عمر خیام

مصنف : پروفیسر خادم علی ہاشمی

سلسلہ : تاریخی شخصیات

شمارہ : جنوری 2007

قسط ۔ اول

طبیب، فلسفی، منجم، سائنس دان، ریاضی دان، ماہرفلکیات اور شاعر

            ساتویں سے گیارہویں صدی عیسوی تک چار پانچ سو سال کا عرصہ علوم و فنون میں مسلمان علما کی عظیم الشان کامرانیوں کا دور تھا۔ سلطنت روما کے غلبہ کے ساتھ ہی یورپ تاریکی میں ڈوب گیا۔ اس دور کو مغربی مورخ ‘‘تاریک دور’’ (Dark Ages) کا نام دیتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلام کے غلبہ نے علم و فن کی قندیلیں روشن کردیں اور علوم و فنون کی اس نشاۃ ثانیہ سے کُل دنیا منور ہوگئی۔ اس دور میں سائنسی و سماجی علوم’ ادب و فن’ آرٹ و موسیقی’ الغرض ہر میدان میں قابل قدر اضافے ہوئے اور نئے علوم و فنون کی بنیاد رکھی گئی۔ ایک یورپی عالم کے مطابق: ‘‘اگر عرب بھی منگولوں کی طرح اُجڈ اور وحشی ہوتے’ جنھوں نے مشرق میں علوم کی شمع کو مکمل طور پر بجھا دیا اور وہ دوبارہ روشن نہ ہوسکی’ تو یورپ کی نشاۃ ثانیہ بھی ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک مؤخر ہوگئی ہوتی’’۔

            گیارہویں صدی کے وسط کے بعد اسلامی دنیا روبہ انحطاط ہوئی اور رفتہ رفتہ اس کی دنیاوی و علمی کامیا بیاں پسپائی میں تبدیل ہوتی گئیں۔ ساتھ ہی سائنسی او رعلمی دنیا پر ایک سکوت کا عالم طاری ہوگیا۔ اس نازک موڑ پر ایک عظیم سائنس دان’ ہیئت دان’ طبیب’ منجم’ فلسفی’ ریاضی دان اور شاعر عمرخیام کے روپ میں سامنے آیا اور اس نے اسلامی دنیا کے علوم و فنون کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دیا۔

             ابوحافظ غیاث الدین ابوالفتح عمر بن ابراہیم خیامی نیشاپوری المعروف بہ عمر خیام ایران کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوا۔ اس کے والد کا نام ابراہیم اور باپ دادا کا پیشہ خیمہ سازی تھا۔ اسی نسبت سے‘‘خیام’’ یا ‘‘خیامی’’ کہلایا۔ اپنے مولد کے حوالہ سے اس نے نیشاپور کو نام کا لاحقہ بنایا اور ‘‘نیشاپوری’’ کی نسبت سے مشہور ہوا۔ عمر اس کا اپنا نام تھا اور غیاث الدین کا لقب اسے بعد میں دیا گیا۔اس کے ہم عصر’ بارہویں صدی کے مورخ’ ابوالحسن البیہقی (۱۱۷۲-۱۱۰۶ء) (جو عمرخیام کو ذاتی طور پر جانتا تھا) کی شہادت پر روسی اسکالروں سخ کیوچ اور روزنفیلڈ (A.P Youschkevitch & B.A. Rosenfeld) نے عمرخیام کی تاریخ پیدائش کا تعین ۱۵مئی ۱۰۴۸ء کیا ہے’ اور پندرہویں صدی کے مصنف یاراحمد رشدی تبریزی کی تصنیف طرب خانہ کی بنا پر نیز نظامی عروضی سمرقندی (۱۱۵۵-۱۱۱۰ء) کی شہادت پر جس نے خیام کے مزار پر اس کی وفات کے چار برس بعد حاضری دی’ انھوں نے خیام کی تاریخ وفات ۴دسمبر ۱۱۳۱ء متعین کی ہے جب کہ سوامی گووندا تیرتھا کے مطابق عمرخیام کی وفات نیشاپور میں بروز جمعرات ۲۳ مارچ ۱۱۲۲ء بمطابق ۱۲محرم’ ۵۱۶ھ کو ۷۳سال کی عمر میں ہوئی۔ بعض لوگ ۱۱۳۲ء کو اس کی وفات کا سال قرار دیتے ہیں۔ عمرخیام نے شادی نہیں کی اور اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔بہرطور خیام سلجوقیوں کے ہاتھوں ایران کی فتح کے فوراً بعد پیدا ہوا۔ تیرہویں چودھویں صدی کے مورخ رشیدالدین فضل اللہ کے مطابق اس نے تعلیم نیشاپور میں حاصل کی’ جب کہ تبریزی کے مطابق خیام کا لڑکپن اور جوانی کا زمانہ بلخ (حال افغانستان) میں گزرا۔ نیز وہ کہتا ہے کہ خیام سترہ برس کی عمر میں فلسفہ کے جملہ علوم پر عبور حاصل کرچکا تھا۔ اس کے علاوہ اس کے حالاتِ زندگی کے بارے میں ہم تک بہت کم معلومات پہنچی ہیں اور ہم اس کی شخصیت’ کردار اور شکل و شباہت کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔

