ایک منفرد اورانوکھا دعوتی تجربہ

مصنف : شفیق الاسلام فاروقی

سلسلہ : تبلیغ و دعوت

شمارہ : جنوری 2007

            راقم کو تقریباً نصف صدی تک’ ایک خاص دائرے میں دعوتی کام کرنے کا موقع ملا۔ اس ضمن میں جو ذاتی تجربات پیش آئے’ وہ ایک دلچسپ اور اپنی نوعیت میں منفرد داستان ہے جس کا آغاز ۱۹۵۵ء میں منڈی بہاؤالدین میں ہوا۔ تب راقم وہاں روزنامہ تسنیم کا اعزازی نمائندہ بھی تھا’ مصباح الاسلام فاروقی اس کے مدیر تھے۔ اختصار کے ساتھ اس کی ایک جھلک پیش خدمت ہے:

            بنیادی طور پر یہ دعوتی کام چار دائروں پر محیط ہے:

٭ مغرب میں اشاعتِ اسلام

٭ امریکی جیلوں میں دعوتی کام

٭ بیرون ملک رسائل و جرائد سے مراسلت

٭ انفرادی رابطہ اور کارکن سازی

مغرب میں اشاعتِ اسلام

            مجھے ابتدا ہی سے اسلام’ عالم اسلام اور بین الاقوامی امور سے دلچسپی رہی ہے۔ اپنے ذوق مطالعہ کی تسکین کے لیے ایک موقع پر ایک رسالے کی ورق گردانی کے دوران’ جنوبی کوریا میں ترک بریگیڈ کے مسلمان فوجی دستے کے امام ‘‘زبیر قوج’’ کی طرف سے ایک اپیل نظر سے گزری کہ جنوبی کوریا میں اسلام کی تبلیغ کے لیے اسلامی لٹریچر ارسال کیا جائے۔ میں نے اس اپیل کو اپنے دل کی آواز سمجھتے ہوئے Towards Understanding Islam(دینیات کا انگریزی ترجمہ) کے ۶ نسخے ارسال کر دیئے جو انھیں موصول ہوگئے۔ دینیات کو موثر اور مفید پاکر انھوں نے لکھا کہ مزید ۶نسخے ارسال کیے جائیں’ چنانچہ میں نے مزید ۶ نسخے بھجوا دیئے۔ تین ماہ بعد ان کا خط آیا کہ اس کتابچے کا کوریائی زبان میں ترجمہ کرلیا گیا ہے جس سے تبلیغ کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت بے پایاں ہے کہ شر میں خیر کا پہلوپنہاں ہوتا ہے۔ شمالی کوریا نے ۱۹۵۱ء میں جنوبی کوریا پر دونوں حصوں کو متحد کرنے کے لیے حملہ کیا۔ جنوبی کوریا پر امریکی فوج کی چند بٹالین قابض تھیں’ جو شمالی کوریا کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھیں۔ کیونکہ اسے روس اور چین کی حمایت بھی حاصل تھی۔ چنانچہ شمالی کوریا کا حملہ ہونے پر امریکا نے اپنے اتحادیوں کو مدد کے لیے بلایا جس پر ترکی نے بھی اپنا ایک بریگیڈ امریکی امداد کے لیے بھیج دیا۔ اس ترک بریگیڈ کے ذریعہ ہی کوریا میں اشاعتِ اسلام کی راہ ہموار ہوئی جب کہ ترک بریگیڈ کے امام کی طرف سے ہی اسلامی لٹریچر ارسال کرنے کی اپیل شائع کی گئی تھی۔غالباً ۱۹۶۲ء میں ترک بریگیڈ کی واپسی سے قبل’ اس نے سیول میں کوریا اسلامک سوسائٹی کے نام سے اسلامی تنظیم کی بنیاد رکھ دی اور مجھے مطلع کر دیا کہ میں آیندہ اس تنظیم سے مراسلت جاری رکھوں۔ مگر اس تنظیم کی طرف سے میرے خطوط کا کوئی جواب نہیں ملا۔اسلام نے اس سرزمین میں خاصی قبولیت حاصل کی۔ چند ہی سال بعد سیول کے ایک تعلیمی ادارے میانگ جی کالج میں مسلم طلبہ نے نہ صرف میانگ جی مسلم اسٹوڈنٹس یونین کے نام سے’ اس کالج کے مسلم طلبہ کی ایک تنظیم کی بنیاد رکھ دی’ بلکہ میانگ جی مسلم ہیرالڈ کے نام سے اپنا ایک خبرنامہ بھی شائع کرنا شروع کردیا۔ ۱۹۶۷ء کے خبرنامے کے مطابق اس کالج میں مسلم طلبہ کی تعداد ایک سو سے زائد تھی۔ بعدازاں کوریا اسلامک سوسائٹی نے اپنا نام تبدیل کر کے کوریا مسلم فیڈریشن رکھ لیا اور حاجی صابری سونگ کلی سوہ پہلے صدر مقرر ہوئے۔اس وقت میرے سامنے کوریا مسلم فیڈریشن کی فائل ہے۔ ذیل میں’ راقم کے نام فیڈریشن کے ۱۸ جون ۱۹۶۸ء کے ایک خط سے اقتباس پیش ہے:

            ‘‘۱۵ سال قبل کوریا میں کوئی مسلمان نہ تھا۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس ملک میں ۳ہزار سے زائد کوریائی مسلمان ہیں جن میں ۱۰۰ سے زائد تعداد کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے طلبہ کی ہے’ جب کہ بقیہ بیش تر پروفیسر’ ٹیچر’ ڈاکٹر انجینئر’ تاجر’ سرکاری افسران اور ایک ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہیں۔’’

            آج کوریا میں مسلمان مرد و خواتین کی تعداد ۵۰ ہزار سے زائد ہے جس میں بیش تر ایسے باشعور تعلیم یافتہ افراد ہیں جنھوں نے اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر خلوصِ دل سے اسلام قبول کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں قبولِ اسلام کا رجحان تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔لوگوں کے تیز رفتاری سے قبولِ اسلام کا تقاضا تھا کہ جلداز جلد ایک مسجد تعمیر کرلی جائے۔ چنانچہ میرے نام ۱۹۶۲ء کے خط کے مطابق’ دارالحکومت سیول میں مسجد کی تعمیر ایک باقاعدہ منصوبے اور ڈیزائن کے تحت شروع کر دی گئی اور مجھے زیرتعمیر مسجد کی چند تصاویر بھی بھیجی گئیں جس میں خود کوریا کے ہر طبقے کے مسلم افراد کے علاوہ’ مختلف ممالک کے مسلمانوں نے بھی دل کھول کر مالی تعاون کیا۔ میں نے بھی ۱۹۶۸ء میں مختلف سرکاری مراحل طے کر کے ۱۲ ڈالر کی رقم بنک ڈرافٹ کے نام ذریعہ ارسال کی’ جس کی رسید کوریا مسلم فیڈریشن کے لیٹرہیڈ پر پریذیڈنٹ’ سیکرٹری جنرل اور ڈائرکٹر جنرل کے دستخطوں کے ساتھ مجھے ملی جو میرے ریکارڈ میں موجود ہے۔ ان دنوں ایک امریکی ڈالر ساڑھے چار روپے کے برابر تھا۔ بہرحال سیول میں وسیع رقبے پر ایک خوبصورت اور عالیشان مسجد تعمیر ہوئی۔ ۱۹۹۵ء تک پانچ شہروں میں مزید پانچ خوب صورت مساجد تعمیر ہوچکی تھیں۔ ان سب کی تصاویر میرے پاس موجود ہیں۔ یقینا اس کے بعد بھی مزید مساجد کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہوگا۔یہ ایک غیرمسلم ملک میں مضبوط بنیادوں پر اشاعت اسلام کی تیزرفتاری کی ایک معمولی جھلک تھی۔

            الحمدللہ’ اس طرح سے مجھے بہت سے غیرملکی افراد اور اداروں سے مراسلت اور ترسیل لٹریچر کا موقع ملا۔ ان میں بحرالکاہل کے جزائر فجی’ نیوزی لینڈ’ براعظم آسٹریلیا’ تائیوان اور بحراوقیانوس کے جزائر ماریشس’ ویسٹ انڈیز اور افریقہ کے مختلف ممالک شامل ہیں۔ اگر کوئی فرد’ مذکورہ ممالک میں اشاعت ِ اسلام کے مختلف مراحل پر تحقیق کرنا چاہے تو اس کے لیے وافر مواد موجود ہے۔

