صالح فطرت

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : پہلا صفحہ

شمارہ : ستمبر 2008

وہ ایک خوشحال گھرانے میں پیداہوا۔اس کے والد ہندوؤں سے بھرے شہرمیں پہلے مسلمان وکیل تھے۔زندگی کا جبر مسلسل اس کے قریب سے بھی نہ گزرا تھا۔ اس کے باوجود نہ جانے کیا بات تھی کہ وہ ان لوگوں کادرد بری طرح محسوس کرتاتھا کہ جن کی زیست بس ایک مفلس کی ردا تھی کہ جس سے سرچھپائیں تو بدن کھل جائے اور بدن چھپائیں تو سر۔وہ جب سکول میں اپنی صاف ستھری یونیفارم پہن کر جاتا تو مفلسی کے شکار بچوں کے کپڑوں پر پڑیں سلوٹیں اس کی جبین پر بھی بہت سی سلوٹیں پیدا کردیتیں اور وہ اپنی یونیفارم کو خود ہی مسل ڈالتا تا کہ ان بچوں کے دل احساس کمتری سے نہ مسلنے پائیں۔٭زندگی کی جدوجہد میں وہ ایک ڈاکٹر کے طور داخل ہوا۔ یہاں بھی مریضوں کا کرب اسے بے حال کر دیتا ۔صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم سعود ی ریگستان میں وہ صحرا صحرا ادویہ تقسیم کرتا رہا۔سعودی صحرا سے وہ کراچی کے انسانی صحرا میں داخل ہوالیکن وہ اسے راس نہ آیا۔یہاں بہت سے تعصبات اس کے پیچھے پڑ گئے اور بالآخر اسے لاہور منتقل ہو نا پڑا۔شہر لاہور میں اس کی فطرت سے ہم آہنگ بہت سے شعبے موجود تھے ۔ اسے معلوم ہوا کہ گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے لیے آبرو مندانہ طریقے سے تعلیم کا فری بندوبست کیا گیا ہے تو وہ آبرو بانٹنے کے اس کام میں دامے درمے سخنے شامل ہو گیا۔ اسے علم ہو ا کہ غربا کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے اخوت کی بنیاد پر بلا سود چھوٹے قرضوں کی فراہمی جاری کی گئی ہے تو وہ بھاگم بھاگ اس کارخیر میں بھی شامل ہو گیا۔اسے بتایا گیا کہ وطن عزیز سے غربت دور کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کی تعلیم وترقی کا ایک جامع پروگرام تشکیل دیا گیا ہے تو وہ ان کا بھی ساتھی بن گیا۔اسے خبر ملی کہ فرقہ واریت اور جہالت کو دور کرنے اور دین کا صحیح تصور عام کرنے کے لیے ایک علمی ، ادبی اور اصلاحی ماہنامہ جاری کیا گیا ہے تو وہ اس کا بھی سر پرست بن گیا۔٭حالانکہ اب اس کی عمر زندگی کے تھک جانے والے ایام میں داخل ہو چکی ہے مگر نہ اس کے حوصلے میں تھکن ہے نہ ہمت میں۔بہت سے جوانوں کی جوانی جب اس کی ہمت کو حیرانی سے دیکھتی ہے تو پوچھتی ہے کہ اس کا حوصلہ اور استقلال کس چیز کا نتیجہ ہے تو میں کہتا ہوں صالح فطرت کا۔٭جس طرح خوشبو کے لیے کسی نام کی ضرورت نہیں ہوتی ، اسی طرح صالح فطرت بھی نام سے بے نیاز ہوتی ہے ۔ وہ جہاں بھی ہو اس کی موجودگی محسوس ہو جایا کرتی ہے لیکن لوگ پھر بھی نام کے لیے اصرار کرتے ہیں توجناب، جس طرح خوشبو کو گلاب کہا جا سکتا ہے اس طرح اس صالح فطرت کو عبدالرزاق کہا جاسکتاہے اور مزید وضاحت درکار ہو تو ڈاکٹر کا سابقہ اور خاں کا لاحقہ استعمال کیا جاسکتا ہے اگرچہ میرے خیال میں سابقے اور لاحقے توبس ایک تکلف ہیں۔ صالح فطرت تو بس صالح فطرت ہوتی ہے۔