             عمرخیام کا والد ابراہیم خیامی ایک خیمہ ساز تھا۔ ان خیموں کی فوجی مقاصد کے لیے بہت مانگ تھی۔ چنانچہ وہ ایک خوش حال شخص تھا۔ کہا جاتا ہے کہ عمر نے بھی اپنی ابتدائی زندگی میں اپنے باپ کی اس کام میں معاونت کی۔

            نیشاپور کے ایک مدرسہ میں ابتدائی دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عمرخیام نے اس دور کے نامور عالم دین’ خواجہ امام موفق الدین کے درس میں شمولیت اختیار کی’ جہاں ادب’ خطابت’ تاریخ’ جغرافیہ’ عربی’ علم عروض’ طبیعیات’ طبابت’ اسلامی فقہ اور حدیث کی تعلیم اور سائنس میں اپنی دلچسپی کے باعث اس نے ریاضی’ فلکیات اور فلسفہ میں مہارت تامہ حاصل کی۔

            وہ لڑکپن ہی سے ایک فطین طالب علم تھا۔ اس کا حافظہ غیرمعمولی طور پر تیز تھا۔ وہ مشکل سے مشکل مضامین فوراً سمجھ لیتا اور ایک بار پڑھی ہوئی کتاب اسے ازبر ہوجاتی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ اس نے اصفہان میں حساب کی ایک ضخیم کتاب کا سات مرتبہ مطالعہ کیا اور نیشاپور پہنچنے پر اس نے بغیر کسی غلطی کے حرف بہ حرف مکمل کتاب حافظے سے لکھ لی۔ اسے عربی اور فارسی دونوں زبانوں پر غیرمعمولی عبور حاصل تھا۔ وہ قرآن کریم کا ایک عمدہ حافظ تھا اور اس دور میں مروج جملہ قرأتوں میں ماہر تھا۔ وہ ابن سینا کو اپنا مرشد مانتا تھا اور اسی کے فلسفے کا پیروکار تھا۔ اگرچہ اس نے ابن سینا سے براہِ راست تعلیم حاصل نہ کی تاہم وہ اس کے فلسفہ سے متاثر تھا۔خیام نے طبابت کی تعلیم حاصل کی تھی اور وہ ایک ماہر طبیب بھی تھا’ تاہم اس کا رجحان فلسفہ’ ریاضی اور فلکیات کی جانب تھا۔ اس کی ملک شاہ کے دربار میں تعیناتی ابتدا میں بطور طبیب ہی ہوئی تھی۔ ایک مرتبہ جب ملک شاہ کا بیٹا سنجر سخت بیمار پڑ گیا تو وہ خیام ہی کے علاج سے صحت یاب ہوا۔ خیام اپنے وقت کا عظیم ترین سائنس دان اور لاثانی ہیئت دان تھا۔ اس کے الجبرا کو اس کا بہترین کارنامہ قرار دیا گیا ہے۔ اس نے ریاضیاتی کام کو وہاں سے آگے بڑھایا جہاں الخوارزمی نے چھوڑا تھا۔ اس کے نزدیک علم ریاضی کی تحصیل کا مقصد فلکیات’ مساحت’ تجارتی لین دین اور وراثت کے امور میں اس کا اطلاق ہے۔

            اس امر کا بھی امکان موجود ہے کہ خیام نے معلّمی کا پیشہ اختیار کیا ہو’ تاہم اس پیشے میں اسے وہ فراغت نصیب نہ ہوئی جو سائنسی تحقیقات کے لیے درکار ہے۔ اس دور میں علما کی اکثریت خستہ حال تھی ماسوائے مالدار افراد کے’ اور وہ باقاعدہ علمی مشاغل کسی دربار سے وابستگی یا کسی امیر کی سرپرستی میں جاری رکھ پاتے۔ لہٰذا کسی عالم کے کام کا انحصار اس کے مربی کے رویے’ دربار کی سیاست اور جنگوں کے نتائج پر ہوتا۔