امریکی جیلوں میں دعوتی کام

            گذشتہ ۲۵ سال سے زائد عرصے سے بذریعہ مراسلت اور ترسیل اسلامی لٹریچر میں انفرادی طور پر خالصتاً رضائے الٰہی کے جذبہ سے’ امریکی جیلوں میں دعوتِ دین کا کام بھی کر رہا ہوں۔امریکی جیلوں میں دراصل میرے کام کرنے کا سبب اسلامک پبلی کیشنز بنا۔ اس ادارے کی انگریزی مطبوعات کسی نہ کسی ذریعہ سے نہ صرف امریکی جیلوں میں پہنچتی رہی ہیں بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی۔ چنانچہ جس شخص کے پاس اس ادارے کی انگریزی زبان کی کوئی اسلامی کتاب پہنچی’ اس نے اس ادارے کو خط لکھا کہ وہ نومسلم ہے اور اس نے جیل میں اسلام قبول کیا ہے اور وہ اسلام کو مزید سمجھنا چاہتا ہے۔ اسے جیل کے پتے پر کوئی اسلامی کتاب بھیجیں’ یا وہ غیرمسلم ہے اور جیل کے ایک مسلمان ساتھی کے ذریعہ آپ کے ادارے کی فلاں کتاب مطالعہ میں آئی ہے’ جس کی وجہ سے وہ اسلام کو مزید سمجھ کر قبول کرنا چاہتا ہے لہٰذا اس کے پتے پر کوئی موزوں کتاب بھیجی جائے’ یا میں اس جیل میں کافی عرصے سے قید ہوں اور میں خود صوم و صلوٰۃ کا پابند ہوں اور اس جیل میں بڑی تعداد میں اور بھی مسلمان قید ہیں۔ ضرورت ہے کہ انھیں اسلام کی زیادہ سے زیادہ تعلیمات سے آراستہ کیا جائے۔ لہٰذا اس پتے پر اسے اسلامی لٹریچر ارسال کیا جائے۔کوئی ۳۰ سال قبل میں وقتاً فوقتاً کتب کی خریداری کے لیے اسلامک پبلی کیشنز کے دفتر واقع شاہ عالم مارکیٹ لاہور آتا جاتا رہتا تھا۔ ابتدا ہی سے تجسس میرے مزاج کا حصہ رہا ہے۔ چنانچہ بیرون ملک سے آئی ہوئی ڈاک بھی میرے لیے باعث دلچسپی تھی۔ میرے پوچھنے سے پتا چلا کہ یہ کسی امریکی جیل سے آتی ہے۔ اسلامک پبلی کیشنز والوں نے بتایا کہ وہ ان خطوط کو ضائع کر دیتے ہیں کیونکہ ادارے کی پالیسی کے تحت وہ کوئی کتاب بلاقیمت کہیں ارسال نہیں کرسکتے لہٰذا میں نے ان سے گزارش کی کہ ایسی ڈاک میرے لیے رکھ لیا کریں۔ میں یہ خطوط ارسال کرنے والے قیدیوں سے خود رابطہ قائم کروں گا اور ادارے سے اسلامی لٹریچر خرید کر انھیں ارسال کروں گا۔ اس طرح امریکی جیلوں میں دعوت کے کام کا آغاز ہوا۔ اس عرصہ میں جیلوں میں قید سیکڑوں امریکی قیدیوں سے میرا تعلق قائم ہوا’ اور میں نے اُن کو خطوط لکھے اور اُن کو اسلامی لٹریچر بھیجا۔بیش تر قیدی جو جیل سے باہر کی زندگی میں غیرمسلم تھے وہ اچھے پڑھے لکھے تھے ’ لیکن بے مقصد زندگی کی وجہ سے وہ کسی جرم میں ملوث ہوگئے۔ لیکن جب جیل میں اسلامی شعائر کے پابند کسی مسلمان قیدی کو دیکھا’ تو ان کے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ وہ اسلام کے بارے میں تحقیق کریں۔ چنانچہ اسلامی شعائر کے پابند کسی مسلمان قیدی سے جب کسی غیرمسلم قیدی کو سادہ رہن سہن اور اسلام کی فطری تعلیمات میں معاشرتی زندگی کا ایک خوبصورت تصور نصیب ہوا’ تو اب اُس نے یہ ضروری خیال کیا کہ کوئی شخص یا ادارہ اس کی صحیح رہنمائی کرے۔ لہٰذا جس قیدی کو کسی دوسرے قیدی کے ذریعہ اسلامک پبلی کیشنز کی کوئی کتاب میسر آئی’ اس نے اسے خط لکھ دیا وہ نومسلم یا غیرمسلم ہے اور اسلام کو سمجھنا چاہتا ہے’ اس لیے اسلامی لٹریچر بھیجا جائے۔ ایک بات’ جو ان قیدیوں کے خطوط میں مشاہدے میں آئی ہے وہ ہمارے ملک کی جیلوں کے قیدیوں سے بالکل مختلف ہے۔ ہمارے ملک کی جیلوں کے اکثر قیدی بلاشبہ کسی جرم کے مرتکب ہونے کے ساتھ معمولی تعلیم سے بھی عاری ہوتے ہیں’ چہ جائیکہ ان سے یہ توقع رکھی جائے کہ وہ اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرنے والے ہوں’ جب کہ امریکی قیدی جن کے ساتھ میرا تعلق قائم ہوا ہے بلااستثنا اچھی سوچ و فکر کے مالک اور ان کا ہینڈ رائٹنگ بھی اچھا ہوتا ہے۔ میں چاہوں گا کہ قارئین کو یہاں بعض قیدیوں کے کام سے متعارف کراؤں۔

