتقام کا مطالبہ ہونے لگا۔ اُر کے بت پرست کہنے لگے کہ ہم ابراہیم ؑکو سنگسار کردیں گے’ اسے جلتی ہوئی آگ کے تنور میں پھینکیں گے۔ ہم اپنے دیوتاؤں کی یہ توہین برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم اپنے آباؤاجداد کے طریقوں کو ایک نوجوان کے استدلال کے سامنے پامال ہوتا دیکھنا گوارا نہ کریں گے؟کاہنوں اور سلطنت کے بااقتدار لوگوں نے مشورہ کیا اور مشتعل ہجوم کے سامنے اعلان کردیا کہ ابراہیم ؑ کو قوانین ملکی کے تحت شدید سزا دی جائے گی۔ وہ بھڑکتی ہوئی آگ کے تنور میں ڈالا جائے گا اس طرح اس سے دیوتاؤں کی توہین کا انتقام لیا جائے گا۔کاہنوں نے لوگوں کو ایک بہت بڑی بھٹی تعمیر کرنے اور اس میں ایندھن جمع کرنے کا حکم دے دیا اور کہہ دیا کہ جو شخص اس بت شکن کے جلانے کے لیے مسالہ کی فراہمی میں حصہ لے گا اس سے دیوتا بہت خوش ہوں گے۔ چند روز کے اندر اندر پختہ اینٹوں اور پتھروں کی ایک بہت بڑی بھٹی تعمیر ہوگئی جس کے اندر ہزاروں من ایندھن بھر دیا گیا۔ تعزیر کے دن اس بھٹی کے پاس اُروالوں کا ایک عظیم الشان میلہ لگا اور ابراہیم ؑ کو بھٹی کے اندر پھینک کر تیل میں ڈوبے ہوئے ایندھن کو آگ لگا دی گئی۔چند لمحہ کے اندر بھٹی کی آگ پورے زور کے ساتھ بھڑک اُٹھی۔ شعلوں کی لپیٹ آسمان سے باتیں کرنے لگی۔ فضا میں دھوئیں کے بادل چھا گئے۔ آفتاب غروب ہونے کو تھا اس لیے اُر والے بت شکن کے جلانے کا پورا انتظام کر کے اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ کائنات ارضی کو رات کے عمل نے آگھیرا۔رات کے دوران میں قدرت کی مختلف قوتیں برسرکار رہیں۔ زلزلہ کے جھٹکوں’ آندھی اور بارش کے طوفانوں’ رعد اور برق کی نیرنگیوں نے اُر والوں کو اپنے گھروں سے سر نکالنے کا موقع نہ دیا۔دوسرے دن کا آفتاب طلوع ہوا تو اُر کے لوگ بھٹی کی آگ کا تماشا دیکھنے کے لیے اپنے اپنے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ گئے لیکن اس میدان میں جہاں اُنھوں نے دیوتاؤں کی توہین کرنے والے بت شکن کے لیے جہنم تیار کی تھی سبزے کی شادابی اور شگفتگی کے سوا اور کچھ نظر نہ آیا۔ نمرود کے پیادے دریافت حالات کے لیے بھاگے ہوئے گئے تو اُنھوں نے دیکھا کہ ابراہیم ؑپھولوں کے ایک خیاباں میں سربسجود ہوکر قادر مطلق کی برتری اور توانائی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ درختوں کی شاخوں پر چہچہانے والے پرند تسبیح میں مشغول ہیں۔ اور کائنات زبانِ حال سے پکار پکار کر اس عظیم الشان پیش گوئی کا اظہار کر رہی ہے کہ مسلک ابراہیم ؑ دنیا بھر کے صنم خانے تباہ و برباد کر کے انسان کی بدعقیدتی کے جہنم کدوں کو ایمان کے گلزاروں میں تبدیل کر کے چھوڑے گا۔