            ایک معروف روایت کے مطابق نظام الملک’ عمرخیام اور حسن بن صباح تینوں نیشاپور میں امام موفق الدین کے شاگر اور ہم درس تھے۔ جامع التواریخ کا مصنف رشیدالدین فضل اللہ رقمطراز ہے:میرے سردار [حسن بن صباح] عمرخیام اور نظام الملک نیشاپور میں ہم مکتب تھے۔ لڑکپن کی عادات کے مطابق تینوں ایک دوسرے سے خلوص اور محبت کا دم بھرتے تھے اور انھوں نے ایک دوسرے سے یہ عہد کیا تھا کہ ان میں سے جو کوئی بھی کسی اُونچے عہدے پر پہنچے گا وہ دوسروں کے لیے سہارے کا باعث بنے گا۔ نظام الملک سلجوقی حکومت میں وزارت کے عہدے پر پہنچا تو عمر اس کے پاس پہنچا اور لڑکپن کا عہد یاد دلایا۔ نظام الملک نے دوستی نبھاتے ہوئے اسے نیشاپور میں جاگیر کی پیشکش کی۔ عمرخیام کی ترجیحات سائنسی اور علمی تھیں’ وہ جاگیرداری کے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتا تھا اس لیے اس نے مشاہرے کی فرمائش کی۔ چنانچہ نظام الملک نے اس کا دس ہزار دینار کا وظیفہ مقرر کردیا۔ اسی طرح حسن بن صباح بھی رَے سے اس کے پاس گیا اور اسے کہا کہ سخی اپنا وعدہ ایفا کرتے ہیں۔ نظام الملک نے اسے رَے یا اصفہان میں جاگیر کی پیشکش کی۔ حسن بن صباح نے صرف جاگیر پر اکتفا نہ کرتے ہوئے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور وزارت کا طلبگار ہوا۔ اس پر نظام الملک نے اس سے بے اعتنائی برتی اور اسے بے نیل و مرام واپس جانا پڑا۔میرخواند اپنی تصنیف روضۃ الصفا میں نظام الملک کے حوالے سے لکھتا ہے کہ نظام الملک نے اپنی وصیت میں یہ تحریر کیا ہے کہ:خراسان کے عظیم ترین علما میں سے ایک امام موفق نیشاپوری تھے’ ایک ایسا شخص جس کی عزت و احترام ہر کوئی کرتا تھا’ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نچھاور فرمائے۔ ان کی عظیم الشان زندگی پچاسی برس سے اُوپر تھی’ اور یہ بات زبان زدعام تھی کہ جو کوئی ان سے قرآن و حدیث کی تعلیم حاص کرتا لازماً بلند مرتبہ اور خوشحالی تک پہنچتا۔ اسی لیے میرے والد نے مجھے طوس سے نیشاپور بھیجا تاکہ میں اس عظیم معلم کے زیرسایہ تعلیم حاصل کروں۔ وہ مجھ سے ہمیشہ شفقت و مہربانی سے پیش آتے اور بطور ایک شاگرد میں نے ہمیشہ ان کے لیے عزت و اکرام کے جذبات محسوس کیے۔ میں نے چار سال ان کی خدمت میں گزارے۔ جب میں پہلے پہل وہاں پہنچا’ میری دو اور طلبا سے وہاں ملاقات ہوئی’ جو میرے ہم عمر اور نووارد تھے: حکیم عمرخیام اور بدبخت حسن بن صباح۔ دونوں اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک تھے’ اور ہم تینوں قریبی دوست بن گئے۔ امام صاحب کے درس کے بعد وہ دونوں میرے ساتھ مل کر آموختہ یاد کرتے۔ عمرنیشاپور کا رہنے والا تھا جب کہ حسن بن صباح کا والد علی سادگی پسند مگر بدعتی تھا۔ ایک دن حسن نے مجھے اور خیام سے کہا کہ عام خیال کے مطابق امام موفق کے شاگرد زندگی میں بلند مرتبہ حاصل کرتے ہیں۔ اب اگر ہم تینوں اعلیٰ مرتبے کو نہ بھی پہنچیں تو ہم میں سے کم از کم ایک ضرور بلند مقام حاصل کرسکے گا۔ ایسی صورت میں ہمارا آپس میں کیا عہد ہونا چاہیے؟ ہم دونوں نے کہا’ جیسا آپ کہیں گے ویسا ہی ہوگا۔ اس پر اس نے کہا’ آؤ ہم عہد کریں کہ ہم میں سے جو بھی اعلیٰ مقدر کا مالک بنے’ وہ اسے دوسروں میں برابر تقسیم کرے اور خود دوسروں سے افضل نہ رہے۔ ہم دونوں نے اس بات پر صاد کیا اور ان شرائط پر ہم متفق ہوگئے۔ وقت گزرتا گیا اور میں خراسان سے غزنی’ کابل وغیرہ گھومتا رہا۔ جب میں لوٹا تو مجھے سلطان الپ ارسلان کے دربار میں ایک عہدہ ملا اور میں ترقی کرکے انتظامی عہدے تک جاپہنچا۔وہ آگے چل کر لکھتا ہے:

            وقت گزرنے پر دونوں ہم درس دوست میرے پاس آئے اور اپنے عہد کے مطابق مجھ سے خوش بختی میں حصہ طلب کیا۔ میں نے اپنے وعدہ کے مطابق ان سے فیاضی کا سلوک کیا۔ حسن حکومت میں شراکت کا طلبگار ہوا تو سلطان نے میری [نظام الملک] سفارش پر اسے دربار میں ایک عہدہ دے دیا لیکن سُست رو بتدریج ترقی سے بے اطمینانی کے باعث وہ درباری سازشوں میں شریک ہوگیا اور اپنے مربی پر ایک گھٹیا حملے میں ناکامی پر ذلت کے ساتھ برطرف کردیا گیا۔ بہت سی ناکامیوں اور سرگرانیوں کے بعد حسن اسماعیلیوں کے ایرانی فرقے کا سربراہ بن گیا’ جو شدت پسندوں کا ایسا گروہ تھا جو ایک طویل عرصہ سے گمنامی کے پردوں میں روپوش تھا۔ اب اس کی مضبوط’ طاقتور مگر شرانگیز سربراہی میں نمایاں ہوگیا۔ ۱۰۹۰ء میں اس نے صوبہ رودبار کے قلعہ الموت پر قبضہ کرلیا اور اسی قلعہ سے عالمِ اسلام میں خوف و دہشت کی لہر دوڑا دی۔ اس کے فدائیین کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں میں سے ایک اس کا ہم درس اور دوست’ خود نظام الملک بھی تھا۔

            عمر خیام بھی وزیر کے پاس اپنا حصہ مانگنے کے لیے پہنچا’ لیکن اس کا مطالبہ نہ تو کسی عہدہ کے لیے تھا’ نہ ہی جاہ و جلال کے لیے۔ نظام الملک نے اسے نیشاپور میں ایک جاگیردینے کی پیشکش کی’ اس نے کہا ‘‘آپ جو سب سے بڑی مہربانی میرے ساتھ کرسکتے ہیں’ وہ یہ ہے کہ مجھے اپنے سایۂ عاطفت میں رہنے دیں تاکہ میں سائنس کے ثمرات کو عام کروں اور آپ کی خوش حالی کے لیے دعا مانگتا رہوں۔ وزیر کا کہنا ہے کہ جب اس نے اس بات کی تسلی کرلی کہ عمر اپنے انکار میں مخلص ہے تو اس نے نیشاپور کے خزانہ سے اس کا سالانہ مشاہرہ ۱۲۰۰ مثقال سونا مقرر کردیا۔

            نیشاپور میں عمرخیام کی زندگی ہر قسم کے علوم کی آبیاری اور خصوصاً فلکیات کی تحقیقات میں گزری’ جس میں اس نے انتہا درجہ کی شہرت حاصل کی۔ ملک شاہ کے دور میں وہ مرو پہنچا اور سائنس میں اپنی مہارت کی بنیاد پر اس نے سلطان کی خوشنودی حاصل کی اور انعام و اکرام سے نوازا گیا۔ جب ملک شاہ نے تقویم (کیلنڈر) کی اصلاح کا قصد کیا تو اس نے خیام کی سرکردگی میں آٹھ ماہرین کی جماعت تشکیل دی’ جس نے جلالی تقویم مرتب کی۔ اس نے ملک شاہی زیج کے نام سے فلکیاتی جدولیں بھی مرتب کیں۔

            اگرچہ خیام کا سلجوقی دربار سے بحیثیت طبیب اور منجم تعلق تھا’ تاہم اس کی زیادہ دلچسپی ریاضی اور ہیئت میں تھی۔ ایک مرتبہ سلطان جلال الدین ملک شاہ نے خیام سے شکار پر جانے کے لیے ایسا دن مقرر کرنے کو کہا جب دو تین دنوں تک برف و باراں کا امکان نہ ہو۔ خیام نے اپنے علم کی بنا پر ایک دن کا تعین کردیا اور سلطان کو خود سوار کرایا’ لیکن اسی وقت مطلع اَبرآلود ہوگیا اور بارش کے آثار پیدا ہوگئے’ لوگ خیام پر ہنسنے لگے۔ خیام نے انتہائی اعتماد کے ساتھ سلطان سے کہا کہ بادل ابھی چھٹ جائیں گے اور مطلع صاف ہوجائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