            میرا سب سے زیادہ تعلق ڈلاویر ریاست کی سمرنا (Smyrna) جیل سے اب تک چلا آ رہا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس جیل میں ہمیشہ مسلمان قیدیوں کی کافی تعداد موجود رہی ہے۔ جیل سے ملحق ایک مسجد الزمر کے نام سے موجود ہے جس کے امام عبدالرحمن ہیں۔ میرا ان سے تعلق قائم ہوا اور مراسلت رہی ہے اور میں انھیں اسلامی لٹریچر بھی بھیجتا رہا ہوں۔ امریکی جیلوں میں وارث دین محمد کی جماعت ‘نیشن آف اسلام’ کے پیروکار بھی ہوتے ہیں جو بعض مخصوص نظریات کے حامل نسلی تعصب کی بنیاد پر قائم کی گئی تنظیم ہے’ جس کا اسلام کی حقیقی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاہ فام امریکیوں میں اس کی دعوت اپنے اندر کافی کشش رکھتی ہے’ جب کہ یہ خود بھی سیاہ فام ہیں۔ ایسے میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ وہاں دعوت کا کام کتنا مشکل ہوگا؟محترم عبدالرحمن کے ایک خط سے’ جو انھوں نے یکم مئی ۱۹۸۸ء مطابق ۱۵ رمضان ۱۴۰۸ھ کو تحریر کیا اور جو پانچ صفحات پر مشتمل ہے’ معلوم ہوتا ہے کہ ان سے میرا تعلق ۱۹۸۲ء میں قائم ہوا اور مجھ سے مراسلت سے قبل وہ عام قیدیوں کی طرح تھے’ لیکن خوب ذہین’ تاہم یہ معلوم نہیں کہ انھوں نے اسلام کب قبول کیا۔عموماً وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اور خوش خط عربی سے اپنے خطوط کا آغاز کرتے ہیں اور اپنے خطوط میں ‘‘الحمدللہ، اللہ کا شکر’’ کا بار بار استعمال کیا ہے۔ ان کے ذریعہ کئی غیرمسلم امریکیوں کو قبولِ اسلام کی نہ صرف سعادت نصیب ہوئی بلکہ صحیح اسلامی زندگی اپنانے کی بھی۔ بیشتر خطوط انھوں نے جمعہ کے روز اور خطبۂ جمعہ دینے کے بعد لکھے ہیں اور ان تمام خطوط سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا علم و فہم دین صحیح ہے’ جس کا کسی امریکی جیل کے ایک نومسلم قیدی سے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے خطوط سے ہی معلوم کرسکا ہوں کہ ایک مرتبہ میں نے انھیں Towards Understanding Islam کے ۶ نسخے بھیجے تھے جن سے انھوں نے نہ صرف خود استفادہ کیا’ بلکہ نومسلم قیدیوں کو بھی صحیح اسلامی تعلیم سے متعارف کرایا۔ تفہیم القرآن کے انگریزی ترجمہ کی جلد اول’ سوم’ ہفتم اور ہشتم بھی انھیں بھیجی تھیں جو انھیں موصول ہوئیں اور ان سے خوب استفادہ کیا گیا۔امریکی جیل کا یہ قیدی مجھے ایک خط میں لکھتا ہے کہ: ‘‘مجھے اسلام میں پانچ فقہی مسالک کا علم ہے لیکن اس جیل میں دعوت کے کام کے لیے میرے لیے Towards Understanding Islam بہترین کتاب ثابت ہوئی ہے اور میں اسے زیادہ سے زیادہ تقسیم کرتا رہتا ہوں’’۔میرے پاس ان کے جتنے بھی خطوط ہیں’ وہ ایمان تازہ کرنے والے ہیں کیونکہ ہرخط میں انھوں نے ایک یا دو افراد کے قبولِ اسلام کی سعادت حاصل کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک خط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہاں سزاؤں کے بارے میں مختلف قوانین ہیں۔ ایک قیدی کے بارے میں انھوں نے لکھا کہ اسے ۴۵ سال کی سزا ہوئی ہے مگر میں اس کوشش میں ہوں کہ وہ کم ہوجائے اور مجھے امید ہے کہ وہ کم ہوکر صرف ۶سال رہ جائے گی۔