مقابلے

مصنف : شریف منور

سلسلہ : طنز و مزاح

شمارہ : نومبر 2008

مدتوں یاد رہنے والی ایک خوب صورت طنزیہ تحریر

ہماری پوری زندگی مقابلوں میں گزری ہے۔ ان میں چند مقابلے انعامی بھی تھے، لیکن صرف اس حد تک کہ انعامات ہمیشہ دوسروں کو ملے۔ ہمارے حصے میں خالی جام آیا۔ ایک بار چند اور چیزیں (از قسم گندے انڈے وغیرہ) بھی آئیں، لیکن ہمارے عزم صمیم کے آگے بیکار ثابت ہوئیں۔ بیکار ثابت نہ ہوتیں تو کیوں؟ اس میں ہمار ا قصور تھوڑا ہی تھا۔ ہم اپنی تقریر بھول گئے تھے، لاکھ ذہن پر زور دیا، لیکن بے سود۔ کیونکہ کچھ تو وقت کی تنگ دامانی کا خیال تھا اور کچھ سامعین کا اصرار بھی شدت اختیار کرگیا تھا، اس لیے ہم نے آخری کوشش کی، پہلے سے تیار شدہ نسخہ جیب سے برآمد کیا اور بغیر سانس لیے پڑھنا شروع کردیا۔ درمیان میں ایک ہلکا سا خیال آیا کہ شاید ہم موضوع سے کچھ ہٹ گئے ہیں تاہم اپنا مقررہ وقت پورا کر کے ہی مائیک چھوڑا۔

ہرچند کہ ہم نے تقریر کے دوران گھر سے آیا ہوا ابا جان کا وہ خط پڑھنا شروع کردیا تھا، جس میں انھوں نے موسمی تبدیلیوں کے مطابق مناسب احتیاط برتنے، سینما بینی اور سگریٹ نوشی ترک کرنے، بُری صحبت سے بچنے، رات کو سونے سے پہلے دودھ پینے اور صبح جلدی اُٹھ کر ورزش کرنے کے بارے میں ہدایات دی تھیں۔ پھر بھی اس سے ہماری تقریر میں مقصدیت ضرور پیدا ہوگئی تھی، لیکن منصفین نے نہ تو اس پر غور فرمایا نہ ہی ہمیں خوداعتمادی کے نمبر دیے حالانکہ ہمارے خیال میں اگر پہلا نہیں تو کم از کم دوسرا انعام ہمیں ضرور ملنا چاہیے تھا۔ بہرحال، اخلاقی فتح تو ہماری ہی ہوئی تھی۔

ہمیں سب سے زیادہ جس چیز سے چڑ ہے، وہ ہے جسمانی مقابلہ۔ اس کی بنیادی کمزوری تو ایک اضافی شے ہے، جسے نظرانداز کرنا ہی اہلِ علم کا شیوہ ہے۔ آپ ہماری صلح جوئی کو بزدلی پر محمول نہ کریں اور حوالے کے طور پر ہمارے محلے سے شائع ہونے والے ملک کے واحد اخبار کے پہلے اور آخری شمارے میں ہماری وہ نظم پڑھیں، جس میں ہم نے تمام بین الاقوامی طاقتوں کی سخت سرزنش کی تھی۔ اگر ہم بزدل ہوتے تو عالمی طاقتوں سے ٹکرانے کی جرأت کیسے کرتے؟

زندگی مسابقت، موازنے اور مقابلے کا ایک مسلسل عمل ہے۔ مقابلہ کسی وقت، کسی جگہ اور کسی کے بھی ساتھ ہوسکتا ہے۔ ہمارے پڑوسی شیخ صاحب کو ہم سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ ہر معاملے میں مبارز طلب رہتے۔ ایک مرتبہ ہم نے چڑیاں پالیں، تو انہوں نے بٹیرپال لیے۔ ہم مینا لائے، وہ طوطا لے آئے۔ ہم نے مرغیاں خریدیں تو انہوں نے شرافت کی ساری حدیں پھلانگ کر بلی پال لی۔ جواب دینا ہمارے لیے بھی ضروری تھا، لہٰذا ہم نے کتا پال لیا۔ شیخ صاحب غالباً شیرپالنے کے سلسلے میں مایوس ہوگئے تھے۔ اس لیے انھوں نے کتا اور کتیا دونوں پال لیے۔ اب عالم یہ تھا کہ مالکوں کے تحفظ کی ذمے داری کتوں پر آپڑی۔ کسی کی کمزور ہستی پر کوئی زیادتی ہوتی ، تو کتوں کے مابین جنگ شروع ہوجاتی۔ ہاں، یہ ضرور تھا کہ زیادہ تر سرد جنگ ہی ہوتی، یعنی کاٹنا کم اور بھونکنا زیادہ۔