            ناموافق حالات میں بھی خیام نے اپنی تصنیف مشکلات حساب اور الجبرا پر اپنی اوّلین (بلاعنوان) تصنیف’ نیز موسیقی پر ایک رسالہ بعنوان القول علی اجناس آلات بالاربعہ مکمل کیں۔ امام موفق کے درس سے فراغت کے بعد خیام سمرقند چلا گیا’ جہاں اسے قاضی القضاۃ ابوطاہر کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ یہاں خیام کو اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کا موقع ملا اور اس نے اپنی لازوال کتاب رسالہ فی البراھین علٰی مسائل الجبر والمقابلہ تصنیف کی۔ خیام نے ان امور کا تذکرہ اس رسالہ کی ابتدا میں ان الفاظ میں کیا ہے:

            اس سے پیشتر میں الجبرا کے مطالعہ پر توجہ نہ دے سکا اور زمانے کے حوادث میری راہ میں حائل رہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہوا کہ ہم علما کی اکثریت سے محروم ہوچکے ہیں’ ماسوائے ایک مختصر گروہ کے جس کی زندگی کا واحد مقصد یہ ہے کہ جب زمانہ خوابیدہ ہو تو یہ (مختصر گروہ) تحقیق اور تکمیل علم میں مصروف رہے’ جب کہ ایک کثیر آبادی فلسفہ کی نقالی کرتی ہے اور صحیح اور غلط کو آپس میں خلط ملط کرتی ہے اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ دھوکہ دیں اور اپنی علمیت کا تاثر دیں’ اور وہ ان علوم کو بھی استعمال نہیں کرتے جنھیں جانتے ہیں’ ماسوائے اس کے کہ انھیں ذاتی اور مادی مقاصد کے لیے استعمال کریں اور اگر وہ کسی ایسے شخص کو پاتے ہیں جو صحیح ہو’ سچائی کی تلاش میں ہو’ اور جو جھوٹ اور غلط کی تکذیب کرتا ہو’ اور ریاکاری اور تکذیب کو علیحدہ علیحدہ کرے’ تو وہ ایسے شخص کو بے وقوف بناتے ہیں اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔

             عمرخیام سلجوق سلطان جلال الدین کے دربار میں ہیئت دان تھا’ جس کے لیے اس نے ۱۰۷۵ء میں ایک کیلنڈر مرتب کیا جو غالباً (ہمارے موجودہ) گریگورین کیلنڈر سے بھی بہتر تھا۔ اس نے نوعی کثافتوں کو معلوم کرنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ ایک رسالہ الجبرے پر مرتب کیا’ جو اپنی نوعیت کا انتہائی ترقی یافتہ کام تھا’ جس کی وجہ سے اسے مشرق کے عظیم ترین ریاضی دانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ عمرخیام کا الجبرا مساواتوں کی عمدہ درجہ بندی کرتا ہے۔ دوسرے درجہ کی مساواتوں کا ہندسی اور الجبری حل دیتا ہے’ اور کعبی مساوتوں کی تجسیمی ہندسہ اور مخروطی تراشوں کے ذریعہ سے حل کرتا ہے۔ مؤخر الذکر کارنامہ اس مکتب فکر کی کاوشوں کا نقطۂ عروج ہے’ جس پر اس کے پیشرو مصروف رہے۔ عمرخیام نے ایک ہندسی الجبرا تشکیل دیا جو ایک لحاظ سے ڈیکارت (Descartes) کے پانچ سو سال بعد کے مرتب کردہ الجبری جیومیٹری (۱۶۳۷ء) کا پیش رو ہے۔ ہم عمرخیام کی قوتِ تخلیق اور اپج کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے’ جس کا نیشاپور میں ۱۱۶۳ء میں انتقال ہوا اور جس کا الجبرا یورپ میں ازمنۂ وسطی کے لاطینی تراجم کے ساتھ نہ صرف متعارف نہ ہوا بلکہ چار پانچ عربی مسودوں کی شکل میں ہندوستان’ پیرس’ لیڈن اور لندن کی لائبریریوں میں اور پانچواں امریکا کے پروفیسر ڈیوڈ ای سمتھ نے ۱۹۳۱ء میں لاہور میں ایک ایرانی تاجر سے خریدا’ دستیاب ہیں۔ یہ نسخے ڈیکارت کے کام کو پذیرائی ملنے کے ایک طویل عرصہ بعد سامنے آئے۔ اس امکان کا تصور باعث دلچسپی ہوگا کہ اگر یہ الجبرا اور خیام کی دیگر جملہ تصانیف کے (جو بغداد پر مغلوں کے حملہ کے دوران تباہ ہوگئیں) لاطینی تراجم یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے دور میں دستیاب ہوتے تو سائنسی ترقی کی رفتار کیا ہوتی؟