چونکہ امریکا میں قید کی سزاؤں کے بارے میں مختلف قوانین ہیں جن میں جیل کے حکام کی طرف سے نیک چلنی کی وقتاً فوقتاً رپورٹوں کے باعث سزا میں تخفیف بھی ہوسکتی ہے۔ پھر ایک جیل سے کسی دوسری جیل میں بھی منتقل کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ بعض قیدی جو سزا میں تخفیف کے باعث رہا ہوجاتے ہیں’ رہائی کے بعد ان سے مراسلت ختم ہوجاتی ہے۔سمرنا جیل کے امام سے مراسلت اور ان کے ذریعہ جیل میں دعوتِ دین اور قبولِ اسلام سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ امریکی جیلیں’ جیلیں نہیں بلکہ متلاشیانِ حق کے لیے قبولِ حق کی سعادت کا سرچشمہ ہیں۔ میرے سامنے اُس عرب قیدی کی جیل کے ایک سفیدفام نومسلم قیدی عبداللہ کا خط ہے’ جو اس نے مجھے میرے خط مورخہ ۲۷ جون ۲۰۰۳ء کے جواب میں مورخہ ۹ جولائی ۲۰۰۳ء کو لکھا۔ اپنے خط کے ساتھ اس نے چند سیاہ فام قیدیوں کے ساتھ اپنی تصویر بھی بھیجی ہے جس میں اس نے اپنے ہاتھ میں قرآن پاک کے انگریزی ترجمے کا نسخہ تھام رکھا ہے۔اس نے اپنے خط میں قبولِ اسلام کی کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ اس نے اسلام کیسے قبول کیا’ صرف اتنا لکھا ہے کہ ۱۹۹۴ء میں جیل میں ہی اس نے اسلام قبول کیا۔ خط لکھتے وقت اس نے اپنی عمر ۳۲سال لکھی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ۲۳ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ وہ کسی امریکی بنک میں ڈکیتی کے جرم میں گرفتار ہوا ہے’ اور لکھتا ہے کہ اس کی جیل میں ڈیڑھ سو سے زائد مسلمان قیدی ہیں اور اُن میں اچھے اور برے دونوں طرح کے ہیں۔ اپنے خاندان کے بارے میں لکھتا ہے کہ اس کا باپ کافر ہے’ اس کے علاوہ اس کا اور کوئی خاندان نہیں۔ دین سے اپنے شغف کے بارے میں اس نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اس نے قرآن کریم کی ۳۸ سورتیں حفظ کرلی ہیں جب کہ اپنے خطوط کی ابتدا بھی وہ عربی میں تحمید و صلوٰۃ سے کرتا ہے۔ حیرانی ہوتی ہے کہ اس نے ۹سال کی قید کے دوران میں اسلام کا کتنا علم حاصل کیا ہے اور اپنی زندگی کو اسلام میں کتنا ڈھال لیا ہے’ جو ہم آزاد زندگی میں بھی نہیں کرپاتے۔ وہ لکھتا ہے کہ اس نے احادیث’ فقہ’ تفسیر’ علوم القرآن’ اسلامی تاریخ اور تجوید پر وسیع مطالعہ کر رکھا ہے۔اس وقت میرے سامنے ریاست اویائیو کے ایک ایسے قیدی عبدالغفار کے ۱۹۹۷ء تا ۱۹۹۹ء کے پانچ خطوط ہیں جس نے جیل میں اسلام قبول کیا۔ ایک خط میں’ میں نے اسے لکھا کہ جیل میں آنا اس کے لیے باعثِ رحمت ہوا۔ اس نے جواباً لکھا کہ واقعتا ایسا ہی ہے۔ کیونکہ مجھ سے مراسلت نے اسے وارث دین محمد کی ‘‘نیشن آف اسلام’’ سے بچالیا۔ اس کی تحریر بڑی عمدہ ہے’ اس نے عربی لکھنا بھی سیکھ لیا ہے۔ اپنی والدہ اور اپنے چار بچوں’ سب کو ان شاء اللہ وہ اسلام میں داخل کرے گا۔ اس کے چار بچے جیل میں آنے سے قبل کے اور بغیر کسی باقاعدہ شادی کے ہیں’ لیکن وہ ان کو اپنی اولاد کہتا اور سمجھتا ہے۔ بڑی اولاد بیٹی ہے جس کی عمر ۱۸ سال ہے ۔ اولاد میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے اور وہ جیل سے ان کو دعوتِ دین دے رہا ہے۔