اسی کش مکش کے دوران ہمارے کتے کے شیخ صاحب کی کتیا سے کچھ جذباتی مراسم قائم ہوگئے اور وہ کمبخت ہروقت اپنی ہونے والی سسرال میں رہنے لگا۔

شیخ صاحب کے کتے نے اسے اپنے بنیادی حقوق پر حملہ سمجھتے ہوئے احتجاج کیا، نعرے لگائے، سول نافرمانی حتیٰ کہ طاقت آزمائی بھی کی، لیکن بے سود۔ آخر اس نے پنجابی فلمی ولن کی طرح ہیروئن کو اپنی بہن بنا لیا اور پورے محلے پر حکومت کرنے لگا۔ شیخ صاحب نے بھی اس سلسلے میں وہی کردار ادا کیا جو عام طور سے ظالم سماج کا ہوتا ہے، یعنی دو پریمیوں کے درمیان رسموں، رواجوں کی دیوار کھڑی کرنا، ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگانا، جلوت و خلوت میں نگرانی کرنا وغیرہ…… لیکن ؂

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

اس سے پہلے کہ تیسری عالمگیر جنگ باقاعدہ چھڑ جاتی، مہتمم انجمنِ انسدادِ بے رحمی حیوانات نے ہمیں اور شیخ صاحب، دونوں کو قانونی نوٹس بھجوائے ، جن میں نہ صرف ہر دو صاحبان کی کوششوں کو سراہا گیا تھا، بلکہ ہمارے گھروں کو اپنی تحویل میں لینے کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔

ذہنی آزمائش کے وہ مقابلے تو دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں، آپ نے بھی بھگتائے ہوں گے، جن میں حصہ لینے والے ذہین گلوکار، اداکار…… اور اداکار، دانشور ٹھہرتے ہیں۔ یہ مقابلے نسبتاً مشکل ہوتے ہیں، لیکن رسی کو دنے اور کیلے کھانے کی مشق ہو تو چنداں دشوار نہیں ہوتے۔

مقابلے کی ایک قسم انٹرویو بھی ہے۔ ہمارے ایک دوست شاہد احمد ملازمت کے سلسلے میں ہزاروں انٹرویوز دے چکے ہیں۔ ان کے تجربات کا عالم یہ ہے کہ عموماً انٹرویو کرنے والوں کی راہنمائی کرتے ہیں۔ ایک بار موصوف کسی ملازمت کے سلسلے میں ایک انٹرویو بورڈ کے سامنے پیش ہوئے۔ یہ بورڈ تین سینئر افسروں پر مشتمل تھا۔ واپسی پر ہم نے شاہد کے احوال دریافت کیے تو وہ یوں گویا ہوئے:

‘‘ایک صاحب نے ہم سے انگریزی میں کچھ کہا تو ہم الجھن زدہ ہوگئے۔ دوسرے صاحب نے کچھ اشارہ کیا، ہم مزید الجھن زدہ ہوگئے۔ تیسرے صاحب کے ہونٹ ہلے، ہم مکمل طور پر الجھن زدہ ہوگئے۔ آخر ہم انگریزی کی تمام تر استعداد کو بروئے کار لائے اور ایک جملہ کہہ ہی گئے’’۔‘‘پھر کیا ہوا؟’’ ہم نے بے چینی سے سوال کیا۔‘‘پھر وہ تینوں الجھن زدہ ہوگئے’’۔ انھوں نے سینہ پھلا کر جواب دیا۔

مقابلے کی عبرت ناک قسم، جسے قبولِ عام بھی حاصل ہے…… اور بقائے دوام بھی، وہ ہے ‘‘مکالماتِ زن و شوہر’’۔ یہ مکالمات معمولی ردوبدل کے ساتھ ہر گھر سے کسی بھی وقت نشرہوسکتے ہیں۔