عمرخیام کی علمی خدمات

            عمرخیام کی بیشتر سائنسی تصانیف عربی زبان میں ہیں’ لیکن اس کی رباعیات اور بعض فلسفیانہ تصانیف فارسی میں بھی ہیں۔ ذیل میں ہم اس کی بعض تصانیف کے مندرجات کا جائزہ لیتے ہیں۔

فلکیات: جلالی تقویم

            عمرخیام نے جلال الدین ملک شاہ سلجوقی کی خواہش پر اصفہان کی رصدگاہ میں ۱۸سالہ محنت شاقہ کے بعد ‘‘جلالی تقویم’’ ترتیب دی۔ جلالی تقویم (یا کیلنڈر) کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سال کی طوالت موجودہ مستعمل گریگوری کیلنڈر سے بھی زیادہ صحیح تھی۔ خیام اور اس کے ساتھیوں نے سال کی پیمائش ۲۴۲۱۹۸۵۸۱ء۳۶۵ دنوں کے برابر ہے۔ اس پیمائش کے بارے میں دو باتیں کہی جاسکتی ہیں:اولاً نتیجے کو اس قدر صحت کے ساتھ بیان کرنا محقق کا اپنے کام پر بے پناہ اعتماد کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جدید تحقیقات کی روشنی میں یہ معلوم ہوا ہے کہ ایک انسانی زندگی کے دورانیہ میں سال کی طوالت میں اعشاریہ کی چھٹی رقم میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ثانیاً یہ مقدار غیرمعمولی طور پر صحیح ہے اور اس کی صحت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ انیسویں صدی کے اختتام پر ایک سال کا دورانیہ ۲۴۲۱۹۶ء۳۶۵ دن کے برابر معلوم کیا گیا اور بیسویں صدی کے اواخر میں یہ عرصہ ۲۴۲۱۹۰ء۳۶۵ دن کے برابر تھا۔ ملک شاہی تقویم کا خاکہ ہمیں نصیرالدین طوسی اور الغ بیگ کی فلکیاتی زیجوں سے ملتا ہے۔ یہ کیلنڈر تینتیس سال کے دور پر مبنی تھا’ جس کے ہر دور سال میں ۴’ ۸’ ۱۲’ ۱۶’ ۲۰’ ۲۴’ ۲۸’ ۳۲ لیپ کے سال مانے گئے’ جب کہ سال کا اوسط دورانیہ ۲۴۲۴ء۳۶۵ دن لیا گیا (جس کا اصل شمسی سال سے ۰۰۰۳ء۰ دن کا فرق ہے)’ اس طرح ۵۰۰۰ سال میں ایک دن کا فرق ظاہر ہوتاہے’ جب کہ آج کل جو (گریگوری) کیلنڈر ہمارے استعمال میں ہے۔ اسے عمرخیام کے پانچ صدیوں بعد وضع کیا گیا’ جس میں اوسط سال کا دورانیہ ۲۴۲۵ء۳۶۵ دن لیا گیا ہے اور اس میں ایک دن کا فرق ۳۳۳۳ سال میں نمودار ہوتا ہے ۔ لہٰذا یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ عمرخیام کا مرتب کردہ جلالی کیلنڈر موجودہ مستعمل عیسوی کیلنڈر سے بھی زیادہ صحت کا حامل تھا۔ ۱۰۷۴ء تا ۱۰۷۹ء عمرخیام کیلنڈر کی تدوین نو میں مصروف رہا اور اس کا مرتب کردہ یہ کیلنڈر’ ملک شاہی تقویم’ ایران میں ۱۹۲۵ء تک رائج رہا۔

طبیعیات

            طبیعیات پر خیام کی تحقیقات سونا اور چاندی کے اوزان مخصوص (specific gravity) تک محدود رہیں۔ تاریخ لفی (سن تصنیف قریباً ۱۰۰۰ء) میں عمرخیام کی تصنیف میزان الحکم کا ذکر ہے’ جس میں جڑاؤ زیورات کی قیمت ان کے قیمتی پتھر الگ کیے بغیر مشخص کرنے کے طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ ایک اور تصنیف لوازم الامکنہ میں مختلف ممالک کے محلِ وقوع اور ان کی آب و ہوا کے باہمی اختلاف کے اسباب و علل کی تشخیص کرنے کے طریقوں پر بحث کی گئی ہے۔

