خواہشات کی تکمیل نا ممکن ہے

مصنف : ابوالحسن صدیقی

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : اپریل 2007

دیار غیر میں رہنے والے ہم وطن زندگی کے جس جبر مسلسل سے گزرتے ہیں ، اسے بیان کرنے کے لیے کوئی ایک تحریر کافی نہیں ۔ان کی تصویر کے ہرپہلو کی وضاحت ضخیم کتاب کی متقاضی ہے ۔ یہی وہ مجبور ی ہے کہ جب کوئی بھی لکھاری اس موضوع پر قلم اٹھاتا ہے تو وہ اس کا کوئی ایک ہی پہلو بیا ن کر پاتا ہے اور یقینا یہ پہلو وہ ہی ہوتاہے جس کا تجربہ اسے بار بار ہوا ہوتا ہے ۔ زیر نظر تحریر میں بھی فاضل مصنف نے ایک طبقے کے ایک پہلو کو واضح کیا ہے کیونکہ بہر حال ایسے ماں باپ، بیوی بچے بھی ہیں جنہیں خواہشات کی تکمیل سے زیاد ہ اپنا بیٹا ، باپ یا خاوند عزیز ہوتا ہے اور ان کی ہر دم یہی خواہش ہو تی ہے کہ کب وہ گھڑ ی آئے کہ ان کاپیارا وطن واپس آئے ۔ ان ہم وطنوں کی تصویر کا ایک دوسرا رخ دیکھنا ہو تو ماہ جون ۲۰۰۶ کا شمارے میں‘وطن کے محسن ’ ملاحظہ فرمائیں۔(ادارہ)

            روزی ، روٹی کا حصول ، خواہشات کی تکمیل اور بچوں کوبہتر مستقبل دینے کا خواب وہ معاشرتی مسائل ہیں جن کاحل ڈھونڈنے کے لیے انسان گھر بار اور اہل عیال کو چھوڑ کر در بدر کی خاک چھانتے ہوئے کبھی شہر بدر ہوتا ہے تو کبھی ملک بدر۔ ایک شہر سے دوسرے شہر جا کر روزگار حاصل کرنے میں تو قابل ذکر مشکلات پیش نہیں آتیں لیکن اگر اس سلسلے میں اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے وطن جانا ہوتو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کئی مراحل سے گزرنا ہوتا ہے ۔ان تمام مراحل سے گزر کر جب وہ روزگار حاصل کر لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس کی زندگی میں آرام و آسائش اور راحت آئے یا نہ، البتہ وطن عزیز میں اس کے عزیز و اقارب کی زندگیوں میں قابل ذکر تبدیلیاں ضرورآجاتی ہیں اوروہ اس بات کا احساس کیے بغیر کہ ان کا عزیز پردیس میں کن حالات سے گزر کر ان کے آرام و سکون کے لیے دن رات محنت کرتا ہے ، اپنی پسند اور فرمائشوں کی فہرست تیار کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ان کی نظر میں پردیس چلے جانا ہی دولت مند ہونے کی دلیل ہے ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں مال و دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں جسے بس یہاں سے اٹھانا ہے اور ان کے پاس منتقل کردینا ہے ۔ دور پرے کے عزیز واقارب تو دور کی بات ہے اپنے عزیز و اقارب اور بیوی بچے فرمائشوں پر فرمائش کرتے رہتے ہیں۔ بیوی یہ چاہتی ہے کہ ہر روز نت نئے لباس اور زیورات کی نمائش کرتی رہے ، اسی طرح بچے دوسرے بچوں کے سامنے نئی نئی چیزوں کو دکھا کر یہ باور کراتے ہیں کہ ان کے لیے اب کسی چیز کا حصول نا ممکن نہیں۔ یوں پردیس میں آنے والا اپنی زندگی صحرا کی نذر کر کے وطن عزیز میں اپنے عزیزو اقارب کی خواہشات کی تکمیل کے لیے نہ دھوپ کی تپش کی پروا کر تا ہے اور نہ ہی گر م ہوا کے تھپیڑوں سے گھبراتا ہے ہاں زندگی کے ان شب وروز سے تنگ آکر کبھی وطن جا رہنے کی خواہش کا اظہا رکرتا ہے تو اس کے سامنے مسائل کے انبار لگا دیے جاتے ہیں کہ ابھی یہ مسائل حل طلب ہیں اور تمہارے واپس آ جانے سے ان کی تکمیل نہیں ہو سکتی ۔گویا اس کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف اپنے عزیزوں کی خواہشات کو پورا کرنا رہ جاتا ہے اور اس میں وہ بسا اوقات اتنا محو ہو جاتا ہے کہ اپنی صحت تک گنوا بیٹھتا ہے اور پھر کبھی تو زندگی کی بازی ہار جاتا ہے اور کبھی اس معذوری کو پہنچ جاتا ہے جو اسے دوسروں کا محتاج بنا دیتی ہے اور اسے عرش سے فرش پر پہنچا دیتی ہے لہذا وطن عزیز میں ر ہنے والے اپنے پردیسی عزیز پر اتنا ہی بوجھ ڈالیں جس کا وہ متحمل ہو سکے کیونکہ انسانی خواہشات کی تکمیل نہ کبھی ہو سکتی ہے اور نہ ہی کسی مقام پر یہ اطمینان ہوتا ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