‘‘تم نے دیکھا میرے ابو، میری امی کی ہر بات کس طرح مانتے ہیں’’۔‘‘جی ہاں، خوب دیکھا ہے۔ انھوں نے پوری زندگی یہی تو ایک کام سیکھا ہے’’۔‘‘تم میرے ابو کی توہین کر رہے ہو’’۔‘‘توہین تو تم خود کر رہے ہو، اپنے باپ کو زن مرید کہہ رہے ہو’’۔‘‘بیوی کی حق بات ماننا، زن مریدی نہیں ہے’’۔‘‘اگر زن مریدی نہیں ہے تو کچھ اور بھی نہیں ہے۔ ویسے اگر چاہو تو، تم اپنے ابوجی کا کوئی اچھا نام سا رکھ لو’’۔‘‘تمہیں تو خواہ مخواہ کا حسد ہے، ورنہ سچ یہ ہے کہ میرے ابو، امی سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اسی لیے، ان کی ہر بات مانتے ہیں۔ ‘‘اور اپنی امی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا وہ، تمہارے ابو سے محبت نہیں کرتیں؟ جو ہر وقت اپنی ہی بات منواتی ہیں’’۔‘‘دیکھو، دیکھو! تم ہر وقت میرے خاندان کو ذلیل کرنے پر تلے رہتے ہو’’۔‘‘میری یہ مجال کہاں کہ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں دخل دے سکوں۔ اس نے کوئی کمی چھوڑی ہے، جو میں پوری کروں؟’’ ‘‘تمھارے تمام گھٹیا پن کے باوجود، وہ تمہاری تو بڑی عزت کرتے ہیں’’۔ ‘‘میں بھی ان کی عزت کرتا ہوں’’۔‘‘تم صحیح کہتے ہو، غلطی ان کی ہے کہ وہ، تمہاری اتنی عزت کرتے ہیں’’۔ ‘‘غلطی ہمیشہ انہی کی ہوتی ہے، میں بھی تو یہی کہتا ہوں’’۔‘‘اچھا، اچھا…… چپ رہو۔ تم ہر وقت ان کے خلاف باتیں کرتے ہو، حالانکہ وہ تمہارے گھر پر لعنت بھی نہیں بھیجتے’’۔ ‘‘تمہارے روپ میں ایک ہی دفعہ اکٹھی بھیج چکے ہیں، اس لیے اب مطمئن ہیں’’۔‘‘تمہاری لڑائی اپنی غریبی اور ان کی خوشحالی کی وجہ سے ہے۔ تمہارے پاس سائیکل تک نہیں ہے جب کہ ان کے دروازے پر ہروقت کاریں کھڑی رہتی ہیں’’۔‘‘پڑوس میں گیراج ہوا’’۔‘‘جی نہیں…… دو گاڑیاں تو ماشا ء اللہ سے ابو نے خود خریدی ہیں اور……’’‘‘تو کیا تمہارے ابو نے کباڑیے کا کاروبار شروع کر دیا ہے؟’’ ‘‘کباڑیے ہوں گے ان کے دشمن۔ انھوں نے تو بالکل نئے انداز کی گاڑیاں خریدی ہیں۔ جب یہ زن سے گزرتی ہیں تو لوگ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں’’۔‘‘ہاں، سوچتے ہوں گے کہ یہ انہی صاحب کی گاڑیاں ہیں جو ایک دفتر میں سینئر کلرک تھے اور کل تک گوجرنالے کی جھگی میں رہتے تھے’’۔‘‘اللہ نہ کرے، جو وہ کلرکی کرتے ہوں، ماشاء اللہ کئی کاروبار ہیں ان کے’’۔‘‘ہاں، چور بازاری اور رشوت ستانی، آج کل کاروبار ہی کہلاتے ہیں’’۔‘‘ارے اگر یہ اتنے ہی آسان ہیں تو تم بھی کرلو، نا۔ پانچ سو روپے کی کلرکی میں پوری انسانیت کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہو۔ ہروقت اُلٹی سیدھی کتابیں پڑھ کر بقراطیت جھاڑتے ہو’’۔‘‘تم تو ہو جاہل…… تمہیں کتابوں کی قدر کیا معلوم؟’’ ‘‘خوب معلوم ہے، رعب جھاڑنے کے لیے کباڑیوں سے خریدی ہوئی کتابیں گھر میں سجا رکھی ہیں۔ میرے بہن بھائیوں کو دیکھو ایک سے ایک اچھے اسکول اور کالج میں پڑھ رہے ہیں، تمہاری طرح کسی خیراتی مدرسے میں نہیں پڑھ رہے’’۔‘‘تمہارا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟’’‘‘مجھ بدنصیب نے اس لیے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی کہ میری شادی سے پہلے ہمارے مالی حالات اچھے نہیں تھے’’۔