اقلیدس’ حساب اور موسیقی

            لائڈن یونیورسٹی میں مخطوطوں کے ایک مجموعے ‘‘Cod or 193’’کے سرورق پر خیام کی تصنیف ‘‘حساب کے مسائل’’ کا نام درج ہے’ مگر مخطوطے میں دوسری تصانیف کے ساتھ یہ رسالہ موجود نہیں ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مذکورہ تصنیف اس مخطوطے میں شامل تھی جس سے لائڈن کا مسودہ نقل کیا گیا جو اب کہیں دستیاب نہیں ہے اگرچہ اپنی تصنیف رسالۃ فی البراھین علٰی مسائل الجبر والمقابلہ میں خیام اس کے بارے میں لکھتا ہے:

            ہندوؤں کا مربع اور مکعب کے اضلاع معلوم کرنے کا اپنا طریقہ ہے جس میں تحسیب ۹ اعداد کے مربعوں کے علم پر مبنی ہے’ یعنی ۱،۲،۳ وغیرہ کے مربعے اور ان کے ایک دوسرے سے حاصل ضرب یعنی ۲ کی ۳ سے ضرب وغیرہ۔ میں نے ایک رسالہ مرتب کیا ہے جس میں ان طریقوں کے جواز کا ثبوت دے کر ثابت کیا گیا ہے کہ ان سے مطلوبہ جواب حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ میں نے اس میں ان انواع کا اضافہ کیا ہے’ یعنی مربع کے مربعے کی اضلاع اور مکعب کے مربع اور مکعب کے مکعب کے اضلاع معلوم کرنا’ خواہ ان کی مقدار کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ اس سے پیشتر کسی نے بھی ایسا نہیں کیا اور یہ ثبوت صرف الجبری طریقوں سے دیے گئے ہیں جو اقلیدس کی کتاب Book of Elements میں دیا گیا ہے۔

فلسفیانہ تصانیف اور شاعری

            اگرچہ خیام نے صرف پانچ فلسفیانہ رسائل تصنیف کیے تاہم اس کی شاعری اور فلسفیانہ تصانیف کائنات کے بارے میں اس کے تصور کو واضح کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ مختلف محققین نے اس موضوع پر طبع آزمائی کی ہے اور ہر ایک نے اپنی ذہنی افتاد کے تناظر میں مختلف نتائج اخذ کیے ہیں۔ یہ مسئلہ اس وجہ سے بھی الجھ کر رہ گیا ہے کہ جن لوگوں نے اس کی رباعیات کا سطحی نقطۂ نظر سے مطالعہ کیا ہے ان کے مطابق خیام کی مذہبی اور فلسفیانہ تصانیف اس کی شاعری سے مختلف تاثر پیش کرتی ہیں’ جبکہ اس سے منسوب بیشتر رباعیاں بھی مشکوک ہیں۔خیام کی رباعیوں کے بارے میں ہمیشہ شک و شبہ کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور وسیع پیمانے پر خیام کی اپنی رباعیوں کے تعین کے لیے تحقیقات کی جاتی رہی ہیں۔ رباعی چونکہ صرف چار مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے لہٰذا اکثر کاتب حضرات رباعیاں نقل کرتے ہوئے اپنی طرف سے رباعیاں موزوں کر کے اضافے کرتے رہے۔ چنانچہ اکثر مجموعوں میں خیام سے منسوب الحاقی رباعیاں ملتی ہیں۔ یہاں رباعیوں پر تفصیلی بحث کرنا مقصود نہیں’ البتہ بعض تحقیقات کے نتائج پیش کرنا خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ بعض محققین کے نزدیک تقریباً پچاس سے ساٹھ رباعیاں متفقہ طور پر خیام کی مانی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ قریباً ایک سو مزید رباعیاں جو اکثر فارسی ایڈیشنوں میں ملتی ہیں’ مشکوک ہیں۔ باقی ماندہ سیکڑوں رباعیاں ناقابلِ قبول ہیں۔ جبکہ ایک ہزار سے زائد رباعیاں خیام سے منسوب ہیں۔ گووندا تیرتھا نے ۱۰۶۹ء رباعیاں شمار کی ہیں۔ کریستن سین کے خیال میں صرف درجن بھر رباعیاں خیام کی ہوسکتی ہیں۔ اس نے بعد میں اس تعداد کو ۱۲۱ تک بڑھا دیا۔ اُردو دائرۂ معارف اسلامیہ کے مطابق عماد الدین الاصفہانی کی خریدۃ القصر (۵۷۲ھ/۱۱۷۶ء) میں بھی خراسانی شاعروں کے ضمن میں خیام کا تذکرہ موجود ہے’ اور اس کے چار عربی اشعا ر بھی نقل کیے گئے ہیں۔ نجم الدین رازی فارسی کی چار رباعیاں نقل کرتا ہے۔ شہرزوری نے عربی کے تین قطعات پیش کیے ہیں’ جن میں علی الترتیب ۴،۶،۳ ابیات ہیں (لیکن شہرزوی کے فارسی ترجمہ میں جس کی تکمیل ۰۱۱اھ/۱۶۰۲ء میں ہوئی’ ان کی جگہ دو فارسی کی رباعیاں دی گئی ہیں)۔ ۷۴۱ھ/۱۳۴۰ء کے بعد مونس الاحرار میں ۱۳ رباعیاں محفوظ ہیں۔ روزن کا مرتب کردہ مخطوطہ ۳۲۹ رباعیوں پر مشتمل ہے۔ بعد میں رباعیوں کی تعداد بعض نسخوں میں تیزی سے بڑھتی گئی۔ وی آنا کے مخطوطے (فلوگل) میں جس کی تاریخ کتابت ۹۵۷ھ/۱۵۵۰ء ہے’ رباعیوں کی تعداد ۴۸۲ ہے۔ بانکی پور پبلک لائبریری کے نسخہ مکتوبہ ۹۶۱ھ/۵۴-۱۵۵۳ء میں ان کی تعداد ۶۰۴ اور مطبوعہ لکھنؤ (۱۸۹۴ء) میں ان کی تعداد ۷۷۰ تک جا پہنچی۔ مس کاڈیل نے مئی ۱۸۷۹ء میں تمام قابلِ حصول مآخذ سے ۱۲۰۰ رباعیاں جمع کیں۔ اُردو دائرۂ معارف اسلامیہ میں رباعیوں کی بحث کو سمیٹتے ہوئے لکھا ہے:

            ہمارے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جسے خیام کی شاعرانہ تصنیفات کا منقح متن (Recensio recepta) کہا جاسکے۔ اس تاریخی شخصیت کے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں جس کی خط و کتابت تو ہمارے پاس موجود ہو’ مگر بمشکل ایک خط بھی مستند قرار نہ پاسکے’ بلکہ بہت سے خطوط الحاقی ثابت ہوجائیں مثلاً تصوف کے اہم مسئلہ کو لیجیے۔ ژوکووسکی اسے خیام کی شاعری میں بہت اہمیت دیتا ہے اور کرسٹن سین کو اس سے انکار ہے’ گرچہ اس رجحان کی تائید میں جس کی تائید کافی طور پر نہیں ہوسکی’ خیام کا رسالہ مابعد الطبیعیات پیش کیا جاسکتا ہے’ جس میں صوفی طالبان حق کو سب سے زیادہ عزت و احترام کی جگہ دی گئی ہے۔

            بہرطور عموماً خیام سے منسوب رباعیاں فلسفیانہ شاعری کی معرج ہیں’ جو غیر دہریاتی آزاد خیالی’ آزادی کی محبت’ انسان دوستی’ طنز’ تشکیک اور سب سے بڑھ کر لذتیت کی حد تک اپیقوری رجحانات کی حامل ہیں۔ اس کی شاعری سے جس خصوصی وصف کو منسوب کیا گیا ہے وہ سطحی طور پر صرف طنزیہ قنوطیت اور اپیقوری لذت پسندی کا متبادل ہونا ہی معلوم ہوتا ہے’ یعنی ایک طرف تو ہماری اس ہستی مستعار کی بے چارگی کا شعور اور دوسری طرف ‘‘آج کے دن خوش باش’’ کا اصول۔ ہمیں یہی انداز صوفی اور غناسطی شعرا کے کلام میں ملتا ہے’ مثال کے طور پر پنجابی اور سرائیکی صوفیہ میں یہ رنگ بلھے شاہ’ بابافرید’ شاہ حسین اور سلطان باہو کی شاعری میں۔ تاہم یہ ماننا پڑے گا کہ خیام کی شاعری کا قنوطی پہلو قدیم سوانح نگاروں کے حوالوں اور اس سے بھی زیادہ خوب اس کے عربی ابیات کے باعث صحیح تر ہے’ جنھیں ہم تک پہنچتے پہنچتے شکست و ریخت کا سامنا تو شاید کرنا پڑا ہو مگر روایت عامہ کے لیے ان کی تقلید کرنا ممکن نہ تھا۔ (جاری ہے )