            میری مراسلت کئی سو قیدیوں پر محیط ہے۔ ان میں بیش تر سیاہ فام ہیں’ چند گورے امریکی اور ایک خاتون قیدی بھی ہے۔ اگرچہ امریکا میں جرائم کا رجحان بڑھ رہا ہے لیکن میرا رابطے میں آنے والے قیدیوں میں سے کوئی بھی جنسی جرائم میں ملوث نہیں۔ بیش تر ڈکیتی’ قتل اور لڑائی جھگڑے اور دنگافساد کے الزام کے تحت قید ہیں۔ مجھ سے مراسلت’ فراہمی لٹریچر اور اس کے مطالعے نے ان پر مثبت اثرات مرتب کیے اور سبھی کو اسلام کا ایک اچھا مبلغ بنا دیا۔شروع میں دینیات’ اسلام و جاہلیت’ شہادتِ حق کے انگریزی تراجم’ انگریزی رسالے Impact (برطانیہ) اور Radiance (بھارت) کے منتخب مضامین بڑے کارآمد رہے ہیں۔ بعد میں ذہنی خلجان کے مطابق مذہبی اور سیاسی مواد بھی بھیجا جاتا رہا ہے۔ قیدیوں سے میرے رابطے کی ایک صورت اسلامک پبلی کیشنز تھی۔ پہلے اسلامک پبلی کیشنز کے ہاں خطوط کے ذریعے لٹریچر کی مانگ اور دعوتی کتب کی طلب ہوتی رہی ہے لیکن اب وہ بتاتے ہیں کہ کوئی خط نہیں آتا۔افسوس ہے کہ جیل سے رہائی کے بعد قیدیوں نے مراسلت کا سلسلہ بند کردیا لیکن سیکڑوں کی تعداد میں جو قیدی رہا ہوئے وہ سبھی نومسلم تھے اور مجھ سے مراسلت نے ان میں انقلاب برپا کردیا۔ امید ہے کہ اب وہ امریکی معاشرے میں یقینا ایک عمدہ کردار کے کامالک ہوں گے۔امریکی جیلوں کے علاوہ افریقی ممالک میں بہت زیادہ دعوت کے کام کی ضرورت ہے۔ اس دائرے میں بھی میرا وسیع تجربہ ہے۔ ابھی زمبیا (Zambia) میں بھی میں نے ایک عیسائی نومسلم کے ذریعہ دعوت کاکام شروع کیا ہے۔میں نے اپنے محدود وسائل کی حد تک جیلوں میں دعوت کے کام کو جاری رکھا’ مسائل و مشکلات کا سامنا بھی رہا’ لیکن مسبب الاسباب نے کسی نہ کسی طور اس کام کو آگے ہی آگے بڑھایا۔ اگرچہ ۱۱ستمبر کے واقعے سے رابطے میں مسائل کا سامنا ہے۔ حکومت نے ڈاک خرچ میں بے تحاشا اضافہ کر کے یقینا امریکی و صہیونی عزائم کی تکمیل چاہی ہے کہ لٹریچر وغیرہ کی ترسیل عملاً ممکن نہ رہے۔ مگر ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود جس رفتار سے امریکا میں اسلام اپنے قدم جما رہا ہے اور خود امریکی شہری جس طرح صہیونیت کے خلاف اپنی نفرت کا کھلے بندوں اظہار کرتے ہیں۔ اس سے یہ امید بندھتی ہے کہ صہیونیت کے خلاف امریکی عوام کی یہ ملک گیر نفرت بالآخر نہ صرف امریکا میں’ بلکہ دنیا بھر میں سامراجی و صہیونی عزائم کے خاتمے کا باعث ہوگی’ اور اسلام غالب آکر رہے گا۔ ان شاء اللہ!