‘‘یہی تو میں بھی کہتا ہوں کہ جب تم وہاں تھیں تو وہاں کے مالی حالات اچھے نہیں تھے اور اب یہاں ہو، اس لیے یہاں کے مالی حالات اچھے نہیں ہیں۔ ویسے ساری بات تربیت کی ہے۔ اچھے اسکول یا کالج میں صرف داخلہ لے لینے سے کام نہیں چلتا۔‘‘تو تم اپنے بچوں کا کسی اچھے اسکول میں صرف داخلہ ہی کرا دیا ہوتا’’۔‘‘میں رشوت نہیں لیتا اور اگر لیتا بھی تو اس پیسے سے میرے بچے بھی اسکول میں داخلہ تو لے لیتے لیکن تمہارے بھائیوں کی طرح بس اسٹاپ پر کھڑے ہوکر لڑکیوں کو چھیڑتے’’۔‘‘دیکھو، دیکھو! تم میرے معصوم بھائیوں پر الزام تراشی کر رہے ہو؟’’ ‘‘یہ الزام نہیں حقیقت ہے، ویسے قصور، ان کا نہیں…… ان کی تربیت کا ہے’’۔‘‘تمہاری تربیت تو بہت اچھی ہوئی تھی۔ تم کیوں میرے پیچھے بس میں آتے تھے؟’’‘‘اس کا تعلق نہ میری تربیت سے تھا، نہ تمہارے حسن سے…… بلکہ سچ پوچھوتو بدنصیبی کی وجہ سے تھا…… اور محترمہ، میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم اسکول سے چھٹی کے بعد بس اسٹاپ پر میرا انتظار کرتی تھیں’’۔‘‘توبہ، توبہ…… اتنا جھوٹ…… میں کون سے اسکول جاتی تھی؟ میں نے تو میٹرک کا امتحان پرائیویٹ دیا تھا’’۔ ‘‘ٹھیک ہے، میں تم پر تعلیم حاصل کرنے کا کوئی الزام نہیں لگا رہا بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ تمہارے بھائیوں کی تو صرف تربیت خراب تھی، تمہاری تو تعلیم بھی خراب ہے’’۔‘‘اگر میری تعلیم و تربیت خراب تھی تو تم نے مجھ سے شادی کیوں کی؟’’ ‘‘ترس کھا کر کی’’۔‘‘تم نے ترس کھایا تھا یا میرے ماں باپ نے تمہیں تنہا دیکھ کر کرم کیا تھا’’۔‘‘اب تم نے سچ بولا۔ تمہارے خاندان والے کسی تنہا لڑکے ہی کی تلاش میں تھے’’۔ ‘‘اوہو…… بڑے آئے لڑکے…… خاصی عمر تھی، جناب کی ۔ کوئی للوپنجو ہی اپنی بیٹی دیتا’’۔ ‘‘سبحان اللہ! تم نے پھر سچ بول دیا۔ مجھے للوپنجو والی بات پر کوئی اعتراض نہیں’’۔‘‘میں تو ہمیشہ سچ بولتی ہوں۔ میرے ابو اور امی نے تو یہی سوچا تھا کہ اکیلا لڑکا ہے، کوئی آگا، نہ پیچھا’’۔‘‘اس لیے اچھا خادم ثابت ہوگا’’۔‘‘جی ہاں…… خادم ہی بنانا تھا ایسے نکھٹوکو’’۔‘‘نکھٹو؟ محترمہ جیسے ہی تمہارے خاندان والوں کو معلوم ہوا کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، برسرِروزگار ، حسین و جمیل نوجوان……’’ اس موقعے پر اپنے رشتے کے ایک بھائی اور بھابی کا تذکرہ…… بے محل نہ ہوگا۔ بھائی تھے ہمارے، شاعر، وہ بھی غزل گو یعنی ایجاز و اختصار کے گھائل۔ ادھر بھابی تھیں،اپنے دور کی مشہور مقررہ۔ ایک ایک لفظ پر گھنٹوں بحث کرنے کی ماہر، زبان و بیان پر مکمل قادر۔ بھائی اگر کبھی بھولے سے ایک مصرعہ بھی سنا بیٹھتے تو اس کی پاداش میں انہیں کم از کم تیس منٹ کی تقریر سننا پڑتی اور کہیں درمیان میں خلل اندازی کربیٹھتے تو دس بیس منٹ کا اور اضافہ ہوجاتا کیونکہ اس صورت میں بھابی اپنی تقریر شروع سے دہراتیں۔ آخر مقررین کی بھی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اس مقابلے سے بھائی ہمیشہ گھبراتے تھے کیونکہ اس کی منصف بھی بھابی ہی ہوتی تھیں۔ البتہ بچے معزز سامعین کے فرائض انجام دیتے تھے۔ روز روز کے ان فنی مظاہروں کا انجام یہ ہوا کہ بھائی شاعری سے تائب ہوگئے لیکن بھابی کا فن کچھ اور جِلا پا گیا۔سنا ہے، ان کے بچے آج کل باکسنگ سیکھ رہے ہیں۔