بیرون ملک رسائل و جرائد سے مراسلت

            دعوتی سرگرمیوں کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ میرے بعض احباب نے گذشتہ پندرہ’ بیس برس میں کم و بیش لندن کے تمام اخبارات میں سے بین الاقوامی اور عالمِ اسلام کے حالات اور ان کے منتخب اداریوں کے اصل تراشے اتنی تعداد میں ارسال کیے ہیں کہ میرے پاس ایک ایسا وافر ذخیرہ جمع ہوچکا ہے کہ اس کی مدد سے مختلف موضوعات پر تحقیقی کام ہوسکتا ہے۔ بش اور بلیئر کے خلاف برطانوی اخبارات نے اتنا کچھ لکھا ہے کہ یہ دونوں نام برطانیہ میں گالی بن کر رہ گئے ہیں۔ان اخبارات میں بعض کالم نویس اپنے کالموں میں اسلام کے خلاف اپنے تعصب کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل معروف روزنامہ ڈیلی میل میں کیمبرج یونیورسٹی کے ایک پروفیسر جان کیسی کا’ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک فرضی تصویر کے ساتھ ایک مضمون شائع ہوا۔ جس میں ایک طرف نبی کریمؐ کی ذات مبارکہ کو غیرمعمولی صلاحیتوں کا مالک’ بروقت صحیح فیصلہ کرنے والا اور انتہائی دلیر اور جرأت مند کے طور پر پیش کیا گیا’ وہاں نعوذ باللہ عورتوں کا عاشق اور قزاق کے لفظ بھی استعمال کیے گئے۔ میں نے اس روزنامے کے چیف ایڈیٹر کو خط لکھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرزہ سرائی پر ان کی گرفت کی وہاں یہ بھی لکھا کہ یہ عیسائیت ہی ہے جس نے حضرت عیسٰی ؑکا مختلف فرضی حالتوں میں بت بنا کر ان کو خدا کا درجہ دیا’ جب کہ آپ سمیت پوری دنیا جانتی ہے کہ ہمارے یہاں پیغمبراسلامؐ کی تصویر کا تصور تک نہیں پایا جاتا۔چیف ایڈیٹر نے میرے خط کا جواب دیا کہ روزنامے نے اگلے ہی روز معذرت شائع کر دی تھی اور اس نے معذرت کی نقل بھی ارسال کی۔ میں نے ایڈیٹر سے متعلقہ کالم نویس کا پتا بھی طلب کیا’ جو اس نے مجھے ارسال کیا۔ چنانچہ میں نے کیمبرج یونیورسٹی کے اس پروفیسر کو خط تحریر کیا اور اس کی نقل روزنامے کے چیف ایڈیٹر کو بھی ارسال کی۔ اگرچہ اس نے میرے خط کا کوئی جواب تو نہ دیا لیکن میرا ایک مقصد اسے قائل کرنا تھا کہ اس نے پیغمبرؐ اسلام کی ذات ِ مبارکہ کو اپنی تنقید کا جو نشانہ بنایا ہے’ وہ اس جیسے اسکالر کی علمیت اور مقام سے گری ہوئی بات تھی۔اس طرح وقتاً فوقتاً برطانوی اخبارات میں بعض مضامین شائع ہوتے رہے ہیں جن کا میں نے جواب دیا ہے۔ بعض امریکی اور برطانوی اسکالروں سے بھی صہیونیت کے خلاف میری مراسلت رہی ہے۔اس میدان میں بھی مجھ سے جو بن پڑا ہے’ میں نے اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں برتی۔ کوئی دو ڈھائی سال قبل اسی اخبار میں Pakistan today is the most dangerous place on earth کے عنوان سے پاکستان کے خلاف ایک مضمون شائع ہوا’ جس کا نہ ہماری امریکہ نواز حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے آیا اور نہ ہمارے انگریزی یا اُردو اخبارات نے ہی کوئی نوٹس لیا’ البتہ میں نے اس اخبار کے چیف ایڈیٹر (ایڈیٹوریل) Fred Hiattکو کئی حوالہ جات کے ساتھ ۲۰ صفحات کا خط لکھا جس کا عنوان تھا:

 U.S.A & U.K's Goverment under Zionism control are the only enemies of world peace.

 Bush, Blair and Sharon are war criminals.

            میں نے اس خط کی نقول اسلام آباد میں تمام غیرملکی سفیروں’ پاکستانی وزیرخارجہ اور لندن کے بعض اخبارات کے چیف ایڈیٹر اور بعض مغربی دانشوروں کو بھی بھیجیں۔ اس کے جواب میں مشہور صہیونیت مخالف امریکی دانشور اور مصنف پال فنڈے کا خط میرے لیے ایک بڑا اعزاز ہے۔ اسی طرح لندن کے لارڈ میئر کا میرے نام ذاتی خط بھی میرے لیے ایک یادگار ہے کہ میں نے قوم یہود اور ہنود کے خلاف عیسائیت اور اسلام دشمنی جنگ کے بارے میں اسے اپنا ۱۶ صفحات کے اس مضمون کی جو نقل بھیجی تھی’ اس نے یورپین سوشل فورم کے ۲۰ ہزار یورپی اسکالروں اور دیگر شعبوں کے اجتماع میں’ میرے اس مضمون کو بطور ایک ایشو پیش کیا۔ اس طرح سے بیرون ممالک کے رسائل و جرائد سے مراسلت کا سلسلہ جاری رہا اور اسلام کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کے تدارک اور اسلام کی حقیقی تصویر اور پیغام کو پیش کرنے کی مقدور بھر کوشش جاری رہی اور یہ سلسلہ الحمدللہ ابھی تک جاری ہے۔

انفرادی رابطہ و کارکن سازی

            اپنی دعوتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے پیش نظر میرا یہ معمول چلا آ رہا ہے کہ میرے رابطے میں جو بھی فرد آیا’ دفتر میں’ دوران سفر یا کہیں بھی’ میری کوشش رہی ہے کہ اس اتفاقی تعارف کو ایک مستقل رابطے میں بدل دوں اور ایک فرد کے اندر اس کی ذمہ داریوں کا احساس اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اُبھارا جائے اور حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ مستقبل میں تحریک کو اچھے کارکن میسرآسکیں۔ میں تعارف حاصل کرتا’ پتا اپنی ڈائری میں درج کرتا اور پھر باہمی گفتگو کے بعد اپنے بیگ سے لٹریچر یا پمفلٹ وغیرہ تحفتاً دیتا اور پھر مراسلت جاری رکھتا۔ میری کوشش رہی ہے کہ نوجوانوں کو خاص طور پر آگے بڑھایا جائے اور خاص طور پر عبدالحمید صدیقی کی کتاب ‘‘انسانیت کی تلاش’’ بہت سے لوگوں کو تحفتاً دی۔ میں نے اپنی کتاب ‘‘کارکن کی یادداشتیں’’ میں اپنے تجربات کا مفصل تذکرہ کیا ہے۔ اندرون ملک مراسلت کا ایک ریکارڈ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے جو کارکن سازی’ تربیت افراد’ دعوتی مسائل اور رہنمائی وغیرہ کے موضوعات پر ایک اچھا مواد ہے۔اشاعت ِ اسلام کے لیے بیرون ملک مراسلت و ترسیل لٹریچر’ امریکی جیلوں میں قیدیوں میں دعوت کا کام’ ملکی و غیرملکی جرائد میں اسلام کے خلاف چھپنے والی تحریروں پر ردعمل’ گرفت اور ترسیل لٹریچر اور اس کے ساتھ ساتھ اندرون ملک افراد سے بڑے پیمانہ پر مستقل رابطہ’ اور کارکن سازی کے لیے مساعی…… اس پر خدا کا جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے۔ کبھی سوچتا ہوں کہ اہلِ خانہ کی ذمہ داریوں اور حصولِ رزق کی سرگرمیوں کے ساتھ یہ ہمہ جہت اور عالم گیر نوعیت کا کام بغیر کسی معاونت اور مالی تعاون کے کیسے انجام پا گیا ہے۔

(بشکریہ ، ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور ستمبر ۲۰۰۵)